ہانیہ
محفلین
سر سید احمد خان عورتوں کی تعلیم کے سخت مخالف کیوں تھے؟
جب بھی سر سید احمد خان کا ذکر آتا ہے تو مسلمانوں کی تعلیم کے زبردست محرک کا تصور ذہن میں آتا ہے، لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ یہی سر سید عورتوں کی تعلیم کے سخت مخالف تھے۔
ڈاکٹر مبارک علی
جمعرات 8 اگست 2019 9:00
ان کی دلیل یہ تھی کہ جب تک عورت اپنے حقوق سے ناواقف رہے گی وہ وفادار اور تابع ہو گی، اگر وہ باشعور ہو گئی اور اپنے حقوق کا احساس ہو گیا تو گھر اور معاشرے کا امن برقرار نہیں رہے گا اور وہ روایات کی پابندی نہیں کرے گی۔
ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میری خواہش نہیں کہ تم ان مقدس کتابوں کے بدلے، جو تمہاری نانیاں اور دادیاں پڑھتی آئی ہیں، اس زمانے کی نامروجہ اور نامبارک کتابوں کا پڑھنا اختیار کرو۔‘
جب مولوی ممتاز علی نے عورتوں کے لیے رسالہ نکالنے کی تجویز پیش کی تو سرسیّد نے اس کی مخالفت کی اور انہیں رسالہ نکالنے سے منع کیا۔ ممتاز علی بھی روایت پرست تھے، لہٰذا انھوں نے سرسید کی زندگی میں تو رسالہ نہیں نکالا مگر ان کی سر سید کے ہم عصروں نے بھی عورتوں کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہوئے ناول لکھے اور نظمیں کہیں۔
سر سید کے زمانے میں ہندوستان میں مسلمان سماج دو طبقوں میں تقسیم تھا، امرا کا طبقہ اور نچلے درجے کے لوگ۔ امرا کی طرزِ زندگی میں عورتوں کے تحفظ کا خیال رکھا جاتا تھا۔ وہ پردہ کرتی تھیں۔ گھر سے باہر جانے پر پابندی تھی۔ لکھائی پڑھائی کے مواقعے بھی ان کے لیے بند تھے سوائے اس کے کہ تھوڑی بہت مذہبی تعلیم دے دی جاتی تھی۔ گھر میں مرد کی بالادستی ہوتی تھی اور امرا کئی بیویاں رکھتے تھے۔
نچلے طبقے کی عورتیں گھریلو کاموں میں مصروف رہتی تھیں اور ان کی پوری زندگی گھر کی چار دیواری میں گزر جاتی تھی۔ کیونکہ ہر فرد اس ماحول کا عادی ہو چکا تھا اس لیے اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی تھی۔
ہندوستان میں جب انگریزی اقتدار قائم ہوا تو انہوں نے سماج کی پسماندگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کہا کہ چونکہ ہندوستان میں عورت کو معاشرے میں کوئی عزت حاصل نہیں ہے اور معاشرہ اس کی صلاحیتوں سے محروم ہے اس لیے عورت کے کردار کو سامنے لانا چاہیے۔ ہندوﺅں میں برہمو سماج نے عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ دی لیکن مسلمان معاشرے میں صورتحال کو برقرار رہنے پر زور دیا۔
اقبال کے لیے عورت فقط شو پیس؟
ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے ناولوں میں اکبری اور اصغری کے ناموں سے گھریلو عورتوں کا خاکہ پیش کیا۔ اکبر الٰہ آبادی نے اپنی شاعری میں جدیدیت اور عورتوں کے حقوق کی سخت مخالفت کی۔ وہ بےپردہ عورتوں کو دیکھ کر غیرت قومی سے زمین میں گڑ گئے تھے۔ یعنی پردہ قومی عزت کی علامت تھا۔
اقبال بھی پیچھے نہیں رہے اور اُنہوں نے بھی اعلان کر دیا کہ نسوانیت زَن کا نگہبان ہے فقط مرد۔ اقبال عورت کو تصویرِ کائنات میں فقط رنگ قرار دے کر اس کی حیثیت بطور شو پیس متعین کر دی، اور ساتھ ہی لڑکیوں کے انگریزی پڑھنے کو طنز کا نشانہ بنایا۔
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی / ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مدنظر / وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین / پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
