سر سید کی کہانی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مگر چند روز بعد لوکل گورنمنٹ کے سیکرٹری کی چٹھی سرسید کے نام پہنچی، جس میں ان سے اس بات کا جواب طلب کیا گیا تھا کہ تم دربار میں کیوں نہیں شریک ہوئے اور بلا اجازت کس لئے علی گڑھ چلے گئے ؟

سرسید نے آگرہ سے بلا اجازت چلے آنے کا سبب لکھ بھیجا اور دربار میں شریک نہ ہونے کی معافی چاہی ۔ اس کے بعد پھر وہاں سے کچھ باز پُرس نہیں ہوئی مگر اس نمائش سے پہلے جو لارڈ لارنس مرحوم وائسرائے و گورنر جنرل نے آگرہ میں دربار کیا تھا ، وہاں سرسید کو ایک طلائی تمغہ دئے جانے کا حکم تھا اور تمغہ اب تیار ہوا تھا ۔ چُونکہ سرسید دربار میں شریک نہیں ہوئے تھے اس لئے نواب لفٹیننٹ گورنر نے وہ تمغہ صاحب کمشنر قسمت میرٹھ کو دے دیا تاکہ وہ میرٹھ جاتے ہوئے علی گڑھ میں سرسید کو اپنے ہاتھ سے تمغہ پہناتے جائیں ۔ صاحبِ کمشنر جب علی گڑھ کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو سرسید حسب الحکم وہاں موجود تھے ۔ ان کو ایک طرف لے جا کر بسبب اس رنجش کے جو تھارن ہل صاحب سے انہوں نے سخت گفتگو کی تھی ، یہ کہا کہ، “اگرچہ میں تم کو اپنے ہاتھ سے تمغہ پہنانا پسند نہیں کرتا لیکن گورنمنٹ کے حکم سے مجبور ہوں۔“ یہ کہہ کر سرسید کو تمغہ پہنانا چاہا ، سرسید نے یہ کہہ کر کہ

“ میں بھی گورنمنٹ کے حکم سے مجبور ہوں۔“

اُن کے آگے سر جھکا دیا اور تمغہ پہن کر چلے آئے۔ 46


(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
انگریز جج کی نجی معاملات میں مخالفت :

سرسید کا برتاؤ افسروں کے ساتھ ابتداء سے اخیر تک نہایت آزادانہ رہا ۔ وہ اپنے افسروں کا ادب اور تعظیم اور کارِ سرکار میں ان کی اطاعت ، جیسی کہ چاہیے ، ہمیشہ کرتے تھے مگر ان کا بے جا دباؤبھی نہیں مانا اور بے موقع کبھی ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی ۔

غدر سے بہت پہلے ، جبکہ دلی میں جان پاٹن گبنس سیشن جج اور سرسید منصف تھے ، قسمتِ دہلی کے دو جاگیردار بھائیوں میں ، جن میں سے ایک سرسید کا گہرا دوست تھا ، جاگیر کی بابت سخت نزاع تھا اور ان کا جھگڑا گورنمنٹ میں پیش تھا ۔ دوسرے بھائی نے جج صاحب سے شکایت کی کہ میرے بھائی کو سید احمد خاں بہکاتا اور ہر قسم کی مدد دیتا ہے ، اس کو آپ سمجھا دیں کہ جب تک ہمارا جھگڑا عدالت سے طے نہ ہوجائے وہ میرے چھوٹے بھائی سے ملنا چھوڑدے۔“

جان پاٹن گبنس کے طنطنے اور رعب داب کی تمام قسمت میں دھاک تھی اور اُن کے کسی ماتحت کی یہ مجال نہ تھی کہ اُن کا کہنا نہ مانے ۔ انہوں نے ایک روز سرسید کو بلا کر سمجھایا کہ جب تک یہ نزاع رفع نہ ہو ، تم اپنے دوست سے ملنا چھوڑ دو ، سرسید نے صاف کہہ دیا کہ

“ میں بے شک آپ کا ماتحت ہوں ، سرکاری معاملات میں جو کچھ آپ ہدایت کریں گے اس کی بسروچشم تعمیل کروں گا مگر میرے ذاتی تعلقات میں آپ کو دخل دینا نہیں چاہئے ۔ اگر آپ کہیں کہ تم چند روز کو اپنی ماں اور بہن سے ملنا چھوڑ دو تو میں کیونکر آپ کے حکم کی تعمیل کرسکتا ہوں۔“

اگرچہ انگریزوں میں ہندوستان کی آب و ہوا تحکم اور خوشامد پسندی پیدا کردیتی ہے مگر چُونکہ آزادی انکی گُھٹی میں پڑی ہوئی ہوتی ہے ، وہ ایسے آزاد شخصوں کی آخرکار قدر کرنے لگتے ہیں اور برخلاف عام اشخاص کے ان کے ساتھ خاص قسم کا برتاؤ برتتے ہیں۔ جب صاحب جج نے یہ معقول عذر سنا پھر کبھی ان پر ایسا بے جا دباؤ نہیں ڈالا۔ 47


