F@rzana
محفلین
[/img]پچھلے چالیس برسوں سے ایک شخص ایسے خوبصوت فن پاروں کی تخلیق میں مصروف ہے جو ہڈیوں سے تیار ہوتے ہیں۔ فنکار کی ذہانت و طباعی، جدت طرازی اور چابک دستی کی گواہی یہ فن پارے خود دیتے ہیں۔
تاج محل کی سچی نقل ہو یا پھر دیگر اشیائے آرائش و زیبائش، ان پر نفیس و نازک نقش و نگار بنانے کا فن لکھنؤ کے ساٹھ سالہ ماسٹر عبد الحلیم کو وراثت میں ملا ہے۔
ان کے والد، چچا، دادا اور پر دادا نے بے شمار فن پارے ہاتھی کے دانت سے تراشے ہیں۔ آئیوری یا ہاتھی کے دانت پر پابندی کے بعد اب عبدالحلیم اونٹ یا ديگر جانوروں کی ہڈیوں سے یہ فن پارے تیار کرتے ہیں۔
ماسٹر عبد الحلیم کے ہاتھ کا تیار کردہ تاج محل باریک کاری گری کی مثال ہے۔ محراب و گنبد، مینار اور خوبصورت جالیاں نہایت متناسب اور نفیس معلوم ہوتی ہیں۔ اس تاج محل کی قیمت پچاس ہزار روپئے ہے۔
مختلف اشیاء پر باریک کام عبدالحلیم کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے
عبدالحلیم نے بتایا کہ اسے تیار کرنے میں انہيں تقریباً ایک سال کا عرصہ لگا ہے۔ ایک دیگر فن پارہ ایک ٹیبل لیمپ ہے جو مغل آرٹ کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کے محرابی ستونوں کے اوپر جالیوں پر گلاب کے پھول نقش ہیں۔ اس شاہکار کی قیمت 76000 روپئے ہے۔
1970 میں ہاتھی کے دانت سے بنائے گئے اس فن پارے پر انہيں نیشنل ہینڈی کرافٹ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
ایک دوسرے فن پارے میں تاج محل کی دروں میں منقش جالی کے کام کی نقل اتاری گئی ہے۔ اس پر انہیں 1996 میں قومی ایوارڈ ملا۔
ماسٹر عبدالحلیم نے بتایا کہ ان کے چچا شیخ عبدالواجد نظام حیدرآباد کے یہاں ملازم تھے۔ نظام کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی سے انہوں نے اس فن میں خوب نام کمایا۔ انہوں نے بتایا کہ شیخ عبد الواجد کے ہاتھوں بنایا گیا ہاتھی کے دانت کا تاج محل آج بھی حیدرآباد کے میوزیم کی زینت ہے۔
ماسٹر صاحب اپنے کام میں مگن ہیں
ماسٹر عبدالحلیم نے اس فن کی باریکی شیخ عبد الواجد سے ہی سیکھی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ’ننھی ننھی لہروں کو ابھارنے اور باریکوں کو نمایاں کرنے میں شیخ صاحب کو بڑا ملکہ حاصل تھا۔ میں بچپن کی ان کی رہنمائی میں تراش و خراش کرتا رہتا تھا اور اکثر رات میں چراغوں کی روشنی ميں کام کرتا تھا‘۔
اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ ماسٹر عبد الحلیم اپنے فن پاروں میں باریکوں پر خاص توجہ دیتے ہيں۔ ان کے کئی فن پاروں پر پرندے اور چوپائے بھی نقش نظر آتے ہیں۔
رفتار زمانے کے ساتھ جب فنکار امراء، روساء اور تعلقہ داروں کی سرپرستی سے محروم ہوئے تو ماہرین فن کو روزی روٹی کے لالے پڑ گئے۔
کئی ایک نے دوسرے روزگار اپنا لیئے۔ عبد الحلیم کے خاندان کےساتھ بھی یہی ہوا، لیکن خود انہوں نے اپنی لگن اور حوصلہ سے اپنی فنکارانہ صلاحیت کی لاج بچائے رکھی۔
