سفارتی تعلقات متاثر ہوں گے؛ایران۔

خرم زکی

محفلین
اس میں یہ جاننا زیادہ اہم ہے کہ دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کی کیا تُک ہے۔

بجا فرمایا مگر یہ سوال تو ان سے ہونا چاہیے جو بحرین میں اپنی فوجیں بھیج رہے ہیں۔ آخری اطلاعات آنے تک وہ ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات تھے اور اب یہ پاکستان سے سابقہ فوجی حضرات کی بھرتی کا سلسلہ جو ہمارے پالیسی سازوں کی آشیرباد سے شروع ہوا ہے۔

لہذا معاملے کو ہم تو سیاسی انداز سے دیکھیں گےمذہبی رنگ میں نہیں۔

جس رنگ میں بھی دیکھ لیں جناب۔ میں نے کون سا قران و حدیث سے استدلال کیا تھا!:)

میں نے خبر من و عن پیش نہیں کی اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھ کر تفصیل کے لئے ربط فراہم کیا ہے۔
چلیں اگل دفعہ عنوان میں تحریف کے لئے میں بھی یہی ڈھنگ اپناؤں گا ;)

اس نکتے کی نشاندہی فرمائیے جو اس خبر کی صحت سے متصادم ہو
آپ نے جو خبر اپنے الفاظ میں پیش کی اس سے معلوم ہوتا تھا کہ بھرتی کہ یہ طریق کار ایک معمول کی مشق ہے۔ اپنے الفاظ پر غور کریں :

" واضح رہے کہ پاکستانی فوجیوں کی بحرین میں تعیناتی پاکستان کی سرکاری پالیسی کے تحت نہیں کی جاتی بلکہ خلیج میں روزگار کے حصول کے معروف طریقہ کے مطابق بحرینی حکومت مطلوب اسامیوں کے لئےاشتہارشائع کرواتی ہے اور ساری کارروائی بحرینی حکومت کے قوانین کے تحت انجام پاتی ہے۔"

جبکہ جو خبر عامر میر نے دی ہے وہ اس کو پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کا فیصلہ گردانتی ہے گویا یہ ایک سرکاری پالیسی کے مطابق ہے نہ کہ ایک معمول کی روزگار کی اسامیاں:
"تاہم پاکستانی فیصلہ سازوں نے ایرانی تنبیہ نظرانداز کرتے ہوئے بھرتی کا عمل جاری رکھا ہے۔ فوجی فاؤنڈیشن کی ذیلی تنظیم فوجی سکیورٹی سروسز لمیٹڈ پاکستانی آرمی، ایئر فورس اور نیوی کے ریٹائرڈ افسران کو ہنگامی بنیادوں پر بھرتی کررہی ہے جن کو سعودی عرب اور بحرین میں بھاری معاوضوں پر تعینات کیا جارہا ہے۔ فوجی فاؤنڈیشن کے ذرائع کے مطابق مشرق وسطیٰ میں سیاسی افراتفری کے تناظر میں تازہ بھرتی کے 90 فیصد سے زائد افراد کو بحرین میں تعینات کیا جارہا ہے جو بحرین نیشنل گارڈ میں خدمات سرانجام دیں گے"

ایرانی تنبیہ کا ماننا پاکستانی فیصلہ سازوں پر فرض نہیں ہے۔
ظاہر بات ہے کہ ایرانی تنبیہ کا ماننا ہمارے پالیسی ساز اداروں پر لازم نہیں بلکہ امریکی اور ان کے پٹھوؤں کی جنگ کا حصہ بننا ان پر فرض ہے جبھی آج تک ہمارے ملک میں امریکی ڈرون اٹیک ہوتے ہیں اور ہماری افواج تماشہ دیکھتی رہتی ہیں۔ ڈرون اٹیک کا جواب دینا بھی ان کا فرض نہیں۔ ان کے حقیقی فرائض کا بیان ایک طویل اور تکلیف دہ عمل ہے جس کا یہ مضمون متحمل نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر عافیہ اسی سوچ کی وجہ سے افغانستان میں زیادتی کا شکار ہوئی اور آج امریکہ کی قید میں ہے کیوں کہ ہمارے پالیسی ساز کچھ اور لوگوں کی وارننگ کو خاطر میں لاتے ہیں۔ ویسے میں تو محض اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا۔ میں نے کہاں کہا تھا کہ پاکستان پر ایرانی تنبیہ کی پیروی لازم ہے۔