(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کمشنر کی رسمِ افتتاح میں شرکت کی ناواجب شرط:

ایک معاملہ ولیم صاحب کمشنر میرٹھ کے ساتھ گذرا ۔ جب سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ کا مکان بن کر تیار ہوا تو صاحب ممدوح کو اس کے افتتاح کی رسم ادا کرنے کے لئے بلایا گیا تھا ۔ ان کے دل میں عنایت اللہ خاں مرحوم رئیسِ بھیکن پور ضلع علی گڑھ کی طرف سے ایامِ غدر کے متعلق کچھ شبہات تھے ، اس لئے وہ افتتاح کی رسم میں ان کا شریک ہونا نہیں چاہتے تھے ۔ انہوں نے سرسید سے کہا کہ اس جلسہ میں اگر عنایت اللہ خاں شریک ہوں گے تو ہم نہیں آنے کے ۔“

سرسید نے کہا :

“ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس شخص نے نہایت فیاضی سے سوسائٹی کی امداد کی ہے اور جو اس کا پریذیڈنٹ بھی ہے ، اس کو شریک نہ کیا جائے ۔“


انہوں نے ہرگز اس بات کو گوارا نہ کیا کہ عنایت اللہ خاں مرحوم کی عدم موجودگی میں افتتاح کی رسم ادا کی جائے ۔ آخر مسٹر بریلی نے ، جو علی گڑھ میں سیشن جج تھے اور سوسائٹی کے بڑے معاون اور سرسید کے دوست تھے ، بڑی مشکل سے صاحبِ کمشنر کو راضی کیا اور ان کو عنایت اللہ خاں کی موجودگی میں یہ رسم ادا کرنی پڑی۔

سرسید کا اس باب میں اصرار کرنا زیادہ تر اس وجہ سے تھا کہ اُن کے نزدیک صاحبِ کمشنر کے شبہات محض بے اصل تھے اور وہ خود عنایت اللہ خاں کو ہر ایک الزام سے پاک صاف جانتے تھے ۔ 48



----------×××××----------​



۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تعلیمی سرگرمیاں



مسلمانوں کی بھلائی کی فکر :

۔ ۔ ۔ بمقام بنارس " کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ہندوستان" منعقد ہوگئی جس کے سیکرٹری سرسید قرار پائے ۔ اس کمیٹی کا کام یہ تھا کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس بات کے دریافت کرنے میں کوشش کرے کہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں مسلمان طالبِ علم کس لئے کم پڑھتے ہیں ، علومِ قدیمہ ان میں کیوں گھٹ گئے اور علومِ جدیدہ ان میں کیوں نہیں رواج پاتے، اور جب یہ موانع ٹھیک ٹھیک دریافت ہو جائیں تو ان کے رفع کرنے کی تدبیریں دریافت کرے اور ان تدبیروں پر عمل درآمد کرنے میں کوشش کرے ۔

نواب محسن الملک کا بیان ہے کہ ، " جس تاریخ کو کمیٹی مذ کور کے انعقاد کے لئے جلسہ قرار پایا تھا اس سے ایک روز پہلے میں بنارس میں پہنچ گیا تھا ۔ رات کو سرسید نے میرا پلنگ بھی اپنے ہی کمرے میں بچھوایا تھا ۔ گیارہ بجے تک مسلمانوں کی تعلیم کے متعلق باتیں ہوتی رہیں ، اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی ۔ دو بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو میں نے سرسید کو ان کے پلنگ پر نہ پایا ۔ میں اُن کے دیکھنے کو کمرے سے باہر نکلا ، دیکھتا کیا ہوں کہ برآمدے میں ٹہل رہے ہیں اور زاروقطار روتے جاتے ہیں ، میں نے گھبرا کر پُوچھا کہ کیا خدانخواستہ کہیں سے کوئی افسوسناک خبر آئی ہے ؟ یہ سن کر اور زیادہ رونے لگے اور کہا کہ:


" اس سے زیادہ اور کیا مُصیبت ہوسکتی ہے کہ مسلمان بگڑگئے ، اور بگڑتے جاتے ہیں ، اور کوئی صورت ان کی بھلائی کی نظر نہیں آتی ۔"

پھر آپ ہی کہنے لگے کہ:

" جو جلسہ کل ہونے والا ہے ، مجھے امید نہیں کہ اس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا ہو ۔ ساری رات اُ دھیڑبن میں گذر گئی ہے کہ دیکھیے ، کل کے جلسے کا انجام کیا ہوتا ہے اور کسی کے کان پر جُوں چلتی ہے یا نہیں ۔"

نواب محسن الملک کہتے ہیں کہ سرسید کی یہ حالت دیکھ کر جو کیفیت میرے دل پر گذری اس کو بیان نہیں کرسکتا اور جو عظمت اس شخص کی اس دن سے میرے دل میں بیٹھی ہوئی ہے اس کو میں ہی خوب جانتا ہوں ۔ “ 49


(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مدرسہ کے لئے دوروں کے اخراجات:

مدرسہ کے لئے انہوں نے بڑے بڑے لمبے سفر کئے ۔ ۔ ۔ہزارہا روپیہ ان سفروں میں ان کا صرف ہوا ۔ اگرچہ ان کے دوست اور رفیق بھی ، جو ان کے ہمراہ جاتے تھے ، اپنا اپنا خرچ اپنی گرہ سے اُٹھاتے تھے لیکن وہ اکثر بدلتے رہتے تھے اور سرسید کا ہر سفر میں ہونا ضروری تھا ۔ اس کے سوا ہمیشہ ریزروڈ گاڑیوں میں سفر ہوتا تھا اور جس قدر سواریاں کم ہوتی تھیں اُن کی کمی زیادہ تر سرسید کو پوری کرنی پڑتی تھی ۔ ایک بار اُن کے ایک دوست نے اُن سے کہا کہ آپ راجپُوتانہ کا بھی ایک بار دورہ کیجئے۔“ سرسید نے کہا ، " روپیہ نہیں ہے ۔" اُن کے منہ سے نکلا کہ جب آپ کالج کے واسطے سفر کرتے ہیں تو آپ کا سفرِ خرچ کمیٹی کو دینا چاہئے ۔“ سرسید نے کہا:

" میں اس بات کو ہرگز گوارہ نہیں کر سکتا ۔ مدرسہ چلے یا نہ چلے مگر میں اسی حالت میں مدرسہ کے لئے سفر کر سکتا ہوں جب سفر کے کل اخراجات اپنے پاس سے اُٹھا سکوں ۔"50

کالج کا قیام ، قومی احساست کی ترجمانی:

74ء میں جبکہ سرسید پہلی بار چندہ کے لئے لاہور گئے ہیں اس وقت انہوں نے راقم کے سامنے بابو نومین چندر سے ایک سوال کے جواب میں یہ کہا تھا کہ :

" صرف اس خیال سے کہ یہ کالج خاص مسلمانوں کے لئے ان ہی کے رُوپے سے قائم کیا جاتا ہے ، ایک تو مسلمانوں میں اور دوسری طرف ان کی ریس سے ہندوؤں میں توقع سے زیادہ جوش پیدا ہوگیا ہے ۔"

اور پھر خان بہادر برکت علی خاں سے پُوچھا کہ :

" کیوں حضرت اگر یہ قومی کالج نہ ہوتا تو آپ ہماری مدارات اسی جوشِ محبت کے ساتھ کرتے؟“

انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ، " ہرگز نہیں ۔“

اس سے صاف ظاہر ہے کہ سرسید اپنے کام کے شروع ہی میں اس قومی فیلنگ سے بخوبی واقف تھے ۔ 51

کالج فاؤنڈرز ڈے کے بجائے فاؤنڈیشن ڈے:

ایک دفعہ کالج کے بعض یورپین پروفیسروں نے یہ تحریک کی کہ یہاں بھی ولایت کے کالجوں کی طرح فاؤنڈرز ڈے (یعنی بانی مدرسہ کی سالگرہ کا دن) بطور ایک خوشی کے دن کے قرار دیا جائے جس میں ہر سال کالج کے ہوا خواہ اور دوست اور طالبعلم جمع ہو کر ایک جگہ کھانا کھایا کریں اور کچھ تماشے تفریح کے طور پر کیے جایا کریں ۔ سرسید نے اس کو بھی منظور نہیں کیا اور یہ کہا کہ:

" ہمارے ملک کی حالت انگلستان کی حالت سے بالکل جداگانہ ہے ۔ وہاں ایک ایک شخص لاکھوں کروڑوں روپیہ اپنے پاس سے دے کر کالج قائم کردیتا ہے اور یہاں سِوا اس کے کہ ہزاروں لاکھوں آدمیون سے کہ چندہ جمع کر کے کالج قائم کیا جائے اور کوئی صُورت ممکن نہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ جو کالج قوم کے روپیہ سے قائم ہو اُس کے کسی خاص بانی کے نام پر ایسی رسم ادا کی جائے ، اس لئے میرے نزدیک بجائے فاؤنڈرز ڈے کے فاؤنڈیشن ڈے (کالج کی سالگرہ کا دن) مقرر ہونا چاہئے۔“

چنانچہ اسی تجویز کے موافق کئی سال تک یہ رسم ادا کی گئی۔ 52

ڈپٹی نذیر احمد کے چندوں کی قدر:

شمس العلماء مولانا نذیر احمد کی نسبت ایک ناواقف آدمی نے ان کے سامنے بطور شکایت کے کہا کہ باوجود اس قدر مقدور ہونے کے انہوں نے قومی تعلیم میں کچھ مدد نہیں دی ۔ سرسید نے بدمزہ ہو کر اُن کے چندوں کی تفصیل بیان کی جو وہ ابتداء سے مدرسہ میں دیتے رہے ہیں اور جو مقبولیت اور رونق ان کے لیکچروں سے ایجوکیشنل کانفرنس کو ہوئی ، اس کا ذکر کر کے کہا کہ :

