سر اٹھا کے مت چلئے آج کے زمانے میں --- چرن سنگھ بشر

سین خے

محفلین
سر اٹھا کے مت چلئے آج کے زمانے میں

سر اٹھا کے مت چلئے آج کے زمانے میں
جان جاتی رہتی ہے حوصلہ دکھانے میں

کس سے حق طلب کیجے بے وفا زمانے میں
ہونٹ سوکھ جاتے ہیں حال دل سنانے میں

ہاتھ کی لکیروں سے فیصلے نہیں ہوتے
عزم کا بھی حصہ ہے زندگی بنانے میں

کھو گئے کہاں میرے اعتبار کے رشتے
کس نے بو دیئے کانٹے پھول سے گھرانے میں

منزلوں کی باتیں تو خواب جیسی باتیں ہیں
عمر بیت جاتی ہے راستہ بنانے میں

اے بشرؔ مری آنکھیں جگنوؤں کی عادی تھیں
کس نے بجلیاں رکھ دیں میرے آشیانے میں

چرن سنگھ بشر
 
مدیر کی آخری تدوین:
بہت خوب

غالباً 2001 میں کراچی ریمبو سنٹر سے کچھ دبئی مشاعروں کی سی ڈیز خریدی تھیں، ان میں سے کسی میں چرن سنگھ بشر صاحب کا کلام سنا تھا۔ اس کے علاوہ آج ان کا کلام پڑھنے کو مل رہا ہے۔ اور حیرت ہے کہ کبھی تلاش بھی نہیں کیا۔ جبکہ جو کلام سنا تھا وہ بہت پسند آیا تھا اور اب بھی کچھ اشعار یاد ہیں۔ :)
 
سر اٹھا کے مت چلئے آج کے زمانے میں

سر اٹھا کے مت چلئے آج کے زمانے میں
جان جاتی رہتی ہے حوصلہ دکھانے میں

کس سے حق طلب کیجے بے وفا زمانے میں
ہونٹھ سوکھ جاتے ہیں حال دل سنانے میں

ہاتھ کی لکیروں سے فیصلے نہیں ہوتے
عزم کا بھی حصہ ہے زندگی بنانے میں

کھو گئے کہاں میرے اعتبار کے رشتے
کس نے بو دیئے کانٹے پھول سے گھرانے میں

منزلوں کی باتیں تو خواب جیسی باتیں ہیں
عمر بیت جاتی ہے راستہ بنانے میں

اے بشرؔ مری آنکھیں جگنوؤں کی عادی تھیں
کس نے بجلیاں رکھ دیں میرے آشیانے میں

چرن سنگھ بشر
خوبصورت انتخاب!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوب! کیا اچھی غزل ہے !
اچھا انتخاب ہے! شریک کرنے کے لئے بہت شکریہ !

ہندوستان کے ایک اور اچھے سکھ شاعر جذبیر سنگھ شادؔ ہیں ۔ اچھی غزل لکھتے ہیں ۔ تقریباً دس سال پہلے ایک نجی محفل میں ان کےساتھ پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا ۔ دیگر ہندوستانی شعراء میں اقبال اشعر اور فرحت عباس بھی تھے۔ اقبال اشعر نے اپنی مشہورِ عالم نظم اردو ہے مرا نام گا کر سنائی تھی ۔ شادؔ صاحب نے بھی اپنی وہ غزل سنائی تھی کہ جس کا یہ شعر بہت مشہور ہے:
تمہارا تاج نہیں ہے ، ہماری پگڑی ہے
یہ سر کے ساتھ اُترتی ہے سر کا حصہ ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب

غالباً 2001 میں کراچی ریمبو سنٹر سے کچھ دبئی مشاعروں کی سی ڈیز خریدی تھیں، ان میں سے کسی میں چرن سنگھ بشر صاحب کا کلام سنا تھا۔ اس کے علاوہ آج ان کا کلام پڑھنے کو مل رہا ہے۔ اور حیرت ہے کہ کبھی تلاش بھی نہیں کیا۔ جبکہ جو کلام سنا تھا وہ بہت پسند آیا تھا اور اب بھی کچھ اشعار یاد ہیں۔ :)

تابش بھائی ، میں نے بھی پندرہ سولہ سال پہلے پاکستان کے ایک وزٹ میں رینبو سینٹر صدر کراچی سے مشاعروں کی سی ڈیز خریدی تھیں ۔ آج بھی کچھ سی ڈیز محفوظ ہیں ۔ ان میں اکثر دبئی وغیرہ میں جمیل الدین عالی ، جون ایلیا ، پیرزادہ قاسم وغیرہ کے ساتھ شامیں اور مشاعرے ہیں ۔ اب بھی ہر دو چار سال بعد سی ڈیز نکال کے وہ مشاعرے سنتا ہوں ۔ :):):)
 
