کاشفی

محفلین
غزل
از: محمد ممتاز راشدؔ
سفر کے مرحلے، اب دردِ سر بنے ہوئے ہیں
یہ کیسے لوگ مرے ہم سفر بنے ہوئے ہیں

ذرا سی آنچ ہیں، برق و شرر بنے ہوئے ہیں
وہ ایک خوف کے مارے نڈر بنے ہوئے ہیں


بساط کچھ نہیں، باتیں پیمبروں جیسی
بجھے چراغ بھی شمس و قمر بنے ہوئے ہیں


نہیں جمال میں ان کے کوئی بھی رنگِ جمال
وہ اپنے آپ ہی لعل و گہر بنے ہوئے ہیں


رکھی ہے چاک پہ مٹی، مگر کریں گے کیا
بغیر دستِ ہنر، کوزہ گر بنے ہوئے ہیں


بھلا چکے ہیں اڑانیں، اب اپنی مرضی کی
کبوتروں کی طرح نامہ بر بنے ہوئے ہیں


سراپا ناز رہے جو ادب کی محفل میں
نیاز مند وہ اب سر بسر بنے ہوئے ہیں


کبھی جہان میں جو مرجعِ خلایق تھے
وہی مثالِ سگ در بدر بنے ہوئے ہیں


دماغ ہے بھی، تو عقلِ سلیم سے خالی
نظر میں نور نہیں، خوش نظر بنے ہوئے ہیں


وہ حادثہ تو ہمارے ہی گھر میں گزرا ہے
خبر سنی تھی، پہ اب خود خبر بنے ہوئے ہیں


عجیب دھونس ہے ان کی، بفیض کف گیری
نہیں ہیں افسر دفتر، مگر، بنے ہوئے ہیں


ہمارا نام انہیں اب گراں گزرتا ہے
ہمارے کام سے جو نامور بنے ہوئے ہیں


سبھی پہ چال چلن جن کا ہے عیاں راشدؔ
وہ کس بنا پہ یہاں معتبر بنے ہوئے ہیں
 

طارق شاہ

محفلین
نہیں جمال میں ان کے کوئی بھی رنگِ جمال
وہ اپنے آپ ہی لعل و گہر بنے ہوئے ہیں


:)

تشکّر شیئر کرنے پر جناب !
بہت خوش رہیں
 
Top