سفرنامہ قیصرانی

قیصرانی

لائبریرین
پیارے دوستو، جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ میں گزشتہ دنوں مختلف ممالک کے دورے پر نکلا ہوا تھا۔ تو اس سلسلے میں میں نے ایک دن ایمسٹرڈیم، ہالینڈ میں گزارا۔ ایک رات لندن باجی کے پاس، ایک دن اور ایک رات دوحہ، قطر اور پھر پانچ چھ دن بنگلہ دیش اور باقی کے دن پاکستان۔ میں ابھی ان کا تفصیلی احوال لکھنے والا ہوں کیونکہ اس کا حکم فرزانہ صاحبہ نے دیا ہے۔ جسے ٹالنا میرے لیے اب ناممکن ہے کہ بہت ٹالنے کی کوشش کر لی :D

یہ بات واضح رہے کہ میں کوئی پروفیشنل سفری نامہ نگار نہیں، اس لیے کسی بات کی وضاحت نہ ہو سکے تو براہ کرم مجھے سے تفصیل پوچھ لیں۔ تاریخ میں میں‌نے جانے کی کوشش نہیں‌کی کہ میں‌اس بات کو بورنگ سمجھتا ہوں

تصاویر ہیں، لیکن میں صرف وہ تصاویر لگاؤں گا جہاں میں اکیلا ہوں، یعنی میرے دوست یا ان کی فیملی نہ موجود ہوں۔ میں نے ان لوگوں سے اس بات کی اجازت نہیں لی کہ ان کی تصاویر پبلک میں ڈسپلے ہوں۔ امید ہے کہ آپ لوگ اس بات کا بھی برا نہیں منائیں گے

ضروری نوٹ: اس میں آپ کو عطا الحق قاسمی یا چاچا جی مستنصر حسین تارڑ والی حسیناؤں کے تذکرے نہیں ملیں گے۔ اس لیے اگر آپ ان تذکروں کے لیے یہ دھاگہ پڑھنا چاہیں تو میری ایک بار پھر سے معذرت

تبصرہ جات کے لیے یہ لنک استعمال کریں

سفر نامہ برائے قیصرانی: تبصرہ و تجاویز
 

قیصرانی

لائبریرین
کافی دن پہلے باجی کے اصرار پر میں نے سوچا کہ لندن کا ایک چکر لگا ہی آؤں۔ حقیقت یہ تھی کہ میری باجی پاکستان سے آتے ہوئے میرے لیے کافی کچھ لائی تھیں جو لندن رہ گیا تھا۔ اسی طرح ان کے سسر اور ہمارے پھوپھا بھی پاکستان سے لندن آتے ہوئے میرے گھر سے میرے لیے کچھ سامان لائے تھے، وہ بھی لندن میں ہی رک گیا تھا۔ پھر باجی کا پروگرام بنا کہ وہ ادھر چکر لگائیں۔ لیکن پھر انہی دنوں ان کا ویزہ ری نیو ہونا تھا تو وہ نہیں آسکیں۔ ان حالات میں میں نے سوچا کہ لندن جاؤں۔ اور پھر اس کے بعد کینیڈا ایک دوست کے پاس چکر لگا لوں گا۔ لیکن انہی دنوں کے حالات کے باعث میں نے سوچا کہ فائدہ نہیں ہے۔ مجھے گھر والوں نے بھی منع کیا کہ کینیڈا کا چکر فی الحال گول کر دوں۔ کینیڈا کا ویزہ میرے پاس پورٹ پر میرا منہ چڑا رہا ہے :(

جب کینیڈا کا پروگرام کینسل ہوا تو میں نے اپنی چھٹیوں کو کیش کرنے کا متبادل پروگرام بنایا۔ میرے پاس کوئی دو ماہ کی چھٹیاں تھیں۔ لیکن وہی ہوا کہ

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

غلطی یہ ہوئی کہ ایک دوست سے میں اپنے پلان کی کینسلیشن اور پھر چھٹیوں کا تذکرہ کر بیٹھا۔ انہوں نے چھوٹتے ہی مجھے بنگلہ دیش کی دعوت دے دی۔ میری حماقت کہ میں نے فورا ہی ویزہ اپلائی کر دیا۔ نارمل ویزہ پروسیسنگ 4 دن میں ہو جاتی ہے۔ ویزہ آفس سوئیڈن میں ہے (فن لینڈ میں پاکستان اور بنگلہ دیش، دونوں کے سفارت خانے نہیں ہیں)۔ تو کل ایک ہفتے کی بات تھی۔ بنگلہ دیش کے ویزے کے لیے آپ کو کسی بھی بنگلہ دیشی رہائشی کی انوی ٹیشن ہونا لازمی ہے جو مجھے کاغذات اور پاس پورٹ بمع فیس بھیج دینے کے بعد پتہ چلی۔ پھر میں نے اگلے ہفتے وہ انوی ٹیشن ارینج کی۔ ایک ہفتے بعد فون کیا تو پتہ چلا کہ اس انوی ٹیشن پر دوست کے اصلی دستخط ہوں۔ وہ فیکس سے نکلوایا اور پھر بھیجا۔ اس کے بعد 2 ہفتے تک وہ ٹالتے رہے کہ آج ہو جائے گا کل ہو جائے گا۔ تنگ آکر میں نے اپنے دوست سے کہا کہ ذرا وہ خود فون کریں۔ انہوں نے فون کیا تو پتہ چلا کہ ان کے فون کا انتظار تھا۔ اس کے بعد فورا ویزہ دے دیا گیا

