سعودی حکومت و معاشرے اور شہزادی بسمہ بنت سعود

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

یوسف-2

محفلین
میری سب احباب سے درخواست ہے کہ یہاں مسالک کو زیرِ بحث نہ لایا جائے، آپ کا یہ فورم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ موضوع پر بحث کیجیے مسالک اور فرقوں اور ان کے نظریات پر نہیں بصورتِ دیگر ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا بجز تھریڈ مقفل یا حذف کرنے کے۔

والسلام
جی وارث بھائی!
اس پر سختی سے گرفت کی ضرورت ہے۔ جو بھی کسی مسلک اور کسی فرقے کا نام لے کر اس پر تنقید کرے، اس دھاگے اور دھاگہ والے کے خلاف سخت ایکشن لیا جانا چاہئے۔ شاید اس طرح ہم (کم از کم ا فورم کی حد تک:biggrin: ) خود کو شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، وہابی، وغیرہ وغیرہ سے بالا تر ہو کر ’’مسلمان‘‘ کہلوانا سیکھ سکیں۔
سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن و حدیث) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ (سورة آلِ عمران ۔ 103)
 

یوسف-2

محفلین
درست فرمایا آپ نے، ًاگر علمی حدود کے اندر ہوً لیکن یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے یہاں۔

اول- ہماری جذباتی قوم، چھوٹی چھوٹی باتوں پر کفر کے فتروں اور قتل کی دھمکیوں پر پہنچ جاتی ہے، یہ سب کچھ اس فورم پر ہو چکا ہے۔

دوم- مسالک اور عقائد پر علمی بحث کرنا، اور مسلکی اختلافات پر بحث کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ ہم تو سرے سے مذہب اور سیاست کے زمروں کے بھی حق میں نہیں اس فورم پر لیکن بہ امر مجبوری اس کو کسی نہ کسی طرح برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

سوم- علمی حدود کہاں ختم ہوتی ہیں اور تنگ نظری اور تعصب کہاں شروع ہوتا اس کا فیصلہ نہ چودہ سو سال سے ہو سکا نہ کبھی آئندہ ہوگا، سو جن باتوں پر بڑے بڑے فقیہہ و محدث و مفسر ازلوں سے بحث کر رہے ہیں وہ کتابون اور مناظروں کی حد تک ہی بہتر ہیں یہاں ان کا اعادہ کرنا اور الزام در الزام اور جواب در جواب، اور زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد والا رویہ اختیار کرنے کے حق میں صرف یہی خاکسار نہیں ہے بلکہ تمام ناظمین اس پر متفق ہیں، اور افسوس کہ یہی ہم سب کی متفقہ پالیسی ہے۔
1۔بجا فرمایا۔ یہ اس فورم کا ہی نہیں دیگر فورمز کا بھی یہی حال ہے، جہاں کہیں عقائد و مسالک پر بحث شروع ہوئی لڑائی جھگڑا شروع ہوا۔ ممبرز تو ’’ذوق و شوق‘‘ سے لڑائی جھگڑے میں شریک ہوتے ہیں اور جان مصیبت منتظمین کی آئی ہوتی ہے، جن کی ذمہ داری فورمز کے ’’امن و امان‘‘ کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔:)
2۔ مذہب و سیاست کے زمروں پر پالیسی کو سخت کیا جاسکتا ہے، مگر اسے ختم کرنا (اس احقر کی رائے میں) مناسب نہیں۔ مذہبی زمروں کوصرف قرآن و سنت کے ’’بیان‘‘ تک محدود رکھا جاسکتا ہے بلکہ جانا چاہئے۔ اسی طرح سیاست کے خانہ میں سیاسی تبدیلیوں اور ڈیویلپمنٹ کا تذکرہ ہوتا رہے اور جہاں کہیں ’’اختلافَ رائے‘‘ مخالفت اور لڑائی جھگڑے کی طرف بڑھے، اسے فوری طور پر تالا لگا دیا جائے۔
یہ میری ذاتی رائے جس سے ’’غیر متفق ‘‘ ہونے کا سب کو حق ہے :)
 

ساجد

محفلین
درست فرمایا آپ نے، ًاگر علمی حدود کے اندر ہوً لیکن یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے یہاں۔

اول- ہماری جذباتی قوم، چھوٹی چھوٹی باتوں پر کفر کے فتوؤں اور قتل کی دھمکیوں پر پہنچ جاتی ہے، یہ سب کچھ اس فورم پر ہو چکا ہے۔
(y)
دوم- مسالک اور عقائد پر علمی بحث کرنا، اور مسلکی اختلافات پر بحث کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ ہم تو سرے سے مذہب اور سیاست کے زمروں کے بھی حق میں نہیں اس فورم پر لیکن بہ امر مجبوری اس کو کسی نہ کسی طرح برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

سوم- علمی حدود کہاں ختم ہوتی ہیں اور تنگ نظری اور تعصب کہاں شروع ہوتے ہیں اس کا فیصلہ نہ چودہ سو سال سے ہو سکا نہ کبھی آئندہ ہوگا، سو جن باتوں پر بڑے بڑے فقیہہ و محدث و مفسر ازلوں سے بحث کر رہے ہیں وہ کتابون اور مناظروں کی حد تک ہی بہتر ہیں یہاں ان کا اعادہ کرنا اور الزام در الزام اور جواب در جواب، اور زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد والا رویہ اختیار کرنے کے حق میں صرف یہی خاکسار نہیں ہے بلکہ تمام ناظمین اس پر متفق ہیں، اور افسوس کہ یہی ہم سب کی متفقہ پالیسی ہے۔
:?
 

