ظفری
اصلاح حاضر ہے۔ بہت پریشانی ہوئ اس لئے اکثر لے کر بیٹھا لیکں چھوڑ کر اٹھنا پڑا۔ سبب؟
تمھارے قافئے سارے الگ الگ بحروں کے متقاضی تھے۔ رائیگاں اور بے نشاں ’فاعلن‘ پر ہے تو ’ہراساں‘ ’پریشاں‘ فعولن پر۔ اور پنہاں ’فعلن‘ً۔ اور ’جو ہے‘ ردیف چاہتی ہے کہ غزل کو اس بحر میں رکھا جائے:
فاعلاتن مفاعلن فعلن۔۔۔۔۔ یہ سفر میرا رائیگاں جو ہے
یا پھر
فعلن فعلن فعلن فعلن ۔۔۔۔۔۔ قدموں میں بھنور پنہاں جو ہے
دونوں امکانات میں سے پہلا میں نے قبول کیا ہے یہاں۔
یہ سفر مے۔۔۔۔ فاعلاتن ۔۔۔۔ ر(ا) رائیگا(ں) ۔۔۔۔ مفاعلن۔۔۔۔۔۔، جو ہے ۔۔۔ فعلن۔ اس وجہ سے کئی قوافی بدلنے پڑے۔اور اگر اس وجہ سے کچھ تمھارا خیال بھی ’زخمی‘ ہو گیا ہو تو مجھے افسوس ہے۔ مثلاً دوسرے شعر میں ہی ’ہراساں‘ کی جگہ دھواں دھواں استعمال کرنا پڑا تو اس مناسبت سے پہلے مصرعے کو بحر میں لانے کے لئے تبدیلی کرتے وقت ’محبتوں کی چمک‘ استعمال کیا ہے، لیکن میں خود اس سے مطمئن نہیں ہوں۔ اسی طرح تیسرے شعر میں گراں (بحر کے لحاظ سے ’بھی گراں‘ مفاعلن)
قافیہ استعمال کرنا پڑا تو اس مصرعے کی بھی شکل بدلنی پڑی۔ لیکن موجودہ شعر فکر کے لحاظ سے بھی مجھے زیادہ بہتر لگ رہا ہے۔ یہی صورتِ حال چوتھے شعر کی ہے۔ موجودہ صورت اگرچہ تمھارے شعر سے بہت مختلف ہے، لیکن بہتر ہے، میں ایسا سمجھتا ہوں۔
یہ سفر میرا رائیگاں جو ہے
راستہ سارا بے نشاں جو ہے
مانگوں کیا میں محبتوں کی چمک
چہرہ ہر اک دھواں دھواں جو ہے
بحر نے بھی اُچھال دیں لہریں
بارِ غم اس کو بھی گراں جو ہے
خواہشیں کیا کروں کناروں کی
پاؤں میں اک بھنور رواں جو ہے
میرے غم کا کوئ کرے گا علاج
دل کو اب بھی ظفر گُماں تو ہے