سیدہ شگفتہ
لائبریرین
مگر چند روز بعد لوکل گورنمنٹ کے سیکرٹری کی چٹھی سرسید کے نام پہنچی، جس میں ان سے اس بات کا جواب طلب کیا گیا تھا کہ تم دربار میں کیوں نہیں شریک ہوئے اور بلا اجازت کس لئے علی گڑھ چلے گئے ؟
سرسید نے آگرہ سے بلا اجازت چلے آنے کا سبب لکھ بھیجا اور دربار میں شریک نہ ہونے کی معافی چاہی ۔ اس کے بعد پھر وہاں سے کچھ باز پُرس نہیں ہوئی مگر اس نمائش سے پہلے جو لارڈ لارنس مرحوم وائسرائے و گورنر جنرل نے آگرہ میں دربار کیا تھا ، وہاں سرسید کو ایک طلائی تمغہ دئے جانے کا حکم تھا اور تمغہ اب تیار ہوا تھا ۔ چُونکہ سرسید دربار میں شریک نہیں ہوئے تھے اس لئے نواب لفٹیننٹ گورنر نے وہ تمغہ صاحب کمشنر قسمت میرٹھ کو دے دیا تاکہ وہ میرٹھ جاتے ہوئے علی گڑھ میں سرسید کو اپنے ہاتھ سے تمغہ پہناتے جائیں ۔ صاحبِ کمشنر جب علی گڑھ کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو سرسید حسب الحکم وہاں موجود تھے ۔ ان کو ایک طرف لے جا کر بسبب اس رنجش کے جو تھارن ہل صاحب سے انہوں نے سخت گفتگو کی تھی ، یہ کہا کہ، “اگرچہ میں تم کو اپنے ہاتھ سے تمغہ پہنانا پسند نہیں کرتا لیکن گورنمنٹ کے حکم سے مجبور ہوں۔“ یہ کہہ کر سرسید کو تمغہ پہنانا چاہا ، سرسید نے یہ کہہ کر کہ
“ میں بھی گورنمنٹ کے حکم سے مجبور ہوں۔“
اُن کے آگے سر جھکا دیا اور تمغہ پہن کر چلے آئے۔ 46
(جاری ۔ ۔ ۔ )
سرسید نے آگرہ سے بلا اجازت چلے آنے کا سبب لکھ بھیجا اور دربار میں شریک نہ ہونے کی معافی چاہی ۔ اس کے بعد پھر وہاں سے کچھ باز پُرس نہیں ہوئی مگر اس نمائش سے پہلے جو لارڈ لارنس مرحوم وائسرائے و گورنر جنرل نے آگرہ میں دربار کیا تھا ، وہاں سرسید کو ایک طلائی تمغہ دئے جانے کا حکم تھا اور تمغہ اب تیار ہوا تھا ۔ چُونکہ سرسید دربار میں شریک نہیں ہوئے تھے اس لئے نواب لفٹیننٹ گورنر نے وہ تمغہ صاحب کمشنر قسمت میرٹھ کو دے دیا تاکہ وہ میرٹھ جاتے ہوئے علی گڑھ میں سرسید کو اپنے ہاتھ سے تمغہ پہناتے جائیں ۔ صاحبِ کمشنر جب علی گڑھ کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو سرسید حسب الحکم وہاں موجود تھے ۔ ان کو ایک طرف لے جا کر بسبب اس رنجش کے جو تھارن ہل صاحب سے انہوں نے سخت گفتگو کی تھی ، یہ کہا کہ، “اگرچہ میں تم کو اپنے ہاتھ سے تمغہ پہنانا پسند نہیں کرتا لیکن گورنمنٹ کے حکم سے مجبور ہوں۔“ یہ کہہ کر سرسید کو تمغہ پہنانا چاہا ، سرسید نے یہ کہہ کر کہ
“ میں بھی گورنمنٹ کے حکم سے مجبور ہوں۔“
اُن کے آگے سر جھکا دیا اور تمغہ پہن کر چلے آئے۔ 46
(جاری ۔ ۔ ۔ )