محمد وارث

لائبریرین
ساجد بھائی جو الفاظ آپ نے سرخ کیے ان میں شاید ًہمً کا لفظ غیر ارادی طور پر میں لکھ گیا، اس ہم کو میں سمجھیے، میں ذاتی طور پر ان زمروں کے حق میں نہیں ہوں لیکن باقی منتظمین مجھ سے متفق نہیں :)
 
اگر ميرے جواب لكھنے كے دوران "امن پسند " منتظمين نے اس موضوع كو قفل نہ لگا ديا -جيسا كہ وہ يہاں كر چكے ہيں - تو ان شاء اللہ ميں چند باتيں ضرور عرض كروں گی ۔ اگر كسى ركن كى غيرموجودگی ميں اسے ذاتى القابات سے نوازنے اجازت ہے تو متذكرہ ركن كو بھی معروضات كى اجازت ہونى چاہیے۔
 
مجھے يہ موضوع ديكھ كر صاحب موضوع كے انداز سے زيادہ ان كے آئى كيو ليول پر حيرت ہو رہی ہے۔ كسى كو ذاتى لقب دينا ، اس كے موقف كو ٹوِسٹ كر كے بات كچھ سے کچھ كر دينا يا مرچ مسالا لگانا تو خير تيسرے درجے كے نجی چينلوں كا صحافتى معيار ہے اس ميں جناب كا كيا قصور، ماحول سے اثر پذيرى کہہ ليجيے ۔ ليكن ايك بنيادى چيز خدا ہر نارمل انسان كو دے كر بھيجتا ہے انسان كى دماغى عمر اور اس كى جسمانى عمر كا توازن ، مجھے افسوس ہے۔۔۔۔ ورنہ مجھے "عرب پرست " كا ناشائستہ لقب دينے سے قبل ياد فرما ليتے کہ جب مراكشى خادماؤں کے غم ميں گھلتے حضرات عربوں سے محبت اور نفرت كى بحث چھيڑے بیٹھے تھے تو ميرا موقف كيا تھا ؟
جب اسلامى تعليمات سيكشن تك يہی بحث پہنچی تو ميرا موقف كيا تھا ؟
بلاشك امام بيھقي نے اس كو شعب الايمان ميں ذكر كيا ہے ليكن ساتھ ميں اس كى سند كے بارے ميں کچھ کہا ہے، اور دوسرے محدثين نے اس كو موضوعات كى كتب ميں شامل كيا ہے۔ اس ليے يہ موضوع روايت ہے۔

عربوں سے تین وجوہات کی بنا پر محبت کرو


بسم الله الرحمن الرحيم

أحبوا العرب لثلاث : لأني عربي ، والقرآن عربي ، وكلام أهل الجنة عربي۔
"عربوں سے تین وجوہات کی بنا پر محبت کرو : میں عربی ہوں ، قرآن عربی ہے ، اور اہل جنت کی زبان عربی ہے ۔"
(بروایت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ)
یہ روایت من گھڑت یعنی موضوع ہے۔

امام بيھقي رحمہ اللہ نے اس كو شعب الايمان ميں ذكر كيا ہے اور بعد ميں فرمايا ہے : تفرد به العلاء بن عمرو۔ يعنى علاء بن عمرو اس كو روايت كرنے ميں متفرد ہے۔
امام احمد رحمه الله نے فرمايا : هذا حديث كذب. يہ جھوٹ ہے۔ ايسا ہی ابو حاتم الرازي رح نے فرمايا ہے۔ امام الذھبى نے ميزان الاعتدال ميں ذکر كر كے اس كو موضوع قرار ديا ہے۔
امام ابن الجوزي رح نے بھی اس حديث كو اپنی كتاب "الموضوعات " ميں شامل كيا ہے۔
شيخ الباني رح نے بھی اس حديث كو موضوع قرار ديتے ہوئے اس کے متعلق تفصيلا سلسلة الاحاديث الموضوعة ميں لكھا ہے۔

