سطورِ تپاں۔۔ مجید امجد

الف عین

لائبریرین
توسیعِ شہر


بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر، بانکے پہرے دار
گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بُور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بِک گئے سارے ہرے بھرے اشجار

جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم

گِری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل، جھڑتے پنجر، چھٹتے برگ و بار
سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار

آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اِک میری سوچ لہکتی ڈال
! مجھ پہ بھی اب کاری ضرب اِک اے آدم کی آل
 

الف عین

لائبریرین
شاعر


یہ دنیا یہ بے ربط سی ایک زنجیر
یہ دنیا یہ اک نامکمل سی تصویر
یہ دنیا نہیں میرے خوابوں کی تعبیر

میں جب دیکھتا ہوں یہ بزمِ فانی
غمِ جاودانی کی ہے اِک کہانی
تو چیخ اُٹھتی ہے میری باغی جوانی

یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دُنیا
گُناہوں میں لتھڑے رواجوں کی دُنیا
محّبت کے دشمن سماجوں کی دُنیا

یہاں پر کلی دل کی کھلتی نہیں ہے
کوئی چِق دریچوں کی ہلتی نہیں ہے
مَرے عشق کو بھیک ملتی نہیں ہے

اگر میں خُدا اس زمانے کا ہوتا
تو عنوان اور اس فسانے کا ہوتا
عجب لطف دنیا میں آنے کا ہوتا
 

الف عین

لائبریرین
سازِ فقیرانہ

گلوں کی سیج ہے کیا، مخملیں بچھونا کیا
نہ مل کہ خاک میں گر خاک ہوں تو سونا کیا

فقیر ہیں، دو فقیرانہ ساز رکھتے ہیں
ہمارا ہنسنا ہے کیا اور ہمارا رونا کیا

ہمیں زمانے کی ان بیکرانیوں سے کام
زمانے بھر سے ہے کم دِل کا ایک کونا کیا

نظامِ دہر کو تیورا کے کس لئے دیکھیں
جو خود ہی ڈوب رہا ہو اسے ڈبونا کیا

نہ رو کہ ہیں ترے ہی اشک ماہ و مہر امجد
جہاں کو رکھنا ہے تاریک اگر تو رونا کیا
 

الف عین

لائبریرین
منٹو

اُجلی اُجلی سڑکوں پر اِک گرد بھری حیرانی میں
پھیلتی پھیلتی بھیڑ کے اندھے اوندھے
کٹوروں کی طغیانی میں
جب وہ خالی بوتل پھینک کر کہتا ہے :
" دنیا ! تیرا حُسن یہی بدصورتی ہے ۔ "
دنیا اس کو گھورتی ہے
شورِ سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے
انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال
کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں
کا جال
بامِ زماں پر پھینکا ہے
کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پُر پیچ
دھندلکوں میں
روحوں کے عفریت کدوں کے زہراندوز
محلکوں میں
لے آیا ہے یوں بن پوچھے اپنے آپ
عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں
کی چاپ
کون ہے یہ گستاخ
تاخ تڑاخ ۔۔۔۔۔۔۔!
 

الف عین

لائبریرین
لاہور میں

ڈاکخانے کے ٹکٹ گھر پر خریداروں کی بھیڑ
ایک چوبی طاقچے پر کچھ دواتیں، ایک قلم
یہ قلم میں نے اُٹھایا اور خط لکھنے لگا :
" پیارے ماموں جی ! دُعا کیجئیے خُدا رکھ لے بھرم
آج انٹرویو ہے !۔۔۔ کل فیصلہ ہو جائے گا
دیکھیں کیا ہو۔ مجھ کو ڈر ہے ۔۔۔ " اتنے میں تم آ گئیں !
’ اک ذرا تکلیف فرما کر پتہ لکھ دیجئیے‘
میں نے تم سے وہ لفافہ لے لیا، جھجکا نہیں
بے دھڑک لکھ ڈالا میں نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ
مختصر، رنگیں پتہ : " گلگت میں۔ گوہر خان کے نام ! "
" شکریہ "۔۔۔۔ " جی کیسا "۔۔۔اک ہنستی نگہ زیرِ نقاب
ڈاک میں خط ڈالا ۔۔۔۔۔ تانگہ ٹمپل روڈ ۔۔۔۔ قّصہ تمام !
 

