دوسرا کالم نصرت جاوید نے ایکسپریس اخبار میں لکھا ھے۔
کچھ منٹو کے بارے میں
میرے ایک بڑے ہی محترم ہمعصر ہیں جو اپنے علم اور تقویٰ کی بنیاد پر ہم گنہگاروں کو اکثر شرمسار کر دیتے ہیں۔ میں اپنے اندر کے شیطان کو قابو میں رکھنے کے لیے ان کے کالم بہت شوق سے پڑھتا اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ میرا لیکن ایک بہت ہی سنگین مسئلہ یہ بھی ہے کہ نوجوانی آتے ہی مجھے منٹو کی لت لگ گئی تھی۔ عمر پچاس سال سے تجاوز کر گئی تو میں نے منٹو کی کلیات کو از سر نو پڑھا اور اس پوری مشق کے دوران یہ سوال ذہن پر حاوی رکھا کہ کہیں منٹو نے مجھے بلوغت کے قریب پہنچتے دنوں میں تو مرعوب نہیں کر دیا تھا۔
منٹو کی کلیات کو ایک سے زیادہ بار اس سوال کے ساتھ پڑھنے کے بعد میں اکثر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ میں نے اسے بار بار کیوں نہیں پڑھا۔ مجھے اُردو زبان کے قواعد کی خاک سمجھ نہیں۔ مجھے تو ابھی تک تذکیر و تانیث کا صحیح استعمال پوری طرح سمجھ میں نہیں آیا۔ اپنی جہالت کی انتہاء تو یہ ہے کہ چند دن پہلے قرۃ العین حیدر کا ایک ناول پڑھ رہا تھا۔ اس میں سید سجاد حیدر یلدرم کی بیٹی اور یوپی کے ایک مستند خاندان سے تعلق رکھنے والی اس خاتون لکھاری نے پرندوں کو بسیرا ’’لیتے‘‘ ہوئے بتایا ہے۔ کئی گھنٹوں یہ سوچتا رہا کہ ہمارے شاعر مشرق تو ملت اسلامیہ کے فرزندوں کو شاہین کی طرح پہاڑوں پر بسیرا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پرندے بسیرا ’’لیتے‘‘ ہیں یا بسیرا ’’کرتے‘‘ ہیں۔ میرے گھر میں ایسی کوئی لغت یا قواعد پر مبنی کتاب نہیں تھی جس سے رجوع کرتا اور اپنے سوال کا جواب پاتا۔ اُردو زبان کے سلسلے میں اکثر اپنی ساس سے پوچھ لیا کرتا تھا۔ وہ دو سال ہوئے انتقال فرما گئیں۔ تنگ آ کر فیصلہ کیا کہ شاہین کیونکہ بڑا پرندہ ہے اس لیے ہاتھی کی طرح اس کی مرضی ہے انڈا دے یا بچہ۔ ہو سکتا ہے عام اور کمزور پرندے بسیرا ’’لیتے‘‘ ہوں مگر شاہین چونکہ شاہین ہے اسے بسیرا ’’کرنا‘‘ چاہیے۔
تلفظ اور قواعد کے حوالے سے اپنے اس عجز کے اعتراف کے بعد میں زور اس بات پر دینا چاہتا ہوں کہ سعادت حسن منٹو کا اصل حُسن اس کی جرأت ہے۔ یہ جرأت محض ان مضامین پر لکھنے تک محدود نہ تھی جن کا ذکر شرفاء نجی محفلوں میں بھی معیوب سمجھتے ہیں۔ اس کی اصل جرأت اس بات میں پنہاں تھی کہ وہ اپنے دور پر حاوی نظریات کے بارے میں شک بھرے سوال اُٹھاتا تھا۔ گاندھی کے مرن برت کا مذاق اُڑاتا تھا اور فلموں کی وجہ سے دیو مالائی حیثیت اختیار کر چکے افراد کی چھوٹی چھوٹی کمینگیوں کا ذکر کر کے ہمیں بتا دیتا تھا کہ وہ بھی میرے اور آپ کی طرح کے انسان ہیں۔ ان میں کچھ خامیاں شاید عام انسانوں سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہیں مگر وہ ان کے بارے میں ہرگز شرمندہ نہیں ہوتے۔
