سعودی عرب نے سلامتی کونسل کی رکنیت کیوں ٹھکرائی؟

کیوں سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نشست مسترد کر دی ؟
غفران ساجد قاسمی
اس ہفتہ عالمی میڈیامیں ایک خبرنے خاص شہرت حاصل کی،خبریہ تھی کہ ایشیاء پیسیفک خطہ کی نمائندگی کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سعودی عرب کوسلامتی کونسل کی ایک نشست کے لیے منتخب کیا،لیکن سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی پیشکش یہ کہہ کرٹھکرادی کہ یہ ادارہ اپنے مقاصدسے منحرف ہوگیاہے اورسلامتی کونسل کی کارکردگی پرسوالیہ نشان اٹھاتے ہوئے اسے دوہرامعیاربرتنے والاادارہ بتاکرسلامتی کونسل کی رکنیت کومستردکردیا۔سعودی عرب کے اس فیصلہ نے جہاں عالمی رہنماؤں کوسکتہ میں ڈال دیا وہیں کچھ رہنماؤں نے اسے سعودی عرب کاعجلت میں اٹھایاگیاغیردانشمندانہ قدم بھی بتایاہے۔سعودی عرب نے اس سے قبل بھی اسی طرح کامظاہرہ کیاتھاجب اسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریرپیش کرنے کے لیے دعوت دی گئی تھی اس وقت بھی سعودی عرب نے تقریرپیش کرنے سے یہ کہہ کرانکارکردیاتھاکہ جب تک اقوام متحدہ مشرق وسطیٰ بالخصوص شام اورفلسطین جیسے اہم اورپیچیدہ مسائل کوحل نہیں کرتاوہ جنرل اسمبلی کی بائیکاٹ کرتارہے گا،اورسلامتی کونسل کی رکنیت کومستردکرتے ہوئے بھی سعودی عرب نے تقریبا پھرسے وہی مسائل اٹھائے ہیں جس میں شام کاتذکرہ بطورخاص کیاگیاہے ،لیکن خودسعودی عرب بھی اپنے اس احتجاج میں اپنے دوہرے معیارکوچھپانہیں سکاکہ ایک طرف تووہ شام کے مسئلہ کی حل کی پرزوروکالت کرتاہے وہیں دوسری جانب مصرکویکسرنظراندازکردیتاہے،جوکہ خودسعودی عرب کے دوہرے معیارکی ایک واضح دلیل ہے۔سعودی عرب نے ظاہری طورپرسلامتی کونسل کی رکنیت کی پیشکش کوٹھکراکریہ تاثردینے کی کوشش کی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے مسائل کوحل کرنے کی ایماندارانہ کوشش کررہاہے،اوراس کے لیے وہ اپنے دیرینہ دوست امریکہ بہادرکوبھی آنکھیں دیکھاسکتاہے ،لیکن کیاسعودی عرب اس پیشکش کوٹھکرانے میں واقعتاًمخلص ہے؟کیاسعودی عرب کایہ قدم واقعتاجرأتمندانہ اورایمانی غیرت وحمیت کی علامت ہے یاپس پردہ کچھ اورہی ہے؟کیوں کہ ایک بہت ہی تلخ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب ایک ایساملک ہے جواپنی فوجی ضروریات کے لیے مکمل طور پر امریکہ پرمنحصرہے،اوراقوام متحدہ کوآنکھیں دکھاناگویابراہ راست امریکہ بہادرکوچیلنج کرناہے جوکہ سعودی عرب کے لیے مستقبل میں بہت بڑاخطرہ بن سکتاہے اوروہ سعودی عرب جوہمیشہ سے امریکہ بہادرکے اشاروں پرناچتارہاہے کیاواقعتااس کے اندراتنی ہمت وجرأت پیداہوگئی ہے کہ وہ اپنے آقاامریکہ بہادرکوآنکھیں دکھاسکے؟حالاں کہ ابھی تک اس سلسلہ میں امریکہ کاکوئی واضح ردعمل نہیںآیاہے جواس ڈراماکومزیدپیچیدہ بنادیتاہے۔
اس سے قبل کہ سعودی عرب کے اس اقدام پرمزیدگفتگوکی جائے،ایک نظراقوام متحدہ اورسلامتی کونسل پہ ڈالتے چلیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعدجب عالمی رہنماؤں نے یہ محسوس کیا کہ اب دنیامزیدکسی تیسری جنگ عظیم کابوجھ برداشت نہیں کرپائے گی،انہوں نے ایک ایسے ادارے کے قیام کاخاکہ تیارکیاجوتمام ممالک کوایک چھت کے نیچے جمع کرکے اس کے مسائل کوحل کرنے کی جانب ایماندارانہ کوشش کرے،حالاں کہ اس وقت بھی اس طرح کی ایک تنظیم "لیگ آف نیشنز"کے نام سے موجودتھی،لیکن وہ ادارہ عالمی بحران کوحل کرنے میں بری طرح ناکام رہاجس کے نتیجہ میں دنیاکودوسری جنگ عظیم کاسامناکرناپڑا۔اقوام متحدہ کاقیام دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد25/اکتوبر1945ء کوہوا،اقوام متحدہ کی بنیاد51/ممالک کی رکنیت سے پڑی اوراس وقت دنیاکے 193/ممالک اس عظیم تنظیم کے رکن ہیں۔