دیکھیے :
شعب الايمان : 2/699
ميزان الاعتدال : 3/103
الموضوعات لابن الجوزي: 2/292
سلسلة الاحاديث الموضوعة : 160,161/1، 1412/3،2539/6
مجھے شديد حيرت ہے كہ اس كے باوجود يہ صاحب مجھے عرب پرست قرار ديتے ہيں اور نہ صرف يہ بلكہ مزيد مسالا لگاتے ہيں
مگر افسوس کے ساتھ اتنا عرض کرتا جاؤں گا کہ انگریزوں کی غلامی اور اس سے پہلے مغلوں کی بادشاہت میں رہنے کا اثر یہ ہوا کہ بادشاہوں کو حقیقت میں زمین پر اللہ کا سایہ فرض کر لیا گیا ہے اور سعودی گماشتوں کو کہ جو خلافت عثمانیہ سے غداری کے سبب اور انگریزوں کی چاپلوسی کے نتیجے میں سر زمین عرب پر قابض ہوئے تھے آج دین کا حقیقی نمائندہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
كيا ان کے پاس كوئى ثبوت ہے كہ يہ سب ميرے خيالات ہيں ؟ كس جگہ ميں نے یہ كہا ؟ سياستدانوں کے بيانات سے جھوٹی سچی بريكنگ نيوز نكالتے نكالتے اب يہ ہم جيسے عام انسانوں کے متعلق بھی گوئبلز کی وصيتوں پر عمل كرنے لگے۔ اگر كسى كو شرم آتى ہو تو اس كو شرم دلائى جائے۔
مجھے ياد نہيں پڑتا كہ اس مراسلے سے قبل حضرت كو مخاطب كيا ہو ايك ركن نے يہ قطعہ پوسٹ كيا
میر ثانی استاد قمر جلالوی فرماتے ہیں۔

پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب
ہے مثل یہودی یہ سعودی بھی عذاب
اس قوم کے بارے میں قمر کیا لکھئے
کعبے کی کمائ سے جو پیتی ہو شراب

تو استفسار كيا
میر ثانی استاد قمر جلالوی فرماتے ہیں۔

پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب
ہے مثل یہودی یہ سعودی بھی عذاب
اس قوم کے بارے میں قمر کیا لکھئے
کعبے کی کمائ سے جو پیتی ہو شراب
نكاليے كتاب اللہ اور دكھائيے يہ الفاظ كہاں مرقوم ہيں ؟ مجھے آيت اور سورت كا حوالہ دركار ہے۔جو لوگ اللہ كى كتاب پر، اور الله پر جھوٹ گھڑ سكتے ہيں سعودى شاہ زادى كا بيان گھڑنا ان كے ليے كيا مشكل ہے؟

جواب ميں ازخود وكالت كى ذمہ دارى اپنے سر لادتے ہوئے بى بى سى كى وڈيو ارسال كى جارہی ہے۔ يہ خالق كى كتاب كا ريفرنس ہے !
برسبيل تذكرہ مذكورہ حق گو ركن كے جواب كا اب بھی انتظار ہے

اور پھر امریکی صدر جارج بش کے ساتھ سعودی شاہ عبد اللہ کی شراب نوشی کرتے ہوئے اس ویڈیو کا بھی کسی شرعی حیلہ سے جواز پیدا کیا جا سکے تو کیا ہی بات ہو گی جو کہ کسی ایرانی خبر رساں ادارے نے نہیں بلکہ بی بی سی نے براڈکاسٹ کی تھی اور جس پر کسی عرب ملا کو آواز اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی تھی ۔ امید ہے اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ام نورالعین صاحبہ کو استاد قمر جلالوی کے اس مصرع کا مطلب سمجھ آ جائے گا
ٓ کعبہ کی کمائی سے جو پیتی ہے شراب
ربط
سوال جس مصرعے كے متعلق تھا وہ انڈر لائن موجود ہے، سوال بھی موجود ہے اور جواب بى بى سى كى وڈيو ! مستزاد شرعى حيلے كا طنز ، جب انسان خود سے فرض كر لے كہ دوسرے كا يہ موقف ہے تو ايسا ہی ہوتا ہے ورنہ نيٹ پر ميرى بہت تحريريں موجود ہيں اور ميرا مكتب فكر معروف ہے الحمد للہ ہمارے يہاں حيلے كا كوئى تصور نہيں نہ كتاب الحيل سے ہمارا كوئى واسطہ ہے۔ ليكن جناب صحافى ہيں ادھر ادھر كى نہ جوڑيں تو وہ سنسنى كيسے آئے جو ان كا مقصد ہے ؟اسى ليے عرض كيا كہ مسئلہ آئى كيو ليول كا ہے ۔ ذہنى عدم بلوغت !
ميرا سوال اب بھی باقى ہے خالق كى كون سى كتاب يہودى اور سعودى كو برابر قرار ديتى ہے؟ كيا يہ نسلى منافرت پھيلانے كى كوشش نہيں ؟
ام نورالعین صاحبہ نے اس خبر پر تبصرہ کے علاوہ سب کچھ کہا۔
اب تك تين دھاگوں ميں حضرت كے موضوع سے انتہائى متعلق تبصرے ديكھے ہيں اور غالبا اتنى ہی بار جناب موڈريٹرز سے كمك مانگ چکے ہيں، يہ موضوع بھی صرف خبر پر غير متعصبانہ تبصروں كى عمدہ مثال ہے ۔
 
