نبیل
تکنیکی معاون
السلام علیکم،
ہر سال کی طرح اس بار بھی میں پاکستان کچھ ہفتے گزار کر آیا ہوں۔ پاکستان میں ایسا کچھ ٌخاص کام نہیں کر پاتا جس کی روداد سنانے کے قابل ہو۔ لیکن کچھ دوستوں کی فرمائش پر اس مرتبہ پاکستان میں قیام کی کچھ تفصیل بیان کر رہا ہوں۔ اگست، ستمبر جیسے گرمی اور حبس والے موسم میں پاکستان جانے کی واحد وجہ یہی ہے کہ میرے بچوں کے سکول میں اسی وقت گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں اور انہیں پاکستان جانا نہایت پسند ہے، اس لیے وہ گرم موسم سے بھی نہیں گھبراتے۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا سفر مجھ پر کافی بھاری گزرتا ہے۔ زیادہ تر وقت میرا پیٹ خراب رہتا ہے اور مسلسل لوڈ شیڈنگ بھی مجھے عاجز کیے رکھتی ہے۔ اس مرتبہ اتنی خیر ضرور گزری کہ بارشوں کی وجہ سے گرمی کا زور ٹوٹتا رہا۔ بیمار بھی اس مرتبہ میں زیادہ نہیں پڑا۔ لیکن کئی وجوہات کی بناء پر لوگوں سے ملاقات کا وقت نہیں ملا اور تقریباً تمام وقت گھر پر ہی گزارا۔ پاکستان میں قیام کا سب سے مثبت پہلو مجھے اپنے والد صاحب کی صحبت میں نظر آتا ہے۔ میرے والد صاحب تمام عمر تدریس اور لکھنے پڑھنے کے میدان سے وابستہ رہے ہیں اور ایک صاحب علم شخصیت ہیں۔ ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر گھنٹوں گفتگو جاری رہتی ہے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ میں اپنے پاکستان کے قیام کو reading vacations بھی قرار دیتا ہوں کیونکہ سال بھر میں یہی موقع ہوتا ہے جب مجھے یکسوئی سے کتابیں پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ بالا کی سطور سے واضح ہو گیا ہوگا کہ پاکستان سے میں صرف کچھ احساسات اور مشاہدات ہی واپس لاتا ہوں۔
پاکستان میں اگر موقع مل جائے اور کچھ پیسے بچ جائیں تو کچھ کتابوں کی خریداری بھی کر لیتا ہوں۔ اس مرتبہ اپنی پسند کی تمام کتابیں نہیں خرید سکا۔ صرف ایک مرتبہ مال روڈ پر کتابوں کی خریداری کے سلسلے میں چکر لگا۔ فیروز سنز تو ختم ہی ہو گئی ہے۔ صرف ماوراء ہی باقی رہ گئی ہے۔ اس مرتبہ جن کتابوں کی خریداری کی، ان کی فہرست ذیل میں ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کی خاکم بدہن، چراغ تلے اور زرگزشت (آب گم پہلے ہی میرے پاس تھی)
مقدمہ ابن خلدون
زندہ رود (جاوید اقبال)
ہیرلڈ لیم کی کتابوں کے اردو تراجم عمر خیام، چنگیز خان، صلاح الدین ایوبی، بابر۔۔
بابر سے ظفر تک (جمیل یوسف)
توزک جہاں گیری
لسان الغیب، شرح دیوان حافظ (میر ولی اللہ)
اس کے علاوہ بھی چند اور کتابیں ہیں جن کے نام اس وقت یاد نہیں آ رہے۔ چند کتابیں میں اپنے والد صاحب سے ادھار بھی لے آیا ہوں۔ لیکن اس سب کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میں ان کتابوں کو پڑھوں گا بھی۔ دیوان حافظ میں دلچسپی کی بھی ایک وجہ ہے۔ اس پر علیحدہ سے لکھوں گا۔