منٹو کا اس سے بھی بڑا کمال یہ ہے کہ وہ شاید اس دور کا واحد ادیب ہے جس نے پنجاب کے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں پوری وحشت کے ساتھ موجود اس درندگی کے اسباب سمجھنے کی کوشش کی جو 1947ء کے بٹوارے کے ساتھ کھل کر سامنے آئی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ نہ ترقی پسندوں کے ہجوم سے جڑا اور نہ ہی اس نے اس نئی ریاست کے لیے ’’نظریہ ساز‘‘ بننا چاہا۔ قدرت اللہ شہاب اسے برف خانہ الاٹ کرنا چاہتے تھے۔ اس نے انکار کر دیا۔ امریکی اسے خریدنا چاہتے تھے۔ اس نے جواباََ انکل سام کے نام خطوط لکھ کر وہ سب کچھ بیان کر دیا جو افغانستان کو امریکا کی مدد سے پہلے روسیوں سے آزاد کراتے اور اب اس ملک کو امریکا سے آزاد کراتے ہوئے ہم ان دنوں بھگت رہے ہیں۔ میری دیانت دارانہ رائے ہے کہ منٹو کو اس قوم نے وہ توقیر ہرگز فراہم نہیں کی جس کا وہ مستحق تھا۔ منٹو کے بارے میں میرے ذہن پر چھائے احساس شرمندگی کے تناظر میں مجھے اپنے محترم معاصر کے اس فقرے سے بہت دُکھ پہنچا جس کے ذریعے انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ منٹو جیسے افسانہ نگار کی تحریریں پڑھنے کے بعد لوگ عورتوں کا احترام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
احترام کی یہ عادت و روایت ختم ہو جانے کے بعد معاشرے میں پانچ سالہ بچی کے ساتھ وحشیانہ درندگی جیسے دلخراش واقعات رونما ہوتے ہیں۔ محترم معاصر نے اگر منٹو کا نام نہ لیا ہوتا تو شاید میں ان کی دلیل پر زیادہ سنجیدگی سے غور کرتا۔ مگر جب سے وہ فقرا پڑھا ہے اس سوچ میں غرق ہوں کہ کسی طرح سجھ پائوں کہ کیوں اور کیسے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ جیسا افسانہ کسی قاری کو عورت کا احترام نہ کرنے پر اُکسا سکتا ہے۔ ہرگز سمجھ نہیں پایا۔ ’’کھول دو‘‘ کی جزئیات یاد آئیں تو پوری نفرت اور کراہت عورتوں کا جنگلی جانوروں کی طرح شکار کرنے والے وحشیوں سے ہوئی۔ عرب اسلام سے پہلے بچیوں کو زندہ دفنا دیا کرتے تھے۔ انھوں نے تو منٹو کو ہرگز نہیں پڑھا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ وہ درندہ جس نے لاہور میں بچی کے ساتھ زیادتی کی منٹو کی ایک سطر سے بھی واقف نہیں ہو گا۔ منٹو بے چارے کو اس قضیے میں رگید کر اس کی مذمت کرنا کیوں ضروری تھا۔ میں بالکل سمجھ نہیں پایا۔ شاید میرے محترم معاصر اپنی کسی آیندہ تحریر میں دلائل کے ساتھ سمجھا دیں گے۔ میں پورے اشتیاق سے منتظر رہوں گا۔
مگر اس کالم کے اختتام پر میں یہ درخواست ضرور کروں گا کہ کبھی وقت ملے تو منٹو کے ’’گنجے فرشتے‘‘ میں وہ خاکہ ضروری پڑھ لیں جو اس نے نور جہاں کے بارے میں لکھا تھا۔ چند سطریں پڑھنے کے بعد آپ فوراََ جان لیں گے کہ منٹو اس عورت سے گانے کے ہنر اور فن کے حوالے سے بری طرح متاثر تھا۔ اس کا اصل دُکھ شاید یہ تھا کہ خدا سے اتنا زیادہ حسن اور سریلا گلا پا لینے کے بعد اسے عام انسانوں سے کسی بلند تر سطح پر فائز ہوئے رہنا تھا۔ وہ اور ’’چکروں‘‘ میں کیوں پڑ گئی اور پھر اس فقرے کی شدت کو محسوس کرنے کی کوشش کیجیے جو ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران نورجہاں کو قدرے چھچھورے اور بے حیا لباس میں دیکھ کر منٹو کے قلم سے سرزد ہوا۔
نصرت جاوید