ثبوت كى تلاش ميں اتنى تكليف فرمانے كا شكريہ ذرا سى مزيد زحمت كيجيے اور نشاندہی فرما ديں کہ
1- بی بى سى كى اس وڈيو رپورٹ كا كون سا جملہ اس بات كا ثبوت ہے کہ شاہ نے شراب پی ۔
2- وقت بتا ديں كہ كس منظر ميں شاہ سپ لے رہا ہے۔ ۔ نوش كا مطلب معلوم ہو گا ؟
ياد رہے کہ گلاس ميں موجود چيز كے متعلق ميں نے كوئى سوال نہں كيا ۔
اور پھر امریکی صدر جارج بش کے ساتھ سعودی شاہ عبد اللہ کی شراب نوشی کرتے ہوئے اس ویڈیو کا بھی کسی شرعی حیلہ سے جواز پیدا کیا جا سکے تو کیا ہی بات ہو گی جو کہ کسی ایرانی خبر رساں ادارے نے نہیں بلکہ بی بی سی نے براڈکاسٹ کی تھی اور جس پر کسی عرب ملا کو آواز اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی تھی ۔ امید ہے اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ام نورالعین صاحبہ کو استاد قمر جلالوی کے اس مصرع کا مطلب سمجھ آ جائے گا
ٓ کعبہ کی کمائی سے جو پیتی ہے شراب
ربط
 

عارف انجم

محفلین
عربوں کا تعصب ایک حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ لیکن

دنیا جانتی ہے العربیہ نیٹ ورک مغربی فنڈنگ سے چلتا ہے جس کے قیام کا مقصد ہی الجزیرہ کا مقابلہ کرنا تھا۔

انڈی پینڈنٹ ہو یا پاکستان کے مذہبی اخبارات یا لبرل ٹی وی چینل، دنیا بھر میں بااثر میڈیا ادارے کسی نہ کسی ایجنڈے پر ہی چل رہے ہوتے ہیں۔ مغرب میں ایک ایجنڈہ اسلام اور اسلامی عقائد پر ضرب لگانے کا ہے اور یہ کام پورے زوروشور سے جاری ہے اور اسی لیے منفی باتوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

سعودی معاشرے میں درجنوں خرابیاں ہوسکتی ہیں اور ہیں جیسے باقی دنیا میں ہیں جیسے پاکستان یا ایران میں۔ لیکن اس بنیاد پر مسالک کی جنگ چھیڑنا کہاں کا انصاف اور اس پر پاکستان کو مسلکی میدان جنگ میں تبدیل کرنا تو سراسر ظلم

ہم پہلے مسلک کے battleground تبدیل ہوئے، پھر افغان جنگ ، پھر القاعدہ امریکہ جنگ۔ اس میں معاشرے کے ہر طبقے ، خواہ وہ نام نہاد مذہبی پرست رہنما تھے یا ’’روشن خیال‘‘ سول سوسائٹی کے اراکین ، دائیں بازو کے حکمران تھے یا بائیں بازو کے عوامی جمہوری‘‘ قائدین، یا ماضی میں خود کو کمیونسٹ کہلوانے والے ، سب ہی نے بھاڑے کے ٹٹو کا کردار ادا کیا۔

کیا ہمارا قومی کردار محض بھاڑے کے ٹٹو کا رہ گیا ہے؟؟؟؟؟؟؟
 
خرم صاحب مجھے ان ہی قسم کی باتوں سے اختلاف ہے کیا ہم بغیر کسی فرقہ پر کیچڑ اچھالے اپنی بات کسی کو نہیں سمجھا سکتے۔ کیا آپ وہابی بھائیوں کی دل آزاری نہیں کر رہے آپ نے بھی وہی کام کیا جو ہماری ام نور العین بہن ۔۔۔ نےکیا تھا
كيا آپ نشان دہی كريں گے ميرى كون سى بات فرقہ وارانہ ہے؟ يہ پوسٹ ؟

فرقہ واريت تو يہ گھٹيا رافضى ايرانى ويب سائٹ پھيلا رہی ہے جس ربط بطور حوالہ ديا گيا ہے ۔
http://mail.taghribnews.ir/vdcfyjdc.w6d10aikiw.html
صحابه كرام رضوان الله عليهم اجمعين كی گستاخ رافضى سائٹ !
اس ميں كيا فرقہ وارانہ ہے؟ كيا آپ نے ربط ديكھا ؟ رافضيت ، قاديانيت كى طرح مسلم فرقہ نہيں بلكہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ذرا شيعہ علماء سے پوچھيے صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كو گالى دينے والا كون ہوتا ہے ؟ معاف كيجیے گا آپ تو خود شيعيت كو رافضيت كا متبادل سمجھ رہے ہيں ؟ ميرے نزديك سيدنا علي رضي الله عنه اور سيدنا معاويہ رضي الله عنه كا گستاخ ايك برابر ملعون ہے اور اس ويب سائٹ كے رافضى اور گھٹيا ہونے ميں كوئى شبہ نہيں ۔
مجھے وہابى نجدى كہلانے سے كوئى فرق نہيں پڑتا ، اٹس آ گريٹ كومپلى مينٹ فور مى ۔ مجھ جيسے گنہگاروں كى تو تشكر سے آنكھيں نم ہوتى ہيں اس بات پر ۔
 

