سطورِ تپاں۔۔ مجید امجد

الف عین

لائبریرین
کوئی بھی دَور۔۔ سرِ محفلِ زمانہ رہا
تمہارا ذکر رہا یا مرا فسانہ رہا

مرے نشانِ قدم دشتِ غم پہ ثبت رہے
ابد کی لوح پہ تقدیر کا لکھا نہ رہا

وہ کوئی کنجِ سمن پوش تھا کہ تودۂ خس
اک آشیانہ بہر حال آشیانہ رہا

تم اک جزیرۂ دل میں سمٹ کے بیٹھ رہے
مری نگاہ میں طوفانِ صد زمانہ رہا

طلوعِ صبح کہاں۔۔ ہم طلوع ہوتے گئے
ہمارا قافلۂ بے درا روانہ رہا

یہ پیچ پیچ بھنور۔۔ اس کی اک گرہ تو کھُلی!
کوئی تڑپتا سفینہ رہا، رہا ۔۔نہ رہا

نہ شاخِ گل پہ نشیمن، نہ رازِ گل کی خبر
وہ کیا رہا جو جہاں میں قلندرانہ رہا
 

الف عین

لائبریرین
غزل

دل نے ایک ایک دکھ سہا، تنہا
انجمن انجمن رہا، تنہا

ڈھلتے سایوں میں، تیرے کوچے میں
کوئی گزرا ہے بارہا، تنہا

تیری آہٹ قدم قدم اور میں!
اس معیٓت میں بھی رہا، تنہا

کہنہ یادوں کے برف زاروں سے
ایک آنسو بہا، بہا، تنہا

دوبتے ساحلوں کے موڑ پہ دل
اک کھنڈر سا، رہا سہا، تنہا

گونجتا رہ گیا خلاؤں میں
وقت کا ایک قہقہہ، تنہا
 

الف عین

لائبریرین
غزل

کیا سوچتے ہو، پھولوں کی رت بیت گئی، رُت بیت گئی
وہ رات گئئی، وہ بات گئی، وہ ریت گئی، رُت بیت گئی

اک لہر اٹھی اور ڈوب گئے ہونٹوں کے کنول۔ آنکھوں کے دئے
اک گونجتی آبدھی وقت کی بازی جیت گئی، رُت بیت گئی

تم آگئے میری باہوں میں، کونین کی پینگیں جھول گئیں
تم بھول گئے، جینے کی جگت سے ریت گئی، رُت بیت گئی

پھر تہر کے میرے اشکوں میں گلپوش زمانے لوٹ چلے
پھر چھیڑ کے دل میں ٹیسوں کے سنگیت گئی، رُت بیت گئی

اک دھیان کے پاؤں ڈول گئے، اک سوچ نے بڑھ کر تھام لیا
اک آس ہنسی، اک یاس سنا کر گیت گئی، رُت بیت گئی

یہ لالہ و گل کیا پوچھتے ہو، سب لطفِ نظر کا قصّہ ہے
رُت بیت گئی جب دل سے کسی کی پیت گئی، رُت بیت گئی
 

الف عین

لائبریرین
غزل

ہر وقت فکرِمرگِ غریبانہ چاہیئے
صحت کا ایک پہلو مریضانہ چاہیئے

دنیا ئے بے طریق میں جس سمت بھی چلو
رستے میں اک سلامِ رفیقانہ چاہیئے

آنکھوں میں اُمڈے روح کی نزدیکیوں کے ساتھ
ایسا بھی ایک دور کا یارانہ چاہیئے

کیا پستیوں کی ذلتیں، کیا عظمتوں کے فوز
اپنے لیے عزابِ جُداگانہ چاہیئے

اب دردِشش بھی سانس کی کوشش میں ہے شریک
اب کیا ہو، اب تونیند کو آ جانا چاہیئے

روشن ترائیوں سے اُترتی ہوا میں آج
دو چار گام لغزشِ مستانہ چاہیئے

امجد، ان اَشکبار زمانوں کے واسطے
اِک ساعتِ بہار کا نذرانہ چاہیئے
 
Top