دنیامیں امن وسلامتی کے قیام کویقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی"سلامتی کونسل "قائم کی گئی جس کی پہلی باضابطہ میٹنگ 17/جنوری 1946ء کولندن کے ویسٹ منسٹرکے چرچ ہاؤس میں ہوئی۔سلامتی کونسل میں پانچ ر کن ممالک کومستقل رکنیت کی حیثیت دی گئی اوراقوام متحدہ کے منشورکے خالقوں نے ان پانچ ارکان کوکسی بھی تجویزکوویٹوکرنے کاخصوصی اختیاردیا۔منشورکے خالقوں کی یہ دلیل ہے کہ یہ پانچ مستقل اراکین جن میں چین،فرانس،روس،برطانیہ اورامریکہ شامل ہیں،انہوں نے دوسری جنگ عظیم کوروکنے اوراقوام متحدہ کے قیام میں اہم کرداراداکیاہے اسی لیے انہیںیہ خصوصی اختیارات دیے جارہے ہیں تاکہ وہ مستقبل میں بھی اپنے اس اہم کردارکے ذریعہ دنیامیں امن وسلامتی کوقائم رکھنے میں خصوصی کرداراداکرتے رہیں۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل کے دس غیرمستقل ممبران ہوتے ہیں جودوسال کے لیے منتخب ہوتے ہیں،اس کاطریقہ کاریہ ہوتاہے کہ ہرسال جنرل اسمبلی پانچ غیرمستقل ممبران کومنتخب کرتی ہے جودنیاکے مختلف خطوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔سلامتی کونسل میں پاس ہونے کے لیے کسی بھی تجویزکو9/ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ ان پندرہ مستقل وغیرمستقل ممبران کے ووٹ پرمشتمل ہے۔ تجویزکوپاس ہونے کے لیے 9/ووٹ کی ضرورت ہے لیکن اسے ردکرنے کے لیے پانچ مستقل ممبران میں سے کسی ایک کا"ویٹو"کردیناکافی ہے۔اب تک ویٹوپاورکااستعمال کرنے والوں میں روس سب سے آگے ہے۔روس نے 123/مرتبہ اپنے ویٹوپاورکااستعمال کیاہے جب کہ امریکہ89/،برطانیہ 32/فرانس18/اورچین نے 6/مرتبہ اپنے اس خصوصی اختیارکواستعمال کیاہے۔سلامتی کونسل کے مقاصدمیں اہم یہ ہیں:دنیامیں امن وسلامتی قائم کرنا،مختلف ممالک کے درمیان پیداہونے والے تنازعات کوپرامن طریقہ سے حل کرنا،تنازعات کوحل کرنے کے لیے روڈمیپ بنانا،مختلف ممالک کے لیے اسلحوں کے نظام کوباقاعدہ بنانا،ایسے امورکی نشاندہی کرناجوامن وسلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہوں اوران کے حل کے لیے مناسب طریقہ کارمتعین کرنا،رکن ممالک کی ایک دوسرے ملک کے خلاف حملوں کوروکنے کے لیے طاقت کااستعمال کیے بغیر معاشی پابندیوں کے ذریعہ اسے اس قدم سے بازرکھنا،جہاں ممکن ہووہاں ملٹری ایکشن لینا،نئے ممبرکے داخلہ کی سفارش کرنا،اقوام متحدہ کے لیے سکریٹری جنرل کے انتخاب اورانٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے لیے ججوں کے تعین کے لیے جنرل اسمبلی کوسفارش کرنا وغیرہ سلامتی کونسل کے اہم اغراض ومقاصدمیں شامل ہیں۔لیگ آف نیشنزکی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے ارکان ہیڈکوارٹرمیں موجودنہیں ہوتے تھے جس کی وجہ کربحرانوں کوحل کرنے میں کبھی سالوں لگ جاتے تھے جبکہ سلامتی کونسل کے ارکان ممالک کے لیے یہ لازم ہے کہ ان کے نمائندے ہروقت ہیڈکوارٹرمیں موجودرہیں تاکہ کسی وقت بھی کسی بھی بحران سے فورانمٹاجاسکے۔سلامتی کونسل کی صدارت ہرمہینہ بدلتی رہتی ہے۔
سلامتی کونسل کے حالیہ انتخاب میں سعودی عرب کوپاکستان کی نشست ملی ہے کیوں کہ اب تک پاکستان ایشیاء پیسیفک خطہ کی نمائندگی کررہاتھاجواپنی میعادپوری ہونے کے بعد رخصت ہونے والاہے اوروہ نشست جنرل اسمبلی کی ووٹنگ کے بعدسعودی عرب کوملی ہے جسے سعودی عرب نے ٹھکرادیاہے۔2014ء اور2015ء کے لیے جن پانچ غیرمسقتل ممبران کاانتخاب عمل میںآیاہے ان میں چاڈ،چلی،لیتھونیا،نائیجیریااورسعودی عرب شامل ہیں۔193/رکنی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سعودی عرب کو176/ووٹ حاصل ہوئے جواس بات کی علامت ہے کہ سعودی عرب کوبین الاقوامی کردارادکرنے والے ادارہ میں بہت خصوصی اہمیت حاصل ہے۔