پاکستانی حکومت تو ایرانی حکومت کے بھی ساتھ کھڑی ہے۔
جی یہ بھی صحیح ارشاد فرمایا۔ گزشتہ ١٧ سالوں سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی نہ ختم ہونے والی تعمیر اس کا ایک واضح اظہار ہے۔ باقی پاکستان میں ایرانی سفارتخانوں پر حملہ، ایرانی کیڈٹس کا قتل، ایرانی انجینیرز کا قتل وغیرہ وغیرہ اس لازوال دوستی کے عملی مظاہر ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات آپ کا شعبہ نہیں لگتے ورنہ ایرانی بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث جند اللہ کی پاکستانی پشت پناہی آپ سے چھپی نہیں رہ جاتی. ہم تزویراتی طور پر امریکہ و سعودی عرب سے جڑے ہیں سرکار نہ کہ ایران یا روس سے۔ آج سے تقریبا ١٢ سال پہلے میری کچھ ایسے دوستوں سے بات ہوئی تھی جن کا تعلق سیکورٹی امور سے تھا تو ان کے مطابق ایران عملی طور پر پاکستان کے لئے انڈیا سے بڑھ کر ہدف بن چکا تھا۔ آج جو قتل و غارت گری دیکھتے ہیں وہ اسی پالیسی کا ایک شاخسانہ ہے۔ موجودہ حکومت نے اس حوالے سے کچھ کوششیں کی ہیں تعلقات میں بہتری کے لئے مگر ہماری انٹلیجنس و سیکورٹی ادارہ اس کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں دکھائی دیتے اور دوسری طرف امریکی دھمکی بھی کارگر رہتی ہے تو گویا ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور دو قدم پیچھے ہٹتے ہیں.
 

خرم زکی

محفلین
مگر سروے کے متعلق یہ بھی دیکھ لیں
زیک صاحب کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ سروے جو شام کے بارے میں ہوا اس میں شام سے نمائندہ سیمپل شامل ہی نہیں کی گیا تھا ؟؟؟ عجب بات ہے بی بی سی کو اسی سروے کے اس حصّے پر کوئی اعتراض نہیں جو دیگر عرب ممالک سے تعلق رکھنے والوں کی آراء سے متعلق ہے لیکن چوں کہ شامی افرد کے خیالات ان کے اپنے اور ان کی حکومتوں کے میلانات سے ہم آہنگ نہیں اس لئے سیمپل سائز پر اعتراض ہو رہا ہے۔ بھائی اگر سیمپل سائز نمائندہ نہیں تو پورے سروے پر اعتراض ہونا چاہیے نہ کہ صرف ایک نتیجہ پر !!!
 

زیک

مسافر
مگر سروے کے متعلق یہ بھی دیکھ لیں
زیک صاحب کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ سروے جو شام کے بارے میں ہوا اس میں شام سے نمائندہ سیمپل شامل ہی نہیں کی گیا تھا ؟؟؟ عجب بات ہے بی بی سی کو اسی سروے کے اس حصّے پر کوئی اعتراض نہیں جو دیگر عرب ممالک سے تعلق رکھنے والوں کی آراء سے متعلق ہے لیکن چوں کہ شامی افرد کے خیالات ان کے اپنے اور ان کی حکومتوں کے میلانات سے ہم آہنگ نہیں اس لئے سیمپل سائز پر اعتراض ہو رہا ہے۔ بھائی اگر سیمپل سائز نمائندہ نہیں تو پورے سروے پر اعتراض ہونا چاہیے نہ کہ صرف ایک نتیجہ پر !!!
پورے سروے کا سیمپل سائز تو ٹھیک ہے۔ اگر آپ مجموعی طور پر دیکھنا چاہیں تو ایک ہزار لوگوں سے رائے لینا درست ہے اور اس کا ایرر اتنا زیادہ نہیں ہوتا شماریات کے مطابق (3 فیصد)۔ البتہ ایک سروے سے جب آپ کسی سبگروپ کو علیحدہ کرتے ہیں تو آپ کے پاس کافی کم افراد بچتے ہیں جیسے اس کیس میں شام سے صرف 98 افراد۔ ان کا سیمپلنگ ایرر 10 فیصد بنتا ہے۔ مگر یہ صرف سیمپلنگ ایرر ہے اس کے علاوہ یہ مسئلہ بھی ہوتا ہے کہ کیا جن لوگوں سے سوال پوچھے گئے وہ کل آبادی کا نمائندہ یعنی random sample تھے یا نہیں۔
 

خرم زکی

محفلین
میں خود اس شعبہ سے کافی عرصہ متعلق رہا ہوں۔ اگر شام سے لیا گیا سیمپل نمائندہ تھا، جیسا کہ کوئی وجہ نہیں کہ صرف شام کے حوالے سے کسی شبہ کا اظہار ہو سکے، تو پھر ممکن ہے کہ سمپلنگ ایرر میں اضافہ ہو لیکن سروے کے کسی سب گروپ کی بابت نتائج اخذ کرنا تو اک روٹین کا کام ہے اور آج تک میں نے جتنے بھی سروے کیے ہیں اور نتائج دیکھیں ہیں سب میں سب کٹیگریز سے متعلق علیحدہ سے تجزیہ و نتائج اخذ کرنا تو معمول کا حصہ ہے۔ مثال کے طور پر اگر یہ سروے شامی افراد سے کیا جاتا اور فرض کریں اس کا سیمپل سائز ١٠٠٠ ہی رکھا جاتا تو بعد میں سب کٹیگریز کے طور پر مردوں اور عورتوں کی آراء کو الگ کرنا ایک عام سی بات ہوتی گو عورتوں کا سیمپل سائز چھوٹا ہو جاتا۔
 