الف عین

لائبریرین
کون دیکھے گا

جو دن کبھی نہیں بیتا وہ دن کب آئے گا
انہی دنوں میں اس اِک دن کو کون دیکھے گا

اس ایک دن کو جو سورج کی راکھ میں غلطاں
انہی دنوں کی تہوں میں ہے، کون دیکھے گا

اس ایک دن کو جو ہے عمر کے زوال کا دن
انہی دنوں میں نمو یاب کون دیکھے گا

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

ہزار چہرے خود آرا ہیں کون جھانکے گا
مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا

تڑخ کے گرد کی تہ سے اگر کچھ پھول
کھلے بھی، کوئی تو دیکھے گا کون دیکھے گا
 

الف عین

لائبریرین
غزل
جنونِ عشق کی رسمِ عجیب کیا کہنا
میں اُن سے دور وہ میرے قریب کیا کہنا

یہ تیرگیء مسلسل میں اک وقفۂ نور
یہ زندگی کا طلسمِ عجیب کیا کہنا

جو تم ہو برقِ نشیمن تو میں نشیمنِ برق
اُلجھ پڑے ہیں ہماے نصیب کیا کہنا

ہجومِ رنگِ فراواں سہی۔۔ مگر پھر بھی
بہار۔۔ نوحۂ صد عبدلیب کیا کہنا

ہزار قافلۂ زبدگی کی تیرہ شبی
یہ روشنی سی افق کے قریب، کیا کہنا

لرز گئی تری لَو مرے ڈگمگانے سے
چراغِ گوشۂ کوئےِ حبیب ! کیا کہنا
 

الف عین

لائبریرین
ایک کوہستانی سفر کے دوران

تنگ پگڈنڈی ۔۔۔۔۔ سرِ کُہسار بل کھاتی ہوئی
نیچے، دونوں سمت، گہرے غار، منہ کھولے ہوئے
آگے، ڈھلوانوں کے پار اک موڑ اور اس جگہ
اِک فرشتے کی طرح نورانی پر تولے ہوئی
جھک پڑا ہے آکے رستے پر کوئی نخلِ بُلند
تھام کر جس کو گزر جاتی ہے آسانی کے ساتھ
موڑ پر سے ڈگمگاتے رہروؤں کے قافلے
ایک بوسیدہ خمیدہ پیڑ کا کمزور ہاتھ
سینکڑوں گرتے ہوؤں کی دستگیری کا امیں !
آہ ! اُن گردن فرازانِ جہاں کی زندگی
اِک جھکی ٹہنی کا منصب بھی جنہیں حاصل نہیں
 

الف عین

لائبریرین
بُندا


کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتامیں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشہ مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہر گز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش

کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا!
 

الف عین

لائبریرین
غزل

دل سے ہر گزری بات گزر ی ہے
کس قیامت کی رات گزری ہے

چاندنی، نیم وا دریچہ، سکوت
آنکھوں آنکھوں میں رات گزری ہے

ہائے وہ لوگ خوبصورت لوگ
جن کی دھُن میں حیات گزری ہے

کسی بھٹکے ہوئے خیال کی موج
کتنی یادوں کے سات گزری ہے

تمتماتا ہے چہرہِ ایّام
دل پہ کیا واردات گزری ہے

پھر کوئی آس لڑکھڑاتی ہے
کہ نسیمِ حیات گزری ہے

بجھتے جاتے ہیں دکھتی پلکوں پہ دیپ
نیند آئی ہے! رات گزری ہے!
 

الف عین

لائبریرین
بول انمول

اب یہ مسافت کیسےطے ہو اے دل تو ہی بتا
کٹتی عمر اور گھٹتے فاصلے پھر بھی وہی صحرا

شیشے کی دیوار زمانہ، آمنے سامنے ہم
نظروں سے نظروں کا بندھن، جسم سے جسم جُدا

اب گرد اب اپنے آپ میں گھلتی سوچ بھلی
کس کے دوست اور کیسے دشمن، سب کو دیکھ لیا

راہیں دھڑکیں، شاخیں کھڑکیں، اک اک ٹھیس اٹل
کتنی تیز چلی ہے اب کے دھول بھری دَکھنا