اب یہاں ایک بڑاسوال پیداہوتاہے کہ آخروہ سعودی عرب جس کی ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ وہ سلامتی کونسل کی نشست حاصل کرے،اس نے یہ نشست آخر کیوں ٹھکرائی؟ رہا اس کایہ الزام کہ دنیاکاسب سے طاقتورادارہ بے راہ روی کاشکارہوچکاہے اوروہ اپنے مقاصدسے منحرف ہوچکاہے تویہ کوئی نئی بات نہیں ہے،عالمی سیاست پرنظررکھنے والاہرشخص جانتاہے کہ اقوام متحدہ اس وقت چندبڑے ممالک کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن چکاہے اوروہ اسے دنیامیں امن وسلامتی قائم کرنے کے لیے نہیں بلکہ دنیاکے امن کوبگاڑنے کے لیے استعمال کررہے ہیں،ایساتونہیں ہے کہ سعودی عرب اس سے قبل اس سے واقف نہیں تھا،جب عراق پرحملہ ہواشایداس وقت بھی سعودی عرب جانتاتھاکہ یہ حملہ غلط ہے،اسی طرح افغانستان کاحملہ بھی کسی سے ڈھکاچھپانہیں ہے توپھراس وقت سعودی عرب نے یہ جرأت رندانہ کیوں نہیں دکھائی؟فلسطین کامسئلہ جوکہ عالم اسلام کے لیے کسی تازیانہ سے کم نہیں ہے،آج قبلۂ اول کی بے حرمتی اوراس پرقبضہ دنیاکے ہرمسلمان کے لیے باعث تکلیف ہے،سعودی نے کبھی پرزورطریقہ سے اس کے خلاف آوازاٹھائی؟مصرمیں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کوماراجارہاہے،بالخصوص اسلامی کردارکے حامل مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے لیکن سعودی حکومت نے کبھی آوازاٹھائی ؟نہیں بلکہ ایک طرح سے وہ خود اس کھیل میں برابرکاشریک ہے،توپھرشام کے مسئلہ پراتنی ناراضگی کیوں؟کیایہ دوہرامعیارنہیں ہے؟جس سعودی عرب نے سلامتی کونسل اوراقوام متحدہ پردوہرے معیارکاالزام لگایاہے وہ پہلے ہی خوداس دوہرے معیارکاشکارہے،اصل مسئلہ یہ نہیں ہے جووہ بول رہے ہیں،واشنٹگن پوسٹ نے سعودی عرب کے اس فیصلہ پربڑااچھاتبصرہ کیاہے اورکہاہے کہ سعودی کوچاہیے تھاکہ وہ رکن بن کرسلامتی کونسل میں بیٹھ کراس مسئلہ کاحل نکالتا،نہ کہ ٹھکراکر،ٹھکرانادانشمندی نہیں ہے۔لیکن جولوگ سعودی عرب کی پالیسی سے بخوبی واقف ہیں ان کے نزدیک سعودی حکومت کایہ فیصلہ انتہائی عیارانہ ہے،اس فیصلہ سے ایک طرف جہاں اس نے عالم اسلام کویہ تاثردینے کی کوشش ہے کہ وہ عالم اسلام کے مسائل کوحل کرنے کے لیے سلامتی کونسل جیسے اہم ادارہ کی رکنیت کوٹھکراسکتاہے وہیں اس نے اپنے ناقدین کاناطقہ اس طورپربندکرنے کی کوشش کی ہے کہ اگروہ سلامتی کونسل میں بیٹھ جاتا ہے توپھراس کی پول کھل جائے گی،کیوں کہ باہررہ کروہ آسانی سے خاموشی کے ساتھ امریکہ بہادرکی کارروائیوں کودیکھ سکتاہے ،لیکن اگروہ سلامتی کونسل میں بیٹھ گیاتواسے ہرحال میں ووٹ کرناہوگا،اب اگروہ حمایت میں ووٹ کرتاہے تواسے عالم اسلام کی طعن وتشنیع کاسامناکرناپڑے گااوراگروہ مخالفت میں ووٹ کرتاہے تواسے اپنے آقاامریکہ بہادرکی ناراضگی مول لینی پڑے گی جووہ کبھی نہیں چاہے گاکیوں کہ سعودی عرب نے اپنی فوجی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے آپ کوپوری طرح امریکہ بہادرپرمنحصرکردیاہے اوراس طرح ممکن ہے کہ اسے بہت ساری پابندیوں کاسامناکرناپڑے۔اسی لیے سعودی عرب نے اسی میں عافیت سمجھی کہ سلامتی کونسل کی نشست سے زیادہ قیمتی امریکہ بہادرکی وفاداری ہے اوروہ وفاداری اسی صورت اداہوسکتی ہے کہ اپنے آپ کوسلامتی کونسل کی نشست سے باہررہ کرفیصلہ سازبننے کے بجائے تماشائی بن جائے،اسی میں بھلائی اورعافیت ہے۔یہ ہے اصل رازاورمقصدجس کی وجہ سے سعودی عرب نے سلامتی کونسل کی نشست کوٹھکرادیا۔سلامتی کونسل کی نشست کوٹھکرانے میں کسی ایمانی جذبہ یادینی غیرت وحمیت کاکوئی عمل دخل نہیں ہے،جوکہ دیگربہت سارے امورمیں سعودی عرب کی مجرمانہ خاموشی سے ظاہرہے۔اللہ ہدایت نصیب کرے۔
آمین۔
ماخوز از: تعمیر نیوز ڈاٹ کام
لنک:http://www.taemeernews.com/2013/10/Saudi-Arabia-rejects-UN-security-council-seat.html?spref=fb
 