انہوں نے کہا ’بعض کام برسہا برس کی محنت سے تیار ہوتے ہيں لیکن صرف تعریف سے زندگی نہیں چلتی۔ تعریف تو بہت ملی لیکن پیسہ نہیں ملا‘۔
عبدالحلیم اعلٰی ڈیزائن کے گہنے گلدستے صراحیاں، چھری اور چوپائے بھی بناتے ہيں اور انہیں لے کر ملک کے مختلف گوشوں میں نمائشوں ميں شریک ہوتے ہیں ۔ ان کے دو بیٹے اسی پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کے متعدد شاگرد بھی ہيں اور ان کے چار شاگردوں کو ریاستی درجہ کے ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔
[/URL]پچھلے چالیس برسوں سے ایک شخص ایسے خوبصوت فن پاروں کی تخلیق میں مصروف ہے جو ہڈیوں سے تیار ہوتے ہیں۔ فنکار کی ذہانت و طباعی، جدت طرازی اور چابک دستی کی گواہی یہ فن پارے خود دیتے ہیں۔
تاج محل کی سچی نقل ہو یا پھر دیگر اشیائے آرائش و زیبائش، ان پر نفیس و نازک نقش و نگار بنانے کا فن لکھنؤ کے ساٹھ سالہ ماسٹر عبد الحلیم کو وراثت میں ملا ہے۔
ان کے والد، چچا، دادا اور پر دادا نے بے شمار فن پارے ہاتھی کے دانت سے تراشے ہیں۔ آئیوری یا ہاتھی کے دانت پر پابندی کے بعد اب عبدالحلیم اونٹ یا ديگر جانوروں کی ہڈیوں سے یہ فن پارے تیار کرتے ہیں۔
ماسٹر عبد الحلیم کے ہاتھ کا تیار کردہ تاج محل باریک کاری گری کی مثال ہے۔ محراب و گنبد، مینار اور خوبصورت جالیاں نہایت متناسب اور نفیس معلوم ہوتی ہیں۔ اس تاج محل کی قیمت پچاس ہزار روپئے ہے۔
مختلف اشیاء پر باریک کام عبدالحلیم کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے
عبدالحلیم نے بتایا کہ اسے تیار کرنے میں انہيں تقریباً ایک سال کا عرصہ لگا ہے۔ ایک دیگر فن پارہ ایک ٹیبل لیمپ ہے جو مغل آرٹ کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کے محرابی ستونوں کے اوپر جالیوں پر گلاب کے پھول نقش ہیں۔ اس شاہکار کی قیمت 76000 روپئے ہے۔
1970 میں ہاتھی کے دانت سے بنائے گئے اس فن پارے پر انہيں نیشنل ہینڈی کرافٹ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
ایک دوسرے فن پارے میں تاج محل کی دروں میں منقش جالی کے کام کی نقل اتاری گئی ہے۔ اس پر انہیں 1996 میں قومی ایوارڈ ملا۔
ماسٹر عبدالحلیم نے بتایا کہ ان کے چچا شیخ عبدالواجد نظام حیدرآباد کے یہاں ملازم تھے۔ نظام کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی سے انہوں نے اس فن میں خوب نام کمایا۔ انہوں نے بتایا کہ شیخ عبد الواجد کے ہاتھوں بنایا گیا ہاتھی کے دانت کا تاج محل آج بھی حیدرآباد کے میوزیم کی زینت ہے۔
ماسٹر صاحب اپنے کام میں مگن ہیں
ماسٹر عبدالحلیم نے اس فن کی باریکی شیخ عبد الواجد سے ہی سیکھی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ’ننھی ننھی لہروں کو ابھارنے اور باریکوں کو نمایاں کرنے میں شیخ صاحب کو بڑا ملکہ حاصل تھا۔ میں بچپن کی ان کی رہنمائی میں تراش و خراش کرتا رہتا تھا اور اکثر رات میں چراغوں کی روشنی ميں کام کرتا تھا‘۔
اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ ماسٹر عبد الحلیم اپنے فن پاروں میں باریکوں پر خاص توجہ دیتے ہيں۔ ان کے کئی فن پاروں پر پرندے اور چوپائے بھی نقش نظر آتے ہیں۔
رفتار زمانے کے ساتھ جب فنکار امراء، روساء اور تعلقہ داروں کی سرپرستی سے محروم ہوئے تو ماہرین فن کو روزی روٹی کے لالے پڑ گئے۔
کئی ایک نے دوسرے روزگار اپنا لیئے۔ عبد الحلیم کے خاندان کےساتھ بھی یہی ہوا، لیکن خود انہوں نے اپنی لگن اور حوصلہ سے اپنی فنکارانہ صلاحیت کی لاج بچائے رکھی۔
انہوں نے کہا ’بعض کام برسہا برس کی محنت سے تیار ہوتے ہيں لیکن صرف تعریف سے زندگی نہیں چلتی۔ تعریف تو بہت ملی لیکن پیسہ نہیں ملا‘۔
عبدالحلیم اعلٰی ڈیزائن کے گہنے گلدستے صراحیاں، چھری اور چوپائے بھی بناتے ہيں اور انہیں لے کر ملک کے مختلف گوشوں میں نمائشوں ميں شریک ہوتے ہیں ۔ ان کے دو بیٹے اسی پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کے متعدد شاگرد بھی ہيں اور ان کے چار شاگردوں کو ریاستی درجہ کے ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔
پچھلے چالیس برسوں سے ایک شخص ایسے خوبصوت فن پاروں کی تخلیق میں مصروف ہے جو ہڈیوں سے تیار ہوتے ہیں۔ فنکار کی ذہانت و طباعی، جدت طرازی اور چابک دستی کی گواہی یہ فن پارے خود دیتے ہیں۔
تاج محل کی سچی نقل ہو یا پھر دیگر اشیائے آرائش و زیبائش، ان پر نفیس و نازک نقش و نگار بنانے کا فن لکھنؤ کے ساٹھ سالہ ماسٹر عبد الحلیم کو وراثت میں ملا ہے۔
ان کے والد، چچا، دادا اور پر دادا نے بے شمار فن پارے ہاتھی کے دانت سے تراشے ہیں۔ آئیوری یا ہاتھی کے دانت پر پابندی کے بعد اب عبدالحلیم اونٹ یا ديگر جانوروں کی ہڈیوں سے یہ فن پارے تیار کرتے ہیں۔
ماسٹر عبد الحلیم کے ہاتھ کا تیار کردہ تاج محل باریک کاری گری کی مثال ہے۔ محراب و گنبد، مینار اور خوبصورت جالیاں نہایت متناسب اور نفیس معلوم ہوتی ہیں۔ اس تاج محل کی قیمت پچاس ہزار روپئے ہے۔
مختلف اشیاء پر باریک کام عبدالحلیم کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے
عبدالحلیم نے بتایا کہ اسے تیار کرنے میں انہيں تقریباً ایک سال کا عرصہ لگا ہے۔ ایک دیگر فن پارہ ایک ٹیبل لیمپ ہے جو مغل آرٹ کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کے محرابی ستونوں کے اوپر جالیوں پر گلاب کے پھول نقش ہیں۔ اس شاہکار کی قیمت 76000 روپئے ہے۔
1970 میں ہاتھی کے دانت سے بنائے گئے اس فن پارے پر انہيں نیشنل ہینڈی کرافٹ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
ایک دوسرے فن پارے میں تاج محل کی دروں میں منقش جالی کے کام کی نقل اتاری گئی ہے۔ اس پر انہیں 1996 میں قومی ایوارڈ ملا۔
ماسٹر عبدالحلیم نے بتایا کہ ان کے چچا شیخ عبدالواجد نظام حیدرآباد کے یہاں ملازم تھے۔ نظام کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی سے انہوں نے اس فن میں خوب نام کمایا۔ انہوں نے بتایا کہ شیخ عبد الواجد کے ہاتھوں بنایا گیا ہاتھی کے دانت کا تاج محل آج بھی حیدرآباد کے میوزیم کی زینت ہے۔