دکھڑے کہتے لاکھں مُکھڑے، کس کس کے سینے
بولی تو اک اک کی ویسی، بانی سب کی جدا
 

الف عین

لائبریرین
غزل

بنے یہ زہر ہی وجہِ شفا، جو تو چاہے
خرید لوں یہ نکلی دوا، جو تو چاہے

تجھے تو علم ہے کیوں میں نے اس طرح چاہا
جو تو نے یوں نہیں چاہا تو کیا، جو تو چاہے

جب یک سانس گھسے، ساتھ ایک نوٹ پسے
نظامِ زر کی حسیں آسیا، جو تو چاہے

ذرا شکوہِ دو عالم کے گُنبدوں میں لرز
پھر اس کے بعد تیرا فیصلہ، جو تو چاہے

سلام ان پر، تہِ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تو چاہے

جو تیرے باغ میں مزدوریاں کریں امجد
کھلیں وہ پھول بھی اک مرتبہ، جو تو چاہے
 

الف عین

لائبریرین
آٹوگراف

کھلاڑیوں کے خود نوشت دستخط کے واسطے
کتابچے لئے ہوئے
کھڑی ہیں منتظر حسین لڑکیاں
ڈھلکتے آنچلوں سے بےخبر حسین لڑکیاں

مہیب پھاٹکوں کے ڈولتےکو اڑ چیخ اٹھے
ابل پڑے الجھتے بازوؤں چٹختی پسلیوں کے
پُر ہراس قافلے
گرے، بڑھے، مُڑے بھنور ہجوم کے

کھڑی ہیں یہ بھی راستے پہ اک طرف
بیاضِ آرزو بکف
نظر نظر میں نارسا پرستشوں کی داستاں
لرز رہا ہے دم بہ دم
کمان ابرواں کا خم
کوئی جب ایک نازِ بےنیاز سے
کتابچوں پہ کھینچتا چلا گیا
حروفِ کج تراش کی لکیر سی
تو تھم گئیں لبوں پہ مسکراہٹیں شریر سی
کسی عظیم شخصیت کی تمکنت
حنائی اگلیوں میں کانپتے ورق پہ جھک گئی
تو زرنگار پلوؤں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز
نبض رُک گئی

وہ باؤلر ایک مہ وشوں کے جمگھٹوں میں گھر
گیا
وہ صفحہِ بیاض پر بصد غرورکلکِ گوہروں
پھری
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری

میں اجنبی میں بے نشاں
میں پا بہ گل !
نہ رفعتِ مقام ہے نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل ۔۔۔۔۔ یہ لوحِ دل !
نہ اس پہ کوئی نقش ہے نہ س پہ کوئی نام ہے
 

الف عین

لائبریرین
غزل

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گُلاب کے پھول


اُفق اُفق پہ زمانوں کی دُھند سے اُبھرے
طُیور، نغمے، ندی،تتلیاں، گلاب کے پھول

کس انہماک سے بیٹھی کشید کرتی ہے
عروسِ گل بہ قبائے جہاں گلاب کے پھول

یہ میرا دامنِ صد چاک، یہ ردائے بہار
یہاں شراب کے چھینٹے، وہاں گلاب کے پھول

کسی کا پھول سا چہرہ اور اس پہ رنگ افروز
گندھے ہوئی بہ خمِ گیسواں، گلاب کے پھول

خیالِ یار ! ترے سلسلے نشوں کی رُتیں
جمالِ یار ! تری جھلکیاں گلاب کے پھول

مری نگاہ میں دورِ زماں کی ہر کروٹ
لہو کی لہر، دِلوں کا دھواں، گلاب کے پھول

سلگتے جاتے ہیں چُپ چاپ ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرۂ پیغمبراں گلاب کے پھول

یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں باہیں
چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول

کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجدؔ
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
 

الف عین

لائبریرین
غزل
اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صُبحوں کے حوالے کرنا ہے
کانٹوں سے اُلجھ کر جینا ہے پھولوں سے لپٹ کر مرنا ہے

شاید وہ زمانہ لوٹ آئے، شاید وہ پلٹ کر دیکھ بھی لیں
ان اُجڑی اُجڑی نظروں میں پھر کوئی فسانہ بھرنا ہے

یہ سوزِ دروں یہ اشکِ رواں یہ کاوشِ ہستی کیا کہیے
مرتے ہیں کہ کچھ جی لیں ہم، جیتے ہیں کہ آخر مرنا ہے

اِک شہرِ وفا کے بند دریچے آنکھیں میچے سوچتے ہیں
کب قافلہ ہائے خندۂ گل کو ان راہوں سے گزرنا ہے

اس نیلی دھند میں کتنے بجھتے زمانے راکھ بکھیر گئے
اک پل کی پلک پر دنیا ہے، کیا جینا ہے کیا مرنا ہے