ساجد

محفلین
معزز اراکین ،اس بات کا خیال رکھیں کہ مسلمانوں کےکسی بھی فکری و مسلکی گروہ کو، جو اللہ کی وحدانیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (ختم) نبوت پر ایمان رکھتا ہے، بھلے وہ دینی طور پر مثالی عمل کا مالک نہ ہو، شرعی لحاظ سے اسے کافر نہیں کہا جا سکتا۔ اردو محفل کے قوانین کے مطابق بھی ایک دوسرے کو انفرادی یا اجتماعی طور پر کافر گرداننا ناقابل برداشت ہے۔
لہذا انتہاؤں کو چھونے اور جذبات کی رو میں بہہ کر ایک دوسرے پر الزام تراشی سے گریز فرمائیں۔
 
اب جو ہمارے وہابی بھائی ہیں وہ کہتے یہاں نجد سے مراد عراق ہے
يہ خود ہمارے حبيب حضرت محمد مصطفى صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے كسى امتى كا نہيں ۔خدا سطحى اور يك طرفہ علم سے محفوظ فرمائے ۔
امام احمد فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُشِيرُ بِيَدِهِ يَؤُمُّ الْعِرَاقَ: " هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، - ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ "
[مسند أحمد ط الرسالة (10/ 391) رقم6302 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ]
صحابی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ہاتھ سے عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فتنہ یہاں ہے فتنہ یہاں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسم نے ایسا تین کہا اورفرمایا یہیں سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے۔
www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=17594
 

سعود الحسن

محفلین
بی بی سی اردو پر شہزادی بسمہ بنت سعود بن عبدالعزیز کے انٹرویو کا ترجمہ شایع کردیا گیا ہے ، یہاں پیش کر رہا ہوں۔

سعودی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی شہزادی بسمہ بنت سعود بن عبدالعزیز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ملک سعودی عرب میں بہت سی تبدیلیاں دیکھنا چاہتی ہیں مگر ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ خواتین کو گاڑیاں چلانے کی اجازت دی جائے۔

میں سعودی عرب کے سابق بادشاہ شاہ سعود کی بیٹی کی حیثیت سے بات کر رہی ہوں۔ میرے والد نے خواتین کی پہلی یونیورسٹی قائم کی، غلامی کو ممنوع کیا اور ایک آئینی بادشاہت بنانے کی کوشش کی جس میں بادشاہ اور وزیرِ اعظم کے عہدوں میں فرق واضح ہو۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ میرے پیارے وطن میں ایسا ہو نہ سکا۔

مجھے اپنی پُر وقار اور فراغ دلی سے بھرپور ثقافت پر فخر ہے لیکن ہمارے پاس معاشرے کے ضابطے کے لیے سول قوانین نہیں ہیں اور ہمیں ان کی اشد ضرورت ہے۔
ایک بیٹی، بہن، سابقہ بیوی، ماں، کاروباری خاتون اور ایک صحافی کی حیثیت سے میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں اپنے ملک میں دیکھنا چاہتی ہوں۔


آئین


میں ایک مکمل آئین دیکھنا پسند کروں گی جو کہ تمام مردوں اور عورتوں کے ساتھ قانونی طور پر برابری کا برتاؤ کرے اور ساتھ میں ہمارے سول قوانین اور سیاسی ثقافت کا بھی خیال رکھے۔

مثال کے طور پر اس وقت سعودی عدالتوں میں تمام فیصلے ججوں کی قرآن کریم کی انفرادی تشریح پر کیے جاتے ہیں۔ یہ عالمی طور پر متفقہ اصولوں یا کسی تحریری آیئن کے بجائے ان کے ذاتی عقائد پر مبنی ہوتا ہے۔


شہزادی بسمہ بنت سعود بن عبد العزیز

  • برطانیہ اور موئٹزرلینڈ میں تعلیم یافتہ
  • لندن میں اپنے بچوں کے ساتھ رہائش پزیر
  • شہزادی بسمہ طلاق کے مشکل مراحل سے گزر چکی ہیں
میں یہ نہیں کہ رہی کہ مغربی نظام کو اپنا لیا جائے مگر ہمیں اس نظام کا ایسا طرز ضرور لانا چاہیے جو ہماری ضروریات اور ثقافت کے مطابق ہو۔ چنانچہ ہمارا آئین قران کے فلسفے پر بننا چاہیے جس کے قوانین پتھر پر لکیر ہوں اور ججوں کے مزاج پر منحصر نہ ہو۔

خصوصی طور پر آئین کو فرقے، جنس یا معاشری حیثیت سے قطع نظر ہو کر ہر شہری کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔ قانون کی نظر میں ہر کسی کو برابر ہونا چاہیے۔


طلاق کے قوانین


میرا ماننا ہے کہ طلاق کے قوانین شدید طور پر ظالمانہ ہیں۔

اس وقت اگر سعودی عرب میں کسی عورت کو طلاق چاہیے تو وہ صرف ’خالی یا دھالی‘ کے تحت ہی لے سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یا تو اس کو ایک بڑی رقم ادا کرنی ہوگی یا پھر اسے طلاق مانگنے کی وجوہات پر کسی کو گواہ بنا کر پیش کرنا ہوگا۔ یہ دوسری شرط پوری کرنا تو تقریباً ناممکن ہے کیونکہ اکثر اوقات یہ وجوہات شادی کی چار دیواری کے پیچھے ہی پوشیدہ ہوتی ہیں۔