قیصرانی

لائبریرین
کل میں نے ایک پاکستانی کالم نگار کا لکھا تھا (سابقہ وزیرِ قانون ڈاکٹر بابر اعوان) کہ ہمیں چاہیئے کہ قالین مارکہ اور کھجور مارکہ برادران اسلام سے معذرت کر کے اپنی راہ الگ کر لیں۔ بالکل یہی بات ہے :)
 

arifkarim

معطل
سعودیوں کا دوغلہ پن کسے سے ڈھکاچھپا تو نہیں ہے۔ شام کیخلاف وہابی جہادی بھیجنے والا ملک اگر سلامتی کونسل کی سیٹ نہیں بھی قبول کرتا تو کسی کا کیا جاتا ہے۔
 

حسینی

محفلین
اصل مسئلہ یہ ہے کہ شام کے مسئلے پر سعودی عرب نے اپنا سب کچھ لٹا دیا تھا۔۔۔ لیکن اس کو وہاں سے بہت بری ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔۔۔ شامی فوج سعودی عرب کے بھیجے ہوئے دہشت گردوں کو کتوں کی طرح مار رہے ہیں۔۔۔ اور ان کی لاشیں تک وصول کرنے والا کوئی نہیں۔۔۔ دوسرے الفاظ میں شام کے معرکے میں ایران اور حزب اللہ کی فتح یقینی بن گئی ہے۔۔۔ اب یہ کڑوی گولی نگلنا سعودی عرب کے لیے انتہائی مشکل ہے۔۔۔ لہذا بہانے تراش رہے ہیں۔۔۔ اور منہ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔ امریکہ سے شام پر حملہ کروانے میں بھی ناکام ہی رہے۔۔۔ ساری پالیسیاں ان کی خاک میں مل گئیں۔۔۔
اور دوسری طرف سے ایران کے جوہری پروگرام پر پیشرفت، ایرانی اور امریکی وزرا خارجہ کی ملاقات، صدور کی ٹیلیفونک گفتگو ان سب پر سعودی عرب سیخ پا ہے۔۔۔ اور اندر اندر امریکہ سے ناراض ہے۔۔۔ کہ آپ کے سب سے قریب تو ہم تھے۔۔۔ ہم نے آپ (امریکہ) کی اتنی غلامی کی۔۔۔ اور آپ ہے کہ ایران سے پینگے بڑھا رہے ہیں۔۔
لیکن کیا کرے سعودیہ کچھ کر نہیں سکتا۔۔۔ وہاں تو امریکہ کے فوجی اڈے ہیں۔۔۔ جن کی موجودگی میں امریکہ کو آنکھیں دکھانا نا ممکن ہے۔۔۔ ورنہ کہیں "عرب بہار" سعودیہ کا رخ نہ کرے۔۔
لیکن جو بھی ہو رہا ہے بقولے " اللہ تو دیکھ رہا ہے نا"۔۔۔۔
 
کل میں نے ایک پاکستانی کالم نگار کا لکھا تھا (سابقہ وزیرِ قانون ڈاکٹر بابر اعوان) کہ ہمیں چاہیئے کہ قالین مارکہ اور کھجور مارکہ برادران اسلام سے معذرت کر کے اپنی راہ الگ کر لیں۔ بالکل یہی بات ہے :)
قالین مارکہ یعنی ایران اور کھجور مارکہ سعودی عرب ان دونوں سے ، ممکن ہے پر بہت مشکل ہے۔
یہ لوگ باقاعدہ پاکستانی اداروں کی پالیسیوں میں سرایت کر چکے ہیں۔
 

حسینی

محفلین
سعودی عرب کی امریکا سے ناراضی (منقول)
تحریر: ڈاکٹر عبداللہ حجازی

ان دنوں سعودی عرب کی طرف سے سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت کو مسترد کرنے کی خبر پر سعودی حکومت کی ”جرات مندی“ بعض حلقوں میں موضوع سخن بنی ہوئی ہے۔ 17 اکتوبر 2013ء کو سعودی عرب کو چاڈ، چلی، لیتھونیا اور نائیجریا سمیت سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب کیا گیا تھا جس کے بارے میں سعودی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے ہی روز سعودی حکومت نے اقوام متحدہ کو دوہرے معیارات کا حامل قرار دے کر اسے مسترد کردیا۔ اقوام متحدہ کی تاریخ میں سعودی حکومت کو یہ موقع پہلی مرتبہ نصیب ہوا تھا۔ غیر مستقل اراکین کی رکنیت کی مدت دو برس ہوتی ہے۔ جب سلامتی کونسل کو کوئی فیصلہ کثرت رائے سے کرنا ہوتا ہے تو یہ رکنیت کسی حد تک اہمیت اختیار کر جاتی ہے لیکن پانچ ویٹو پاورز امریکا، برطانیہ، روس، چین اور فرانس میں سے کوئی ایک اگر کسی قرارداد کو مسترد کردے تو باقی تمام اراکین کا اجتماع بھی سلامتی کونسل کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد نہیں دیتا۔ تاہم اس امر میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کے اس اقدام کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے اس اقدام کو ”عجیب“ قرار دیا ہے۔