پاکستان میں قیام کے دوران میں نے جو کتابیں پڑھیں ان میں سیرت کے موضوع پر دو کتابیں پڑھیں جن میں ایک فرانسیسی سے اردو میں ترجمہ تھی۔ یہ کتاب گانسٹن ویرژیل گیورگیو نے لکھی ہے اور غالباً صمصام احمد نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ دوسری کتاب کے ایک گابا کی لکھی ہوئی جس کا ترجمہ پیغمبر صحرا کے نام سے چھپا ہے۔ اس کے علاوہ میں نے ایک اور کتاب کا مطالعہ شروع کیا تھا جو کہ آر وی سی باڈلے کی لکھی ہوئی ہے لیکن یہ میں پوری نہیں پڑھ سکا تھا۔
میں پاکستان سے کچھ مواد کی فوٹو کاپی بھی کروا کر لایا ہوں۔ حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی تحاریر اب کلیات امدادیہ کے نام سے چھپ چکی ہے لیکن یہ دستیاب نہیں تھی۔ میرے والد صاحب نے کچھ عرصہ قبل یہ کتاب کراچی سے آرڈر پر منگوائی تھی۔ مجھے اس میں صرف دو حصے ضیاءالقلوب اور فیصلہ ہفت مسئلہ درکار تھے جو کہ میں نے فوٹو کاپی کروا لیے۔ میں انہیں جلد ہی سکین کر کے ان کی پی ڈی ایف اپلوڈ کر دوں گا۔ اس کے علاوہ میں اپنے والد صاحب کے تحریر کردہ چند مضامین بھی لایا ہوں۔ انہیں ٹائپ کرنے کی فرصت تو شاید ہی ملے۔ انہیں بھی سکین کرکے انہیں تصویری شکل میں پوسٹ کر دوں گا۔
لاہور سے ایک معیاری ادبی جریدہ سورج کے نام سے جاری ہوتا ہے جس کے مدیر اعلی تسلیم تصور صاحب ہیں۔ میرے والد صاحب ایک عرصے تک اس جریدے کے اعزازی مدیر رہے ہیں اور اب بھی وقتاً فوقتاً ان کی تحاریر جریدہ سورج میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ تسلیم تصور صاحب نے کچھ عرصہ قبل ایک بین الاقوامی غالب کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں پیش کیے گئے مقالہ جات جریدہ سورج کے ایک خصوصی شمارہ میں شائع ہوئے۔ میں اس خصوصی شمارے کی ایک کاپی بھی ساتھ لایا ہوں۔ چند ہی مہینوں میں تسلیم تصور صاحب دوبارہ غالب کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے تسلیم تصور صاحب سے ان کے آفس میں ملاقات کی اور انہیں اردو ویب اور اردو محفل فورم کا تعارف کروایا۔ انہوں نے اس تمام سلسلے میں گہری دلچسپی لی۔ میں نے ان سے درخواست کی وہ خود سے جریدہ سورج کے شماروں کا تعارف محفل فورم پر پوسٹ کر دیا کریں۔ بدقسمتی سے تسلیم تصور صاحب کمپیوٹر کا استعمال نہیں جانتے۔ تسلیم تصور صاحب کے صاحبزادے اگرچہ خود کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں، لیکن وہ اپنے والد صاحب کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے آگاہی دلانے کو (تسلیم تصور صاحب کے) وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ میں نے ان کے خیالات کو تبدیل کرنا مناسب نہیں جانا، البتہ میں نے ان سے جریدہ سورج کے سرورق کی گرافکس اور اس میں چھپنے والے چند مضامین کی سوفٹ کاپی مانگی جے ارسال کرنے کا انہوں نے وعدہ تو کر لیا لیکن ابھی تک ان کی جانب سے ای میل کا انتظار کر رہا ہوں۔ اگر انہوں نے فائلیں بھیج دی تو انہیں یونیکوڈ میں کنورٹ کرکے پوسٹ کر دوں گا۔ بصورت دیگراپنے پاس موجود صفحات کو ہی سکین کرکے ان کو تصویری شکل میں پوسٹ کر دوں گا۔
فی الحال اتنی ہی تفصیلات کافی ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ لاہور میں محفلین نے عید ملن پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس میں شامل نہیں ہو سکا۔ چلیں اگلے سال سہی۔
