ناصر کاظمی سفرِ منزلِ شب یاد نہیں (ناصر کاظمی)

زونی

محفلین


سفرِ منزلِ شب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں

دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں

وہ ستارہ تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
اک صورت تھی عجب یاد نہیں

ایسا الجھا ہوں غمِ دنیا میں
ایک بھی خوابِ طرب یاد نہیں

بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد ائیں بھی تو سب یاد نہیں

یہ حقیقت ھے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے کہ اب یاد نہیں

یاد ھے سیرِ چراغاں ناصر
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں



(ناصر کاظمی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت ہی خوب- شکریہ زونی صاحبہ- میں حیران ہوں کہ ناصر کی یہ غزل میں نے پہلے کبھی نہیں پڑھی - کیا آپ بتا سکتی ہیں‌کہ یہ غزل کس کتاب سے لی گئی ہے؟
 

زونی

محفلین
بہت ہی خوب- شکریہ زونی صاحبہ- میں حیران ہوں کہ ناصر کی یہ غزل میں نے پہلے کبھی نہیں پڑھی - کیا آپ بتا سکتی ہیں‌کہ یہ غزل کس کتاب سے لی گئی ہے؟


سخنور بھائی میں شاعری تو بہت کم پڑھتی ہوں اور یہ کتاب تو میں نے بھی نہیں پڑھی لیکن یہ غزل میں نے انٹرنیٹ سے ہی اپنی ڈائری میں کاپی کی تھی ،مجھے اچھی لگی تو شیئر کر دی۔:)
 
Top