سرکاری سرپرستی میں چلنے والی ویب سائٹ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے شام میں گذشتہ اڑھائی برس سے جاری تنازعے کے حل کے لیے کوئی اقدام نہ ہونے کے ردعمل میں یہ اقدام کیا۔ ویب سائٹ کے مطابق، سعودی عرب پہلے تو صرف روس اور چین سے شام کے حوالے سے نالاں تھا مگر اب وہ امریکا سے بھی مایوس ہوچکا ہے۔ امریکا اور روس کے درمیان شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے لیے معاہدے سے اب شامی صدر بشارالاسد کے خلاف فوجی کارروائی کا امکان ختم ہوچکا ہے۔ سعودی عرب کو اب امریکا اور ایران کے درمیان جوہری پروگرام کے بارے میں مصالحتی سلسلہ جنبانی شروع ہونے پر بھی تشویش لاحق ہے اور اسے یہ خدشہ لاحق ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان مفاہمت سے خطے کی سیاست میں اسے بالآخر نقصان پہنچ سکتا ہے۔

سعودی عرب کی اس ناراضی کو دور کرنے کے لیے یا پھر ”نئے عالمی حقائق“ سے آگاہ کرنے کے لیے امریکا نے بھی اپنی کوششیں شروع کردی ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کی واشنگٹن میں موجودگی کے دوران میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل سے پیرس میں ان کی نجی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس ملاقات کے موقع پر شہزادہ سعود الفیصل نے 21 اکتوبر کو جان کیری کے اعزاز میں ایک ظہرانے کا اہتمام کیا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق، اس ملاقات سے قبل ایک سینئر امریکی عہدیدار نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ وہ ان تمام ایشوز پر تفصیل سے گفتگو کریں گے جن میں ان کے درمیان عدم اتفاق پایا جاتا ہے تاکہ ان میں اختلاف کی خلیج کم سے کم ہو سکے۔ اس امریکی عہدے دار نے برطانوی خبر رساں ادارے رائیٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”واشنگٹن اور ریاض ان مشترکہ مقاصد کے حوالے سے متفق ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں سے پاک ہو نیز شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ اور مصر میں استحکام ہونا چاہیے لیکن ان کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے نہیں ہے کہ ان مقاصد کو کیسے حاصل کیا جائے۔“

جہاں تک سعودی عرب کے اس اقدام کا تعلق ہے اس پر پوری دنیا میں مختلف طرح کے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اقوام متحدہ میں عرب گروپ نے سعودی عرب کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کا مشورہ دیا ہے جب کہ قطر نے سعودی اقدام کی زبردستی حمایت کی ہے۔ قطر کی حمایت کو شام اور ایران کے حوالے سے دونوں ممالک کی مشترکہ پالیسی کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب خود دہرے معیارات پر عمل پیرا ہے۔ ایک طرف وہ شام میں حکومت مخالف جنگجوﺅں کی سرپرستی کررہا ہے اور دوسری طرح بحرین میں اپنے جمہوری حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والے عوام کو کچلنے کے لیے بحرین کی شاہی حکومت کی حمایت میں اس نے اپنی فوج داخل کر رکھی ہے۔ سعودی عرب پر یہ بھی اعتراض ہے کہ اس نے مصر کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والی فوج کی نہ فقط زبانی حمایت کی بلکہ سب سے بڑھ کر اس کو مالی مدد فراہم کی۔ سعودی عرب کے بادشاہ شاہ عبداللہ نے 2011ء میں عالمی سطح پر مذاہب کے مابین مکالمے کے لیے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا اور اپنے ملک میں مسلمانوں کے مابین یکجہتی کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ایرانی نمائندگان کو نمایاں اہمیت دی گئی آج وہی سعودی حکومت شام میں حکومت کے خلاف مسلح تحریک کی حمایت اور سرپرستی میں پیش پیش ہے جو فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کو اپنے سب سے اہم حربے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

