سفر دنیا و آخرت

Saadullah Husami

محفلین
مکرم قارئین- زمانہ پہلے لکھی ہوئ پرحکمت نظم پیش ہے ،امید کہ پسند خاطر ہوگی ۔از سعداللہ سعدی


سفر دنیا و آخرت
۲۵ مئ ۲۰۰۴ ع
۲۵ ویں مئ کو ھم ٹرین سےرات میں واپس بنگلور سے حیدرآباد،بعد سفر کوڈائکنال ومنّار و بنگلور اہل وعیال کے ساتھ و مکرمہ منصورہ چچی صاحبہ کےواپس حیدرآباد آرہے تھے، تب ایسا حادثہ ہوا کہ ٹرین میں رات میں پتنگوں نے ہمیں ستانا شروع کیا ۔پتنگے ہر جگہ تھے ، جہاں روشنی نظر آئ کہ وہاں پہنچے ،جسم سے لپٹے جارہے تھے ،اس اثناء میں مکرمہ چچی صاحبہ بھی پتنگوں کو ہٹانے میں مصروف تھیں کہ ان کے اس ہٹنے ہٹانے میں ان کی سونے کی انگوٹھی ہاتھ کے آخری انگلی سے نکل کر کھڑکی سےچلتی ٹرین کے باہر ہوگئ ۔افسوس صد افسوس ۔کف افسوس ملتے رہ گئے۔اس بات پر یہ اشعار فی البدیہ وہیں اس ماحول میں ہوگئے ۔تاکہ واقعہ بھی یاد رہے اور سبق بھی مل جائے۔جس کا عنوان میں نے" سفر دنیا و آخرت" دیا ہے ۔
ستاتا تھا سرِ شام ہم کو دیوانہ سا پروانہ
وہ روشن نور پر مٹتا تھا دیوانہ سا پروانہ
مگر شامت جو آئ تھی وہ پروانے کی اس لمحہ
لگا کرنے شرارت والدہ سےاُس لمحہ پروانہ
وہ سب کو چھوڑ اُڑتا تھا ، پُھدکتا تھا، اترتا تھا
کہ مانو نُور ہیں چاچی اور دیوانہ وہ پروانہ
چمٹتا تھا ،پکڑتا تھا وہ نورانی سی بانہوں کو
جو انگوٹھی سنہری تھی ،اُسی کا تھا وہ دیوانہ
مگر قُدرت کی مرضی تھی کہ انگوٹھی سنہری وہ
جو ہاتھوں میں چچی کے وہ ، سجی تھی مانو دُردانہ
بہت بھائ وہ انگوٹھی سنہری اس پتنگے کو
اُڑا اور وہ اُڑی خَاتم مع ہاتھوں کا جھٹکانا
کفِ افسوس کیا ملنا کہ سب کو جب ہے پھر جانا
وہ پروانہ ہوکہ انگوٹھی ،یا ہم اہلِ مرجانہ
سبق سیکھا ہے سعدی اور سِکھلادے تو بھی اوروں کو
شمع یونہی نہیں جلتی کہ جل جائے وہ پروانہ
وہ جلتی ہے کہ پوری ہو تیری خدمت میری خدمت
اِسی خاطر تو آئے ہیں یہ دیوانہ ، وہ پروانہ
 
Top