حسان خان
لائبریرین
"ہم اُس قوم کا انتظار کرتے رہے جو بچا نہیں سکتی تھی۔۔۔ انہوں نے ہمارے پاؤں اس طرح باندھ رکھے ہیں کہ ہم نکل نہیں سکتے۔۔۔ ہمارا انجام نزدیک ہے، ہماری مدت پوری ہو گئی، ہمارا وقت آ پہنچا، ہمیں کچلنے والے آسمانوں کے عقابوں سے بھی زیادہ تیز ہیں۔"
عہد نامہ عتیق، مراثئ یرمیاہ
معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا انجام بھی نزدیک ہے، اُن کی مدت بھی پوری ہو چکی اور اُن کا وقت بھی آ ہی گیا، وہ زمانہ شاید بہت ہی قریب ہے جب انسانیت کے سینے میں شگاف ڈالنے والے سفید فام وحشی، جنوبی افریقہ میں تہذیب کا قتلِ عام کرنے والے سیاہ کار درندے قوموں کے درمیان اپنی ہلاکت کا نوحہ کریں گے۔
جنوبی افریقہ میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اس نے انسان کے تہذیبی وقار کو خاک میں ملا دیا ہے۔ ذرا سوچیے تو سہی کہ بیسویں صدی میں دنیا کے بعض حکمران اور شہزادے یہ فرمان صادر کر رہے ہیں کہ فلاں نسل پست اور حقیر ہے اور فلاں گروہ عظیم اور عزیز۔ معلوم نہیں انہیں غاروں سے باہر نکلنے اور شہروں میں داخل ہونے کی اجازت کس نے دی اور اب ہم سن رہے ہیں کہ انہوں نے جنوبی افریقہ کے باشندوں سے انسان ہونے کا اعزاز بھی چھین لیا ہے اور گویا وہ جانوروں کو تہذیب سکھانے کا مشہورِ عالم فرض انجام دے رہے ہیں۔ ہم ضمناً یہ بھی واضح کر دیں کہ قوموں کو تہذیب سکھانے کا یہ احمقانہ نعرہ اب کافی پرانا ہو چکا ہے۔ نسلی امتیاز پسندی کا یہ بے ہودہ اور جاہلانہ خبط شریف انسانیت کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ افسوس کہ نسلی غرور کے اس پاگل پن نے بعض مہذب ترین ملکوں سے تقویت حاصل کی ہے۔ ہم انسانوں کو ایشیائی، افریقی اور یورپی خانوں میں تقسیم کرنا جہالت اور حماقت خیال کرتے ہیں۔ لیکن ہم کسی قوم کو ہدفِ ظلم و شقاوت بنتے ہوئے نہیں دیکھ سکے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ جنوبی افریقہ کے سفید فام حکمرانوں نے وہاں کے اصل باشندوں پر کتنا عجیب و غریب قانون عائد کیا ہے، کتنا عجیب ہے یہ قانون کہ ملک کے حقیقی مالک شناخت نامے کے بغیر ایک قدم بھی اپنے گھروں سے باہر نہیں نکال سکتے۔ شناخت نامہ موجود نہ ہونے کی صورت میں پولیس انہیں پکڑ کر جیل میں ڈال دیتی ہے یا پھر جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔ اس طرح اُن کا وطن ان کے لیے 'زنجیر خانۂ حادثات' ہو کر رہ گیا ہے۔
اس صورتِ حال کے خلاف وہاں کے حریت پسند عوام نے جو تحریک شروع کی ہے، اس کی کامیابی پر دراصل تمام انسانوں کا وقار منحصر ہے۔ انہیں لوٹا جا رہا ہے، اُن پر زندگی حرام کر دی گئی ہے لیکن تاریخ کے فیصلے نہیں بدلا کرتے، مستقبل اپنی عظیم مشیت کو منوا کر رہے گا، ممکن ہے کہ وقتی طور پر آزادی کی روح کو کچل دیا جائے مگر کب تک؟ یہ عہد اقتدار پسند قوموں کی استعمار پسندانہ بربریت اور بدمعاشی کے لیے قطعاً ناسازگار ہے۔ جنوبی افریقہ کے بدمعاش اور جرائم پیشہ حکمرانوں کی اس بدتہذیبی، کمینگی اور درندگی نے دنیا میں نفرت اور غیظ و غضب کی لہر دوڑا دی ہے۔ ہم لندن کے ان شریف اور انسانیت دوست انسانوں کا ذکر کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں جنہوں نے نسلی تعصب کے خلاف پرزور احتجاج کیا ہے۔ ہم عالمی اداروں سے سفارش کریں گے کہ وہ اپنی تہذیبی اور سیاسی تنظیموں سے مجرموں کے اس ذلیل گروہ کو نکال دیں۔ یہ غنڈے قطعاً اس قابل نہیں کہ انہیں انسانوں کے برابر بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔ جنوبی افریقہ کے عوام کا مطالبہ اب صرف یہی نہیں کہ غاضب حکومت اپنے ذلیل قانون میں ترمیم کرے، اب تو مکمل آزادی کا سوال ہے، حق کا مطالبہ ہے۔ جمہوریت پسند قوموں کا فرض ہے کہ وہ انہیں اُن کا حق دلائیں۔