زیک

مسافر
میں خود اس شعبہ سے کافی عرصہ متعلق رہا ہوں۔ اگر شام سے لیا گیا سیمپل نمائندہ تھا، جیسا کہ کوئی وجہ نہیں کہ صرف شام کے حوالے سے کسی شبہ کا اظہار ہو سکے، تو پھر ممکن ہے کہ سمپلنگ ایرر میں اضافہ ہو لیکن سروے کے کسی سب گروپ کی بابت نتائج اخذ کرنا تو اک روٹین کا کام ہے اور آج تک میں نے جتنے بھی سروے کیے ہیں اور نتائج دیکھیں ہیں سب میں سب کٹیگریز سے متعلق علیحدہ سے تجزیہ و نتائج اخذ کرنا تو معمول کا حصہ ہے۔ مثال کے طور پر اگر یہ سروے شامی افراد سے کیا جاتا اور فرض کریں اس کا سیمپل سائز ١٠٠٠ ہی رکھا جاتا تو بعد میں سب کٹیگریز کے طور پر مردوں اور عورتوں کی آراء کو الگ کرنا ایک عام سی بات ہوتی گو عورتوں کا سیمپل سائز چھوٹا ہو جاتا۔
آپ کی مثال کو لیتے ہیں: مردوں اور عورتوں کو علیحدہ کرنے میں زیادہ چانس یہ ہے کہ 500، 500 دونوں ہوں گے۔ 500 کے سیمپل پر سیمپلنگ ایرر 4.4 فیصد ہوتا ہے جو پھر بھی قابل قبول ہے اگر آپ اس کا دھیان رکھیں تو۔

98 لوگوں کے سیمپل میں ایرر زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر سروے کے نتائج کے مطابق 55 فیصد کا کہنا ہے کہ اسد حکومت میں رہے تو اگر آپ بیس سروے کریں اسی تعداد کے تو ان میں سے 19 میں نتائج 45 سے 65 فیصد کے درمیان ہوں گے۔ یہ صرف سیمپلنگ ایرر ہے۔ سروے میں مزید ایرر بھی ہو سکتے ہیں۔

رہی یہ بات کہ سیمپل نمائندہ تھا یا نہیں۔ ممکن ہے کسی بھی ملک میں نمائندہ نہ ہو مگر یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ ممالک میں بہتر سیمپل ہو اور کچھ میں بدتر۔ چونکہ یہ انٹرنیٹ سروے تھا اس لئے یہ بات اہم ہے کہ شام میں انٹرنیٹ تک رسائی باقی عرب ممالک کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ اس لئے یہ ممکن ہے کہ شام میں سروے رینڈم سیمپل سے زیادہ دور ہو۔
 

خرم زکی

محفلین
98 لوگوں کے سیمپل میں ایرر زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر سروے کے نتائج کے مطابق 55 فیصد کا کہنا ہے کہ اسد حکومت میں رہے تو اگر آپ بیس سروے کریں اسی تعداد کے تو ان میں سے 19 میں نتائج 45 سے 65 فیصد کے درمیان ہوں گے۔

جی جناب یہ بات تو میں تسلیم کرتا ہوں کہ سمپلنگ ایرر بڑھ جاتا ہے لیکن اگر اس کو کم سے کم سائیڈ پر رکھیں تو بھی حمایت ٤٥ ٪ سے کم نہیں بنتی جو کہ مغربی پروپیگنڈہ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے پاس اس کو کم سے کم رکھنے کی کوئی وجہ نہیں اور انتخابی نتائج بھی اسد کے حق میں رہے ہیں جس میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے کوئی شواہد دکھائی نہیں دیے۔
 

خرم زکی

محفلین
ممکن ہے کسی بھی ملک میں نمائندہ نہ ہو مگر یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ ممالک میں بہتر سیمپل ہو اور کچھ میں بدتر۔ چونکہ یہ انٹرنیٹ سروے تھا اس لئے یہ بات اہم ہے کہ شام میں انٹرنیٹ تک رسائی باقی عرب ممالک کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ اس لئے یہ ممکن ہے کہ شام میں سروے رینڈم سیمپل سے زیادہ دور ہو۔
اب ممکن تو کچھ بھی ہے مگر سروے کے نمائندہ نہ ہونے کا کوئی یقینی ثبوت موجود نہیں اور اس سروے کے مقابل اور کوئی ایسا سروے بھی نہیں جسے پیش کیا جا سکے۔
 