تب تک میری چھٹیاں آدھی ہو چکی تھیں۔ پھر ائیر لائنز کی بکنگ، پھر یہ مسئلہ وہ مسئلہ۔ پاکستان کے لیے جو سستی ائیر لائن ہے وہ بنگلہ دیش کے لیے بہت مہنگی۔ جو بنگلہ دیش کے لیے سستی، وہ پاکستان کے لیے مہنگی۔ جو ان دونوں کے لئے سستی، وہ ایمسٹرڈیم اور لندن سے نہیں گزرتی۔ عجیب مشکل میں جان پھنس گئی

پھر لے دے کے یہی سوچا کہ یہاں سے لندن تک کے ایل ایم پر جاؤں کہ وہ ایمسٹرڈیم میں بریک دے گا۔ ایمسٹرڈیم جانا اس لیے اہم تھا کہ ایک دوست کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ تو تعزیت ضروری تھی۔ اس کے علاوہ لندن باجی کے لیے جانا لازمی تھا۔ لندن سے بنگلہ دیش تک کے لیے میں نے قطر ائیر ویز کو چنا کہ ان کی سروس بہت اچھی ہے۔ دوسرا ایک دن کی بریک بھی لے لوں گا دوحہ میں۔ ایک نیا ملک بھی دیکھ لوں گا اور بریک کی وجہ سے تھکن بھی کم ہوگی۔ اسی طرح واپسی کی بکنگ میں نے الگ سے کرنے کی سوچی

15 ستمبر کو میں نے دوست کو لندن میں ٹکٹ کے لیے پے منٹ کردی کہ یہاں قطر ائیرویز کا کوئی آفس نہیں ہے۔ تو ٹکٹ کے لیے لندن کو ہی چنا۔ کے ایل ایم کی ای بکنگ کرلی
 

قیصرانی

لائبریرین
تو فی الحال میں‌ یہ سلسلہ کل تک کے لیے روکتا ہوں۔ ابھی فی الحال اتنا بتا دیتا ہوں کہ فن لینڈ سے ایمسٹرڈیم اور پھر لندن تک کے ایل ایم، لندن سے دوحہ اور پھر ڈھاکہ تک قطر ائیرویز اور ڈھاکہ سے چٹاگانگ تک بےمان اور پھر ڈھاکہ سے کراچی اور کراچی سے ملتان تک پی آئی اے اور واپسی پر لاہور سے کراچی تک پی آئی اے اور کراچی سے دوحہ اور پھر لندن تک قطر ائیرویز اور پھر لندن سے ایمسٹرڈیم اور پھر ہیلسنکی تک کے ایل ایم پر سفر کیا
 

قیصرانی

لائبریرین
فن لینڈ سے لندن تک کا سفر میں نے کے ایل ایم سے چنا کیونکہ اس کے کرائے سب سے سستے تھے۔ اگرچہ رائن ائیر بھی بہت سستی تھی لیکن اس وقت تک ان کی ساری بکنگ فل ہو چکی تھی۔ آخر کار فن لینڈ سے لندن تک میں نے ریٹرن ٹکٹ آن لائن کے ایل ایم کی ویب سائٹ سے خریدی جو کوئی تین سو تئیس یورو تھی۔ مزے کی بات یہی ائیرلائن، یہی ٹکٹ، یہی تاریخ، یہی فلائٹ میں نے ایک ٹریول ایجنٹ سے پتہ کیا تو یہ کوئی چار سو پچاس یورو سے زائد تھی۔ یعنی کاغذی ٹکٹ اور ای ٹکٹ میں کوئی سوا سو یورو کا فرق۔ ایک اور عجیب ترین بات، ریٹرن ٹکٹ تین سو تئیس یورو اور اگر یہی ٹکٹ‌ ون وے ہو تو انہوں‌نے قیمت کوئی تین سو پچہتر یورو آفر کی

آن لائن بکنگ سے میں اس لیے بچنا چاہ رہا تھا کہ میرے پاس کریڈٹ کارڈ نہیں ہے اور ڈیبٹ کارڈ پر سو یورو سے بڑی ٹرانزیکشن میرے بینک کے لیے مسئلہ کرتی ہے۔ خیر ایک دوست کی ممانی کے کارڈ سے ٹرانزیکشن کی اور پیسے انہیں بینک ٹرانسفر کردیئے۔ مزے کی ایک اور بات، یہاں فن لینڈ میں میرے حلقہ احباب میں یہی ایک واحد قابل رسائی کریڈٹ کارڈ ہولڈر، اور سمتبر کا مہینہ ان کے کارڈ کے ایکسپائر ہونے کا ماہ۔ خیر میرا کام تو ہو گیا