جب عورتوں کا پردہ ختم کرنے کی بحث چلی تو عبدالحلیم شرر نے اس کی حمایت کی۔ ایک دن جب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ شام کے وقت صحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تو ایک صاحب بغیر کسی اجازت کے گھر میں گھستے چلے آئے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ ’آپ کون ہیں، کیوں اس طرح سے گھر میں چلے آئے ہیں؟‘
وہ کہنے لگے کہ ’آپ تو پردے کے مخالف ہیں اس لیے اگر میں آگیا تو آپ کو کیا اعتراض ہے۔‘
شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ پردہ ہو یا نہ ہو، گھر میں بغیر اجازت گھس آنا غیراخلاقی ہے۔
ان تمام رکاوٹوں کے باوجود حقوق نسواں کے حامی عورتوں کی تعلیم کے لیے ادارے کھلتے رہے۔ مشہور ماہر تعلیم شیخ عبداللہ نے تمام مخالفتوں کے باوجود مسلم علی گڑھ کالج میں عورتوں کا کالج کھولا جو انقلابی قدم تھا۔
’عورت اتنا پڑھے کہ دھوبی کا حساب رکھ سکے‘
ایک طرف جہاں نجی طور پر تعلیم کے لیے ادارے کھولے جا رہے تھے وہیں دوسری جانب حکومت بھی سکول اور کالج قائم کر رہی تھی جب لڑکیوں کے لیے سکول قائم ہوئے تو ہندوستان کے دوسرے مذاہب کی لڑکیوں نے داخلہ لینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی مگر مسلمانوں میں اس کی سخت مخالفت کی گئی۔ وہ اس کے خلاف تھے کہ لڑکیوں کو سکول بھیجا جائے۔
اس مہم میں سب سے زیادہ حصہ مولانا اشرف علی تھانوی نے لیا جنہوں نے بہشتی زیور لکھ کر قدیم روایات کا تحفظ کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اول تو لڑکیوں کو قطعی سکول نہیں بھیجنا چاہیے اور اگر سکول میں کوئی میم استاد ہو تو پھر تو وہاں داخلہ لینا بالکل نہیں چاہیے۔ ان کے خیال میں عورتوں کو صرف اس قدر لکھنا پڑھنا سکھانا چاہیے کہ وہ دھوبی کا حساب رکھ سکیں۔
انہیں سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ اگر لڑکیوں نے لکھنا سیکھ لیا تو وہ عشقیہ خطوط لکھیں گی۔ مولانا اس کے بھی قائل نہ تھے کہ عورتیں گھروں سے باہر جائیں اور محفلوں میں شریک ہوں۔ عورتوں کو اَن پڑھ رکھنے اور سماجی سرگرمیوں سے دور رکھنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ کوئی احتجاج نہ کرے اور خاموشی سے ہر ظلم کو برداشت کرے۔ چونکہ یہ کتاب پدرسری کی روایات کا تحفظ کرتی ہے اس لیے آج بھی اسے جہیز میں دیا جاتا ہے اور اب انگریزی داں طبقے کے لیے اس کا انگلش میں ترجمہ بھی ہو گیا ہے۔
شیخ عبداللہ کی بیٹی رشید جہاں نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی اور وہ خواتین میں سے تھیں جنھوں نے ادب اور سیاست میں حصہ لیااور پھر یہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی فعال رکن بنیں، ادب اور سیاست میں نام پیدا کیا۔ اس کے بعد سے نہ صرف یہ کہ عورتوں کے لیے رسالے نکالے گئے بلکہ خواتین لکھنے والیاں میدان ادب میں داخل ہوئی اور اپنی تحریروں سے روایات شکنی شروع کی۔
اب موجودہ دور میں تحریک نسواں کافی زور پکڑ گئی ہے۔ انگریزی دور حکومت میں جہاں مردوں نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا وہیں عورتوں نے بھی تحریک کو آگے بڑھایا۔
اس مطالعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ادارے اور روایات اپنی قدامت کے باوجود مستقل نہیں رہتے ہیں بلکہ بدلتے ہوئے حالات کے تحت انہیں تبدیل کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ایک طویل عرصے تک عورتوں کو جاہل اور گھر کی چاردیواری میں بند رکھ کر ان کی ذہانت سے معاشرے کو محفوظ رکھا گیا۔ اب جبکہ عورتیں زندگی کے تقریباً سبھی شعبوں میں آگئی ہیں، معاشرہ اس لیے ہر شعبے میں ترقی کر رہا ہے۔