رستوں پہ اندھیرے پھیل گئے، اک منزلِ غم تک شام ہوئی
اے ہمسفرو ! کیا فیصلہ ہے اب چلنا ہے کہ ٹہہرنا ہے

ہر حال میں اک شوریدگیِ افسونِ تمّنا باقی ہے
خوابوں کے بھنور میں بہ کر بھی خوابوں کے گھاٹ اُترنا ہے
 

الف عین

لائبریرین
غزل

یک ایک جھروکا خندہ بہ لب ایک ایک گلی کہرام
ہم لب سے لگا کر جام ہوئے بدنام بڑے بدنام

رت بدلی کہ صدیاں لوٹ آئیں اف یاد کسی کی یاد
پھر سیل زماں میں تیر گیا اک نام ، کسی کا نام

دل ہے کہ اک اجنبی حیراں ، تم ہو کہ پرایا دیس
نظروں کی کہانی بن نہ سکیں ہونٹوں پہ رکے پیغام

روندیں تو یہ کلیاں نیشِ بلا، چومیں تو یہ شعلے پھول!
یہ غم یہ کسی کی دین بھی ہے، انعام، عجب انعام

اے تیرگیوں کی گھومتی رَو کوئی تو رسیلی صبح
اے روشنیوں‌کی ڈولتی لو ، اک شام ، نشیلی شام

رہ رہ کے جیالے راہیوں کو دیتا ہے یہ کون آواز
کونین کی ہستی منڈیروں پر تم ہو کہ غمِ ایام

بے برگ شجر گردوں کی طرف پھیلائیں ہمکتے ہات
پھولوں سے بھری ڈھلوان پہ سوکھے پات کریں بسرام

ہم فکر میں ہیں اس عالم کا دستور ہے کیا دستور
یہ کس کو خبر اس فکر کا ہےدستورِ دو عالم نام
 

الف عین

لائبریرین
غزل

کیا روپ دوستی کا، کیا رنگ دشمنی کا
کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا

اک تنکا آشیانہ، اک راگنی اثاثہ
اک موسمِ بہاراں مہمان دو گھڑی کا

آخر کوئی کنارہ اس سیلِ بے کراں کا
آخر کوئی مداوا اس دردِ زندگی کا!

میری سیہ شبی نے اک عمر آرزو کی
لرزے کبھی افق پر تاگا سا روشنی کا

شاید ادھر سے گزرے پھر بھی ترا سفینہ
بیٹھا ہوا ہوں ساحل پر نَے بلب کبھی کا!

اس التفات پر ہوں لاکھ التفات قرباں
مجھ سے کبھی نہ پھیرا رخ تو نے بے رخی کا

اب میری زندگی میں آنسو ہیں اور نہ آہیں
لیکن یہ ایک میٹھا میٹھا سا روگ جی کا

او مسکراتے تارو، او کھلکھلاتے پھولو
کوئی علاج میری آشفتہ خاطری کا
 

الف عین

لائبریرین
غزل

کس کی گھات میں گم صم ہو؟ خوابوں کے شکاری جاگو بھی
اب آکاش سے پورب کا چرواہا عریوڑ ہانک چکا

میں جو تیری راگ سبھا میں راس رچانے آیا تھا
دل کی چھنکتی جھانجھن میں تیری پازیبوں میں ٹانک چکا

بوجھل پردے، بند جھروکا، ہر سایہ رنگیں دھوکا
میں اک مست ہوا کا جھونکا، دوارے دوارے جھانک چکا

اجڑی یادوں کے شہرِ خاموشاں میں کیا ڈھونڈھتے ہو
اب وہ زمانہ وقت کی میلی چادر میں منہ ڈھانک چکا

کس کو خبر، اے شمع، تری اس دولتی لَو میں پروانہ
کتنے بگولے پھونک چکا اور کتنے الاؤ پھانک چکا
 

الف عین

لائبریرین
میں تڑپا کیا اور گیسوئے ناز
سنورتے گئے، دن گزرتے گئے!

میں روتا رہا اور بہاروں کے رنگ
نکھرت گئے، دن گزرتے گئے!

مری زیست پر ان کے جلووں کے نقش
اُبھرتے گئے، دن گزرتے گئے!

گلستاں کے آنگن میں کھل کھل کے پھول
بکھرتے گئے، دن گزرتے گئے!

چطھلکتے ہوئے جام میں ماہ و سال
اُترتے گئے، دن گزرتے گئے!
 
Top