ٹرپ کا جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ میرا ارادہ تھا کہ یہاں سے بنگلہ دیش اور پھر پاکستان جاؤں گا۔ پھر کے ایل ایم (ہالینڈ کی ائیرلائن ہے اور لندن یا دوسری فلائٹس کے لیے یہ ایمسٹرڈیم میں بریک لیتی ہے) کی وجہ سے سوچا کہ ٹرانزٹ تو ایمسٹرڈیم میں ہے ہی، اس لیے کنکٹنگ فلائٹ کوئی چھ گھنٹے بعد کی بک کی۔ پھر ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ جو ائیرلائن میرے لیے اچھی ہے، وہ لندن سے بنگلہ دیش نہیں جاتی، جو جاتی ہے وہ بہت مہنگی اور فن لینڈ میں ان کے کوئی آفس نہیں۔ آن لائن ٹکٹ اس لیے نہیں خرید سکتا کہ پاکستان یا بنگلہ دیش میں آن لائن ٹکٹ کا تصور ابھی پوری طرح نہیں ہے۔ میں نے سوچا کہ مسئلہ نہ ہوجائے

باجی کو درخواست کی کہ وہ میری اگلی فلائٹ کنفرم کرا دی اور ٹکٹ ان سے میں لے لوں گا۔ قطر ائیرویز کی ٹکٹ ملی جو ون وے تھی۔ اب فلائٹ شیڈیول کچھ ایسے بنا کہ بیس ستمبر کو شام ساڑھے پانج بجے ہیلسنکی وانتا ائیر پورٹ سے پہلی فلائٹ ایمسٹرڈیم شائیفول ائیرپورٹ کے لیے، پھر ایمسٹرڈیم سے اگلی فلائیٹ لندن ہیتھرو ائیرپورٹ کے لیے، لیکن دونوں میں کوئی چھ گھنٹے کی بریک تاکہ دوست سے مل سکوں، ائیرپورٹ سے پک کرنے وہ خود آنا تھا۔ پھر ایمسٹرڈیم سے لندن، لندن رات باجی کے پاس گزار کر صبح دوحہ اور دوحہ سے بنگلہ دیش
 

قیصرانی

لائبریرین
پیارے دوستو، تو اب سفر کا اصل مرحلہ شروع ہوتا ہے

سب سے پہلے تو جیسا کہ ہم سب کرتے ھیں، پاکستان میں موجود فیملی ، دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے تحائف خریدے، جو ایک بہت ہی مشکل امر تھا۔ سب کی فرمائشیں تھیں کہ ہر چیز پر میڈ ان فن لینڈ کی مہر ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فن لینڈ دیگر یورپی ممالک کی نسبت صنعتی طور پر بہت پیچھے ھے۔ صرف اس کے نوکیا اور نوکیا ہی کی سب کمپنی یو پی سی ایسی ہیں جن کی دنیا بھر میں شہرت ھے۔ چھوٹی بہن کو کچھ کھلونے درکار تھے کہ اس کی سہیلیوں اور جاننے والی خواتین کے بچے اس کے شاگرد ھیں۔ اب مارکیٹ میں اور دیگر سٹورز پر ھر کھلونا میڈ ان ڈنمارک، میڈ ان چائنا، میڈ ان ہالینڈ اور میڈ ان دیگر ممالک تھا۔ ایک چھوٹے سے ڈیوٹی فری (جی ہاں، یہاں ڈیوٹی فری سٹورز شہر کے اندر بھی ھوتے ھیں) سے کچھ چھوٹی موٹی چیزیں ایسی ملیں جو میڈ ان فن لینڈ تھیں

ان سب فرمائشوں کی خریداری سے فارغ ہوا تو پھر پیکنگ کا مسئلہ تھا۔ پینکنگ کرنا میرے لئے سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ھے اور میں عموما سفر پر جانے سے کچھ دیر قبل ہی پیکنگ کرتا ھوں۔ البتہ ساری چیزیں اکٹھی ایک جگہ رکھتا جاتا ھوں تاکہ پیکنگ میں مشکل نہ ھو۔ خیر سفر کے دن جلدی جلدی سب کچھ پیک کیا جلدی میں وہ تمام چیزیں رہ گئیں جن پر میڈ ان فن لینڈ کی مہر تھی :(

