سلیمان اشرف
محفلین
ملک کے قوانین سے پہلے اسلامی قانون کی بات کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کمائی حرام نہ ہو گی لیکن قانون شکنی ضرور ہو گی جو نا پسندیدہ اور قابلِ سزاعمل ہے۔
اگر یہ چوری ہے تو پھر سعودی کفیلوں کی تمام تر کمائی چوروں کی کمائی ہے کیوں کہ یہ لوگ بھاگ کر کسی نہ کسی سعودی کے پاس ہی کام کریں گے نا!!!۔ پہلے اپنے لوگوں کو سزا دیں تو پھر اجنبی خود ہی بھاگنے سے رُک جائیں گے۔
کسی وقت ہم بھی سعودیہ وارد ہوئے تھے مسجد نبوی کے قریب قیام ہوا اگلے دن کفیلِ محترم پیپر پر دستخط کروانے آئے اور ساتھ ہی ساتھ "بسُرعۃ" کی رٹ لگاتے رہے۔ میرا مؤقف یہ تھا کہ میں عربی نہیں سمجھتا یا تو پیپر انگریزی میں لکھواؤ یا پھر مجھے کل تک موقع دو کہ میں کسی جاننے والے سے اس کا ترجمہ کروا سکوں۔ کفیل مذکور نے پہلے تو سخت الفاظ کی تکرار کی اور پھر بات نہ بننے میرا کالر پکڑ لیا۔ میں چونکہ کشتیاں جلا کر نہیں گیا تھا اس لئے اس کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کی پوزیشن میں تھا لیکن صبر کا مظاہرہ کیا اور اس کے ساتھ آئے پاکستانی "دلال" کو کہا کہ اسے کہو اپنی عزت بچا لے ورنہ لڑائی ہو جائے گی۔ کفیل بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔ رات کو میں نے اپنی نصف بہتر (جو پہلے ہی سے وہاں رہتی تھیں) سے اس پیپر کا ترجمہ کروایا تو آشکار ہوا کہ میرے ساتھ جس تنخواہ کا معاہدہ پاکستان میں کیا گیاہے اس پیپر میں مجھ سے اس کے محض ایک چوتھائی پر دستخط لینے کی کوشش کی گئی تھی۔
اگلے دن "صاحب بہادر" چمک لشک کر آئے اور دروازے پر کھڑے ہی دستخط شدہ پیپر کا مطالبہ کرنے لگے ۔ میں نے اس کے ساتھ پاکستانی کے ذریعے اسے کہا کہ دستخط تو دور کی بات وہ پیپر بھی واپس تجھے نہ دوں گا۔ وہ میرا پاسپورٹ لہراتے ہوئے بولا کہ میں ابھی جوازات جا کر تیرا خروج لگواتا ہوں میں نے کہا بسم اللہ کرو اور ساتھ ہی معاہدے کے مطابق لکھی گئی دو سال کی تنخواہ جیب میں ڈال کر اور پاکستان کا ہوائی ٹکٹ بھی لے کر وہاں جانا اور میں جب تک تمہارا کل کا پیپر لے کر مکتب العمل جاتا ہوں تا کہ تیری بد قماشی بھی ظاہر ہو ۔ کفیل پر تو گھڑوں پانی پڑ گیا۔ اس کی حالت دیدنی تھی۔ قصہ مختصر کہ میں نے پوری تنخواہ والے نئے پیپر پر ہی دستخط کئے اور کفیل نے سزا کے طور پر مجھے دفتر میں چائے پیش کرنے پر رکھا لیکن اگلے دن ہی دفتر میں پھر پھڈا ہو گیا ۔ میرا مؤقف تھا کہ میں فنی ویزے پر ہوں عامل کا کام نہ کروں گا ۔ جو مہنہ لکھا ہے مجھے وہی کام کرنے کے لئے دو۔ اب مزے کی بات یہ کہ کفیل مجھے خود کہہ رہا ہے کہ تم باہر کام کر لو لیکن میں راضی نہ ہوا۔ اور میرے متعلقہ کام اس کے پاس سرے سے تھا ہی نہیں۔ کیونکہ وہ ویزے بیچ کر آنے والے غیر ملکیوں سے فراڈ کیا کرتا تھا لیکن میں اس کے گلے میں پھانس بن کر اٹک گیا تھا۔ دو مہینے مجھے فارغ بٹھا کر اسے تنخواہ دینا پڑی تو اس کی چیخیں نکل گئیں۔ وہ تو خیر ہوئی کہ ایک دوسری غیر ملکی کمپنی میں میری بات ہو گئی اور میں نقل کفالت کروا کر سعودئی سے باہر بھیج دیا گیا یوں کفیل کی جان مجھ سےچھوٹ گئی ۔ بعد میں کئی برس تک اس سعودی سے میری دعا سلام رہی اور وہ مجھے دیکھتے ہی نعرہ بلند کیا کرتا تھا "کیف الحال یا خطیر"۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ یہاں سے زیور اور گھر کا اسباب بیچ کر وہاں جاتے ہیں وہ ان کے سامنے بالکل بے بس ہوتے ہیں۔ زیادتی کا آغاز ہمیشہ ان کی طرف سے ہوتا ہے جب وہ کم تنخواہ پر دستخط کرواتے ہیں یا پوری تنخواہ نہیں دیتے ۔ تبھی لوگ ان سے بھاگتے ہیں اور باہر کام کر کے روزی کماتے ہیں جو بالکل بھی حرام نہیں ہے۔
اگر کوئی آدمی برائی کرتا ہی تو کیا ہم بھی اسی راہ پہ چل پڑیں؟