ساجد

محفلین
خرم زکی صاحب ، بات خبر تک ہی رہے تو کچھ آپ کی سمجھ میں آئے گا ۔ جذباتی مت ہوں جناب۔آپ یہ بتائیے کہ کسی دوسرے ملک کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان کو دھمکی آمیز انداز میں کچھ کرنے یا نہ کرنے کا کہے۔ آپ نے امریکا کی بات کہی تو کیا آپ کو معلوم ہے کہ امریکا کی جارحیت پر میرا کیا مؤقف ہے؟۔ آپ نے ایک بات پکڑی اور چڑھائی شروع کر دی۔
آپ کو پاکستانی لوگوں کے بحرینی فوج میں جانے پر رنج ہے تو بھائی میں تو ان کو بھرتی کر کے نہیں بھیج رہا۔ آپ اپنے خیال کا اظہار کرنے میں آزاد ہیں لیکن دوسرے افراد اور ممالک کو کوسنے دئے بغیر بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے۔آپ بھرتی کرنے والی ایجنسی سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ ایسا کام نہ کریں ، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ میں بھی اس معاملے میں آپ کا ہم خیال نکلوں۔
آپ مختلف النوع مسائل کو گڈ مڈ نہ کیا کریں ۔ کہاں ڈاکٹر عافیہ صدیقی، کہاں بحرین کا معاملہ ، کہاں پاکستانی بلوچستان میں بد امنی اور کہاں ایرانی بلوچستان کی کہانی۔کہاں پائپ لائن کی تعمیر مین تاخیر اور کہاں ڈرون حملے۔ بھائی جان ، ان تمام معاملات کو سمجھنے کے لئے ایک ٹھنڈا دماغ اور بین الاقوامی سیاست کا عمیق مطالعہ بہت ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میرا شعبہ نہ ہو لیکن جس طریقے سے آپ معاملات کے ساتھ بچگانہ انداز میں کھیل رہے ہیں وہ معاملہ فہمی میں قطعی مددگار نہیں ہے۔
آپ سیاست کے زمروں کو کھنگالئے اور پہلے مختلف موضوعات پر میری سابقہ تحریریں پڑھئے ؛ پھر اندازہ کیجئے کہ میرے نزدیک بین الاقوامی سیاست میں ہم مسلمان من حیث الامہ کہاں کہاں مذہب کا غلط استعمال کر کے تباہ ہوئے ہیں۔
اس دھاگے کے آغاز کا مقصد کسی فرد یا گروہ کی دل آزاری نہیں بلکہ ان حقیقتوں میں سے ایک کو آشکار کرنا ہے جن سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے اور مسلم حکومتیں ان پر بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔
بحث کو مزید طول دے کر میں رنجشوں کو ہوا نہیں دینا چاہتا۔
وما علینا الا البلاغ۔
 

خرم زکی

محفلین
آپ یہ بتائیے کہ کسی دوسرے ملک کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان کو دھمکی آمیز انداز میں کچھ کرنے یا نہ کرنے کا کہے۔
کسی ملک سے کوئی سیاسی مطالبہ کرنا اور پورا نہ ہونے کی صورت میں سفارتی تعلقات میں کمی کا عندیہ دینا، جبکہ مطالبہ ایک اور ملک میں عدم مداخلت کا ہو، بین الاقوامی تعلقات میں معمول کی بات ہے۔ جیسے ہم انڈیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں مداخلت نہ کرے۔

آپ کو پاکستانی لوگوں کے بحرینی فوج میں جانے پر رنج ہے تو بھائی میں تو ان کو بھرتی کر کے نہیں بھیج رہا۔
بھائی میں نے آپ سے شکوہ کب کیا ؟؟؟ یہ تو ایک گفتگو ہو رہی ہے اور بات سے بات نکل رہی ہے ورنہ میرے لئے اس میں ذاتیات کا دخل نہیں. میں تو پاکستانی فوجوں کے صومالیہ جانے کا بھی مخالف تھا، بعد میں وہاں جنرل فرح عدید کی فوجوں نے ہمارے فوجیوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ آپ کو یاد ہی ہو گا۔ اور صرف ہمارے ہی نہیں امریکی فوجوں کے ساتھ بھی. ایک فلم بھی بن چکی اس پر.

کہاں ڈاکٹر عافیہ صدیقی، کہاں بحرین کا معاملہ ، کہاں پاکستانی بلوچستان میں بد امنی اور کہاں ایرانی بلوچستان کی کہانی۔کہاں پائپ لائن کی تعمیر مین تاخیر اور کہاں ڈرون حملے۔ بھائی جان ، ان تمام معاملات کو سمجھنے کے لئے ایک ٹھنڈا دماغ اور بین الاقوامی سیاست کا عمیق مطالعہ بہت ضروری ہے۔
اگر چہ جواب میں وضاحت کر چکا کہ یہ باتیں کس پس منظر میں کی گئیں لیکن دوبارہ عرض کئے دیتا ہوں:

١. امریکہ کے کہنے پر ڈاکٹر عافیہ کو ان کے حوالے کر دیا گیا. ہمیں ایران کے مطالبہ تو برا لگا کہ بحرین میں ہمارے سابقہ فوجی نہ بھیجے جائیں لیکن اس سے پہلے ہم کس قومی غیرت کا مظاہرہ کر چکے وہ سب کے سامنے ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی امریکہ حوالگی ہو یا بحرین میں سابقہ فوجیوں کی بھرتی، دونوں کے پیچھے ہماری امریکہ و سعودی غلامی کی روش ہے ۔ بلوچستان کا حوالہ یوں آیا جناب کہ یہی عرب ممالک، جن کے سیاہ کرتوتوں پر ہم پردہ ڈال رہے ہیں اور ان کی اپنے عوام کو کچلنے کی کوششوں میں شریک ہو رہے ہیں، پاکستانی بلوچستان میں علیحدگی کے خواہاں بلوچ قوم پرستوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ ایرانی بلوچستان میں جند اللہ کی دہشتگردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان کے مسائل بین الاقوامی سطح پر جڑے ہیں. اور حال میں امریکی قانون ساز ادارہ میں آزاد بلوچستان کے حق میں آنے والی قرارداد جہاں اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ ناکام ہو وہیں وہ پاکستانی بلوچستان کے حوالے سے امریکی خیالات کی بھی عکاسی کرتی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میں رائے میں:۔
میں ڈکٹیٹر شپ کی زیادہ حامی نہیں۔ جمہوریت بہرحال بہتر نظام ہے اور اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود آج کے دور میں اسے اپنائے بغیر چارہ نہیں۔
میں ملک شام میں ہر صورت ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ چاہتی ہوں۔
یہ اچھی بات ہے کہ بشارت الاسد اس معاملے میں اصلاحات لانے میں آمادہ ہے۔

