خرم زکی
محفلین
اس میں یہ جاننا زیادہ اہم ہے کہ دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کی کیا تُک ہے۔
بجا فرمایا مگر یہ سوال تو ان سے ہونا چاہیے جو بحرین میں اپنی فوجیں بھیج رہے ہیں۔ آخری اطلاعات آنے تک وہ ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات تھے اور اب یہ پاکستان سے سابقہ فوجی حضرات کی بھرتی کا سلسلہ جو ہمارے پالیسی سازوں کی آشیرباد سے شروع ہوا ہے۔
لہذا معاملے کو ہم تو سیاسی انداز سے دیکھیں گےمذہبی رنگ میں نہیں۔
جس رنگ میں بھی دیکھ لیں جناب۔ میں نے کون سا قران و حدیث سے استدلال کیا تھا!
میں نے خبر من و عن پیش نہیں کی اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھ کر تفصیل کے لئے ربط فراہم کیا ہے۔
چلیں اگل دفعہ عنوان میں تحریف کے لئے میں بھی یہی ڈھنگ اپناؤں گا
اس نکتے کی نشاندہی فرمائیے جو اس خبر کی صحت سے متصادم ہو
آپ نے جو خبر اپنے الفاظ میں پیش کی اس سے معلوم ہوتا تھا کہ بھرتی کہ یہ طریق کار ایک معمول کی مشق ہے۔ اپنے الفاظ پر غور کریں :
" واضح رہے کہ پاکستانی فوجیوں کی بحرین میں تعیناتی پاکستان کی سرکاری پالیسی کے تحت نہیں کی جاتی بلکہ خلیج میں روزگار کے حصول کے معروف طریقہ کے مطابق بحرینی حکومت مطلوب اسامیوں کے لئےاشتہارشائع کرواتی ہے اور ساری کارروائی بحرینی حکومت کے قوانین کے تحت انجام پاتی ہے۔"
جبکہ جو خبر عامر میر نے دی ہے وہ اس کو پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کا فیصلہ گردانتی ہے گویا یہ ایک سرکاری پالیسی کے مطابق ہے نہ کہ ایک معمول کی روزگار کی اسامیاں:
"تاہم پاکستانی فیصلہ سازوں نے ایرانی تنبیہ نظرانداز کرتے ہوئے بھرتی کا عمل جاری رکھا ہے۔ فوجی فاؤنڈیشن کی ذیلی تنظیم فوجی سکیورٹی سروسز لمیٹڈ پاکستانی آرمی، ایئر فورس اور نیوی کے ریٹائرڈ افسران کو ہنگامی بنیادوں پر بھرتی کررہی ہے جن کو سعودی عرب اور بحرین میں بھاری معاوضوں پر تعینات کیا جارہا ہے۔ فوجی فاؤنڈیشن کے ذرائع کے مطابق مشرق وسطیٰ میں سیاسی افراتفری کے تناظر میں تازہ بھرتی کے 90 فیصد سے زائد افراد کو بحرین میں تعینات کیا جارہا ہے جو بحرین نیشنل گارڈ میں خدمات سرانجام دیں گے"
ایرانی تنبیہ کا ماننا پاکستانی فیصلہ سازوں پر فرض نہیں ہے۔
ظاہر بات ہے کہ ایرانی تنبیہ کا ماننا ہمارے پالیسی ساز اداروں پر لازم نہیں بلکہ امریکی اور ان کے پٹھوؤں کی جنگ کا حصہ بننا ان پر فرض ہے جبھی آج تک ہمارے ملک میں امریکی ڈرون اٹیک ہوتے ہیں اور ہماری افواج تماشہ دیکھتی رہتی ہیں۔ ڈرون اٹیک کا جواب دینا بھی ان کا فرض نہیں۔ ان کے حقیقی فرائض کا بیان ایک طویل اور تکلیف دہ عمل ہے جس کا یہ مضمون متحمل نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر عافیہ اسی سوچ کی وجہ سے افغانستان میں زیادتی کا شکار ہوئی اور آج امریکہ کی قید میں ہے کیوں کہ ہمارے پالیسی ساز کچھ اور لوگوں کی وارننگ کو خاطر میں لاتے ہیں۔ ویسے میں تو محض اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا۔ میں نے کہاں کہا تھا کہ پاکستان پر ایرانی تنبیہ کی پیروی لازم ہے۔