سارا سامان ایک ہی بیگ میں آگیا۔ ایم پی تھری پلئیر جیب میں تھا، فون بھی جیب میں، ٹکٹ اور پاس پورٹ بھی جیب میں۔ ایک دوست کی والدہ نے مجھے ائیر پورٹ ڈراپ کرنے کی حامی بھری تھی۔ وہ وقت پر آئیں اور ہم لوگ ہیلسنکی کی طرف روانہ ہوئے۔ میری موجودہ رہائش Viiala میں ھے اور یہاں سے ہیلسنکی 160 کلو میٹر کے فاصلے پر ھے۔ بائی روڈ کوئی دو گھنٹے کے لگ بھگ اور بائی ٹرین کوئی سوا گھنٹے کا فاصلہ۔ خیر ھم لوگ بائی روڈ گئے اور کوئی تین بجے ائیر پورٹ پہنچ گئے۔ میری فلائٹ جیسا کہ پہلے بتا چکا ھوں، ساڑھے پانچ بجے کی تھی

ہیلسنکی وانتا ائیر پورٹ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس تک جانے کا راستہ شہر کے باھر سے ھی ہے اور اس کے ٹرمینل دو ھیں اور دونوں ایک دوسرے سے قریب ھیں کہ آپ ایک سے دوسرے ٹرمینل آسانی سے جا سکتے ھیں۔ خیر ائیر پورٹ پہنچ کر دوست کی والدہ کا شکریہ ادا کیا اور انہیں واپس روانہ کرتے ھوئے درخواست کی کہ بخیریت پہنچ کر اپنی خیریت سے مطلع فرمائیں۔ اس احتیاط کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت تیز گاڑی چلاتی ھیں اور ان کا بائیاں پاؤں بچپن سے پولیو کی وجہ سے درست کام نہیں کرتا

ائیر پورٹ میں داخل ہوا۔ اس بار مجھے ھیلسنکی ائیرپورٹ پر بہت رش دکھائی دیا۔ اس سے قبل میں نے زیادہ تر سردیوں میں ہی اور رات کے وقت یہاں اس ائیر پورٹ سے سفر کیا تھا جس کی وجہ سے عمومی طور پر مسافر کم ھوتے ھیں۔ لیکن سیکیورٹی سے گزرتے ھوئے کوئی پانچ منٹ بھی نہیں لگے۔ نہ بیلٹ اتارنی پڑی اور نہ ہی جوتے یا سامان کی اضافی چیکنگ۔ خیر ٹرمینل پر پہنچ کر انتظار شروع ہوا کہ ابھی بہت ساری فلائٹس جاری تھیں اور پوری دنیا کے مسافر دکھائی دے رھے تھے

ہیلسنکی وانتا ائیر پورٹ سائز کے لحاظ سے بہت چھوٹا سا ائیرپورٹ ھے (اگر یورپ کے دیگر بڑے ائیرپورٹس کو دیکھا جائے) لیکن اس کی مینیجمنٹ، مین ٹینینس اور سہولیات اسے بہت جدید ائیرپورٹس کی صف میں لا کھڑا کرتی ھیں۔ اس پر بہت ساری ائیرلائنز کی آمد و رفت ہوتی ہے جو عموما یورپی ھی ہیں، چندایک فلائٹس مشرق بعید سے بھی ھوتی ھیں۔ پاکستان، انڈیا اور گلف کے دیگر ممالک کی کوئی فلائٹ ادھر نہیں آتی۔ حتٰی کہ امارات ائیرلائنز جو کئی برس سے یہ دعوٰی کر رھی تھی کہ 2006 تک وہ ہر اس ملک تک اپنی فلائٹس کو بڑھائیں گے جہاں سے فلائٹس دبئی آتی ھیں۔ فن ائیر کی دبئی کے لئے فلائٹس بہت عرصے سے چل رھی ہیں لیکن یہ ہمیشہ سردیوں کے چھ ماہ کے لئے ھوتی ھیں

فلائٹ سے پندرہ یا بیس منٹ قبل کاؤنٹر کھلا اور ہمیں جانے کی اجازت ملی۔ مزے کی بات یہ تھی کہ امیگریشن کے حوالے سے کوئی بھی بندہ نہیں موجود تھا۔ صرف پاس پورٹس پر نام دیکھے گئے اور بورڈنگ پاس کو چیک کرکے اندر بھیج دیا گیا۔ حتٰی کہ پاس پورٹ پر ایگزٹ کی مہر تک نہیں لگائی گئی۔ کمپیوٹر پر انٹرنی تک نہیں ہوئی۔ پہلے میں سمجھا کہ شاید میں ہی پہلی بار اس مرحلے کو دیکھ رھا ھوں، لیکن دیگر مسافر بھی پریشان تھے کہ یہ کیسے ھو رھا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین


خیر وقت مقررہ پر کے ایل ایم کا بوئنگ-737 جو آدھا گھنٹہ پہلے مسافر لے کر ایمسٹرڈیم، ہالینڈ سے آیا تھا، پھر واپسی کو تیار تھا۔ جہاز میں سوار ھوئے۔ آدھی فلائٹ خالی تھی۔ ھر کوئی اپنی مرضی سے اپنی اپنی پسند کی سیٹوں پر بیٹھ گیا، کسی کو بھی بورڈنگ کارڈ کے مطابق بیٹھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ حسب معمول کپتان نے پہلے ڈچ، پھر فننش اور پھر انگریزی میں اعلان کیا کہ فلائٹ کا کل فلائنگ ٹائم ایک گھنٹہ اور تیس منٹ ھے اور یہ کہ ہم لوگ کوئی دس ھزار میٹر کی بلندی پر اڑیں گے۔ پھر وہی معمول کے حفاظتی تدابیر وغیرہ کہ ہنگامی صورتحال کے لئے کیا کیا کرنا ھوگا، سیٹ بیلٹ کیسے باندھنی ھے۔ اسی دوران ایک بہت مزے کی بات ہوئی۔ جو بوڑھی خاتون میری سیٹ سے اگلی سیٹ پر تھی، وہ نہ تو ڈچ جانتی تھی، نہ فننش اور نہ ھی انگریزی۔ اور وہ بیٹھی بھی اسی سیٹ پر جہاں ایمرجنسی ایگزٹ ڈور تھا۔ اب ائیر ہوسٹس نے باری باری اسے فننش، ڈچ اور پھر انگریزی میں بتانے کی کوشش کی کہ اس ایمرجینسی ایگزٹ ڈور کو کب اور کیسے استعمال کرنا ھے۔ لیکن اس بے چاری کے پلے کچھ نہ پڑا۔ وہ ھنگری کی خاتون تھیں اور جہاز پر کسی کو بھی ھنگیرین (وہ زبان جو ھنگری میں بولی جاتی ھے) نہیں آتی ۔ تنگ آکر ائیر ہوسٹس نے اس عورت کے ساتھ ایک اور مسافر کو بٹھا دیا اور اسے سمجھا دیا کہ کیا کرنا ھوگا اور کب اور کیسے کرنا ھوگا

یہاں ایک اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ ہیلسنکی وانتا ائیر پورٹ پر عموما فلائٹس یکے بعد دیگرے کیو یا قطار کی صورت میں اڑتی ھیں۔ یعنی اگر کوئی فلائٹ نہیں ھے تو کافی دیر تک خاموشی ھوگی، اگر لینڈنگ ھے تو یکے بعد دیگرے بہت سی فلائٹس اور اگر ٹیک آف ھے تو بھی بہت سارے ٹیک آف ایک ساتھ باری باری ہوں گے :)

کے ایل ایم کے تین جہاز، تینوں ہی ایمسٹرڈیم کے لئے ایک ہی قطار میں باری باری کوئی دو دو منٹ کے وقفے سے ہوا میں بلند ھوئے۔ فن لینڈ کے بارے میں فضا سے درست اندازہ ہوتا ھے کہ اس ملک کو جھیلوں اور جنگلوں کی سرزمین کیوں کہا جاتا ہے۔ آپ جہاں بھی دیکھیں، جھیلیں ھی جھیلیں اور جنگل ہی جنگل، کہیں کہیں شہر بھی یا گاؤں بھی دکھائی دے جاتے ھیں۔ فلائٹ بہت آرام سے اور سکون سے چلتی رھی اور ھم لوگ آرام سے کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد پہنچ گئے۔ ہاں، کھانے میں ابلا ھوا اناج جس میں چکن شامل تھادیا گیا۔ اس کا ذائقہ ہلکا میٹھا تھا :)۔ ساتھ بسکٹ اور کافی چائے یا الکحل حسب ضرورت اور حسب منشا۔ ایک بن بھی پہلے دیا گیا تھا

ایمسٹرڈیم پر اترتے وقت بہت ہی زیادہ خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملے۔ جنگلات فن لینڈ کی نسبت کم، لیکن سبزہ اور نہریں پھر اس میں جگہ جگہ لگی ھوئی ونڈ ملز بہت نمایاں تھیں۔ ایمسٹرڈیم کے شائفول ائیرپورٹ کو مسلسل دس سال تک دنیا کا بہترین ائیر پورٹ کا اعزاز حاصل رھا ھے جو ابھی تک کوئی اور ائیر پورٹ نہیں لے سکا۔ اس کے علاوہ بھی اسے بہت سے اعزازات حاصل ھیں۔ اس ائیرپورٹ کو دنیا کا چوتھا بڑا ئیر پورٹ کہتے ھیں۔ یہاں پر سب سے اچھی بات اس کا ویل مینیجڈ ھونا ھے۔ اگرچہ ہم لوگ دن کے وقت ادھر پہنچے لیکن ایک منٹ بھی ھمیں فضا میں فالتو نہیں گزارنا پڑا۔ ادھر تین ریگولر رن ویز ھیں اور ایک اضافی جو بوقت ضرورت کام کرتا ھے۔ اس ائیر پورٹ پر اترتے ھوئے مزے کی بات یہ بھی ھے کہ اس کا رن وے جہاں سے شرو ع ھوتا ھے، وہاں اترنےکے لئے جہاز موٹر وے سے چند سو فٹ کی بلندی پر ھوتا ھے۔ اس کے علاوہ بعض جگہ ٹیکسی کرتے ھوئے جہاز شہر کی روڈز پر سے پلوں پر سے گزرتاھے جو بذات خود ایک مزے کا منظر ھوتا ھے کہ ھوائی جہاز زمین پر چل رھا ھے اور گاڑیاں اس سے نیچے سے گزر رھی ھیں۔ دوسرا اس ائیر پورٹ پر مسافروں کی رہنمائی کا انتطام بہت عمدہ ھے۔ شاید ھی آپ کو کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت پڑے