" یہ شخص ہماری قوم کے لئے باعثِ فخر ہے ، اس کی نسبت پھر ایسا لفظ زبان سے نہ نکالنا۔“ 53


(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مدرسہ کے علاوہ دیگر رفاہی کاموں میں کوشش کرنے سے انکار:

سرسید نے مدرسہ کی خاطر اس بات کو بھی اپنے اُوپر لازم کرلیا تھا کہ کوئی سعی اور کوشش کسی ایسے کام میں صرف نہ کی جائے جو مدرسۃ العلوم سے کچھ علاقہ نہ رکھتا ہو ۔ ۔ ۔ سرسید کے ایک معزز ہم وطن نے ایک رفاہِ عام کے کام میں ان کو شریک کرنا اور اپنی کمیٹی کا ممبر بنانا چاہا ۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ:

" میں صلاح و مشورے سے مدد دینے کو آمادہ ہوں لیکن چندہ نہ خود دوں گا اور نہ اوروں سے دلوانے میں کوشش کروں گا ، اگر اس شرط پر ممبر بنانا ہو تو مجھ کو ممبری سے کچھ انکار نہیں ۔“ 54


قومی بھلائی کے لئے لاٹری کا جواز:

صیغہ تعمیرات کے سوا کالج کے اور اخراجات کے لئے سرسید نے نئے نئے طریقوں سے رُوپیہ وصُول کیا جس کو سن کر لوگ تعجب کریں گے ۔ ایک دفع تیس ہزار کی لاٹری ڈالی ۔ ہر چند مسلمانوں کی طرف سے سخت مخالفت ہوئی ، مگر سرسید نے کچھ پروا نہ کی اور بعد تقسیم انعامات کے بیس ہزار کے قریب بچ رہا۔

لطیفہ : جن دنوں میں لاٹری کی تجویز درپیش تھی ، دو رئیس سرسید کے پاس آئے اور لاٹری کے ناجائز ہونے کی گفتگو شروع کی ۔ سرسید نے کہا :

" جہاں ہم اپنی ذات کے لئے ہزاروں ناجائز کام کرتے ہیں وہاں قوم کی بھلائی کے لئے بھی ایک ناجائز کام سہی۔" 55

پینی ریڈنگ تھیٹر کی اسٹیج پر:

چندہ وصول کرنے کے موقع پر انہوں نے کبھی اس بات کا خیال نہیں کیا کہ میں کون ہون اور کس طرح مانگتا ہوں ؟ نمائش گاہِ علی گڑھ میں انہوں نے کتابوں کی دکان لگائی اور خود کتابیں بیچنے کے لئے دوکان پر بیٹھے ۔ نیشنل والنٹیئر بن کر گلے میں جھولی ڈالی ۔ پینی ریڈنگ کا جلسہ اس لئے قرار دیا گیا تھا کہ غریب طالب علموں کے وظیفہ کے لئے کچھ سرمایہ جمع کیا جائے ۔ جب اس جلسہ کی تجویز ٹھہری تو دوستوں نے منع کیا کہ ایسا ہرگز نہ کیجئے گا ، لوگ مطعون کریں گے اور تماشے والا کہیں گے ، اخباروں میں ہنسی اُڑائی جائے گی ، سرسید نے کہا:


" اگر میں لوگوں کے کہنے کا خیال کرتا تو جو کچھ اب تک کیا ہے ، اس میں سے کچھ بھی نہ کرسکتا ۔ لوگوں کے کہنے کا کچھ خیال نہ کرو، بلکہ یہ دیکھو کہ اس سے درحقیقت قوم کو فائدہ پہنچے گا یا نہیں۔“ 56

نوکروں کا انعام چندے میں :

مارچ 97ء میں جبکہ سرشیر محمد خاں بہادر رئیس یاسن پور کالج کے ملاحظہ کو علی گڑھ میں آئے اور ٹرسٹیوں کی طرف سے سرسید نے اُن کو ایڈریس دیا ، اس وقت کالج کی خیر خواہی کے جوش میں سرسید نے ایک ایسا کام کیا جس کو سن کر ہر شخص تعجب کرے گا ۔ رئیسِ ممدوح نے چلتے وقت پچاس روپیہ سرسید کے پوتے سید مسعود کو اور پچاس محمد بشیر کو، جو نواب محسن الملک کا عزیز ہے اور پچاس پچاس روپے دونوں صاحبوں کے ملازموں کو علاوہ پانچ سو روپیہ چندہ کالج کے دئے تھے ۔ دونوں بچوں نے تو خوشی سے کہہ دیا کہ ہم دونون کے سو روپے کالج کی مسجد کی تعمیر میں صرف کئے جائیں “ مگر سرسید نے نوکروں کا روپیہ بھی لینا چاہا ۔ نواب محسن الملک نے تو اپنے نوکروں کے انعام کو اُن سے لینا ہرگز پسند نہ کیا اور پچاس روپے انہی کو دے دئے مگر سرسید نے حجتِ شرعی تمام کرنے کو نوکروں سے کہا کہ:

" اگر تم کو ہماری نوکری منظور ہے تو جو انعام نواب صاحب نے تم کو دیا ہے وہ کالج میں دے دو ، ورنہ ابھی اپنا حساب کرلو۔“