سر سید احمد خان عورتوں کی تعلیم کے سخت مخالف کیوں تھے؟
جب بھی سر سید احمد خان کا ذکر آتا ہے تو مسلمانوں کی تعلیم کے زبردست محرک کا تصور ذہن میں آتا ہے، لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ یہی سر سید عورتوں کی تعلیم کے سخت مخالف تھے۔
ڈاکٹر مبارک علی
جمعرات 8 اگست 2019 9:00
ان کی دلیل یہ تھی کہ جب تک عورت اپنے حقوق سے ناواقف رہے گی وہ وفادار اور تابع ہو گی، اگر وہ باشعور ہو گئی اور اپنے حقوق کا احساس ہو گیا تو گھر اور معاشرے کا امن برقرار نہیں رہے گا اور وہ روایات کی پابندی نہیں کرے گی۔
ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میری خواہش نہیں کہ تم ان مقدس کتابوں کے بدلے، جو تمہاری نانیاں اور دادیاں پڑھتی آئی ہیں، اس زمانے کی نامروجہ اور نامبارک کتابوں کا پڑھنا اختیار کرو۔‘
جب مولوی ممتاز علی نے عورتوں کے لیے رسالہ نکالنے کی تجویز پیش کی تو سرسیّد نے اس کی مخالفت کی اور انہیں رسالہ نکالنے سے منع کیا۔ ممتاز علی بھی روایت پرست تھے، لہٰذا انھوں نے سرسید کی زندگی میں تو رسالہ نہیں نکالا مگر ان کی سر سید کے ہم عصروں نے بھی عورتوں کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہوئے ناول لکھے اور نظمیں کہیں۔
سر سید کے زمانے میں ہندوستان میں مسلمان سماج دو طبقوں میں تقسیم تھا، امرا کا طبقہ اور نچلے درجے کے لوگ۔ امرا کی طرزِ زندگی میں عورتوں کے تحفظ کا خیال رکھا جاتا تھا۔ وہ پردہ کرتی تھیں۔ گھر سے باہر جانے پر پابندی تھی۔ لکھائی پڑھائی کے مواقعے بھی ان کے لیے بند تھے سوائے اس کے کہ تھوڑی بہت مذہبی تعلیم دے دی جاتی تھی۔ گھر میں مرد کی بالادستی ہوتی تھی اور امرا کئی بیویاں رکھتے تھے۔
نچلے طبقے کی عورتیں گھریلو کاموں میں مصروف رہتی تھیں اور ان کی پوری زندگی گھر کی چار دیواری میں گزر جاتی تھی۔ کیونکہ ہر فرد اس ماحول کا عادی ہو چکا تھا اس لیے اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی تھی۔
ہندوستان میں جب انگریزی اقتدار قائم ہوا تو انہوں نے سماج کی پسماندگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کہا کہ چونکہ ہندوستان میں عورت کو معاشرے میں کوئی عزت حاصل نہیں ہے اور معاشرہ اس کی صلاحیتوں سے محروم ہے اس لیے عورت کے کردار کو سامنے لانا چاہیے۔ ہندوﺅں میں برہمو سماج نے عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ دی لیکن مسلمان معاشرے میں صورتحال کو برقرار رہنے پر زور دیا۔
اقبال کے لیے عورت فقط شو پیس؟
ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے ناولوں میں اکبری اور اصغری کے ناموں سے گھریلو عورتوں کا خاکہ پیش کیا۔ اکبر الٰہ آبادی نے اپنی شاعری میں جدیدیت اور عورتوں کے حقوق کی سخت مخالفت کی۔ وہ بےپردہ عورتوں کو دیکھ کر غیرت قومی سے زمین میں گڑ گئے تھے۔ یعنی پردہ قومی عزت کی علامت تھا۔
اقبال بھی پیچھے نہیں رہے اور اُنہوں نے بھی اعلان کر دیا کہ نسوانیت زَن کا نگہبان ہے فقط مرد۔ اقبال عورت کو تصویرِ کائنات میں فقط رنگ قرار دے کر اس کی حیثیت بطور شو پیس متعین کر دی، اور ساتھ ہی لڑکیوں کے انگریزی پڑھنے کو طنز کا نشانہ بنایا۔
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی / ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مدنظر / وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین / پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