اس وقت شام میں قتل و غارتگری کا زیادہ الزام امریکہ اور عرب لیگ پر عائد ہوتا ہے۔ امریکہ اور عرب لیگ نے سرے سے شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی امن مذاکرات اور اصلاحات کے نفاذ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ چین اور روس کا مؤقف بہتر ہے کہ مذاکرات کے ذریعے شام میں اصلاحات نافذ کی جائیں۔

اگر اپوزیشن کو اسلحہ فراہم کرنے اور انکو مذاکرات سے روکنے کی بجائے امریکہ اور عرب لیگ انہیں مذاکرات کی میز پر لائے تو اس صورت میں یہ کشت و خون ایک لمحے میں رک سکتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ امریکہ اور عرب لیگ کیوں مذاکرات اور اصلاحات کے نفاذ سے کوسوں دور بھاگ رہے ہیں؟

اسکا جواب یہ ہے کہ ملک شام میں واقعی اسد کو عوامی حمایت حاصل ہے۔

جبکہ اپوزیشن کم از کم چار بڑے گروہوں میں بٹی ہوئی ہے، جس میں انتہائی مذہبی طبقے سے لیکر تقریبا ملحد نیشنلسٹ لوگ شامل ہیں اور تیسرا بڑا گروہ کرد آبادی کا ہے جو بالکل الگ نظریات رکھتے ہیں۔

یہ بات یقینی ہے کہ انتخابات میں یہ اپوزیشن میں موجود مختلف گروہ کسی صورت اس پوزیشن میں نہیں کہ اسد حکومت کو شکست دے سکیں۔

انکے اختلافات کا پول آپکے سامنے ہے کہ جب امریکہ اور عرب لیگ کی ہزار کوششوں کے باوجود ابھی تک شام میں متحدہ اپوزیشن کا قیام عمل میں نہیں آ سکا ہے۔

شامی اپوزیشن کا ایک گروہ ملک شام میں عرب لیگ اور امریکہ اور انکے تربیت یافتہ دہشتگردوں کا ہرگز حامی نہیں اور امریکہ اور عرب لیگ کی مداخلت کا مخالف ہے۔

بذات خود میں بعث پارٹی اور ڈکٹیٹر شپ کی مخالف ہوں۔ اگر اصلاحات نافذ ہو گئیں اور الیکشن ہوئے، اور اس میں دھاندلی ہوئی اور عوام کی اکثریت واقعی سڑکوں پر احتجاج کرتی نظر آئی تو یقینا میں کھل کر انسانیت کے نام پر شامی عوام کی حمایت کروں گی اور اسد حکومت کی مخالفت۔

لیکن فی الحال اسد حکومت کی حمایت میں نکلنے والی ریلیاں اپوزیشن سے کئی گنا بڑی ہیں۔ یقین نہ آئے تو آپ یو ٹیوب میں پرو اسد ریلیوں کی ویڈیوز دیکٰٰٰ
 

عمر سیف

محفلین
بحرین کے عوام کی اکثریت وہاں موجود امریکی و برطانوی پٹھو بادشاہت کو قبول نہیں کرتی

بحرین کی عوام قتل و غارت کے حق میں نہیں۔ جس اکثریت کا ذکر کیا گیا ہے وہ غلط ہے۔ اِن کی تعداد کم ہے جتنی میڈیا یا اخبارات میں شائع کی جاتی ہے۔ یہ دونوں مسالک اکٹھے رہتے آئے ہیں اور اب بھی ویسا ہی رہنا چاہتے ہیں۔
 
اس میں یہ جاننا زیادہ اہم ہے کہ دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کی کیا تُک ہے۔

بجا فرمایا مگر یہ سوال تو ان سے ہونا چاہیے جو بحرین میں اپنی فوجیں بھیج رہے ہیں۔ آخری اطلاعات آنے تک وہ ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات تھے اور اب یہ پاکستان سے سابقہ فوجی حضرات کی بھرتی کا سلسلہ جو ہمارے پالیسی سازوں کی آشیرباد سے شروع ہوا ہے۔

لہذا معاملے کو ہم تو سیاسی انداز سے دیکھیں گےمذہبی رنگ میں نہیں۔

جس رنگ میں بھی دیکھ لیں جناب۔ میں نے کون سا قران و حدیث سے استدلال کیا تھا!:)

میں نے خبر من و عن پیش نہیں کی اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھ کر تفصیل کے لئے ربط فراہم کیا ہے۔
چلیں اگل دفعہ عنوان میں تحریف کے لئے میں بھی یہی ڈھنگ اپناؤں گا ;)

اس نکتے کی نشاندہی فرمائیے جو اس خبر کی صحت سے متصادم ہو
آپ نے جو خبر اپنے الفاظ میں پیش کی اس سے معلوم ہوتا تھا کہ بھرتی کہ یہ طریق کار ایک معمول کی مشق ہے۔ اپنے الفاظ پر غور کریں :