ائیرپورٹ پر پہنچتے ھی فون آن کیا، دوست کو کال کیا تو پتہ چلا کہ دوست کچھ بیمار ھے اور شاید وہ مجھے لینے نہ آسکے۔ ادھر میرے پاس ٹرانزٹ میں اگلی فلائٹ کے دو امکانات تھے۔ یا تو میں اگلی فلائٹ صرف پچاس منٹ کے دوران لے لوں یا پھر پانچ یا چھ گھنٹے انتطار کروں۔ پہلے میرا پروگرام یہی تھا کہ جاتے ھوئے دوست سے ملتا جاؤں گا، پانچ چھ گھنٹے کا ٹرانزٹ ھے۔ آرام سے بندہ مل لیتا ھے۔ لیکن ابھی پھر مجھے اگلی فلائٹ جلدی لینی پڑی

پچاس منٹ بعد پھر سے ھم لوگ کے ایل ایم کے دوسرے بوئنگ -737 میں سوار ھو کر لندن کے لئے روانہ تھے۔ اس بار فلائٹ کا دورانیہ کوئی پچاس منٹ تھا۔ ویسے بھی دس ھزار میٹر کی بلندی تک پہنچتے پہنچتے کوئی پندرہ بیس منٹ لگ ھی جاتے ھیں۔ اس فلائٹ کے دوران بس یہی سمجھیں کہ ٹیک آف کیا، پھر ہلکی پھلکی ریفریشمنٹ دی گئی اور اتنے میں لینڈنگ کیو میں لگ گئے۔ کوئی بیس منٹ کا اضافی وقت لگا جو ھم نے لندن شہر پر چکر کاٹتے گزارا۔ اتنے میں ایک نزدیکی ائیرپورٹ پر (جو پتہ نہیں بولٹن تھا، گیٹ وک یا پھر سٹین سٹڈ) پر لینڈنگ ہوتی دکھائی دیتی رھیں۔ نیچے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر فٹ بال اور کرکٹ سٹیڈیم دکھائی دے رھے تھے۔ سورج غروب ھوئے کافی دیر ھو چکی تھی لیکن شہر کی روشنیوں نے بہت خوبصورت نظارہ پیش کیا
 

قیصرانی

لائبریرین
لندن پر جہاز ھیتھرو ائیرپورٹ پر اترا۔ ھیتھرو کے بارے میں آپ سب اچھی طرح سے جانتے ھیں کہ یہ ائیرپورٹ دنیا میں مسافروں کی تعداد کے لحاظ سے دوسرا بڑا ائیر پورٹ ھے۔ لیکن اگر بین الاقوامی مسافروں کو دیکھا جائے تو یہ پہلے نمبر پر ھے۔ خیر، اس وقت یہاں مسافروں کا رش بہت کم تھا۔ ائیر پورٹ پر اترے ھوئے صاف پتہ چل گیا کہ ھم لوگ بشمول تمام یورپی مسافروں کے جو غیر برطانوی ھیں، کو اپنی اوقات یاد رکھنی چاھئے۔ جگہ جگہ سکیورٹی والے موجود، ان کا رویہ اس سے بھی گیا گزرا جو شاید پاکستانی ائیرپورٹ پر سیکیورٹی کا عملہ ھمارے ساتھ روا رکھے۔ اس کے علاوہ ائیر پورٹ سے باھر آنے کے لئے امیگریشن کی لمبی قطار، شاہانہ مزاج سے کام جاری تھا۔ کل چار کاؤنٹرز کام کام کر رھے تھے اور دو پر پاکستانی بندے کام کر رھے تھے :) اور دو پر گورے۔ میری باری پر کوئی وقت نہیں لگا کہ فارم فل کر چکا تھا، دیگر کاغذات بھی مکمل تھے۔ ٹرانزٹ ویزے پر چھتیس گھنٹے کے لئے آزاد تھا۔ ابھی رات کے گیارہ بجنے والے تھے

