ایسی کتابوں کے بارے میں میرا خیال ہے کہ آخر کا متن کچھ کم کر دیا جائے۔ میں اصل متن کی بات کر رہا ہوں۔ یوں تو دیوان غالب بھی کاپی رائٹ سے آزاد نہیں رہتا اگر اس میں شمس الرحمٰن فاروقی کا پیش لفظ ہو۔ ایسی صورت میں اس کے بغیر ہی متن فراہم کیا جانا چاہئے۔ ویسے ہمارے اراکین، شگفتہ کے مشورے کے مطابق ہی، ایک ایک لفظ ٹائپ کرتے ہیں۔ بشمول اصل پبلشر کے نام کے۔ میں یہ کئی بار کہہ چکا ہوں کہ اب اصل پبلشر ہم ہیں۔ اسی طرح میں اس سے بھی متفق نہیں کہ املا بھی وہی رکھی جائے جیسی اصل کتاب میں ہے۔ بلکہ کبھی کبھی لگتا ہے کہ املا بدل کر بھی ہم کاپی رائٹ کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں!!۔ جان بوجھ کر غلطی کر دی جائے، کہ ثبوت ہو کہ یہ اصل متن نہیں ہے، اصل متن میں مثال کے طور پر م ن ح ص ر لکھا ہے، تو ہم م ن ح ض ر کی اجازت دے دیں!! کلیات کے بارے میں یہ کرتا ہوں کہ مختلف ناموں سے دو تین مجموعے شائع کر دئے جائیں۔کہ کلام پر شاعر کا کاپی رائٹ اکثر نہیں ہوتا، پبلشر کا ہوتا ہے جس کا اطلاق اسی صورت میں ہونا چاہئے جب مکمل متن، بشمول مقدمہ وغیرہ شامل کیا جائے۔