" واضح رہے کہ پاکستانی فوجیوں کی بحرین میں تعیناتی پاکستان کی سرکاری پالیسی کے تحت نہیں کی جاتی بلکہ خلیج میں روزگار کے حصول کے معروف طریقہ کے مطابق بحرینی حکومت مطلوب اسامیوں کے لئےاشتہارشائع کرواتی ہے اور ساری کارروائی بحرینی حکومت کے قوانین کے تحت انجام پاتی ہے۔"

جبکہ جو خبر عامر میر نے دی ہے وہ اس کو پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کا فیصلہ گردانتی ہے گویا یہ ایک سرکاری پالیسی کے مطابق ہے نہ کہ ایک معمول کی روزگار کی اسامیاں:
"تاہم پاکستانی فیصلہ سازوں نے ایرانی تنبیہ نظرانداز کرتے ہوئے بھرتی کا عمل جاری رکھا ہے۔ فوجی فاؤنڈیشن کی ذیلی تنظیم فوجی سکیورٹی سروسز لمیٹڈ پاکستانی آرمی، ایئر فورس اور نیوی کے ریٹائرڈ افسران کو ہنگامی بنیادوں پر بھرتی کررہی ہے جن کو سعودی عرب اور بحرین میں بھاری معاوضوں پر تعینات کیا جارہا ہے۔ فوجی فاؤنڈیشن کے ذرائع کے مطابق مشرق وسطیٰ میں سیاسی افراتفری کے تناظر میں تازہ بھرتی کے 90 فیصد سے زائد افراد کو بحرین میں تعینات کیا جارہا ہے جو بحرین نیشنل گارڈ میں خدمات سرانجام دیں گے"

ایرانی تنبیہ کا ماننا پاکستانی فیصلہ سازوں پر فرض نہیں ہے۔
ظاہر بات ہے کہ ایرانی تنبیہ کا ماننا ہمارے پالیسی ساز اداروں پر لازم نہیں بلکہ امریکی اور ان کے پٹھوؤں کی جنگ کا حصہ بننا ان پر فرض ہے جبھی آج تک ہمارے ملک میں امریکی ڈرون اٹیک ہوتے ہیں اور ہماری افواج تماشہ دیکھتی رہتی ہیں۔ ڈرون اٹیک کا جواب دینا بھی ان کا فرض نہیں۔ ان کے حقیقی فرائض کا بیان ایک طویل اور تکلیف دہ عمل ہے جس کا یہ مضمون متحمل نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر عافیہ اسی سوچ کی وجہ سے افغانستان میں زیادتی کا شکار ہوئی اور آج امریکہ کی قید میں ہے کیوں کہ ہمارے پالیسی ساز کچھ اور لوگوں کی وارننگ کو خاطر میں لاتے ہیں۔ ویسے میں تو محض اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا۔ میں نے کہاں کہا تھا کہ پاکستان پر ایرانی تنبیہ کی پیروی لازم ہے۔

پاکستانی حکومت تو ایرانی حکومت کے بھی ساتھ کھڑی ہے۔
جی یہ بھی صحیح ارشاد فرمایا۔ گزشتہ ١٧ سالوں سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی نہ ختم ہونے والی تعمیر اس کا ایک واضح اظہار ہے۔ باقی پاکستان میں ایرانی سفارتخانوں پر حملہ، ایرانی کیڈٹس کا قتل، ایرانی انجینیرز کا قتل وغیرہ وغیرہ اس لازوال دوستی کے عملی مظاہر ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات آپ کا شعبہ نہیں لگتے ورنہ ایرانی بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث جند اللہ کی پاکستانی پشت پناہی آپ سے چھپی نہیں رہ جاتی. ہم تزویراتی طور پر امریکہ و سعودی عرب سے جڑے ہیں سرکار نہ کہ ایران یا روس سے۔ آج سے تقریبا ١٢ سال پہلے میری کچھ ایسے دوستوں سے بات ہوئی تھی جن کا تعلق سیکورٹی امور سے تھا تو ان کے مطابق ایران عملی طور پر پاکستان کے لئے انڈیا سے بڑھ کر ہدف بن چکا تھا۔ آج جو قتل و غارت گری دیکھتے ہیں وہ اسی پالیسی کا ایک شاخسانہ ہے۔ موجودہ حکومت نے اس حوالے سے کچھ کوششیں کی ہیں تعلقات میں بہتری کے لئے مگر ہماری انٹلیجنس و سیکورٹی ادارہ اس کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں دکھائی دیتے اور دوسری طرف امریکی دھمکی بھی کارگر رہتی ہے تو گویا ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور دو قدم پیچھے ہٹتے ہیں.

