سلیمان اشرف
محفلین
سقوط مشرقی پاکستان کے اصل حقائق
*************
16دسمبر اس بار بھی متحدہ پاکستان کے دو لخت ہونے کی تلخ یادیں کریدتا ہوا گزر کیا اور ہمارے اخبارات اور میڈیا نے اس سانحہ فاجعہ کا زیادہ تر وہی رخ دکھایا جو وہ پچھلے چار عشروں سے دکھاتا چلا آ رہا ہے۔ جادو نگار قلمکاروں نے اس سانحے پر ایسی یکطرفہ حاشیہ آرائی کی ہے کہ حقائق کئی پردوں تلے چھپ گئے ہیں۔ جھوٹ کے ردے پر ردے چڑھائے جا رہے ہیں، سارا زور نئی نسلوں کو یہ باور کرانے میں لگایا جاتا ہے کہ یہ بس بھارت کی سازش تھی جس میں شیخ مجی
*************
16دسمبر اس بار بھی متحدہ پاکستان کے دو لخت ہونے کی تلخ یادیں کریدتا ہوا گزر کیا اور ہمارے اخبارات اور میڈیا نے اس سانحہ فاجعہ کا زیادہ تر وہی رخ دکھایا جو وہ پچھلے چار عشروں سے دکھاتا چلا آ رہا ہے۔ جادو نگار قلمکاروں نے اس سانحے پر ایسی یکطرفہ حاشیہ آرائی کی ہے کہ حقائق کئی پردوں تلے چھپ گئے ہیں۔ جھوٹ کے ردے پر ردے چڑھائے جا رہے ہیں، سارا زور نئی نسلوں کو یہ باور کرانے میں لگایا جاتا ہے کہ یہ بس بھارت کی سازش تھی جس میں شیخ مجی
ب ملوث تھے یا پھر یہ سانحہ جنرل یحییٰ کے شرابی ٹولے کی سیاہ کاریوں کا نتیجہ تھا مگر یہ بتانے میں سخت مداہنت سے کام لیا جاتا ہے کہ اس سانحے کا ایک کردار ذوالفقار علی بھٹو بھی جو ان دنوں کے اخبارات میں صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
حقائق کچھ یوں ہیں کہ گول میز کانفرنس کی ناکامی کے بعد 25 مارچ 1969ء کو صدر جنرل ایوب نے استعفیٰ دے دیا تھا اور اپنے ہی بنائے ہوئے آئین (1962ئ) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اسپیکر قومی اسمبلی عبدالجبار خاں کو اقتدار سونپنے کے بجائے فوج کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ کو مارشل لاء لگانے کی دعوت دے ڈالی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ دراصل یحییٰ خان نے ایوب خاں سے طاقت کے بل پر اقتدار حاصل کیا تھا۔ بہرحال یحییٰ خان نے مارشل لاء لگا کر یکے بعد دیگرے ایسے اقدامات کئے جن سے ملکی شکست و ریخت کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی اور ان تمام ملک دشمن اقدامات میں اسے زیڈ اے بھٹو کی حمایت حاصل تھی، مثلاً تقریباً تمام جماعتیں مطالبہ کر رہی تھیں کہ 1956ء کا آئین بحال کر دیا جائے جو ملک کے مشرقی اور مغربی بازوئوں میں اتحاد کی ضمانت تھا۔ آئین 1956ء بنانے والوں میں مشرقی پاکستان کے عظیم رہنما اور شیخ مجیب الرحمن کے سیاسی استاد حسین شہید سہروردی (جو 1956-57ء میں وزیراعظم بنے) بھی شامل تھے۔ اس آئین کے تحت قومی اسمبلی میں دونوں بازوئوں کو مساوی نمائندگی دی گئی تھی مگر بھٹو صاحب نے یحییٰ خان کے اشارے پر قومی وحدت کی ضمانت آئین 1956ء کا یہ کہہ کر مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ ’’آئین کوئی چپلی کباب ہے جس سے عوام کا پیٹ بھر جائے گا‘‘۔ چنانچہ جنرل یحییٰ نے آئین 1956ء بحال کرنے کے بجائے لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) نافذ کر دیا جس کے تحت منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کو نیا آئین بنانے کا کام سونپ دیا گیا۔ یحییٰ بھٹو گٹھ جوڑنے دوسرا ستم یہ ڈھایا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی مساوی نمائندگی یا پیرٹی (Parity) ختم کر کے انہیں ون مین ون ووٹ کے اصول پر نمائندگی دی گئی جس کے تحت مشرقی پاکستان کو اپنی کثرت آبادی کی بناء پر 56فیصد نمائندگی حاصل ہو گئی اور مغربی پاکستان کی نمائندگی 44 فیصد رہ گئی۔ یہ دونوں اقدامات ملکی سالمیت کے لئے مہلک ثابت ہوئے۔ عام انتخابات اکتوبر 1970ء ہونے تھے جو مشرقی پاکستان میں سمندری طوفان آنے سے 7دسمبر تک ملتوی کر دیئے گئے۔ تیسرا ستم یہ ڈھایا گیا کہ جداگانہ طریق انتخاب جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا تھا، ترک کر کے مخلوط طریق انتخاب رائج کر دیا گیا جس کا فائدہ بہرحال بھٹو اور مجیب الرحمن کو پہنچا کیونکہ انہوں نے اقلیتوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اسے ایشو بنا رکھا تھا۔