ائیرپورٹ کے امیگریشن والے حصے سے نکلا تو بہت شدید افسوس ھوا۔ یہی لگا کہ ابھی تک جو دیکھا وہ ایک فریب تھا۔ دیگر یورپی ائیرپورٹس کے مقابلے بہت کم صفائی، ہر چیز اپنی متعلقہ جگہ سے ہٹ کر دکھائی دی، چاہے وہ ٹرالیاں ھوں چاھے وہ بندے ھوں۔ باجی کو فون کیا تو انھوں نے کہا کہ ابھی اگر ھوسکے تو میں انڈر گراؤنڈ پکڑ لوں اور انھوں نے بتایا کہ کہاں پہنچنا ھے۔ جہاں سے وہ مجھے آسانی سے لے سکیں۔ اگر وہ خود آتے تو انہیں زیادہ وقت لگ جاتا اور میرے پاس صرف ایک رات کا وقت تھا :)

کرنسی ایکسچینج والے کے پاس گیا تو کاؤنٹر خالی، جو بندہ اندر بیٹھا ھے، وہ الگ شہنشاہ۔ کہتا ھے کہ انتظار کرو، بندہ ابھی آجائے گا۔ جب وہ آیا تو میں نے پوچھا کہ بھائی جی ویمبلے تک جانا اور آنا ھے۔ کتنے پونڈز کافی رھیں گے انڈر گراؤنڈ کے لئے؟ تو اس نے کہا کہ دس پونڈ کافی رھیں گے۔ میں نے بیس یورو کنورٹ کرائے اور انڈرگراؤنڈ کی طرف چل پڑا جو سامنے والے بورڈ سے ظاہر تھا

اب یاد نہیں کہ ایکٹن ٹاؤن سے ہو کر الپرٹن جانا تھا کہ الرپٹن سے ہو کر ایکٹن ٹاؤن۔ اس لئے ترتیب بگڑ جائے تو برا مت مانیں

بورڈ سے پتہ چلا کہ نیچے جاؤں۔ ایلی ویٹر سے نیچے پہنچا تو پتہ چلا کہ اوپر جانا ہے۔ اس طرح دو تین چکر لگے لیکن بالآخر گھوم پھر کر پہنچ گیا۔ ابھی تھوڑا دور تھا کہ میرے پیچھے سے دو تین خواتین اور چار پانچ مرد حضرات بھاگتے ھوئے گزرے اور میں ان کے درمیان ٹکریں کھا کر گھومتا ھی رھا۔ دراصل میرا بیگ چوڑائی میں کم لیکن لمبائی میں کافی بڑا تھا :) جو ان سے ٹکرایا۔ خیر پتہ چلا کہ وہ موجودہ ٹرین کے لئے بھاگ رھے تھے جو سٹاپ پر موجود تھی۔ خیر میں نے ٹکٹ والی ونڈو سے ٹکٹ خریدی اور ٹرین کے لئے چل پڑا۔ ہیتھرو ائیرپورٹ پر ساری ٹرینیں ائیر پورٹ سے پہلے ایک مین کراسنگ تک جاتی ھیں، اس کے بعد وہاں سے دو راستے نکلتے ھیں۔ یوں سمجھیں کہ اگر انگریزی کا حرف یو لکھا ھو اور اس کے نیچے ایک ڈنڈا سا لگا دیا جائے تو یہی نقشہ ھوگا۔ یو کا ایک سرا ہیتھرو ائیرپورٹ سے شروع ھوتا ھے اور وہاں سے آپ پہلے مین جنکشن پر جاتے ھیں جو یو کے دونوں سروں اور ڈنڈے کو آپس میں ملاتا ھے۔ یہاں سے میں نے ٹرین بدل کر واپس یو کے دوسرے سرے پر موجود ایکٹن ٹاؤن کے سٹاپ پر جانا تھا

خیر اگلی گاڑی کوئی پانچ منٹ سے پہلے آگئی۔ سوار ھوا تو سامنے ایک انگریز لڑکا بیٹھا تھا۔ اب میرے ذہن میں یہی تھا کہ یہ بیچارہ مجھ سے ڈرا ھوا ھوگا لیکن وہ تو الٹا بہت خوش تھا کہ میں سامنے بیٹھا ھوں(شاید اس لئے کہ میں مسافر تھا)۔ خیر تھوڑی بہت گپ شپ ہوئی تو اس نے اپنا غم نکال کر سامنے رکھ دیا۔ یعنی اس کا نیا فون خریدنے کے دو ماہ بعد ہی خراب ھو گیا تھا، ابھی کئی ہفتوں کے انتظار کے بعد اسے مرمت ھو کر ملا اور وہ اس سے کھیلنے لگ گیا۔ خیر ایکٹن ٹاؤن پر اترا۔ سیڑھیوں سے برج پر ھو کر دوسری طرف پہنچا۔ ادھر جا کر دوسری ٹرین کا انتظار کیا کیونکہ ایک ٹکٹ تب تک کارآمد ہوتا ھے جب تک آپ سٹیشن سے باھر نہ آجائیں۔دوسری ٹرین کوئی پانچ منٹ بعد آگئی، الپرٹن تک وقت گزرنے کا پتہ نہیں چلا۔ سٹیشن آگیا اور میں اتر گیا