والسلام
ہر سال کی طرح اس بار بھی میں پاکستان کچھ ہفتے گزار کر آیا ہوں۔ پاکستان میں ایسا کچھ ٌخاص کام نہیں کر پاتا جس کی روداد سنانے کے قابل ہو۔ لیکن کچھ دوستوں کی فرمائش پر اس مرتبہ پاکستان میں قیام کی کچھ تفصیل بیان کر رہا ہوں۔ اگست، ستمبر جیسے گرمی اور حبس والے موسم میں پاکستان جانے کی واحد وجہ یہی ہے کہ میرے بچوں کے سکول میں اسی وقت گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں اور انہیں پاکستان جانا نہایت پسند ہے، اس لیے وہ گرم موسم سے بھی نہیں گھبراتے۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا سفر مجھ پر کافی بھاری گزرتا ہے۔ زیادہ تر وقت میرا پیٹ خراب رہتا ہے اور مسلسل لوڈ شیڈنگ بھی مجھے عاجز کیے رکھتی ہے۔ اس مرتبہ اتنی خیر ضرور گزری کہ بارشوں کی وجہ سے گرمی کا زور ٹوٹتا رہا۔ بیمار بھی اس مرتبہ میں زیادہ نہیں پڑا۔ لیکن کئی وجوہات کی بناء پر لوگوں سے ملاقات کا وقت نہیں ملا اور تقریباً تمام وقت گھر پر ہی گزارا۔ پاکستان میں قیام کا سب سے مثبت پہلو مجھے اپنے والد صاحب کی صحبت میں نظر آتا ہے۔ میرے والد صاحب تمام عمر تدریس اور لکھنے پڑھنے کے میدان سے وابستہ رہے ہیں اور ایک صاحب علم شخصیت ہیں۔ ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر گھنٹوں گفتگو جاری رہتی ہے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ میں اپنے پاکستان کے قیام کو reading vacations بھی قرار دیتا ہوں کیونکہ سال بھر میں یہی موقع ہوتا ہے جب مجھے یکسوئی سے کتابیں پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ بالا کی سطور سے واضح ہو گیا ہوگا کہ پاکستان سے میں صرف کچھ احساسات اور مشاہدات ہی واپس لاتا ہوں۔
پاکستان میں اگر موقع مل جائے اور کچھ پیسے بچ جائیں تو کچھ کتابوں کی خریداری بھی کر لیتا ہوں۔ اس مرتبہ اپنی پسند کی تمام کتابیں نہیں خرید سکا۔ صرف ایک مرتبہ مال روڈ پر کتابوں کی خریداری کے سلسلے میں چکر لگا۔ فیروز سنز تو ختم ہی ہو گئی ہے۔ صرف ماوراء ہی باقی رہ گئی ہے۔ اس مرتبہ جن کتابوں کی خریداری کی، ان کی فہرست ذیل میں ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کی خاکم بدہن، چراغ تلے اور زرگزشت (آب گم پہلے ہی میرے پاس تھی)
مقدمہ ابن خلدون
زندہ رود (جاوید اقبال)
ہیرلڈ لیم کی کتابوں کے اردو تراجم عمر خیام، چنگیز خان، صلاح الدین ایوبی، بابر۔۔
بابر سے ظفر تک (جمیل یوسف)
توزک جہاں گیری
لسان الغیب، شرح دیوان حافظ (میر ولی اللہ)
اس کے علاوہ بھی چند اور کتابیں ہیں جن کے نام اس وقت یاد نہیں آ رہے۔ چند کتابیں میں اپنے والد صاحب سے ادھار بھی لے آیا ہوں۔ لیکن اس سب کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میں ان کتابوں کو پڑھوں گا بھی۔ دیوان حافظ میں دلچسپی کی بھی ایک وجہ ہے۔ اس پر علیحدہ سے لکھوں گا۔