مبصرین اس سوال کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا سعودی عرب کی امریکا سے ناراضی دیرپا ثابت ہوگی یا پھر یہ وقتی ہے۔ سعودی خاندان کے مغربی طاقتوں سے دیرینہ مراسم اور ان پر اس کے انحصار کو پیش نظر رکھا جائے تو اس سوال کا جواب نہایت آسانی سے دستیاب ہو سکتا ہے۔ سعودی خاندان کو خود اپنے خطے اور داخلی طور پر جزیرہ نمائے عرب کے عوام میں جس درجے کی ”مقبولیت“ حاصل ہے اس کو سامنے رکھا جائے تو بھی یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ یہ ”ناراضی“ بالکل وقتی اور سطحی ہے۔ امریکا بھی اس حقیقت کو اچھی طرح سے جانتا ہے۔ امریکا اور سعودی خاندان کے درمیان ”طرفین کی سہولت پر مبنی اس شادی“ کو فی الحال ”طلاق“ کا کوئی اندیشہ لاحق نہیں۔ سعودی خاندان تو بحرین میں امریکا کے پانچویں بحری بیڑے کے خاتمے کے اپنے لیے ”منفی اثرات“ کو برداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا چہ جائیکہ پورے خطے میں امریکی انحصار سے علیحدگی۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے سیکٹرری جنرل بان کی مون کا یہ کہنا معنی خیز ہے کہ اقوام متحدہ کو سرکاری طور پر سعودی عرب کی طرف سے سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت کو مسترد کیے جانے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

سلامتی کونسل کی رکنیت کو ٹھکرانے کا اعلان کرتے ہوئے سعودی عرب نے عرب عوام اور مسلم دنیا کے سامنے احتیاطی طور پر فلسطین کا نام بھی لیا ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ فلسطینی کاز سے سعودی عرب کی دلچسپی ماضی میں کس درجے کی رہی ہے۔ وہی سعودی عرب جس نے شام میں دہشتگردوں کی حمایت میں انتہا کردی، اخوان المسلمین کی حکومت کے مصر میں خاتمے کے لیے زیر زمین سازشوں میں حصے دار رہی ہے، حماس کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ہموار کرنے میں ہمیشہ سرگرم عمل رہی، لبنان میں اپنی سرزمین کا دفاع کرنے والوں کے خلاف کھل کر کردار ادا کرتی رہی اور جس نے بحرین میں اپنے حقوق کے لیے اٹھنے والے عوام کو اپنے ٹینکوں کے نیچے روندنے کے لیے اپنی افواج بحرین کی سرزمین میں داخل کیں اس نے آج تک ایک گولی بھی فلسطینی حقوق کے لیے نہیں چلائی۔ ایسے میں فلسطین کا نام لینا مسلم رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا یہی وجہ ہے کہ ایک اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے یہ کہہ کر سعودی فیصلے کا مضحکہ اڑایا ہے.
:
After Saudi Arabia became the first country to reject a seat on the UN Security Council on Friday, speculation has been rife as to why.
Was it because of Israel and the Palestinian issue, or – more likely – because of frustration and anger directed at the US and other world powers over inaction in Syria and the recent rapprochement underway with Iran?
جب سے سعودی عرب نے جمعہ کے روز یو این کی سلامتی کونسل کی سیٹ کو ٹھکرایا ہے اس وقت سے چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ کیا یہ اسرائیل اور فلسطین کی وجہ سے تھا یا اس کا سبب وہ جھنجلاہٹ اور غصہ ہے جو شام کے معاملے پر امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کے اقدام نہ کرنے پر نیز ایران کے بارے میں نئی حکمت عملی کے خلاف تھا۔

اخبار مزید لکھتا ہے:
Perhaps the general dysfunction of the council, along with the blocking action by China and Russia preventing effective measures against Syria and Iran, have left the Saudis feeling they have nothing to gain from joining.
شاید کونسل کی عمومی عدم فعالیت کے ساتھ چین اور روس کی جانب سے شام اور ایران کے خلاف موثر انضباطی کارروائیوں میں رکاوٹ پیدا کرنے کے سبب سعودیوں کو یہ احساس ہوا ہے کہ سلامتی کونسل کی رکنیت اختیار کرنے سے اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

یروشلم پوسٹ سعودی حمایت یافتہ اخبار الشرق الاوسط میں حسین سبوخچی کے ایک کالم کا حوالہ دیتے ہوئے کالم نگار کا نظریہ یوں بیان کرتا ہے:
“Saudi Arabia made the Syrian revolution one of the pillars of its foreign policy.
سعودی عرب نے شام میں انقلاب کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی ستون بنا لیا ہے۔

آگے چل کر اخبار اقوام متحدہ میں ایک سابق اسرائیلی سفیر اور یروشلم سنٹر برائے پبلک افیئرز کے صدر ڈور گولڈ کی رائے ان الفاظ میں بیان کرتاہے:
As a result of Bashar Assad’s concession of chemical weapon disarmament, “his government has gotten a new international lease on life, thereby undermining the entire Saudi strategy in Syria for the last two years and providing an enormous victory for Iran.”
کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں بشارالاسد کی طرف سے دی گئی رعایت کے نتیجے میں اس کی حکومت کو عالمی سطح پر ایک نئی زندگی مل گئی ہے اس کے نتیجے میں گذشتہ دو سال سے شام کے بارے میں جاری سعودی حکمت عملی کھوکھلی ہو کر رہ گئی ہے جس سے ایران کو عظیم الشان فتح حاصل ہوئی ہے۔
سعودی عرب کا اصل غم سمجھنے کے لیے یہ عبارات کافی ہونا چاہئیں۔
 