وہ بے چارے نوکری کیونکر چھوڑ سکتے تھے ، انہوں نے مجبورا پچاس روپے دے دئے اور سرسید نے بے تکلف ان سے رُوپیہ لے کر کالج فینڈ میں جمع کرلیا۔ 57


(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہنسی مذاق میں زبردستی وصولی :

چندہ کے علاوہ جب کبھی ان کو دوستوں سے کچھ اُچک لینے کا موقع ملا ، انہوں نے اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ، وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ:

" خانہ دوستاں بروب و درِ دشمناں مکوب“​

" ایک روز مسٹر تھیوڈور بک× کے والد جو ، سیاحت کے لئے ہندوستان میں آئے ہوئے تھے ، ایک خاص سکہ کی اشرفی دوستانہ طور پر مولوی زین العابدین کو دینی چاہتے تھے اور وہ اُس کے لینے سے انکار کرتے تھے ۔ آخر دونوں صاحب سرسید کے پاس آئے اور واقعہ بیان کیا ۔ سرسید نے بہت بدمزہ ہو کر کہا کہ :

" دوستوں کے ہدیہ کو رد کرنا نہایت بد اخلاقی کی بات ہے ۔“

انہوں نے وہ اشرفی لے لی ، سرسید نے کہا :

" دیکھوں کس سکہ کی اشرفی ہے ؟“

اور اُن سے لے کر مدرسہ کے کھاتہ میں جمع کردی ۔

اسی طرح ایک دن سید محمود نے قاضی رضا حسین مرحوم سے کسی بات پر پچاس روپیہ کی شرط باندھی اور یہ ٹھہرا کہ جو ہارے ، پچاس روپیہ مدرسہ میں دے۔ اتفاق سے سید محمود ہار گئے ، وہ سو رُوپیہ کا نوٹ لے کر آئے اور قاضی صاحب سے کہا کہ

" پچاس روپیہ دیجیئے اور نوٹ لیجئے ۔“

انہوں نے کہا کہ

" وہ تو ہنسی کی بات تھی ، کیسی شرط اور کیسا روپیہ ؟ دوسرے شرط بِدنا جائز بھی نہیں ہے۔“

سرسید بھی وہیں موجود تھے ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ روپیہ مدرسہ میں آتا ہے ، فرمایا کہ :

" جس شرط میں اپنا فائدہ ملحوظ نہ ہو وہ جائز ہے۔“

اور فورا بکس میں سے پچاس رُوپے نکال کر سید محمود کو دے دئے اور نوٹ لے لیا۔ 58

ایک بار مدرسہ کے کسی کام کے لئے چندہ کھولا گیا ۔ سرسید نے اپنے قدیم دوست مولوی سید زین العابدین خاں سے چندہ کا تقاضا کیا ۔ انہوں نے بدمزہ ہو کر کہا صاحب ،

" ہم تو چندہ دیتے دیتے تھک گئے ۔“

سرسید نے کہا:

" ارے میاں ! اب کوئی دن میں ہم مرجائیں گے ، پھر کون تم سے چندہ مانگے گا ۔“

یہ الفاظ کچھ ایسے طور پر کہے گئے کہ دونوں آبدیدہ ہوگئے اور چندہ فورا ادا کیا گیا۔ 59


--------------------------------------------------------------------------------------
× : علیگڑھ کالج کے انگریز پرنسپل
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
انگریزوں سے چندہ کی درخواست:


دوستوں کے علاوہ اجنبی اور انجان آدمی ، جن سے کچھ وصول ہونے کی امید ہوتی تھی، شاید پہلی ایک آدھ ملاقات میں ان کی باری نہ آتی ہو ، ورنہ اکثر صاحبِ سلامت ہوتے ہی سوال ڈالا جاتا تھا اور اس میں کچھ مسلمان ہونے ہی کی خصوصیت نہ تھی ، بلکہ انگریزوں سے بھی بعض اوقات یہی برتاؤ ہوتا تھا ۔ ایک بار سرسید نے ایک محض اجنبی مسافر انگریز سے ، جو ڈاک بنگلہ میں ٹھہرا تھا ، چندہ طلب کیا اس نے بہت روکھے پن سے یہ جواب دیا کہ

" آپ کو اس کام کے لئے صرف اپنی قوم سے مانگنا چاہئے ۔“

سرسید نے کہا:

" بے شک ہم کو قوم کی پست ہمتی سے غیروں کے سامنے ہاتھ پسارنا پڑتا ہے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ اگر یہ انسٹی ٹیوشن بغیر انگریزوں کی اعانت کے قائم ہو گیا تو انگریزوں کے لئے کوئی ذلت کی بات اس سے زیادہ نہ ہوگی کہ وہ باوجودیکہ ہندوستان کی حکومت سے بے انتہا فائدہ اُٹھاتے ہیں مگر ہندوستانیوں کی بھلائی کے کاموں میں مطلق شریک نہیں ہوتے۔“