خواتین کے لیے طلاق کو مشکل بنانے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ طلاق کے کسی بھی موقعے پر چھ سال سے زیادہ عمر کے کسی بھی بچے کو ازخود ہی باپ کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

قرآنِ کریم (جس پر یہ سارے قوانین مبنی ہونے چاہیے ہیں) اس سے بلکل منافی ہے۔ قرآن نے خواتین کو صرف شدید اختلافات کے باعث بھی طلاق لینے کا مکمل حق دیا ہے۔


تعلیمی نظام کی ازسرِنو ترتیب


سعودی عرب میں خواتین کے ساتھ برتاؤ ہمارے بچوں کو سکولوں میں دی جانے والی تعلیم کا نتیجہ ہیں۔
ہمارے نصاب کا مواد انتہائی خطرناک ہے۔ سب سے پہلے تو ہمارے بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ خواتین کی معاشرے میں حیثیت کم تر ہے۔ ان کا کام صرف اپنے خاندان کی خدمت کرنا اور بچے پالنا ہے۔ انہیں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اگر انہیں خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنی پڑے تو وہ ان کا شوہر ہونا چاہیے۔ انہیں پڑھایا جاتا ہے کہ ’اگر خواتین اپنے شوہروں کی فرمانبرداری نہیں کریں گی تو فرشتے ان پر لعنت بھیجیں گے۔‘ یہ سب قرآن کی غلط تشریحوں کا نتیجہ ہے۔ میں ان عقائد کو بنیادی طور پر ظالمنانہ سمجھتی ہوں۔

اس کے علاوہ ہمارے تعلیمی نظام کی توجہ دینی مضامین جیسے کہ حدیث، فقہ، تفسیر اور قرآن پر مرکوز ہے۔ وہاں سوچ یہ ہے کہ دین کے علاوہ کچھ بھی پڑھنے سے آپ کو جنت میں جانے کے لیے مدد نہیں ملے گی تو اپنا وقت برباد نہ کیا جائے۔ میرے خیال میں دینی تعلیم صرف قرآن و سنت تک محدود ہونی چاہیے جہاں اسلام کی اصل اخلاقیات ہیں۔ باقی سب کچھ صرف بغیر سمجھے فقط حافظے پر مبنی علمیت ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ اس نے ہمارے نوجوانوں کو بنیاد پرستی اور دہشتگردی کی جانب دھکیل دیا ہے۔

بجائے اس کے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی ذہانت ایسے جملے یاد کرنے پر لگائیں جن کی اصلیت پر بھی شک ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں آزادانہ اور جدت آمیز سوچ پر مجبور کریں اور ان کو اپنے معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کریں۔ اسلام کے آغاز کے دن بڑے تخلیقی تھے۔ علماء سائنس اور ادب میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ہمارا دین وہ ڈھال نہیں ہونا چاہیے جس کے پیچھے ہم دنیا سے چھپیں بلکہ یہ وہ طاقت ہونی چاہیے جو ہمیں اپنے اردگرد کے ماحول کو بہتر اور جدت پسند بنانے میں مدد کرے۔ یہی اسلام کی اصل روح ہے۔


سماجی خدمات کی مکمل اصلاحات


وزارتِ سماجی امور، خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے ان پر ہونے والے مظالم کو نظرانداز کر رہی ہے۔ مظلوم خواتین جن پناہ گاہوں میں جا سکتی ہیں وہاں ان کو بار بار کہا جاتا ہے کہ پناہ مانگنے سے انہوں نے اپنے خاندانوں کی بے عزتی کروائی ہے۔

اگر وہ کسی بااثر خاندان سے تعلق رکھتی ہوں تو انہیں ایک طاقتور مرد کے خوف سے فوراً واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ نتیجاتاً ہمارے سامنے ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں پڑھی لکھی خواتین کو ان پر ظلم کرنے والوں کے پاس واپس بھیجا گیا اور انہوں نے خود خوشی کر لی۔

ہمیں آزادانہ خواتین کی پناہ گاہیں بنانا ہوں گی جہاں ان کے حقوق کو خاندانی روایات سے زیادہ طاقتور قوانین کا تحفظ حاصل ہو۔

وزارتِ نہ صرف خواتین کے حقوق کو پامال کرتی ہے بلکہ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت کی بھی ایک وجہ ہے۔ یہ ایک بے ایمان نظام ہے اور اس میں شفافیت کی کمی کی وجہ سے ہماری تقریباً آدھی آبادی غریب ہے حالانکہ ہم دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہیں۔


محرم کا کردار


سعودی عرب میں خواتین محرم کے بغیر پھر نہیں سکتیں۔

نبی کے وقت پر خواتین کے ساتھ کسی مرد کو بھیجا جاتا تھا مگر اس وقت کا عرب ایک قزاقوں سے لدے ہوئے دشت سے کم نہیں تھا۔