ماشاءللہ ، قبلہ آپ نے تو ایران پرستی میں تمام ریکارڈ توڑنے کا ارادہ کر لیا ہے۔

کئی دفعہ ایران کی طرف سے بارڈر پر پاکستانیوں کی لاشوں کے تحفے پیش کیے جا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ جنداللہ کی طرف سے ایک خود کش دھماکے کے بعد ایرانی سیکورٹی چیف کی طرف سے پاکستانی بارڈر کے اندر کاروائی کی اجازت کی خبر بھی ابھی اتنی پرانی بات نہیں ہے۔ بھارت کےساتھ ایران کی دوستی اور کشمیر پر اس کا رویہ پاکستان کے لیے پریشان کن ہی رہا ہے۔ ایران پر بہت سے حملوں کی پیش کش پر پاکستان کے انکار کی وجہ سے ہی ایران پر حملہ کی نوبت نہیں آ سکی ورنہ یہ کندھا اگر پیش کر دیا گیا ہوتا تو بہت پہلے اور کئی طرح سے ایران پر حملہ ہو چکا ہوتا۔

شام کے اندر بشار الاسد کی خوش آشام اور بے رحمانہ قتل آپ کو جائز نظر آتا ہے اور اس پر ایران کی حمایت بھی ، سبحان اللہ ۔ ایک انتہائی سخت جابرانہ اور ظالم بادشاہت وہاں جائز ہے اور بحرین میں غلط کیونکہ وہاں ایران اس کے مخالف ہے۔
 

عسکری

معطل
مجھے ایران کی سمجھ نہیں آتی یارو۔ مجھے نا اس سے کوئی دشمنی ہے نا ہی فرقہ بندی پر مجھے ہر بار لگتا ہے ایران اوور ری یکٹ کر رہا ہے اور اس کا نقصان اٹھائے گا کسی دن ۔ 1979 میں آخری بار کوئی نیا جہاز اف-14 ایرانی ائیر فورس میں شامل ہوا تھا پر یہ ملا شاید کسی اور دنیا میں رہتے ہیں اسوقت جب ایران کے پاس 35+ 44 جنگی جہاز جو 35 سال پرانے ہیں اور 65 اف-5 75 ایف-4 جو 50 سال پرانے ہیں۔ اور اوپر سے ان کے پرزہ جات 30 سال سے بند ہیں ۔جسکا مطلب کتنے ایکٹیو ڈیوٹی ہیں کچھ پتا نہیں شاید 10 بھی نا ہوں ان کے دم پر پاکستان یا امریکیہ کو دھمکانا اپنا مذاق بنوانا ہے۔ پاکستان ایک بہت ہی شریف اور مسکین نیوکلئیر پاور ہے ورنہ ایسی دھمکیوں کا جواب میرے خیال سےپاکستان ائیر فورس نمبر-5 سکوارڈن کے فالکون 10 منٹ میں اف-16 بلوک52 سے دے سکتے ہیں ۔خدا کی پناہ ہے بس ایٹمی اور میزائیل پاور کو جس کی افواج دنیا کی ساتویں ی افواج ہیں ایک حصار میں بند پابندیوں میں جکڑا ملک دھمکا رہا ہے ۔:eek: واہ رے زرداری گیلانی کیانی کیا سے کیا بنا ڈالا پاکستان کو:brokenheart:
 

ساجد

محفلین
ماشاءللہ ، قبلہ آپ نے تو ایران پرستی میں تمام ریکارڈ توڑنے کا ارادہ کر لیا ہے۔

کئی دفعہ ایران کی طرف سے بارڈر پر پاکستانیوں کی لاشوں کے تحفے پیش کیے جا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ جنداللہ کی طرف سے ایک خود کش دھماکے کے بعد ایرانی سیکورٹی چیف کی طرف سے پاکستانی بارڈر کے اندر کاروائی کی اجازت کی خبر بھی ابھی اتنی پرانی بات نہیں ہے۔ بھارت کےساتھ ایران کی دوستی اور کشمیر پر اس کا رویہ پاکستان کے لیے پریشان کن ہی رہا ہے۔ ایران پر بہت سے حملوں کی پیش کش پر پاکستان کے انکار کی وجہ سے ہی ایران پر حملہ کی نوبت نہیں آ سکی ورنہ یہ کندھا اگر پیش کر دیا گیا ہوتا تو بہت پہلے اور کئی طرح سے ایران پر حملہ ہو چکا ہوتا۔

شام کے اندر بشار الاسد کی خوش آشام اور بے رحمانہ قتل آپ کو جائز نظر آتا ہے اور اس پر ایران کی حمایت بھی ، سبحان اللہ ۔ ایک انتہائی سخت جابرانہ اور ظالم بادشاہت وہاں جائز ہے اور بحرین میں غلط کیونکہ وہاں ایران اس کے مخالف ہے۔
محب ، کچھ ایسی ہی باتیں ہیں جن کو میں زکی صاحب کی طرح بچگانہ انداز میں یہاں بیان کر کے اپنی علمیت نہیں جھاڑنا چاہتا۔ اور ایسا صرف ایران ہی نہیں دیگر مسلم حکومتوں بشمول عرب بادشاہتوں کےمتعلق اتنا زیادہ مواد ہے کہ آگ بڑھکانے کے لئے کافی ہو گا۔ علم ہونا کافی نہیں ہوتا اس کا درست اور مثبت استعمال بھی معنی رکھتا ہے اوراس کے لئے سب سے پہلے برداشت کا مادہ بندے کے اندر موجود ہو۔جب ہم شخصیت پرستی یا قوم پرستی کا شکار ہو جائیں تو پھر معاملات کو یک طرفہ دیکھتے ہیں۔
سیاست کے دھاگوں پہ بحث کے دوران میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ہمارے چند ممبران کسی نہ کسی اندھی تقلید کا شکار ہو کر بحث برائے بحث شروع کر دیتے ہیں ۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ایک مراسلے میں جو بات کہتے ہیں دوسرے میں اس کے متضاد لکھ رہے ہوتے ہیں۔جو مطالبات دوسروں سے کر رہے ہوتے ہیں اپنے معقود کو اس سے مبرا سمجھتے ہیں۔
یہ بات سمجھ لیں کہ یہ سیاست ہے۔ یہاں عقیدت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر عقیدتیں پالنی ہیں تو سیاست کے دھاگے اس کے لئے مناسب جگہ نہیں ہیں۔ یہ دھاگہ تو ایران پر تھا ممکن ہے دوسرا عرب سیاست پر آئے تو مسٹر زکی صاحب میرے ساتھ کھڑے ہوں اور امریکی سیاست پر آئے تو چند دیگر رفقاء کرام مجھ پر دل ہی دل میں تین حرف بھیج رہے ہوں۔ پاکستانی سیاست پر آئے تو مجھے ملک دشمن کہہ دیا جائے۔ لیکن میرے لئے سب ساتھی محترم ہیں۔
صرف اتنی گزارش کروں گا کہ اختلاف کا سلیقہ اختیار کریں۔ لگتا نہیں کہ ہم سب میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی درجے کی طالبانیت پائی جاتی ہے؟۔ ہم اس سے چھٹکارہ کیوں نہیں پا لیتے؟۔
 