وہ انگریز سن کر شرمندہ ہوا اور اُسی وقت ایک نوٹ بیس روپے کا سرسید کی نذر کیا۔ 60


----------×××××----------​


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مخالفت


انگریزوں کے ساتھ کھانے پر عام ردعمل:

سرسید نے انگریزوں کے ساتھ کھانے پینے کا پرہیز چھوڑ دیا تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ:


" بجنور فتح ہونے کے بعد میں اور مسٹر پامر مجسٹریٹ ضلع بجنور، نجیب آباد سے بجنور کو آتے تھے ۔ راستہ میں ایک جگہ ہم دونوں اُترے اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے ۔ مسٹر پامر نے مجھ سے پُوچھا کہ

" چائے پیو گے؟

میں نے کہا کہ یہاں چائے کہاں ؟ انہوں نے کہا

" ہمارے ساتھ بنی ہوئی بوتل میں موجود ہے "

میں نے کہا،

" بہت بہتر"

غرض کہ ہم نے چائے پی اور ایک آدھ توس کھایا ۔ وہاں سے چل کر نگینے میں مقام ہوا۔ عصر کے وقت سب لوگ جماعت سے نماز پڑھ رہے تھے ۔ میں بھی جا کر جماعت میں شریک ہوگیا ۔ نماز کے بعد لوگوں نے مولوی قادر علی تحصیل دار سے ، جو نماز میں شریک تھے ، پوچھا کہ صدر امین نے تو انگریز کے ہاں کی بنی ہوئی چائے پی ہے اور توس کھائے ہیں ، پھر یہ نماز میں کیونکر شریک ہوئے ؟ جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے ان کو سمجھایا کہ قرآن کی رُو سے انگریزون کے ہاں کا کھانا اور ان کے ساتھ کھانا درست ہے ۔ ان لوگوں نے میری اس روز کی تقریر کو نہایت تعجب سے سنا ، پھر ایک روز بجنور میں رات کو مسٹر پامر کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا ، وہ کھانے پر جانے والے تھے انہوں نے کہا کہ تم بھی یہیں کھانا کھا لو۔“ اور خانساماں کو اشارہ کیا کہ میرے سامنے بھی رکابی لگادے ۔ خانساماں کو اس بات سے ایسا تعجب ہوا کہ کئی دفعہ اشارہ کرنے پر بھی نہ سمجھا کہ آج ایک مسلمان انگریز کے ساتھ کھانا کھائے گا۔“ 61


(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پھر لندن جانے پہلے جب انہوں نے ایک رسالہ احکامِ طعامِ اہلِ کتاب پر لکھ کر شایع کیا تو عموماً ان کو کرسٹان کا خطاب× دیا گیا اور جا بجا اس کے چرچے ہونے لگے ۔ جب ولایت کے سفر میں چند روز باقی رہ گئے تو انہوں نے اس خیال سے کہ انگریزی طریقہ پر کھانا کھانے سے بخوبی واقفیت ہوجائے ، یہ معمول باندھ لیا تھا کہ مسٹر سماتیہ جو بنارس میں ایک سوداگر تھے اور سرسید کی کوٹھی سے ان کی کوٹھی ملی ہوئی تھی ، ایک دن یہ شام کا کھانا ان کے گھر پر جا کر کھاتے تھے اور ایک دن وہ ان کے گھر پر آکر کھاتے تھے ۔ سرسید کہتے تھے کہ:

اتفاق سے ان ہی دنوں میں مولوی سید مہدی علی خان مرزا پور سے بنارس میں مجھ سے ملنے کو آئے ۔ رات کا وقت تھا اور میرے ہاں کھانے کی باری تھی ، ہم دونوں میز پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ مہدی علی آپہنچے ۔ یہ پہلی دفعہ تھی کہ مولوی مہدی علی نے ایک مسلمان کو اس طرح ایک انگریز کے ساتھ کھانا کھاتے دیکھا تھا ۔ سخت نفرت ہوئی اور باوجود میرے ہاں مہمان ہونے کے کھانا نہ کھایا اور کہا کہ میں کھا چکا ہوں ۔“

صبح کو مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے اس وجہ سے کھانا نہیں کھایا ۔ میں نے کہا کہ اگر آپ کو یہ طریقہ ناپسند ہو تو دوسرا بندوبست کیا جائے ؟“ انہوں نے سوچا کہ شرعا ً تو ممنوع نہیں ہے ، صرف عادت کے خلاف دیکھنے سے نفرت ہوئی ہے ، آخر قبول کرلیا اور سب سے پہلی دفعہ دن کا کھانا میرے ساتھ میز پر کھایا۔ دن تو اس طرح گذر گیا مگر رات کو یہ مشکل پیش آئی کہ رات کا کھانا مسٹر سماتیہ کے ہاں تھا ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اگر آپ کو وہاں کھانے میں تامل ہو تو یہاں انتظام کیا جائے ؟“ انہوں نے پھر اسی خیال سے کہ شرعاً ممنوع نہیں ، اقرار کرلیا کہ میں بھی وہیں کھا لوں گا، چنانچہ رات کو وہیں کھانا کھایا ۔ پھر ایک آدھ روز بعد مرزاپور واپس چلے گئے ۔“