آج کی دنیا میں اس قانون کا مقصد صرف خواتین کی آمد و رفت کو محدود کرنا ہے۔ اس سے نہ صرف خواتین کی سوچ بچگانہ رہ جاتی ہے بلکہ وہ مردوں پر بھی بلا وجہ بوجھ بنتی ہیں۔

اس وقت سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت بھی نہیں ہے۔

بظاہر مغربی مبصرین کے لیے یہ سب سے زیادہ تشویش کی بات ہے تاہم ابھی دوسرے اہم حقوق ہیں جن کی وصولی ضروری ہے۔

میں یقینی طور پر خواتین کے گاڑی چلانے کے حق میں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ اس قانون کی تلفی کا یہ صحیح وقت نہیں۔ موجودہ حالات میں اگر کوئی خاتون گاڑی چلائے گی تو اس کو سبق سکھانے کے لیے بلا وجہ روکا یا مارا بھی جا سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ میں تب تک خواتین کے گاڑی چلانے کے خلاف ہوں جب تک ہم اتنے پڑھے لکھے نہ ہوں اور جب تک ہمارے پاس اس طرح کے پاگلپنے سے تحفظ کے لیے ضروری قوانین نہ ہوں۔ ورنہ تو یہ بلکل اس کے مترادف ہے کہ شدت پسندوں کو اجازت دے دی جائے کہ وہ ہمیں مزید تنگ کریں۔ اگر خواتین کے گاڑی چلانے پر انہیں تنگ کیا گیا تو وہ اسلامی دنیا سے کہیں گے کہ دیکھا خواتین کے گاڑیاں چلانے سے کیا ہوتا ہے، انہیں چھیڑا اور تنگ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد خواتین کو قابو کرنے کے لیے سخت تر قوانین کا مطالبہ آجائے گا اور یہ وہ چیز ہے جس کو ہم فی الوقت برداشت نہیں کر سکتے۔ چنانچہ اس اقدام سے پہلے قانون اور قوانین کی نظر میں خواتین کے بارے میں بنیادی تبدیلی ضروری ہے۔

بنیادی طور پر سعودی عرب میں تمام شہریوں کے حقوق اہم ہیں اور ان میں سے ہی خواتین کے حقوق رونما ہوں گے۔
 
سب سے پہلے تو ستاروں والے ساجد صاحب کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد ، منتظم بننے پر اور بہت ہی نازک اور سرگرم زمروں کے ناظم بننے پر مجھے از حد خوشی ہوئی کیونکہ عموما ان زمرات پر گفتگو کرنا سب کے بس کی بات نہیں ہوتی اور تحمل اور گفتگو کو دوبارہ ٹریک پر لانا اس سے بھی زیادہ دشوار مگر ان سب باتوں کے باوجود یہ مباحث اور گفتگو بہت ضروری اور اصلاح احوال کے لیے لازم بھی ہے۔
 
معزز اراکین ،اس بات کا خیال رکھیں کہ مسلمانوں کےکسی بھی فکری و مسلکی گروہ کو، جو اللہ کی وحدانیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (ختم) نبوت پر ایمان رکھتا ہے، بھلے وہ دینی طور پر مثالی عمل کا مالک نہ ہو، شرعی لحاظ سے اسے کافر نہیں کہا جا سکتا۔ اردو محفل کے قوانین کے مطابق بھی ایک دوسرے کو انفرادی یا اجتماعی طور پر کافر گرداننا ناقابل برداشت ہے۔
لہذا انتہاؤں کو چھونے اور جذبات کی رو میں بہہ کر ایک دوسرے پر الزام تراشی سے گریز فرمائیں۔
بات يہی کہ صرف ايك جانب كے لوگوں كو انتہاؤں كو چھونے ،الزامات لگانے اور جذبات كا اظہار كرنے كى اجازت ہے ، دوسرى جانب كا موقف آتے ہی امن پسندوں اور غير جانب داروں كو پند ونصائح كى پوٹلى كھول لينى پڑتی ہےيا تالا لگا ديا جاتا ہے۔ جب تك بات نجد اور وہابيت پر رہتی ہے تو اصلاحى گفتگو قرار دے كر جارى رہتى ہے، رافضيت اور گستاخان صحب كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كا ذكر شروع ہوتا ہے تو ہاہا كار مچ جاتى ہے ۔ نازك اور حساس موضوعات كيا ہيں اس كا فيصلہ اپنوں كو ريوڑياں بانٹنے والے اندھے كريں گے؟
 

ساجد

محفلین
بات يہی کہ صرف ايك جانب كے لوگوں كو انتہاؤں كو چھونے ،الزامات لگانے اور جذبات كا اظہار كرنے كى اجازت ہے ، دوسرى جانب كا موقف آتے ہی امن پسندوں اور غير جانب داروں كو پند ونصائح كى پوٹلى كھول لينى پڑتی ہےيا تالا لگا ديا جاتا ہے۔ ۔
نہیں ، محترم بہن ، ایسی بات نہیں ہے۔اگرچہ اپنا نکتہ نظر بیان کرنے میں اگرچہ کچھ اراکین سخت الفاظ استعمال کر لیتے ہیں لیکن کسی پر کفر کا فتوی لگانا اس سے بالکل الگ بات ہے۔
آپ میری بات کو اہمیت نہ دیں ، چلیں محفل کے قوانین سے بھی اتفاق نہ کریں لیکن ایک مسلمان ہونے کے ناطے میرے اور آپ کےآقا کریم علیہ صلوۃ والسلا م کے احکامات و تعلیمات پر عمل کرنا تو ہم سب پر لازم ہے۔
 
