قرۃالعین اعوان
لائبریرین
یہ شیشیے کے غلافوں میں دھڑکتی ' سوچتی آنکھیں
نجانے کتنے پر اسرار دریاؤں کی گہرائی میں
یہ لب جب شعلئہ آواز کی حدت میں تپ کر مسکراتے ہیں
یہ حوادث کے مقابل بھی کشیدہ قامت و خوش پیرہن ' پیکر
نجانے کتنے پر اسرار دریاؤں کی گہرائی میں
بکھرے موتیوں کی آب سے نم ہیں
پہاڑوں سے اترتی کہر میں لپٹا ہوا یہ سانولا چہرہ!
نجانے کتنی کجلائی ہوئی صبحوں کے سینے میںمچلتی خواہشوں کا آئینہ بن کر
دمکتا ہے !
یہ چہرہ کرب کے موسم کی بجھتی دوپہر میں بھیچمکتا ہے !
یہ لب یہ تشنگی کی موج میں بھیگے ہوئے"مرجاں"
شعاعِ حرف جن سے پھوٹتی ہے سر خرو ہو کر !یہ لب جب شعلئہ آواز کی حدت میں تپ کر مسکراتے ہیں
تو نادیدہ سرابوں کی جبیں پر
بے طلب کتنے ستارے جھلملاتے ہیں
یہ لب جب مسکراتے ہیںتو پل بھر کو سکوتِ گنبدِ احساس
خود سے گونج اٹھتا ہے !!!
یہ پیکریہ حوادث کے مقابل بھی کشیدہ قامت و خوش پیرہن ' پیکر
کہ جیسے بارشوں کے رنگ برساتی ہوئی رت میں
خرامِ ابر پر قوسِ قزاح نے
اپنی انگڑائی چھڑک دی ہو!
کوئی آواز!
جب تنہا مسافت میں مرے ہمراہ چلتی ہے
کوئی پرچھائیں
جب میری بجھی آنکھوں میں چبھتے اشک چنتی ہے
تو لمحہ بھر کو رک کر سوچتا ہوں میں
کہ اس تنہا مسافت میں
کسی صحرا میں سائے بانٹتے اشجار کی خوشبو ہے
یا تم ہو۔۔۔!
یہ تم ہو یا تمنا کے سفر میں
حوصلوں کا استعارہ ہے ؟
یہ تم ہو یا طلب کی رہگزر میں
گم ستارہ ہے
ہوا تم سے الجھتی ہے
کہ تم اپنی ہتھیلی پرمشقت کا دیا بجھنے نہیں دیتے !
حریفانِ قلم۔۔۔۔نالاں
کہ تم ان کی کسی سازش پہ کیوں برہم نہیں ہوتے؟
ادب کے تاجرانِ حرص پیشہ سر بہ زانو ہیں
کہ تم اہلِ ہنر کے ریزہ ریزہ خواب
اپنی جاگتی آنکھوں سے چن کر
سانس کے ریشم میں
کیوں اتنی مشقت سے پروتے ہو
مگر جاناں تمہیں کیا؟
تم سفر جاری رکھو اپنا
سفر میں سنگ باری سے لہو ہونا
جگر کے زخم سے رستے لہو سے آبلے دھونا۔۔۔۔
ازل سے ہم غریبانِ سفر کی اک روایت ہے !
تمہیں کیا تم سفر جاری رکھو اپنا۔۔۔!
تمہاری آبلہ پائی کا عنواں نارسائی ہے
تمہیں آتا ہے دشمن کے لیئے وقفِ دعا رہنا
اندھیروں سے الجھنا۔۔۔سنگباری کی رتوں میں بے قبا رہنا
تمہیں آتا ہے ۔۔۔۔یوں بھی زخم کھاکر مسکرا دینا
تمہیں آتا ہے
گردِ روز و شب سے "ماورا" رہنا
(میری بے حد پسندیدہ نظم )