الہ آباد میں ان کے ایک دوست کو یہ حال معلوم ہوگیا ، انہوں نے خط لکھ کر دریافت کیا کہ کیا یہ خبر سچ ہے؟ مولوی مہدی علی نے سارا حال مفصل لکھ بھیجا ۔ انہوں نے وہ خط بجنسہ ہمارے ایک نامہربان دوست کے پاس ، جو اٹاوہ میں رونق افروز تھے ، بھیج دیا ۔ انہوں نے تمام شہر میں ڈھنڈورہ پیٹ دیا کہ مہدی علی کرسٹان ہو گئے ۔ مولوی صاحب کے گھر کے پاس ہی ایک پینٹھ لگا کرتی تھی ۔ ہمارے شفیق نامہربان نے اس گنواردل میں جاکر خط کا مضمون ایک ایک آدمی کو سنایا اور تمام پینٹھ میں منادی کردی کہ بھائیو! افسوس ہے ، مولوی مہدی علی کرسٹان ہوگئے ۔ جو سنتا تھا افسوس کرتا تھا اور کہتا تھا ، خدا سید احمد خاں پر لعنت کرے ۔“

اس خبر کا مشہور ہونا تھا کہ مولوی صاحب کے گھر پر حلال خور نے کمانا ، سقے نے پانی بھرنا ، اور سب لگے بندھوں نے آنا جانا چھوڑ دیا ۔ گھر والوں نے ان کو لکھا کہ تمہاری بدولت ہم پر سخت تکلیف گذر رہی ہے ، تم جلدی آؤ اور اس تکلیف کو رفع کرو۔“ انہوں نے ایک طول طویل خط ان ہی بزرگ کو جنھوں نے یہ افواہ اڑائی تھی حلت طعامِ اہلِ کتاب کے باب میں لکھا اور پھر خود اٹاوہ میں آئے اور سب کو سمجھایا کہ میں کرسٹان نہیں ہوں ، جیسا پہلے مسلمان تھا ویسا ہی اب ہوں ، غرض بڑی مشکل سے لوگوں کا شبہ رفع کیا ۔“63


-----------------------------------------------------------------------------------------
× : اس خطاب کے پس منظر میں مذ کورہ رسالہ میں سرسید کی اس قسم کی تحریریں تھیں : " اگر اہلِ کتاب کسی جانور کی گردن توڑ کر مار ڈالنا یا سر پھاڑ کر مارڈالنا زکوٰۃ سمجھتے ہوں تو ہم مسلمانوں کو اس کا کھانا درست ہے ۔"
(احکامِ طعامِ اہلِ کتاب ، مطبوعہ 1868ء کان پور، ص 17 )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سر بیچنے کا ذ کر :

مذہبی عقائد اور اقوال کے سوا ، اور طرح طرح کے اتہامات اس خیرخواہِ خلائق پر لگائے جاتے تھے ۔ اس بات کا تو سرسید کی وفات تک ہزاروں آدمیوں کو یقین تھا کہ انہوں نے اپنا سر دَس ہزار روپے کو انگریزوں کے ہاتھ بیچ دیا ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے تھے کہ بعد مرنے کے انگریز ان کا سر کاٹ کر لندن لے جائیں گے اور لندن کے عجائب خانہ میں رکھیں گے ۔ ایک بار یہی سر بیچنے کا تذکرہ سرسید کے سامنے ہوا ۔ اس وقت راقم بھی موجود تھا ۔ اس مرحوم نے نہایت کشادہ دلی کے ساتھ فرمایا کہ:

" جو چیز خاک میں مل کر خاک ہوجانے والی ہے ، اس کے لئے اس زیادہ اور کیا عزت ہوسکتی ہے دانشمند لوگ اس کو روپیہ دے کر خریدیں ، اس کے ڈسکشن× سے کوئی علمی نتیجہ نکالیں ، اور اس کی قیمت کا روپیہ قوم کی تعلیم کے کام آئے ۔ دَس ہزار چھوڑ دس روپے بھی اگر اس کی قیمت میں ملیں تو میرے نزدیک مفت ہیں۔“ 63

قتل کی سازش:

جب سرسید کے کفر و ارتداد اور واجب القتل ہونے کے فتوے اطرافِ ہندوستان میں شائع ہوئے تو ان کی جان لینے کی دھمکیوں کے گمنام خطوط ان کے پاس آنے لگے ۔ اکثر خطوں کا یہ مضمون تھا کہ ہم نے اس بات پر قرآن اُٹھایا ہے کہ تم کو مار ڈالیں گے ۔ ایک خط میں لکھا تھا کہ شیر علی جس نے لارڈ میو کو مارا تھا ، اس نے نہایت حماقت کی ، اگر وہ تم کو مارڈالتا تو یقینی بہشت میں پہنچ گیا ہوتا ۔“