بات يہی کہ صرف ايك جانب كے لوگوں كو انتہاؤں كو چھونے ،الزامات لگانے اور جذبات كا اظہار كرنے كى اجازت ہے ، دوسرى جانب كا موقف آتے ہی امن پسندوں اور غير جانب داروں كو پند ونصائح كى پوٹلى كھول لينى پڑتی ہےيا تالا لگا ديا جاتا ہے۔ جب تك بات نجد اور وہابيت پر رہتی ہے تو اصلاحى گفتگو قرار دے كر جارى رہتى ہے، رافضيت اور گستاخان صحب كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كا ذكر شروع ہوتا ہے تو ہاہا كار مچ جاتى ہے ۔ نازك اور حساس موضوعات كيا ہيں اس كا فيصلہ اپنوں كو ريوڑياں بانٹنے والے اندھے كريں گے؟

ام نور العین ، آپ جب دین کی بات کرتی ہیں تو تحمل و بردباری تو آپ پر دوسروں سے کہیں زیادہ لازم آتی ہے ۔

یہی اعلی درجے کی اخلاقی قدریں ہی تو ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر کوئی سخت اور تلخ بات کہے بھی تو بھی ہم خوش خلقی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
 

ساجد

محفلین
بات يہی کہ صرف ايك جانب كے لوگوں كو انتہاؤں كو چھونے ،الزامات لگانے اور جذبات كا اظہار كرنے كى اجازت ہے ، دوسرى جانب كا موقف آتے ہی امن پسندوں اور غير جانب داروں كو پند ونصائح كى پوٹلى كھول لينى پڑتی ہےيا تالا لگا ديا جاتا ہے۔ جب تك بات نجد اور وہابيت پر رہتی ہے تو اصلاحى گفتگو قرار دے كر جارى رہتى ہے، رافضيت اور گستاخان صحب كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كا ذكر شروع ہوتا ہے تو ہاہا كار مچ جاتى ہے ۔ نازك اور حساس موضوعات كيا ہيں اس كا فيصلہ اپنوں كو ريوڑياں بانٹنے والے اندھے كريں گے؟
ابھی تو چشمے تک ہی نوبت آئی ہے۔ آپ میری اچھی بہن ہیں جب مکمل اندھا ہو گیا تو سب سے زیادہ ریوڑیاں آپ ہی کو دوں گا:)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بات يہی کہ صرف ايك جانب كے لوگوں كو انتہاؤں كو چھونے ،الزامات لگانے اور جذبات كا اظہار كرنے كى اجازت ہے ، دوسرى جانب كا موقف آتے ہی امن پسندوں اور غير جانب داروں كو پند ونصائح كى پوٹلى كھول لينى پڑتی ہےيا تالا لگا ديا جاتا ہے۔ جب تك بات نجد اور وہابيت پر رہتی ہے تو اصلاحى گفتگو قرار دے كر جارى رہتى ہے، رافضيت اور گستاخان صحب كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كا ذكر شروع ہوتا ہے تو ہاہا كار مچ جاتى ہے ۔ نازك اور حساس موضوعات كيا ہيں اس كا فيصلہ اپنوں كو ريوڑياں بانٹنے والے اندھے كريں گے؟

یہ فقط اور فقط آپ کی غلط فہمی ہے، یہاں اس فورم پر نام لے لے کر ایک دوسرے کے مسلک کو غلط اور کافر قرار دینے کو ہرگز برداشت نہیں کیا جا سکتا، اگر آپ آنکھیں کھلی رکھتیں تو دیکھتیں کہ جس تھریڈ کو میں نے مقفل کیا اور جس کا ڈھونڈرا آپ برابر پیٹ رہی ہیں اور طعنے اور کوسنے دے دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی ہیں، تو اِس تھریڈ میں بھی یہاں جب دوسرے یا آپ کے مسلک کے خلاف نام لیکر بات شروع گئی تو اس پر بھی گرفت کی گئی اور اس کو بھی روکا گیا اور اگر یہ سلسلہ ختم نہ ہوا تو اس کو بھی مقفل کر دیا جائے گا۔
 
ابھی تو چشمے تک ہی نوبت آئی ہے۔ آپ میری اچھی بہن ہیں جب مکمل اندھا ہو گیا تو سب سے زیادہ ریوڑیاں آپ ہی کو دوں گا:)۔
آپ اس محاورےكے مجاز كو خود پر زبردستى چسپاں كرنا چاہتے ہيں تو كوئى روك نہيں ورنہ ميں نے آپ كا نام نہيں ليا ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top