ماسٹر صاحب اپنے کام میں مگن ہیں
ماسٹر عبدالحلیم نے اس فن کی باریکی شیخ عبد الواجد سے ہی سیکھی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ’ننھی ننھی لہروں کو ابھارنے اور باریکوں کو نمایاں کرنے میں شیخ صاحب کو بڑا ملکہ حاصل تھا۔ میں بچپن کی ان کی رہنمائی میں تراش و خراش کرتا رہتا تھا اور اکثر رات میں چراغوں کی روشنی ميں کام کرتا تھا‘۔
اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ ماسٹر عبد الحلیم اپنے فن پاروں میں باریکوں پر خاص توجہ دیتے ہيں۔ ان کے کئی فن پاروں پر پرندے اور چوپائے بھی نقش نظر آتے ہیں۔
رفتار زمانے کے ساتھ جب فنکار امراء، روساء اور تعلقہ داروں کی سرپرستی سے محروم ہوئے تو ماہرین فن کو روزی روٹی کے لالے پڑ گئے۔
کئی ایک نے دوسرے روزگار اپنا لیئے۔ عبد الحلیم کے خاندان کےساتھ بھی یہی ہوا، لیکن خود انہوں نے اپنی لگن اور حوصلہ سے اپنی فنکارانہ صلاحیت کی لاج بچائے رکھی۔
انہوں نے کہا ’بعض کام برسہا برس کی محنت سے تیار ہوتے ہيں لیکن صرف تعریف سے زندگی نہیں چلتی۔ تعریف تو بہت ملی لیکن پیسہ نہیں ملا‘۔
عبدالحلیم اعلٰی ڈیزائن کے گہنے گلدستے صراحیاں، چھری اور چوپائے بھی بناتے ہيں اور انہیں لے کر ملک کے مختلف گوشوں میں نمائشوں ميں شریک ہوتے ہیں ۔ ان کے دو بیٹے اسی پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کے متعدد شاگرد بھی ہيں اور ان کے چار شاگردوں کو ریاستی درجہ کے ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔
تاج محل کی سچی نقل ہو یا پھر دیگر اشیائے آرائش و زیبائش، ان پر نفیس و نازک نقش و نگار بنانے کا فن لکھنؤ کے ساٹھ سالہ ماسٹر عبد الحلیم کو وراثت میں ملا ہے۔
ان کے والد، چچا، دادا اور پر دادا نے بے شمار فن پارے ہاتھی کے دانت سے تراشے ہیں۔ آئیوری یا ہاتھی کے دانت پر پابندی کے بعد اب عبدالحلیم اونٹ یا ديگر جانوروں کی ہڈیوں سے یہ فن پارے تیار کرتے ہیں۔
ماسٹر عبد الحلیم کے ہاتھ کا تیار کردہ تاج محل باریک کاری گری کی مثال ہے۔ محراب و گنبد، مینار اور خوبصورت جالیاں نہایت متناسب اور نفیس معلوم ہوتی ہیں۔ اس تاج محل کی قیمت پچاس ہزار روپئے ہے۔
مختلف اشیاء پر باریک کام عبدالحلیم کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے
عبدالحلیم نے بتایا کہ اسے تیار کرنے میں انہيں تقریباً ایک سال کا عرصہ لگا ہے۔ ایک دیگر فن پارہ ایک ٹیبل لیمپ ہے جو مغل آرٹ کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کے محرابی ستونوں کے اوپر جالیوں پر گلاب کے پھول نقش ہیں۔ اس شاہکار کی قیمت 76000 روپئے ہے۔
1970 میں ہاتھی کے دانت سے بنائے گئے اس فن پارے پر انہيں نیشنل ہینڈی کرافٹ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