1891ء میں جبکہ سرسید کالج کی طرف سے ایک ڈپوٹیشن لے کر حیدرآباد گئے تھے اور حضور نظام (خلداللہ) ملکہ کے ہاں بشیر باغ میں مہمان تھے ، ایک مولوی نے ہمارے سامنے سرسید سے ذکر کیا کہ کلکتہ میں ایک مسلمان تاجر نے آپ کے قتل کا مصمم ارادہ کرلیا تھا اور ایک شخص کو اس کام پر مامور کرنا چاہتا تھا ۔ اس بات کی مجھ کو بھی خبر ہوئی ، چونکہ میں علی گڑھ کی طرف آنے والا تھا ، اس سے خود جا کر ملا اور اس سے کہا کہ میں علی گڑھ جانے والا ہوں اور میرا ارادہ سید احمد خاں سے ملنے کا ہے ۔ جب تک میں ان کے عقائد اور مذہبی خیالات دریافت کر کے آپ کو اطلاع نہ دوں ، آپ اس ارادہ سے باز رہیں ۔ چنانچہ میں علی گڑھ میں آیا اور آپ سے ملا اور بعد دریافتِ حالات کے اس کو لکھ بھیجا کہ سید احمد خاں میں کوئی بات میں نے اسلام کے خلاف نہیں پائی ۔ تم کو چاہئے کہ اپنے منصوبے سے توبہ کرو اور اپنے خیال خام سے نادم ہو۔ “

معلوم نہیں کہ اس مولوی کا یہ بیان صحیح تھا یا غلط مگر سرسید نے جو یہ حال سن کر اس کو جواب دیا وہ لطف سے خالی نہ تھا ۔ انہوں نے کہا کہ:


” افسوس ہے کہ آپ نے اس دین دار مسلمان کو اس ارادہ سے روک دیا اور ہم کو ہمارے بزرگوں کی میراث سے ، جو ہمیشہ اپنے بھائی مسلمانوں ہی کے ہاتھ سے قتل ہوتے رہے ہیں ، محروم رکھا ۔“64



----------×××××----------​



۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
متفرق​


مغربی علوم اور اسلام :

ان (سرسید) کا ہمیشہ یہ قول رہا ہے کہ :

”جو لوگ مغربی تعلیم یا مغربی علوم کو اسلام کے حق میں خطرناک تصور کرتے ہیں اور اس لئے مسلمانوں میں ان کا پھیلنا نہیں چاہتے ، وہ درحقیقت اسلام کو بہت بودا اور کمزور مذہب خیال کرتے ہیں جو علم و حکمت کے مقابلہ کی تاب نہیں لاسکتا۔“

++++++++++++++++++++++++++++++​
ہندو مسلمانوں میں عناد بڑھ جانے کی پیشن گوئی:

1867ء میں بنارس کے بعض سربرآوردہ ہندوؤں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو تمام سرکاری عدالتوں میں سے اردو زبان اور فارسی خط کے موقوف کرانے میں کوشش کی جائے اور بجائے اُس کے بھاشا زبان جاری ہو جو دیوناگری میں لکھی جائے ،

سرسید کہتے تھے کہ :

”یہ پہلا موقع تھا جب کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اب ہندو مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اور دونوں کو ملا کر سب کے لئے ساتھ ساتھ کوشش کرنا محال ہے ۔“

++++++++++++++++++++++++++++++​


سوانح حیات کا لب لباب :

اول اول تو جب کبھی سرسید کے سامنے ان کی لائف لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا جاتا تو وہ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ:

”میری لائف میں سوا اس کے کہ لڑکپن میں خوب کبڈیاں کھیلیں ، کنکوے اڑائے ، کبوتر پالے ، ناچ مجرے دیکھے ، اور بڑے ہوکر نیچری ، کافر اور بے دین کہلائے اور رکھا ہی کیا ہے ؟“

مگر آخر میں جیسا کہ عام طبائع انسانی کا خاصہ ہے ، ان کو اس بات کے دریافت کرنے کا زیادہ خیال معلوم ہوتا تھا کہ ان کی اخیر بائیو گرافی میں کیا لکھا

جارہا ہے ، اور اسی لئے وہ اپنی لائف کے جلد شائع ہونے کے مشتاق معلوم ہوتے تھے ۔ 74


انتقال سے پہلے کی خاموشی :

مرنے سے دو ڈیڑھ مہینے پہلے اُن کو چُپ لگ گئی تھی ، بولتے بہت کم تھے اور " ہاں " اور " نہیں " کے سوا بات کا بہت کم جواب دیتے تھے ۔ ان کے یارِ غار محسن الملک اور سید زین العابدین خاں گھنٹوں ان کے پاس خاموش بیٹھے رہتے تھے ۔ صحبت کا لطف بالکل جاتا رہا تھا ۔ ایک دن سید زین العابدین خاں نے پوچھا کہ آپ ہر وقت خاموش کیوں رہتے ہیں ؟“

سرسید نے کہا :

”اب وہ وقت قریب ہے کہ ہمیشہ چُپ رہنا ہوگا ، اس لئے خاموش رہنے کی عادت ڈالتا ہوں۔“ 75


----------×××××----------​




۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top