جنوبی افریقہ کی یہ ذلیل حکومت، دولتِ مشترکہ کی رکن ہے۔ ہم دنیا کے تمام انسانیت دوست دانشوروں، ادیبوں اور جمہوریت پسند عوام کی طرف سے دولتِ مشترکہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کی رکنیت منسوخ قرار دے۔ اقوامِ عالم کو کم از کم ایک قدر پر تو متفق ہونا ہی چاہیے اور وہ قدر 'انسانیت' ہے۔ ہمیں ملال ہے کہ ہم نے ایک انسانی گروہ کے لیے یہ سخت لہجہ اختیار کیا مگر وہ انسان ہی کب ہیں؟ اُن کی وحشیانہ حرکات، جامع انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ یہاں ہمیں ان مسکین اور مظلوم قوموں سے بھی کچھ کہنا ہے جنہیں یہ تہمتیں اور گالیاں سننا اور سہنا پڑتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گالی، نسل اور رنگ کو نہیں دی جاتی، صورتِ حال کی اتنی براہِ راست اور سادہ توجیہ کرنا صحیح نہیں، یہ گالی تو دراصل علمی پسماندگی، تہذیبی محکومیت اور سیاسی ماموریت کو دی جاتی ہے۔ جب یہ ہوتا ہے تو پھر یہی ہوا کرتا ہے۔ مختلف سماجوں اور ثقافتوں کے درمیان توازن کا ناپید ہو جانا تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ قدروں کو توڑنے والے ہی قدروں کے آفریدگار کہلاتے ہیں۔ کیا کوئی سفید فام قوم ان غیر مغربی اقوام کو نسل کا یہ طعنہ دینے کی جرأت کر سکتی ہے جو سائنسی اور سیاسی طور پر ہمت شکن قوتوں کی مالک ہے، کیا یہ ممکن ہے؟
(انشا، مئی ۱۹۶۰)
عہد نامہ عتیق، مراثئ یرمیاہ
معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا انجام بھی نزدیک ہے، اُن کی مدت بھی پوری ہو چکی اور اُن کا وقت بھی آ ہی گیا، وہ زمانہ شاید بہت ہی قریب ہے جب انسانیت کے سینے میں شگاف ڈالنے والے سفید فام وحشی، جنوبی افریقہ میں تہذیب کا قتلِ عام کرنے والے سیاہ کار درندے قوموں کے درمیان اپنی ہلاکت کا نوحہ کریں گے۔
جنوبی افریقہ میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اس نے انسان کے تہذیبی وقار کو خاک میں ملا دیا ہے۔ ذرا سوچیے تو سہی کہ بیسویں صدی میں دنیا کے بعض حکمران اور شہزادے یہ فرمان صادر کر رہے ہیں کہ فلاں نسل پست اور حقیر ہے اور فلاں گروہ عظیم اور عزیز۔ معلوم نہیں انہیں غاروں سے باہر نکلنے اور شہروں میں داخل ہونے کی اجازت کس نے دی اور اب ہم سن رہے ہیں کہ انہوں نے جنوبی افریقہ کے باشندوں سے انسان ہونے کا اعزاز بھی چھین لیا ہے اور گویا وہ جانوروں کو تہذیب سکھانے کا مشہورِ عالم فرض انجام دے رہے ہیں۔ ہم ضمناً یہ بھی واضح کر دیں کہ قوموں کو تہذیب سکھانے کا یہ احمقانہ نعرہ اب کافی پرانا ہو چکا ہے۔ نسلی امتیاز پسندی کا یہ بے ہودہ اور جاہلانہ خبط شریف انسانیت کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ افسوس کہ نسلی غرور کے اس پاگل پن نے بعض مہذب ترین ملکوں سے تقویت حاصل کی ہے۔ ہم انسانوں کو ایشیائی، افریقی اور یورپی خانوں میں تقسیم کرنا جہالت اور حماقت خیال کرتے ہیں۔ لیکن ہم کسی قوم کو ہدفِ ظلم و شقاوت بنتے ہوئے نہیں دیکھ سکے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ جنوبی افریقہ کے سفید فام حکمرانوں نے وہاں کے اصل باشندوں پر کتنا عجیب و غریب قانون عائد کیا ہے، کتنا عجیب ہے یہ قانون کہ ملک کے حقیقی مالک شناخت نامے کے بغیر ایک قدم بھی اپنے گھروں سے باہر نہیں نکال سکتے۔ شناخت نامہ موجود نہ ہونے کی صورت میں پولیس انہیں پکڑ کر جیل میں ڈال دیتی ہے یا پھر جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔ اس طرح اُن کا وطن ان کے لیے 'زنجیر خانۂ حادثات' ہو کر رہ گیا ہے۔
اس صورتِ حال کے خلاف وہاں کے حریت پسند عوام نے جو تحریک شروع کی ہے، اس کی کامیابی پر دراصل تمام انسانوں کا وقار منحصر ہے۔ انہیں لوٹا جا رہا ہے، اُن پر زندگی حرام کر دی گئی ہے لیکن تاریخ کے فیصلے نہیں بدلا کرتے، مستقبل اپنی عظیم مشیت کو منوا کر رہے گا، ممکن ہے کہ وقتی طور پر آزادی کی روح کو کچل دیا جائے مگر کب تک؟ یہ عہد اقتدار پسند قوموں کی استعمار پسندانہ بربریت اور بدمعاشی کے لیے قطعاً ناسازگار ہے۔ جنوبی افریقہ کے بدمعاش اور جرائم پیشہ حکمرانوں کی اس بدتہذیبی، کمینگی اور درندگی نے دنیا میں نفرت اور غیظ و غضب کی لہر دوڑا دی ہے۔ ہم لندن کے ان شریف اور انسانیت دوست انسانوں کا ذکر کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں جنہوں نے نسلی تعصب کے خلاف پرزور احتجاج کیا ہے۔ ہم عالمی اداروں سے سفارش کریں گے کہ وہ اپنی تہذیبی اور سیاسی تنظیموں سے مجرموں کے اس ذلیل گروہ کو نکال دیں۔ یہ غنڈے قطعاً اس قابل نہیں کہ انہیں انسانوں کے برابر بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔ جنوبی افریقہ کے عوام کا مطالبہ اب صرف یہی نہیں کہ غاضب حکومت اپنے ذلیل قانون میں ترمیم کرے، اب تو مکمل آزادی کا سوال ہے، حق کا مطالبہ ہے۔ جمہوریت پسند قوموں کا فرض ہے کہ وہ انہیں اُن کا حق دلائیں۔
جنوبی افریقہ کی یہ ذلیل حکومت، دولتِ مشترکہ کی رکن ہے۔ ہم دنیا کے تمام انسانیت دوست دانشوروں، ادیبوں اور جمہوریت پسند عوام کی طرف سے دولتِ مشترکہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کی رکنیت منسوخ قرار دے۔ اقوامِ عالم کو کم از کم ایک قدر پر تو متفق ہونا ہی چاہیے اور وہ قدر 'انسانیت' ہے۔ ہمیں ملال ہے کہ ہم نے ایک انسانی گروہ کے لیے یہ سخت لہجہ اختیار کیا مگر وہ انسان ہی کب ہیں؟ اُن کی وحشیانہ حرکات، جامع انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ یہاں ہمیں ان مسکین اور مظلوم قوموں سے بھی کچھ کہنا ہے جنہیں یہ تہمتیں اور گالیاں سننا اور سہنا پڑتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گالی، نسل اور رنگ کو نہیں دی جاتی، صورتِ حال کی اتنی براہِ راست اور سادہ توجیہ کرنا صحیح نہیں، یہ گالی تو دراصل علمی پسماندگی، تہذیبی محکومیت اور سیاسی ماموریت کو دی جاتی ہے۔ جب یہ ہوتا ہے تو پھر یہی ہوا کرتا ہے۔ مختلف سماجوں اور ثقافتوں کے درمیان توازن کا ناپید ہو جانا تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ قدروں کو توڑنے والے ہی قدروں کے آفریدگار کہلاتے ہیں۔ کیا کوئی سفید فام قوم ان غیر مغربی اقوام کو نسل کا یہ طعنہ دینے کی جرأت کر سکتی ہے جو سائنسی اور سیاسی طور پر ہمت شکن قوتوں کی مالک ہے، کیا یہ ممکن ہے؟
(انشا، مئی ۱۹۶۰)