پاکستان میں قیام کے دوران میں نے جو کتابیں پڑھیں ان میں سیرت کے موضوع پر دو کتابیں پڑھیں جن میں ایک فرانسیسی سے اردو میں ترجمہ تھی۔ یہ کتاب گانسٹن ویرژیل گیورگیو نے لکھی ہے اور غالباً صمصام احمد نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ دوسری کتاب کے ایک گابا کی لکھی ہوئی جس کا ترجمہ پیغمبر صحرا کے نام سے چھپا ہے۔ اس کے علاوہ میں نے ایک اور کتاب کا مطالعہ شروع کیا تھا جو کہ آر وی سی باڈلے کی لکھی ہوئی ہے لیکن یہ میں پوری نہیں پڑھ سکا تھا۔
میں پاکستان سے کچھ مواد کی فوٹو کاپی بھی کروا کر لایا ہوں۔ حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی تحاریر اب کلیات امدادیہ کے نام سے چھپ چکی ہے لیکن یہ دستیاب نہیں تھی۔ میرے والد صاحب نے کچھ عرصہ قبل یہ کتاب کراچی سے آرڈر پر منگوائی تھی۔ مجھے اس میں صرف دو حصے ضیاءالقلوب اور فیصلہ ہفت مسئلہ درکار تھے جو کہ میں نے فوٹو کاپی کروا لیے۔ میں انہیں جلد ہی سکین کر کے ان کی پی ڈی ایف اپلوڈ کر دوں گا۔ اس کے علاوہ میں اپنے والد صاحب کے تحریر کردہ چند مضامین بھی لایا ہوں۔ انہیں ٹائپ کرنے کی فرصت تو شاید ہی ملے۔ انہیں بھی سکین کرکے انہیں تصویری شکل میں پوسٹ کر دوں گا۔
لاہور سے ایک معیاری ادبی جریدہ سورج کے نام سے جاری ہوتا ہے جس کے مدیر اعلی تسلیم تصور صاحب ہیں۔ میرے والد صاحب ایک عرصے تک اس جریدے کے اعزازی مدیر رہے ہیں اور اب بھی وقتاً فوقتاً ان کی تحاریر جریدہ سورج میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ تسلیم تصور صاحب نے کچھ عرصہ قبل ایک بین الاقوامی غالب کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں پیش کیے گئے مقالہ جات جریدہ سورج کے ایک خصوصی شمارہ میں شائع ہوئے۔ میں اس خصوصی شمارے کی ایک کاپی بھی ساتھ لایا ہوں۔ چند ہی مہینوں میں تسلیم تصور صاحب دوبارہ غالب کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے تسلیم تصور صاحب سے ان کے آفس میں ملاقات کی اور انہیں اردو ویب اور اردو محفل فورم کا تعارف کروایا۔ انہوں نے اس تمام سلسلے میں گہری دلچسپی لی۔ میں نے ان سے درخواست کی وہ خود سے جریدہ سورج کے شماروں کا تعارف محفل فورم پر پوسٹ کر دیا کریں۔ بدقسمتی سے تسلیم تصور صاحب کمپیوٹر کا استعمال نہیں جانتے۔ تسلیم تصور صاحب کے صاحبزادے اگرچہ خود کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں، لیکن وہ اپنے والد صاحب کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے آگاہی دلانے کو (تسلیم تصور صاحب کے) وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ میں نے ان کے خیالات کو تبدیل کرنا مناسب نہیں جانا، البتہ میں نے ان سے جریدہ سورج کے سرورق کی گرافکس اور اس میں چھپنے والے چند مضامین کی سوفٹ کاپی مانگی جے ارسال کرنے کا انہوں نے وعدہ تو کر لیا لیکن ابھی تک ان کی جانب سے ای میل کا انتظار کر رہا ہوں۔ اگر انہوں نے فائلیں بھیج دی تو انہیں یونیکوڈ میں کنورٹ کرکے پوسٹ کر دوں گا۔ بصورت دیگراپنے پاس موجود صفحات کو ہی سکین کرکے ان کو تصویری شکل میں پوسٹ کر دوں گا۔
فی الحال اتنی ہی تفصیلات کافی ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ لاہور میں محفلین نے عید ملن پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس میں شامل نہیں ہو سکا۔ چلیں اگلے سال سہی۔
والسلام