ایک دوسرے فن پارے میں تاج محل کی دروں میں منقش جالی کے کام کی نقل اتاری گئی ہے۔ اس پر انہیں 1996 میں قومی ایوارڈ ملا۔
ماسٹر عبدالحلیم نے بتایا کہ ان کے چچا شیخ عبدالواجد نظام حیدرآباد کے یہاں ملازم تھے۔ نظام کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی سے انہوں نے اس فن میں خوب نام کمایا۔ انہوں نے بتایا کہ شیخ عبد الواجد کے ہاتھوں بنایا گیا ہاتھی کے دانت کا تاج محل آج بھی حیدرآباد کے میوزیم کی زینت ہے۔
ماسٹر صاحب اپنے کام میں مگن ہیں
ماسٹر عبدالحلیم نے اس فن کی باریکی شیخ عبد الواجد سے ہی سیکھی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ’ننھی ننھی لہروں کو ابھارنے اور باریکوں کو نمایاں کرنے میں شیخ صاحب کو بڑا ملکہ حاصل تھا۔ میں بچپن کی ان کی رہنمائی میں تراش و خراش کرتا رہتا تھا اور اکثر رات میں چراغوں کی روشنی ميں کام کرتا تھا‘۔
اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ ماسٹر عبد الحلیم اپنے فن پاروں میں باریکوں پر خاص توجہ دیتے ہيں۔ ان کے کئی فن پاروں پر پرندے اور چوپائے بھی نقش نظر آتے ہیں۔
رفتار زمانے کے ساتھ جب فنکار امراء، روساء اور تعلقہ داروں کی سرپرستی سے محروم ہوئے تو ماہرین فن کو روزی روٹی کے لالے پڑ گئے۔
کئی ایک نے دوسرے روزگار اپنا لیئے۔ عبد الحلیم کے خاندان کےساتھ بھی یہی ہوا، لیکن خود انہوں نے اپنی لگن اور حوصلہ سے اپنی فنکارانہ صلاحیت کی لاج بچائے رکھی۔
انہوں نے کہا ’بعض کام برسہا برس کی محنت سے تیار ہوتے ہيں لیکن صرف تعریف سے زندگی نہیں چلتی۔ تعریف تو بہت ملی لیکن پیسہ نہیں ملا‘۔
عبدالحلیم اعلٰی ڈیزائن کے گہنے گلدستے صراحیاں، چھری اور چوپائے بھی بناتے ہيں اور انہیں لے کر ملک کے مختلف گوشوں میں نمائشوں ميں شریک ہوتے ہیں ۔ ان کے دو بیٹے اسی پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کے متعدد شاگرد بھی ہيں اور ان کے چار شاگردوں کو ریاستی درجہ کے ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔
تاج محل کی سچی نقل ہو یا پھر دیگر اشیائے آرائش و زیبائش، ان پر نفیس و نازک نقش و نگار بنانے کا فن لکھنؤ کے ساٹھ سالہ ماسٹر عبد الحلیم کو وراثت میں ملا ہے۔
ان کے والد، چچا، دادا اور پر دادا نے بے شمار فن پارے ہاتھی کے دانت سے تراشے ہیں۔ آئیوری یا ہاتھی کے دانت پر پابندی کے بعد اب عبدالحلیم اونٹ یا ديگر جانوروں کی ہڈیوں سے یہ فن پارے تیار کرتے ہیں۔
ماسٹر عبد الحلیم کے ہاتھ کا تیار کردہ تاج محل باریک کاری گری کی مثال ہے۔ محراب و گنبد، مینار اور خوبصورت جالیاں نہایت متناسب اور نفیس معلوم ہوتی ہیں۔ اس تاج محل کی قیمت پچاس ہزار روپئے ہے۔
مختلف اشیاء پر باریک کام عبدالحلیم کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے
عبدالحلیم نے بتایا کہ اسے تیار کرنے میں انہيں تقریباً ایک سال کا عرصہ لگا ہے۔ ایک دیگر فن پارہ ایک ٹیبل لیمپ ہے جو مغل آرٹ کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کے محرابی ستونوں کے اوپر جالیوں پر گلاب کے پھول نقش ہیں۔ اس شاہکار کی قیمت 76000 روپئے ہے۔
1970 میں ہاتھی کے دانت سے بنائے گئے اس فن پارے پر انہيں نیشنل ہینڈی کرافٹ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
ایک دوسرے فن پارے میں تاج محل کی دروں میں منقش جالی کے کام کی نقل اتاری گئی ہے۔ اس پر انہیں 1996 میں قومی ایوارڈ ملا۔
ماسٹر عبدالحلیم نے بتایا کہ ان کے چچا شیخ عبدالواجد نظام حیدرآباد کے یہاں ملازم تھے۔ نظام کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی سے انہوں نے اس فن میں خوب نام کمایا۔ انہوں نے بتایا کہ شیخ عبد الواجد کے ہاتھوں بنایا گیا ہاتھی کے دانت کا تاج محل آج بھی حیدرآباد کے میوزیم کی زینت ہے۔
ماسٹر صاحب اپنے کام میں مگن ہیں
ماسٹر عبدالحلیم نے اس فن کی باریکی شیخ عبد الواجد سے ہی سیکھی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ’ننھی ننھی لہروں کو ابھارنے اور باریکوں کو نمایاں کرنے میں شیخ صاحب کو بڑا ملکہ حاصل تھا۔ میں بچپن کی ان کی رہنمائی میں تراش و خراش کرتا رہتا تھا اور اکثر رات میں چراغوں کی روشنی ميں کام کرتا تھا‘۔
اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ ماسٹر عبد الحلیم اپنے فن پاروں میں باریکوں پر خاص توجہ دیتے ہيں۔ ان کے کئی فن پاروں پر پرندے اور چوپائے بھی نقش نظر آتے ہیں۔
رفتار زمانے کے ساتھ جب فنکار امراء، روساء اور تعلقہ داروں کی سرپرستی سے محروم ہوئے تو ماہرین فن کو روزی روٹی کے لالے پڑ گئے۔
کئی ایک نے دوسرے روزگار اپنا لیئے۔ عبد الحلیم کے خاندان کےساتھ بھی یہی ہوا، لیکن خود انہوں نے اپنی لگن اور حوصلہ سے اپنی فنکارانہ صلاحیت کی لاج بچائے رکھی۔
انہوں نے کہا ’بعض کام برسہا برس کی محنت سے تیار ہوتے ہيں لیکن صرف تعریف سے زندگی نہیں چلتی۔ تعریف تو بہت ملی لیکن پیسہ نہیں ملا‘۔
عبدالحلیم اعلٰی ڈیزائن کے گہنے گلدستے صراحیاں، چھری اور چوپائے بھی بناتے ہيں اور انہیں لے کر ملک کے مختلف گوشوں میں نمائشوں ميں شریک ہوتے ہیں ۔ ان کے دو بیٹے اسی پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کے متعدد شاگرد بھی ہيں اور ان کے چار شاگردوں کو ریاستی درجہ کے ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔
پچھلے چالیس برسوں سے ایک شخص ایسے خوبصوت فن پاروں کی تخلیق میں مصروف ہے جو ہڈیوں سے تیار ہوتے ہیں۔ فنکار کی ذہانت و طباعی، جدت طرازی اور چابک دستی کی گواہی یہ فن پارے خود دیتے ہیں۔
تاج محل کی سچی نقل ہو یا پھر دیگر اشیائے آرائش و زیبائش، ان پر نفیس و نازک نقش و نگار بنانے کا فن لکھنؤ کے ساٹھ سالہ ماسٹر عبد الحلیم کو وراثت میں ملا ہے۔
ان کے والد، چچا، دادا اور پر دادا نے بے شمار فن پارے ہاتھی کے دانت سے تراشے ہیں۔ آئیوری یا ہاتھی کے دانت پر پابندی کے بعد اب عبدالحلیم اونٹ یا ديگر جانوروں کی ہڈیوں سے یہ فن پارے تیار کرتے ہیں۔