خرم زکی

محفلین
ایران پر بہت سے حملوں کی پیش کش پر پاکستان کے انکار کی وجہ سے ہی ایران پر حملہ کی نوبت نہیں آ سکی ورنہ یہ کندھا اگر پیش کر دیا گیا ہوتا تو بہت پہلے اور کئی طرح سے ایران پر حملہ ہو چکا ہوتا۔
ایران پر جب با قاعدہ فوجی حملہ ہو گا تو اس کے لئے عرب ممالک کی سر زمین استعمال ہو گی نہ کہ پاکستان کی جو کہ پہلے ہی سے برادر اسلامی ملک افغانستان پر امریکی فوجی حملہ کے لئے اپنے تمام تر وسائل پیش کر چکا ہے۔ اور جہاں تک فورتھ جنریشن جنگ کا تعلق ہے ہم بلوچستان میں ایران کے خلاف وہ کندھا پہلے ہی امریکہ کے حوالے کر چکے جس کا نام جند اللہ ہے جس کا حوالہ آپ نے بھی دیا۔
 

خرم زکی

محفلین
شام کے اندر بشار الاسد کی خوش آشام اور بے رحمانہ قتل آپ کو جائز نظر آتا ہے

دو عرض:

١. میں شام میں اکثریت کی پسند کی حکومت کا حامی ہوں اور بشار الاسد کی ڈکٹیٹرشپ کا حامی نہیں. البتہ بشار کو شامی عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
٢. ایک بے گناہ کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے۔ لیکن وہ لوگ جو امریکی اور صیہونی پیسے سے مسلح بغاوت کر رہے ہیں ان کو سختی سے کچل دینا چاہیے۔
 

ساجد

محفلین
شام کے اندر بشار الاسد کی خوش آشام اور بے رحمانہ قتل آپ کو جائز نظر آتا ہے

دو عرض:

١. میں شام میں اکثریت کی پسند کی حکومت کا حامی ہوں اور بشار الاسد کی ڈکٹیٹرشپ کا حامی نہیں. البتہ بشار کو شامی عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
٢. ایک بے گناہ کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے۔ لیکن وہ لوگ جو امریکی اور صیہونی پیسے سے مسلح بغاوت کر رہے ہیں ان کو سختی سے کچل دینا چاہیے۔
خرم زکی صاحب ، آپ کو بہت سمجھایا گیا کہ ایسی باتوں کو مت اچھالیں جو موضوع سے موافقت نہیں رکھتیں۔ ہر سیاسی معاملہ خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اسے اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ میں پھر کہہ دوں کہ تمام اسلامی ممالک ہمارے لئے برادرز کی اہمیت رکھتے ہیں لیکن آپ اختلافی مسائل پر کچھ یوں اظہار فرماتے ہیں کہ معاملات مزید بگڑتے ہیں۔
محب ، کے مراسلے کے جواب میں میں نے جو کچھ لکھا آپ نے اس کا بھی کوئی اثر نہیں لیا ۔ اگر آپ کو اتنا ہی شوق ہے کہ آپ ایرانی مداخلت کا ثبوت مانگے بنا نہیں رہیں گے تو میں بوجھل دل اور اپنی طبیعت کے خلاف اتمام حجت کے لئے کچھ پیش کر رہا ہوں۔ مجھے مسلم اتحاد زیادہ عزیز ہے بہ نسبت شر انگیزی کے لیکن آپ کے عجیب و غریب اور یک طرفہ پروپیگنڈا کے جواب کے لئے بس اسی پہ اکتفا کروں گا ۔ اگرچہ میرے پاس اس قسم کے سینکڑوں کلپ اور خبریں اور بھی ہیں لیکن مجھ میں اور آپ میں یہی فرق ہے کہ میں معاملات کو تماشہ نہیں بناتا اور آپ یہ کام شوق سے ہر دھاگے میں کر رہے ہیں۔
ذرا یہاں تشریف لائیے۔
 
Top