x boy

محفلین
بیچارے سعودی عرب کے نام پر سب کو مزا آتا ہے جبکہ سارا فتنہ پاکستان انڈیا بنگلہ دیش وغیرہ میں ہے
میں روز۔ پروگرام اندھیری راتوں میں دیکھتا ہوں جو جیو تیز والے نشر کرتے ہیں اور ایک پروگرام
سرعام دیکھتا ہوں جس میں تمام بنو نوع انسان کے اندر جو برائی وہ پاکستان میں نظر آتی ہے۔
پیر یہاں آستانے بناکر سیف ریپ کررہے ہیں گدھے کا گوشت اور کتوں کا گوشت یہاں کھلایا جارہا انٹرنیٹ کیفے کی اور بیوٹی پارلر کی فخاشی
مساج پارلر کا کامیاب فخاشی بھرا تجارت مردے جانوروں کی چربی اور عضلات سے گھی تیار کیا جاتا ہے
قوم لوط والا عمل یہاں ہوتا ہے آزادی کے نام پر بے پردگی اس قوم میں ہے دین میں ایک نیا باب یہی رائج ہے
اسکول مدرسے نکل کر فتوی جاڑنے والے لوگ کی بھرمار، امیر بڑا مال کی چوری اور غریب
چھوٹے مال کی چوری لیکن سزا الگ الگ ، باپ اپنی بیٹیوں کو بیچتاہے کمسن لڑکیاں اور لڑکوں کے زیادتیان۔
دین کے نام پر روڈ اور گلیاں محلے استعمال اور کاروباری لوگوں نقصان پنہچانا، طرح طرح کے فرسودہ رسومات
دین کے نام پر کرکے عربوں روپیے ایک دن میں اڑا دینا۔
غرض کے ان گھنت برائیوں کا مرکز پاکستان ہوگیا ہے
 

سید ذیشان

محفلین
بیچارے سعودی عرب کے نام پر سب کو مزا آتا ہے جبکہ سارا فتنہ پاکستان انڈیا بنگلہ دیش وغیرہ میں ہے
میں روز۔ پروگرام اندھیری راتوں میں دیکھتا ہوں جو جیو تیز والے نشر کرتے ہیں اور ایک پروگرام
سرعام دیکھتا ہوں جس میں تمام بنو نوع انسان کے اندر جو برائی وہ پاکستان میں نظر آتی ہے۔
پیر یہاں آستانے بناکر سیف ریپ کررہے ہیں گدھے کا گوشت اور کتوں کا گوشت یہاں کھلایا جارہا انٹرنیٹ کیفے کی اور بیوٹی پارلر کی فخاشی
مساج پارلر کا کامیاب فخاشی بھرا تجارت مردے جانوروں کی چربی اور عضلات سے گھی تیار کیا جاتا ہے
قوم لوط والا عمل یہاں ہوتا ہے آزادی کے نام پر بے پردگی اس قوم میں ہے دین میں ایک نیا باب یہی رائج ہے
اسکول مدرسے نکل کر فتوی جاڑنے والے لوگ کی بھرمار، امیر بڑا مال کی چوری اور غریب
چھوٹے مال کی چوری لیکن سزا الگ الگ ، باپ اپنی بیٹیوں کو بیچتاہے کمسن لڑکیاں اور لڑکوں کے زیادتیان۔
دین کے نام پر روڈ اور گلیاں محلے استعمال اور کاروباری لوگوں نقصان پنہچانا، طرح طرح کے فرسودہ رسومات
دین کے نام پر کرکے عربوں روپیے ایک دن میں اڑا دینا۔
غرض کے ان گھنت برائیوں کا مرکز پاکستان ہوگیا ہے


اس ساری بات میں کہیں اس کا ذکر نہیں کہ سعودی عرب نے سلامتی کونسل کی رکنیت کیوں ٹھکرائی۔ سوال گندم جواب چنا۔
 

