سعید احمد کی کتاب ' دلیپ کمار ،عہد نامہ محبت سے اقتباس

سید زبیر

محفلین
دلیپ کمار کی کہانی ۔۔۔۔ان کی زبانی



دیکھیں جی ! میں تیسری دہائی کے شروع میں پشاور کے عام گھرانے میں پیدا ہوا ہمارے ہاں بہت غربت یا بہت زیادہ خوشحالی نہیں تھی ۔ وہ زمانے رشتوں کی باریکیاں ڈھونڈنے کے نہیں تھے ۔ مروتیں اور محبتیں نبھانے کے زمانے تھے ۔ محلہ کے بزرگوں کا ہی نہیں شہر بھر کے بزرگوں کا احترام ایسے ہی کیا جاتا تھا جیسے خون کے رشتوں کا اور اسی طرح بڑے لوگ بھی شفقت کا تعلق نبھاتے تھے ۔ اگرچہ پشاور میں میرا قیام اوائل عمر کے بھی مختصر عرصے کا تھا پھر بھی جائے پیدائش کے رشتے کی جڑیں بڑی گہری اور عزیز ترین ہوتی ہیں اتنی دنیا دیکھنے کے بعد بھی اُس مٹی کی مہک مجھے نہیں بھولتی ' اتنے لوگوں کے ساتھ عمر گزارنے کے باوجود مجھے اپنے سرحد کے سادہ لوگ ، اُن کی خوشیاں ، غم ، مسکراہٹیں یاد آتی ہیں اور اگر اسے میری لفاظی نہ سمجھا جائے تو میں یہ کہوں گا کہ میں اپنی زندگی میں حاصل ہونے والی نیک نامی ، شہرت اور دولت کے باوجود اگر کبھی کوئی کسک اور کوئی کمی یا تشنگی محسوس کرتا ہوں تو محض اس بات کی کہ کاش مجھے پشاور میں کچھ وقت گزارنے کے زیادہ مواقع میسر آجاتے ۔شائد یہ بھی ہوتا کہ اگر آج میں پشاور میں رہتا تو آج یہ الفاظ نہ کہہ رہا ہوتا ۔

اُس وقت کے پشاور کو یاد کرتے وقت میری آنکھیں خلاوں میں وہ کچھ ڈھونڈتی ہیں جو آج کل کے پشاور کو دیکھ کر نہیں ملتا ویسے تو ہر شخص کو اپنا ماضی بڑا حسین لگتا ہے اسی لیے مجھے بھی پشاور شہر کا وہ ماحول ایک حسین ترین خواب کی صور ت محسوس ہوتا ہے ایسا خواب جسے میں فرصت کے اوقات میں اکثر دیکھتا رہتا ہوں ۔پشاور یوں کے رہن سہن ، رسم ورواج اور کھانے پینے کی جزئیات کو تو چھوڑئیے صرف اُن کی بنیادی چیز زبان دانی ہی کا ذکر کیا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ آج کے پشاور میں بولی جانے والا لب و لہجہ بیسویں صدءی کے اوائل میں بولی جانے والی ہندکو سے مختلف تھا ہم لوگ گھر میں ذرا مختلف قسم کی ہندکو بولا کرتے تھے جو ہندکو یا پشاوری زبان تقریباً پچاس برس مجھے پشاور جا کر سننے کو ملی وہ ہمارے وقتوں میں صرف بازاروں اور دکانوں میں بولی جاتی تھی اُسے ہم ٹکسالی لہجہ کہا کرتے تھے اگرچہ لہجہ بھی اُتنا ہی عزیز ہے جتنی میری اپنی ہندکو مگر ہماری ہندکو اور تھی ۔ ہمارے والد صاحب بڑی روانی سے پشتو اور فارسی بولا کرتے تھے ۔میرے آباو اجداد کا تعلق غزنی (افغانستان) سے تھا ۔ مٰں آج بھی پشتو پوری طرح سے سمجھ لیتا ہوں اور ٹوٹی پھوٹی بول بھی لیتا ہوں مگر لہجے میں روانی اور سلاست نہیں ہے۔ (جاری )
 
Top