ماسٹر عبد الحلیم کے ہاتھ کا تیار کردہ تاج محل باریک کاری گری کی مثال ہے۔ محراب و گنبد، مینار اور خوبصورت جالیاں نہایت متناسب اور نفیس معلوم ہوتی ہیں۔ اس تاج محل کی قیمت پچاس ہزار روپئے ہے۔
مختلف اشیاء پر باریک کام عبدالحلیم کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے
عبدالحلیم نے بتایا کہ اسے تیار کرنے میں انہيں تقریباً ایک سال کا عرصہ لگا ہے۔ ایک دیگر فن پارہ ایک ٹیبل لیمپ ہے جو مغل آرٹ کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کے محرابی ستونوں کے اوپر جالیوں پر گلاب کے پھول نقش ہیں۔ اس شاہکار کی قیمت 76000 روپئے ہے۔
1970 میں ہاتھی کے دانت سے بنائے گئے اس فن پارے پر انہيں نیشنل ہینڈی کرافٹ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
ایک دوسرے فن پارے میں تاج محل کی دروں میں منقش جالی کے کام کی نقل اتاری گئی ہے۔ اس پر انہیں 1996 میں قومی ایوارڈ ملا۔
ماسٹر عبدالحلیم نے بتایا کہ ان کے چچا شیخ عبدالواجد نظام حیدرآباد کے یہاں ملازم تھے۔ نظام کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی سے انہوں نے اس فن میں خوب نام کمایا۔ انہوں نے بتایا کہ شیخ عبد الواجد کے ہاتھوں بنایا گیا ہاتھی کے دانت کا تاج محل آج بھی حیدرآباد کے میوزیم کی زینت ہے۔
ماسٹر صاحب اپنے کام میں مگن ہیں
ماسٹر عبدالحلیم نے اس فن کی باریکی شیخ عبد الواجد سے ہی سیکھی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ’ننھی ننھی لہروں کو ابھارنے اور باریکوں کو نمایاں کرنے میں شیخ صاحب کو بڑا ملکہ حاصل تھا۔ میں بچپن کی ان کی رہنمائی میں تراش و خراش کرتا رہتا تھا اور اکثر رات میں چراغوں کی روشنی ميں کام کرتا تھا‘۔
اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ ماسٹر عبد الحلیم اپنے فن پاروں میں باریکوں پر خاص توجہ دیتے ہيں۔ ان کے کئی فن پاروں پر پرندے اور چوپائے بھی نقش نظر آتے ہیں۔
رفتار زمانے کے ساتھ جب فنکار امراء، روساء اور تعلقہ داروں کی سرپرستی سے محروم ہوئے تو ماہرین فن کو روزی روٹی کے لالے پڑ گئے۔
کئی ایک نے دوسرے روزگار اپنا لیئے۔ عبد الحلیم کے خاندان کےساتھ بھی یہی ہوا، لیکن خود انہوں نے اپنی لگن اور حوصلہ سے اپنی فنکارانہ صلاحیت کی لاج بچائے رکھی۔
انہوں نے کہا ’بعض کام برسہا برس کی محنت سے تیار ہوتے ہيں لیکن صرف تعریف سے زندگی نہیں چلتی۔ تعریف تو بہت ملی لیکن پیسہ نہیں ملا‘۔
عبدالحلیم اعلٰی ڈیزائن کے گہنے گلدستے صراحیاں، چھری اور چوپائے بھی بناتے ہيں اور انہیں لے کر ملک کے مختلف گوشوں میں نمائشوں ميں شریک ہوتے ہیں ۔ ان کے دو بیٹے اسی پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کے متعدد شاگرد بھی ہيں اور ان کے چار شاگردوں کو ریاستی درجہ کے ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