ظفری

لائبریرین
اس ساری بات میں کہیں اس کا ذکر نہیں کہ سعودی عرب نے سلامتی کونسل کی رکنیت کیوں ٹھکرائی۔ سوال گندم جواب چنا۔
سید ذیشان ! میرا خیال ہے دیگر دوستوں کی طرح آپ بھی ان موصوف کے مراسلات نظرانداز کرکے کسی اور منطقی اور علمی مراسلے کا جواب دیا کریں ۔ اس طرح آپ کا وقت بھی بچ جائے گا اور آہستہ آہستہ یہ لوگ بھی ادھراُدھر ہوجائیں گے ۔ ماضی میں بھی یہ نسخہ آزمایا گیا ہے اور بہت کارآمد رہا ہے ۔ ;)
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
اصل مسئلہ یہ ہے کہ شام کے مسئلے پر سعودی عرب نے اپنا سب کچھ لٹا دیا تھا۔۔۔ لیکن اس کو وہاں سے بہت بری ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔۔۔ شامی فوج سعودی عرب کے بھیجے ہوئے دہشت گردوں کو کتوں کی طرح مار رہے ہیں۔۔۔ اور ان کی لاشیں تک وصول کرنے والا کوئی نہیں۔۔۔ دوسرے الفاظ میں شام کے معرکے میں ایران اور حزب اللہ کی فتح یقینی بن گئی ہے۔۔۔ اب یہ کڑوی گولی نگلنا سعودی عرب کے لیے انتہائی مشکل ہے۔۔۔ لہذا بہانے تراش رہے ہیں۔۔۔ اور منہ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔ امریکہ سے شام پر حملہ کروانے میں بھی ناکام ہی رہے۔۔۔ ساری پالیسیاں ان کی خاک میں مل گئیں۔۔۔
اور دوسری طرف سے ایران کے جوہری پروگرام پر پیشرفت، ایرانی اور امریکی وزرا خارجہ کی ملاقات، صدور کی ٹیلیفونک گفتگو ان سب پر سعودی عرب سیخ پا ہے۔۔۔ اور اندر اندر امریکہ سے ناراض ہے۔۔۔ کہ آپ کے سب سے قریب تو ہم تھے۔۔۔ ہم نے آپ (امریکہ) کی اتنی غلامی کی۔۔۔ اور آپ ہے کہ ایران سے پینگے بڑھا رہے ہیں۔۔
لیکن کیا کرے سعودیہ کچھ کر نہیں سکتا۔۔۔ وہاں تو امریکہ کے فوجی اڈے ہیں۔۔۔ جن کی موجودگی میں امریکہ کو آنکھیں دکھانا نا ممکن ہے۔۔۔ ورنہ کہیں "عرب بہار" سعودیہ کا رخ نہ کرے۔۔
لیکن جو بھی ہو رہا ہے بقولے " اللہ تو دیکھ رہا ہے نا"۔۔۔ ۔

انکل برایے مہربانی میری فلم نہ بناہیں میں نے حجاب نہیں پہنا

یہ الفاظ ہیں ملک شام کی اس بیٹی کے جو اپنی ہی فوج کا نشانہ بن کے موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ملبے کے نیچے پڑی تھی جب لوگ اس کی آواز سن کر وہاں مدد کے لئے پہنچے تو کیمرہ دیکھ کر حوا کی اس بیٹی نے فورا درخواست کی کہ

" میری فلم نہ بنایئں میں نے حجاب نہیں پہن رکھا "

موت اور زندگی کے درمیان ہماری اس بہن کو اپنا پردہ عزیز ہے کہ کہیں ریسکیو والے اس کے بال نہ دیکھ لیں

الله ہم مسلمانوں کی مدد فرمایے : آمین


"Uncle please don't film me, I am not wearing Hijab." MUST WATCH

A sister was caught in the middle of debris from the ongoing violence in Syria and left for dead .. She was calling out for help.. Guess what she said in this desperate situation when the rescuers went to rescue her?
"Uncle please don't film me, I am not wearing Hijab...."
Even on the verge of death, she is concerned about her modesty and Hijab.

SubhanaAllaah...in a matter of life and death a young girl is still worrying that she is not wearing hijab the rescuers might see her hair.
 
اس ساری بات میں کہیں اس کا ذکر نہیں کہ سعودی عرب نے سلامتی کونسل کی رکنیت کیوں ٹھکرائی۔ سوال گندم جواب چنا۔
ذیشان بھائی یہ صاحب یہ بھی ثابت کر سکتے ہیں کہ سعودی عرب نے سلامتی کونسل کی رکنیت ایم کیو ایم کی وجہ سے ٹھکرائی۔:laugh:
 

زبیر حسین

محفلین
بیچارے سعودی عرب کے نام پر سب کو مزا آتا ہے جبکہ سارا فتنہ پاکستان انڈیا بنگلہ دیش وغیرہ میں ہے
میں روز۔ پروگرام اندھیری راتوں میں دیکھتا ہوں جو جیو تیز والے نشر کرتے ہیں اور ایک پروگرام
سرعام دیکھتا ہوں جس میں تمام بنو نوع انسان کے اندر جو برائی وہ پاکستان میں نظر آتی ہے۔
پیر یہاں آستانے بناکر سیف ریپ کررہے ہیں گدھے کا گوشت اور کتوں کا گوشت یہاں کھلایا جارہا انٹرنیٹ کیفے کی اور بیوٹی پارلر کی فخاشی
مساج پارلر کا کامیاب فخاشی بھرا تجارت مردے جانوروں کی چربی اور عضلات سے گھی تیار کیا جاتا ہے
قوم لوط والا عمل یہاں ہوتا ہے آزادی کے نام پر بے پردگی اس قوم میں ہے دین میں ایک نیا باب یہی رائج ہے
اسکول مدرسے نکل کر فتوی جاڑنے والے لوگ کی بھرمار، امیر بڑا مال کی چوری اور غریب
چھوٹے مال کی چوری لیکن سزا الگ الگ ، باپ اپنی بیٹیوں کو بیچتاہے کمسن لڑکیاں اور لڑکوں کے زیادتیان۔
دین کے نام پر روڈ اور گلیاں محلے استعمال اور کاروباری لوگوں نقصان پنہچانا، طرح طرح کے فرسودہ رسومات
دین کے نام پر کرکے عربوں روپیے ایک دن میں اڑا دینا۔
غرض کے ان گھنت برائیوں کا مرکز پاکستان ہوگیا ہے
جیو x boy
 
Top