پاکستانی حکومت تو ایرانی حکومت کے بھی ساتھ کھڑی ہے۔
جی یہ بھی صحیح ارشاد فرمایا۔ گزشتہ ١٧ سالوں سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی نہ ختم ہونے والی تعمیر اس کا ایک واضح اظہار ہے۔ باقی پاکستان میں ایرانی سفارتخانوں پر حملہ، ایرانی کیڈٹس کا قتل، ایرانی انجینیرز کا قتل وغیرہ وغیرہ اس لازوال دوستی کے عملی مظاہر ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات آپ کا شعبہ نہیں لگتے ورنہ ایرانی بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث جند اللہ کی پاکستانی پشت پناہی آپ سے چھپی نہیں رہ جاتی. ہم تزویراتی طور پر امریکہ و سعودی عرب سے جڑے ہیں سرکار نہ کہ ایران یا روس سے۔ آج سے تقریبا ١٢ سال پہلے میری کچھ ایسے دوستوں سے بات ہوئی تھی جن کا تعلق سیکورٹی امور سے تھا تو ان کے مطابق ایران عملی طور پر پاکستان کے لئے انڈیا سے بڑھ کر ہدف بن چکا تھا۔ آج جو قتل و غارت گری دیکھتے ہیں وہ اسی پالیسی کا ایک شاخسانہ ہے۔ موجودہ حکومت نے اس حوالے سے کچھ کوششیں کی ہیں تعلقات میں بہتری کے لئے مگر ہماری انٹلیجنس و سیکورٹی ادارہ اس کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں دکھائی دیتے اور دوسری طرف امریکی دھمکی بھی کارگر رہتی ہے تو گویا ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور دو قدم پیچھے ہٹتے ہیں.
بجا فرمایا مگر یہ سوال تو ان سے ہونا چاہیے جو بحرین میں اپنی فوجیں بھیج رہے ہیں۔ آخری اطلاعات آنے تک وہ ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات تھے اور اب یہ پاکستان سے سابقہ فوجی حضرات کی بھرتی کا سلسلہ جو ہمارے پالیسی سازوں کی آشیرباد سے شروع ہوا ہے۔
لہذا معاملے کو ہم تو سیاسی انداز سے دیکھیں گےمذہبی رنگ میں نہیں۔
جس رنگ میں بھی دیکھ لیں جناب۔ میں نے کون سا قران و حدیث سے استدلال کیا تھا!
میں نے خبر من و عن پیش نہیں کی اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھ کر تفصیل کے لئے ربط فراہم کیا ہے۔
چلیں اگل دفعہ عنوان میں تحریف کے لئے میں بھی یہی ڈھنگ اپناؤں گا
اس نکتے کی نشاندہی فرمائیے جو اس خبر کی صحت سے متصادم ہو
آپ نے جو خبر اپنے الفاظ میں پیش کی اس سے معلوم ہوتا تھا کہ بھرتی کہ یہ طریق کار ایک معمول کی مشق ہے۔ اپنے الفاظ پر غور کریں :
" واضح رہے کہ پاکستانی فوجیوں کی بحرین میں تعیناتی پاکستان کی سرکاری پالیسی کے تحت نہیں کی جاتی بلکہ خلیج میں روزگار کے حصول کے معروف طریقہ کے مطابق بحرینی حکومت مطلوب اسامیوں کے لئےاشتہارشائع کرواتی ہے اور ساری کارروائی بحرینی حکومت کے قوانین کے تحت انجام پاتی ہے۔"
جبکہ جو خبر عامر میر نے دی ہے وہ اس کو پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کا فیصلہ گردانتی ہے گویا یہ ایک سرکاری پالیسی کے مطابق ہے نہ کہ ایک معمول کی روزگار کی اسامیاں:
"تاہم پاکستانی فیصلہ سازوں نے ایرانی تنبیہ نظرانداز کرتے ہوئے بھرتی کا عمل جاری رکھا ہے۔ فوجی فاؤنڈیشن کی ذیلی تنظیم فوجی سکیورٹی سروسز لمیٹڈ پاکستانی آرمی، ایئر فورس اور نیوی کے ریٹائرڈ افسران کو ہنگامی بنیادوں پر بھرتی کررہی ہے جن کو سعودی عرب اور بحرین میں بھاری معاوضوں پر تعینات کیا جارہا ہے۔ فوجی فاؤنڈیشن کے ذرائع کے مطابق مشرق وسطیٰ میں سیاسی افراتفری کے تناظر میں تازہ بھرتی کے 90 فیصد سے زائد افراد کو بحرین میں تعینات کیا جارہا ہے جو بحرین نیشنل گارڈ میں خدمات سرانجام دیں گے"
ایرانی تنبیہ کا ماننا پاکستانی فیصلہ سازوں پر فرض نہیں ہے۔
ظاہر بات ہے کہ ایرانی تنبیہ کا ماننا ہمارے پالیسی ساز اداروں پر لازم نہیں بلکہ امریکی اور ان کے پٹھوؤں کی جنگ کا حصہ بننا ان پر فرض ہے جبھی آج تک ہمارے ملک میں امریکی ڈرون اٹیک ہوتے ہیں اور ہماری افواج تماشہ دیکھتی رہتی ہیں۔ ڈرون اٹیک کا جواب دینا بھی ان کا فرض نہیں۔ ان کے حقیقی فرائض کا بیان ایک طویل اور تکلیف دہ عمل ہے جس کا یہ مضمون متحمل نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر عافیہ اسی سوچ کی وجہ سے افغانستان میں زیادتی کا شکار ہوئی اور آج امریکہ کی قید میں ہے کیوں کہ ہمارے پالیسی ساز کچھ اور لوگوں کی وارننگ کو خاطر میں لاتے ہیں۔ ویسے میں تو محض اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا۔ میں نے کہاں کہا تھا کہ پاکستان پر ایرانی تنبیہ کی پیروی لازم ہے۔
پاکستانی حکومت تو ایرانی حکومت کے بھی ساتھ کھڑی ہے۔
جی یہ بھی صحیح ارشاد فرمایا۔ گزشتہ ١٧ سالوں سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی نہ ختم ہونے والی تعمیر اس کا ایک واضح اظہار ہے۔ باقی پاکستان میں ایرانی سفارتخانوں پر حملہ، ایرانی کیڈٹس کا قتل، ایرانی انجینیرز کا قتل وغیرہ وغیرہ اس لازوال دوستی کے عملی مظاہر ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات آپ کا شعبہ نہیں لگتے ورنہ ایرانی بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث جند اللہ کی پاکستانی پشت پناہی آپ سے چھپی نہیں رہ جاتی. ہم تزویراتی طور پر امریکہ و سعودی عرب سے جڑے ہیں سرکار نہ کہ ایران یا روس سے۔ آج سے تقریبا ١٢ سال پہلے میری کچھ ایسے دوستوں سے بات ہوئی تھی جن کا تعلق سیکورٹی امور سے تھا تو ان کے مطابق ایران عملی طور پر پاکستان کے لئے انڈیا سے بڑھ کر ہدف بن چکا تھا۔ آج جو قتل و غارت گری دیکھتے ہیں وہ اسی پالیسی کا ایک شاخسانہ ہے۔ موجودہ حکومت نے اس حوالے سے کچھ کوششیں کی ہیں تعلقات میں بہتری کے لئے مگر ہماری انٹلیجنس و سیکورٹی ادارہ اس کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں دکھائی دیتے اور دوسری طرف امریکی دھمکی بھی کارگر رہتی ہے تو گویا ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور دو قدم پیچھے ہٹتے ہیں.