سامنے ایگزٹ ڈور کے پاس باجی موجود تھیں۔ ٹکٹ کو مشین میں ڈالا، راستہ کھلا اور باہر نکل آیا۔ باجی بیچاری پہلے تو مسکرا رھی تھیں پھر رونے لگ گئیں۔ میری یہ ان سے کوئی تین سال بعد اور ابو کی وفات کے بعد پہلی ملاقات تھی۔ خیر باھر نکلا تو بہنوئی صاحب جو میرے پھوپھی زاد بھائی بھی ھیں، موجود تھے۔ بیگ گاڑی میں رکھا۔ روانہ ھوئے۔ راستے میں باجی نے کہا کیا کھانا پسند کرو گے۔ اتنی عزت افزائی پر بہت ھنسی آئی کہ تین سال پہلے تک ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت خار کھاتے تھے اور روزانہ ہلکی پھلکی لڑائی معمول تھی :) انہیں کہا کہ کچھ بھی ہو کھانے کو مل جائے لیکن ہو گھر کی چیز کیونکہ ان کی کُکنگ کی تعریفیں سنتا آیا تھا :) پر انھوں نے راستے میں ایک جگہ سے چکن برگر لئے اور ساتھ ہاٹ چکن ونگز :( گھر پہنچتے پہنچتے کوئی بارہ بجنے والے تھے

باجی کے گھر کے ساتھ ھی ویمبلے سٹیڈیم ھے۔ تو باجی نے کہا کہ پہلے اس کو دیکھتے چلتے ھیں۔ خیر باھر باھر سے دیکھا، جھوٹ موٹ حیرت ظاھر کی کہ اچھا کیا یہ وہ عظیم الشان سٹیڈیم ھے جس کی ساری دنیا میں دھوم مچی ھے۔ کزن صاحب مجھے اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر مسکرا رھے تھے۔ شکر ھے کہ باجی نے نوٹ نہیں کیا۔ اس کے بعد وہاں کوئی مشہور آرک بن رھی تھی، وہ دیکھی، ٹاؤن ہال دیکھا اور پھر گھر پہنچے۔ میں نے بھائی سے کہا کہ بیگ گاڑی میں چھوڑ دوں؟ کزن نے منع کیا کہ نہیں، یہ سیف نہیں ھے۔ دوسرے کزن جو بڑے والے تھے، دروازے پر بھابھی سمیت کھڑے تھے اور اپنا منا گود میں اٹھایا ھوا تھا۔ ان سے ملاقات ھوئی، کوئی چار سال بعد۔ باجی کے شادی کے موقع پر ہی ملے تھے

گھر میں داخل ھو کر فورا ہاتھ دھوئے اورکھانا شروع کیا کہ بہت بھوک لگی تھی۔ کھانا کھاتے ھوئے باجی سے پوچھا کہ باھر کا کھانا کھلانے کی کوئی خاص وجہ۔ باجی تو چپ رھیں، لیکن کزن نے مسکرا کر کہا کہ تمھاری کُکنگ کی تعریف سن چکی ھیں، اس لئے کانشس ھیں۔ میری کُکنک کی تعریف میرے پھوپھا نے کی تھی جو پچھلے سال فن لینڈ آئے تھے۔ خیر کھانا کھا کر چائے پینے کا سوچا۔ شکر ھے کہ میرے پاس بہت سارے چاکلیٹس تھے، اس لئے بڑے کزن کے بیٹے سے فورا دوستی ہو گئی۔چائے پی کر کافی دیر تک گپ شپ کی اور کوئی دو بجے سونے چلے گئے

ابھی تک پاکستان کسی کو نہیں بتایا تھا کہ میں باجی کے پاس جاؤں گا یا نہیں۔ سونے سے پہلے امی کو ایس ایم ایس کردی کہ میں ابھی باجی کے گھر ھوں، کل صبح اگلی فلائٹ لینی ھے۔ صبح اٹھ کر نیچے اترا، باجی نے ناشتہ دیا۔ ناشتہ کرکے ھم لوگ گھر سے نکلے ۔پہلے باجی ٹاؤن ھال گئیں جہاں وہ جاب کرتی ھیں، پھر کزن نے مجھے ایکٹن ٹاؤن سٹاپ پر چھوڑا اور وہ دفتر چلے گئے۔ ان دنوں کچھ روڈز کی وجہ سے ائیرپورٹ کا راستہ کافی مخدوش تھا۔ رش کی وجہ سے کئی گھنٹے لگ جاتے تھے

یہاں پیٹرول کی قیمت اور ڈیزل کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ یعنی کوئی ڈیڑھ پاؤںڈ فی لیٹر پیٹرول اور ایک پاؤنڈ سے بھی زیادہ کا فی لیٹر ڈیزل :(۔ اس کے علاوہ بہت دن بعد صبح کا وقت بہت اچھا اور خوشگوار لگا۔ جنکشن سے ٹرین بدلی اور ہیتھرو تک پہنچا
 
Top