تابش بھائی ، میں نے بھی پندرہ سولہ سال پہلے پاکستان کے ایک وزٹ میں رینبو سینٹر صدر کراچی سے مشاعروں کی سی ڈیز خریدی تھیں ۔ آج بھی کچھ سی ڈیز محفوظ ہیں ۔ ان میں اکثر دبئی وغیرہ میں جمیل الدین عالی ، جون ایلیا ، پیرزادہ قاسم وغیرہ کے ساتھ شامیں اور مشاعرے ہیں ۔ اب بھی ہر دو چار سال بعد سی ڈیز نکال کے وہ مشاعرے سنتا ہوں ۔ :):):)
جی، دبئی میں زندہ شاعروں کی یاد میں جشن کے نام سے مشاعرے ہوتے تھے، جن میں ہند و پاک کے نامور شعراء موجود ہوتے تھے۔ مجھے میرے پاس موجود مشاعروں میں سے ایک مشاعرے کا یاد ہے کہ وہ جشنِ خمار بارہ بنکوی تھا۔
اب پتا نہیں کہ یہ سلسلہ جاری ہے یا رک گیا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جی، دبئی میں زندہ شاعروں کی یاد میں جشن کے نام سے مشاعرے ہوتے تھے، جن میں ہند و پاک کے نامور شعراء موجود ہوتے تھے۔ مجھے میرے پاس موجود مشاعروں میں سے ایک مشاعرے کا یاد ہے کہ وہ جشنِ خمار بارہ بنکوی تھا۔
اب پتا نہیں کہ یہ سلسلہ جاری ہے یا رک گیا۔
نہیں تابش بھائی ، اب ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔ اُن دنوں میں پاکستان اور ہندوستان کے ادب پسندوں کا ایک اچھا بڑاگروپ امارات میں جمع ہوگیا تھا اور ادبی سرگرمیوں میں متحرک تھا ۔ بلکہ انہیں مقامی شیخوں کی مدد اور حمایت بھی حاصل تھی ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مشاعرے میں ایک عربی شاعر نے ( نام شاید محمد فاروق تھا) اچھے خاصے اردو تلفظ کے ساتھ اپنی اردو غزل سنائی تھی ۔ اب وہ گروپ شاید تتر بتر ہوگیا ۔ عرصہ ہوا سننے میں نہیں آیا کہ اُس طرف کوئی بڑا مشاعرہ یا عالمی نوعیت کا پروگرام وغیرہ ہوا ہو ۔ یا شاید اس طرف خبریں نہیں آتیں ۔
 
جی، دبئی میں زندہ شاعروں کی یاد میں جشن کے نام سے مشاعرے ہوتے تھے، جن میں ہند و پاک کے نامور شعراء موجود ہوتے تھے۔ مجھے میرے پاس موجود مشاعروں میں سے ایک مشاعرے کا یاد ہے کہ وہ جشنِ خمار بارہ بنکوی تھا۔
اب پتا نہیں کہ یہ سلسلہ جاری ہے یا رک گیا۔

نہیں تابش بھائی ، اب ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔ اُن دنوں میں پاکستان اور ہندوستان کے ادب پسندوں کا ایک اچھا بڑاگروپ امارات میں جمع ہوگیا تھا اور ادبی سرگرمیوں میں متحرک تھا ۔ بلکہ انہیں مقامی شیخوں کی مدد اور حمایت بھی حاصل تھی ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مشاعرے میں ایک عربی شاعر نے ( نام شاید محمد فاروق تھا) اچھے خاصے اردو تلفظ کے ساتھ اپنی اردو غزل سنائی تھی ۔ اب وہ گروپ شاید تتر بتر ہوگیا ۔ عرصہ ہوا سننے میں نہیں آیا کہ اُس طرف کوئی بڑا مشاعرہ یا عالمی نوعیت کا پروگرام وغیرہ ہوا ہو ۔ یا شاید اس طرف خبریں نہیں آتیں ۔

سلیمان جاذب صاحب نے ہمیں اپنی ایک میل لسٹ میں شامل کیا ہے۔ وہ شارجہ ، دبئی وغیرہ میں ادبی سرگرمیوں کو رپورٹ کر رہے ہیں۔ ہم اسی رپورٹ کو محفل میں کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
 
Top