جاسم محمد
محفلین
سقراط، بھگت سنگھ، بھٹو اور نیلسن مینڈیلا نے یو ٹرن کیوں نہ لیا؟
سقراط کے سر پر انسانی تاریخ کے بے وقوف آعظم کا تاج پہنایا جانا چاہے کہ وہ یو ٹرن کے عظیم فلسفہ سے بے بہرہ تھا۔ حاکموں کے جھوٹ کو سچ نہ کہا، نام نہاد منصفوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے سے باز نہ آیا۔ رات کے اندھیرے میں جیل سے فرار ہونے سے انکار کر دیا۔ عجب چغد فلسفی تھا کہ زہر بھرا پیالہ ایک ہی گھونٹ میں پی کر موت کو گلے لگا لیا۔ یو ٹرن نہ لیا۔ علم، شعور اور سچائی سے دستبرداری اختیار نہ کی۔
نعوذ بااللہ حضرت امام حسین بھی موقع کی نزاکت کا ادراک نہ کر پائے۔ بیعت یزید سے انکار پر آل رسول کی شہادتوں کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ فاسق و فاجر یزید کے جانب دست بیعت بڑھاتے۔ اپنی اور آل رسول کی زندگیوں کو محفوظ بناتے۔ عیش و عشرت کی زندگی گزارتے۔ مگر کیا کیا جائے، کپتان نیازی کے یو ٹرن فارمولے پر عمل نہ کر پائے۔ آل رسول کے بچے، جوان، خواتین اور بوڑھے کلمہ حق بلند کرتے رہے اور سروں کا نذرانہ پیش کرتے رہے۔ کپتانی یو ٹرن کی عظمت ان سے دور رہی۔
بھگت سنگھ نے کیسی جہالت دکھائی، آزادی کے لئے خوامخواہ گورے حاکموں سے ٹکر لے بیٹھا۔ جوانی میں پھانسی چڑھ گیا۔ کپتان کے فارمولے پر عمل کرتا۔ یو ٹرن مارتا، موقع پرستی دکھاتا، گورے حاکموں کے سامنے سر تسلیم خم کرتا۔ خود بھی زندہ رہتا اور اپنے ساتھیوں کی زندگیاں بھی بچاتا۔ مگر آزادی اور انقلاب کے خمار نے انہیں زندگیوں سے محروم کر دیا۔ کاش بھگت سنگھ میں کپتان نیازی جیسی لیڈرانہ صلاحیتیں ہوتیں۔ وہ ہوش کے ناخن لیتا، اصول پسندی سے دور رہتا، یو ٹرن لے کر گوروں کی غلامی قبول کرتا۔ پھانسی پر لٹک کر زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھتا۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی سقراطی جاہلانہ روش پر چل نکلا۔ امریکہ اور برطانیہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود موقع شناس نہ تھا۔ سیاست کی ابجد سے نا واقف، جرنیلوں کی حکومت کو چیلنج کر بیٹھا۔ کپتان نیازی اگر بھٹو کے مشیر ہوتے تو فوجی آمر ضیا کو نہ للکارنے کا سنہری مشورہ دیتے۔ بھٹو صاحب خاموشی اختیار کریں۔ موقع کی نزاکت کو جانیں۔ عوام، عوام اور جمہوریت، جمہوریت کا راگ الاپنے سے پرہیز کریں۔ بھٹو صاحب میری بات سنیں یو ٹرن لینے والا ہی عظیم لیڈر ہوتا ہے۔ بڑا لیڈر ہونے کا ثبوت دیں، یو ٹرن لیں، جنرل ضیا کو سلوٹ ماریں، جمہوریت تو آنی جانی جنس ہے۔ پھر عوام کا کیا اعتبار، کبھی کسی کے پیچھے تو کبھی کسی کے ساتھ۔ ، بھٹو صاحب ملک سے نکلیں اور باقی زندگی مغرب کی آزاد فضاوں میں بسر کریں۔ مگر کپتان نیازی کے سنہری قول کے مطابق بھٹو بڑا لیڈر نہ بن سکا کیونکہ وہ یو ٹرن لینے کا ماہر نہ تھا۔ جرنیلوں اور ججوں کا شکار بنا اور سولی پر چڑھ گیا۔
نیلسن مینڈیلا نے بھی ہوش و حواس سے کام نہ لیا۔ نہ عقل استعمال کی اور نہ حالات کو سمجھنے کی کوشش۔ خوامخواہ اصولوں پہ اڑ گیا۔ سفید فام نسل پرست ریاست اور گورے حاکموں کے خاتمے کا نعرہ لگا کر 27 سال جیل میں گزار دینا کہاں کی عقلمندی اور سیاست ہوئی۔ جوانی جیل کی سلاخوں کے پیچھے کاٹنے، بڑھاپے کی عمر میں جیل سے رہائی پانے کو کون عقلمندی سے تعبیر کرے گا۔ نیلسن مینڈیلا نہ جانے کس دنیا کا باشندہ تھا کہ اس تک کپتانی یو ٹرن فلسفہ کی ہوا تک نہ پہنچ پائی۔
بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے باپ کے تختہ دار چڑھائے جانے سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ بچے پالتیں اور سکون سے زندگی بسر کرتیں۔ کبھی ضیا آمریت کے خلاف تحریک چلانے پر جیل یاترا جانا پڑا، کبھی سولین صدر کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے نبرد آزما ہوتے ہوتے حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھتیں۔ فوجی آمروں کے خلاف جد وجہد کرنے کی عادت ترک نہ کی۔ بلآخر جنرل مشرف کی آمریت کو للکارتے للکارتے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ۔ کوئی بے نظیر کو سمجھاتا کہ جمہوریت کی بحالی، آئین اور قانون کی حکمرانی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور مقتدر قوتوں کی سیاسی معاملات میں مداخلت روکنے کے لئے ملک میں جھگڑا کھڑا کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ کپتان نیازی کے یو ٹرن فلسفے پر عمل کرتیں۔ مقتدر قوتوں کی ہاں میں ہاں ملاتیں اور اقتدار کے مزے لوٹتیں۔
سقراط، بھگت سنگھ، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نیلسن مینڈیلا اور ان جیسے متعدد فلسفی، سیاسی راہنما، دانشور اور لکھاری کپتان کے یو ٹرن فلسفہ پر عمل پیرا نہ ہو کر لیڈرانہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے سے قاصر رہے، اور زندگیوں سے محروم کر دیے گئے۔ بے مثال اور غیر معمولی قربانیوں سے تاریخ میں بلند مقام پانے والے کردار، کپتانی یو ٹرن فلسفے کے مطابق عظیم کہلانے کے مستحق نہیں۔
چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی موقع پرستی، مٹی پاؤ اور یو ٹرن سیاست کے چیمپئن مانے جاتے ہیں۔ فوجی آمروں کے کاسہ لیس اور مقتدر قوتوں کی کٹھ پتلیاں بن کر چوہدری برادران نے اعلی حکومتی مناصب کے مزے لوٹے۔ اب بڑی مہارت اور کامیابی سے کپتان نیازی نے چوہدری برادران کا کردار سنبھال لیا ہے۔ عوام یقین رکھیں کپتان نیازی چوہدری برادران کی موقع پرستانہ سیاست کو زندہ رکھنے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں سے کام لیں گے۔ قوم کو کپتان نیازی کی صورت میں چوہدری برادران کا متبادل مبارک ہو۔
سقراط کے سر پر انسانی تاریخ کے بے وقوف آعظم کا تاج پہنایا جانا چاہے کہ وہ یو ٹرن کے عظیم فلسفہ سے بے بہرہ تھا۔ حاکموں کے جھوٹ کو سچ نہ کہا، نام نہاد منصفوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے سے باز نہ آیا۔ رات کے اندھیرے میں جیل سے فرار ہونے سے انکار کر دیا۔ عجب چغد فلسفی تھا کہ زہر بھرا پیالہ ایک ہی گھونٹ میں پی کر موت کو گلے لگا لیا۔ یو ٹرن نہ لیا۔ علم، شعور اور سچائی سے دستبرداری اختیار نہ کی۔
نعوذ بااللہ حضرت امام حسین بھی موقع کی نزاکت کا ادراک نہ کر پائے۔ بیعت یزید سے انکار پر آل رسول کی شہادتوں کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ فاسق و فاجر یزید کے جانب دست بیعت بڑھاتے۔ اپنی اور آل رسول کی زندگیوں کو محفوظ بناتے۔ عیش و عشرت کی زندگی گزارتے۔ مگر کیا کیا جائے، کپتان نیازی کے یو ٹرن فارمولے پر عمل نہ کر پائے۔ آل رسول کے بچے، جوان، خواتین اور بوڑھے کلمہ حق بلند کرتے رہے اور سروں کا نذرانہ پیش کرتے رہے۔ کپتانی یو ٹرن کی عظمت ان سے دور رہی۔
بھگت سنگھ نے کیسی جہالت دکھائی، آزادی کے لئے خوامخواہ گورے حاکموں سے ٹکر لے بیٹھا۔ جوانی میں پھانسی چڑھ گیا۔ کپتان کے فارمولے پر عمل کرتا۔ یو ٹرن مارتا، موقع پرستی دکھاتا، گورے حاکموں کے سامنے سر تسلیم خم کرتا۔ خود بھی زندہ رہتا اور اپنے ساتھیوں کی زندگیاں بھی بچاتا۔ مگر آزادی اور انقلاب کے خمار نے انہیں زندگیوں سے محروم کر دیا۔ کاش بھگت سنگھ میں کپتان نیازی جیسی لیڈرانہ صلاحیتیں ہوتیں۔ وہ ہوش کے ناخن لیتا، اصول پسندی سے دور رہتا، یو ٹرن لے کر گوروں کی غلامی قبول کرتا۔ پھانسی پر لٹک کر زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھتا۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی سقراطی جاہلانہ روش پر چل نکلا۔ امریکہ اور برطانیہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود موقع شناس نہ تھا۔ سیاست کی ابجد سے نا واقف، جرنیلوں کی حکومت کو چیلنج کر بیٹھا۔ کپتان نیازی اگر بھٹو کے مشیر ہوتے تو فوجی آمر ضیا کو نہ للکارنے کا سنہری مشورہ دیتے۔ بھٹو صاحب خاموشی اختیار کریں۔ موقع کی نزاکت کو جانیں۔ عوام، عوام اور جمہوریت، جمہوریت کا راگ الاپنے سے پرہیز کریں۔ بھٹو صاحب میری بات سنیں یو ٹرن لینے والا ہی عظیم لیڈر ہوتا ہے۔ بڑا لیڈر ہونے کا ثبوت دیں، یو ٹرن لیں، جنرل ضیا کو سلوٹ ماریں، جمہوریت تو آنی جانی جنس ہے۔ پھر عوام کا کیا اعتبار، کبھی کسی کے پیچھے تو کبھی کسی کے ساتھ۔ ، بھٹو صاحب ملک سے نکلیں اور باقی زندگی مغرب کی آزاد فضاوں میں بسر کریں۔ مگر کپتان نیازی کے سنہری قول کے مطابق بھٹو بڑا لیڈر نہ بن سکا کیونکہ وہ یو ٹرن لینے کا ماہر نہ تھا۔ جرنیلوں اور ججوں کا شکار بنا اور سولی پر چڑھ گیا۔
نیلسن مینڈیلا نے بھی ہوش و حواس سے کام نہ لیا۔ نہ عقل استعمال کی اور نہ حالات کو سمجھنے کی کوشش۔ خوامخواہ اصولوں پہ اڑ گیا۔ سفید فام نسل پرست ریاست اور گورے حاکموں کے خاتمے کا نعرہ لگا کر 27 سال جیل میں گزار دینا کہاں کی عقلمندی اور سیاست ہوئی۔ جوانی جیل کی سلاخوں کے پیچھے کاٹنے، بڑھاپے کی عمر میں جیل سے رہائی پانے کو کون عقلمندی سے تعبیر کرے گا۔ نیلسن مینڈیلا نہ جانے کس دنیا کا باشندہ تھا کہ اس تک کپتانی یو ٹرن فلسفہ کی ہوا تک نہ پہنچ پائی۔
بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے باپ کے تختہ دار چڑھائے جانے سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ بچے پالتیں اور سکون سے زندگی بسر کرتیں۔ کبھی ضیا آمریت کے خلاف تحریک چلانے پر جیل یاترا جانا پڑا، کبھی سولین صدر کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے نبرد آزما ہوتے ہوتے حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھتیں۔ فوجی آمروں کے خلاف جد وجہد کرنے کی عادت ترک نہ کی۔ بلآخر جنرل مشرف کی آمریت کو للکارتے للکارتے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ۔ کوئی بے نظیر کو سمجھاتا کہ جمہوریت کی بحالی، آئین اور قانون کی حکمرانی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور مقتدر قوتوں کی سیاسی معاملات میں مداخلت روکنے کے لئے ملک میں جھگڑا کھڑا کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ کپتان نیازی کے یو ٹرن فلسفے پر عمل کرتیں۔ مقتدر قوتوں کی ہاں میں ہاں ملاتیں اور اقتدار کے مزے لوٹتیں۔
سقراط، بھگت سنگھ، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نیلسن مینڈیلا اور ان جیسے متعدد فلسفی، سیاسی راہنما، دانشور اور لکھاری کپتان کے یو ٹرن فلسفہ پر عمل پیرا نہ ہو کر لیڈرانہ عظمت کی بلندیوں کو چھونے سے قاصر رہے، اور زندگیوں سے محروم کر دیے گئے۔ بے مثال اور غیر معمولی قربانیوں سے تاریخ میں بلند مقام پانے والے کردار، کپتانی یو ٹرن فلسفے کے مطابق عظیم کہلانے کے مستحق نہیں۔
چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی موقع پرستی، مٹی پاؤ اور یو ٹرن سیاست کے چیمپئن مانے جاتے ہیں۔ فوجی آمروں کے کاسہ لیس اور مقتدر قوتوں کی کٹھ پتلیاں بن کر چوہدری برادران نے اعلی حکومتی مناصب کے مزے لوٹے۔ اب بڑی مہارت اور کامیابی سے کپتان نیازی نے چوہدری برادران کا کردار سنبھال لیا ہے۔ عوام یقین رکھیں کپتان نیازی چوہدری برادران کی موقع پرستانہ سیاست کو زندہ رکھنے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں سے کام لیں گے۔ قوم کو کپتان نیازی کی صورت میں چوہدری برادران کا متبادل مبارک ہو۔