جب عورتوں کا پردہ ختم کرنے کی بحث چلی تو عبدالحلیم شرر نے اس کی حمایت کی۔ ایک دن جب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ شام کے وقت صحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تو ایک صاحب بغیر کسی اجازت کے گھر میں گھستے چلے آئے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ ’آپ کون ہیں، کیوں اس طرح سے گھر میں چلے آئے ہیں؟‘
وہ کہنے لگے کہ ’آپ تو پردے کے مخالف ہیں اس لیے اگر میں آگیا تو آپ کو کیا اعتراض ہے۔‘
شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ پردہ ہو یا نہ ہو، گھر میں بغیر اجازت گھس آنا غیراخلاقی ہے۔
ان تمام رکاوٹوں کے باوجود حقوق نسواں کے حامی عورتوں کی تعلیم کے لیے ادارے کھلتے رہے۔ مشہور ماہر تعلیم شیخ عبداللہ نے تمام مخالفتوں کے باوجود مسلم علی گڑھ کالج میں عورتوں کا کالج کھولا جو انقلابی قدم تھا۔
’عورت اتنا پڑھے کہ دھوبی کا حساب رکھ سکے‘
ایک طرف جہاں نجی طور پر تعلیم کے لیے ادارے کھولے جا رہے تھے وہیں دوسری جانب حکومت بھی سکول اور کالج قائم کر رہی تھی جب لڑکیوں کے لیے سکول قائم ہوئے تو ہندوستان کے دوسرے مذاہب کی لڑکیوں نے داخلہ لینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی مگر مسلمانوں میں اس کی سخت مخالفت کی گئی۔ وہ اس کے خلاف تھے کہ لڑکیوں کو سکول بھیجا جائے۔
اس مہم میں سب سے زیادہ حصہ مولانا اشرف علی تھانوی نے لیا جنہوں نے بہشتی زیور لکھ کر قدیم روایات کا تحفظ کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اول تو لڑکیوں کو قطعی سکول نہیں بھیجنا چاہیے اور اگر سکول میں کوئی میم استاد ہو تو پھر تو وہاں داخلہ لینا بالکل نہیں چاہیے۔ ان کے خیال میں عورتوں کو صرف اس قدر لکھنا پڑھنا سکھانا چاہیے کہ وہ دھوبی کا حساب رکھ سکیں۔
انہیں سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ اگر لڑکیوں نے لکھنا سیکھ لیا تو وہ عشقیہ خطوط لکھیں گی۔ مولانا اس کے بھی قائل نہ تھے کہ عورتیں گھروں سے باہر جائیں اور محفلوں میں شریک ہوں۔ عورتوں کو اَن پڑھ رکھنے اور سماجی سرگرمیوں سے دور رکھنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ کوئی احتجاج نہ کرے اور خاموشی سے ہر ظلم کو برداشت کرے۔ چونکہ یہ کتاب پدرسری کی روایات کا تحفظ کرتی ہے اس لیے آج بھی اسے جہیز میں دیا جاتا ہے اور اب انگریزی داں طبقے کے لیے اس کا انگلش میں ترجمہ بھی ہو گیا ہے۔
شیخ عبداللہ کی بیٹی رشید جہاں نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی اور وہ خواتین میں سے تھیں جنھوں نے ادب اور سیاست میں حصہ لیااور پھر یہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی فعال رکن بنیں، ادب اور سیاست میں نام پیدا کیا۔ اس کے بعد سے نہ صرف یہ کہ عورتوں کے لیے رسالے نکالے گئے بلکہ خواتین لکھنے والیاں میدان ادب میں داخل ہوئی اور اپنی تحریروں سے روایات شکنی شروع کی۔
اب موجودہ دور میں تحریک نسواں کافی زور پکڑ گئی ہے۔ انگریزی دور حکومت میں جہاں مردوں نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا وہیں عورتوں نے بھی تحریک کو آگے بڑھایا۔
اس مطالعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ادارے اور روایات اپنی قدامت کے باوجود مستقل نہیں رہتے ہیں بلکہ بدلتے ہوئے حالات کے تحت انہیں تبدیل کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ایک طویل عرصے تک عورتوں کو جاہل اور گھر کی چاردیواری میں بند رکھ کر ان کی ذہانت سے معاشرے کو محفوظ رکھا گیا۔ اب جبکہ عورتیں زندگی کے تقریباً سبھی شعبوں میں آگئی ہیں، معاشرہ اس لیے ہر شعبے میں ترقی کر رہا ہے۔
سر سید احمد خان عورتوں کی تعلیم کے سخت مخالف کیوں تھے؟