انتخابی مہم جو کہ یکم جنوری 1970ء کو شروع ہوئی تھی، سوا گیارہ ماہ چلتی رہی جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ تھی۔ اس میں شیخ مجیب نے ’’چھ نکات‘‘ اور بھٹو نے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعروں کے ساتھ حصہ لیا۔ مسٹر بھٹو نے پورا سال چھ نکات کی کوئی مخالفت نہ کی جبکہ مجیب کی عوامی لیگ نے انہی نکات کی بنیاد پر انتخابی مہم چلائی۔ دونوں لیڈر لیگل فریم ورک آرڈر کی دھجیاں اڑاتے رہے مگر مارشل لاء ضابطے سوئے رہے۔ ایک اور خرابی یہ ہوئی کہ مجیب نے تو مغربی پاکستان میں 6 قومی نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے مگر بھٹو نے مشرقی پاکستان میں پی پی پی کا کوئی ایک امیدوار بھی کھڑا نہیں کیا تھا جبکہ مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور نوابزادہ نصر اللہ کی قومی جمہوری پارٹی نے مشرقی پاکستان کی بیشتر نشستوں پر اپنے اپنے امیدوار نامزد کئے تھے۔ اس کے باوجود شاہد رشید نوائے وقت (18 دسمبر 2011ئ) میں حقائق مسخ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں اپنی پارٹی کی طرف سے امیدوار نامزد کرنے میں دلچسپی نہ لی۔ اس طرح پی پی پی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے لئے مشرقی پاکستان میں امیدوار کھڑے کرنے کو ناممکن بنا دیا گیا‘‘۔ دراصل عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں علاقائی جماعتیں تھیں اور ان دونوں کے مشرقی اور مغربی بازوئوں میں الگ الگ حاصل اکثریت کرنے سے ملک کے دو ٹکڑے ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔ اس کی پیش گوئی مرد درویش سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اکتوبر 1970ء میں نہرو پارک، سنت نگر، لاہور کے جلسے میں یوں کر دی تھی: ’’اگر یہ دو علاقائی جماعتیں اکثریتی ووٹ لے کر قومی اسمبلی میں پہنچ گئیں تو ملک کے متحد رہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی‘‘۔ مگر اس وقت تک روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر اس قدر دھول اڑائی جا چکی تھی کہ کوئی عقل کی بات سننے کو تیار نہ تھا۔ مسٹر بھٹو ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے، چنانچہ جب انہوں نے ایئر مارشل (ر) اصغر خاں اور ڈاکٹر جاوید اقبال کو پی پی پی میں شمولیت کی دعوت دی تھی اور ان دونوں سے ان سے ان کا پروگرام پوچھا تو بھٹو صاحب نے قہقہہ لگا کر دونوں سے یہی کہا تھا کہ پروگرام کیا ہے، عوام کو بے وقوف بنا کر اقتدار حاصل کرنا ہے۔ تب اصغر خاں نے یہ کہہ کر پی پی پی میں شامل ہونے سے معذرت کی تھی کہ ’’میں عوام کو بے وقوف بنا کر اقتدار حاصل کرنے کے پروگرام میں شامل نہیں ہو سکتا‘‘۔ جناب اصغر خان اور ڈاکٹر جاوید اقبال اپنے انٹرویوز میں یہ راز افشا کر چکے ہیں۔
7 دسمبر 1970ء کو قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے جس کی 313 نشستوں میں سے 300 پر چنائو ہوا تھا۔ باقی 13نشستیں خواتین کے لئے مخصوص کی گئی تھیں۔ 300 قابل انتخاب نشستوں میں سے 162 مشرقی پاکستان اور 138 مغربی پاکستان کی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے 160 نشستیں جیت کر قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی جبکہ باقی دو نشستوں میں سے ایک پر قومی جمہوری محاذ کے جناب نور الامین اور دوسری پر اقلیتی بدھ رہنما (چکما قبیلے کے سردار) راجہ تری دیورائے منتخب ہوئے۔ پی پی پی کو مغربی پاکستان سے 81 نشستیں حاصل ہوئیں جن میں بھاری اکثریت یعنی 63 نشستیں پنجاب سے تھیں کیونکہ پنجابی و کشمیری عوام کی اکثریت بھٹو کے کھوکھلے نعروں ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ اور ’’ہم کشمیر کے لئے ایک ہزار سال لڑیں گے‘‘ پر مر مٹی تھی (اب بھٹو کی وراثت پر قابض زرداری پارٹی کو یاد ہی نہیں کہ بھٹو نے آزادی کشمیر کا نعرہ بھی لگایا تھا اور یہ لوگ کشمیر اور پاکستان کے دشمن بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے لئے بے چین ہورہے ہیں) باقی تین صوبوں سے پی پی پی کی جیتی ہوئی نشستیں یوں تھیں: سندھ (30 میں سے 17)، صوبہ سرحد سے ایک اور بلوچستان کی کل 4 نشستوں میں سے صفر۔
یوں انتخابات 1970ء نے بھٹو کو اپوزیشن لیڈر کا مقام دیا تھا جو انہیں کسی طور گوارا نہ تھا۔ تقریباً سال بھر کی انتخابی مہم میں انہوں نے مجیب کے چھ نکات کی مخالفت کا تکلف نہ کیا مگر اب انتخابات کے بعد اچانک ان کی مخالفت شروع کر دی۔ اگر چھ نکات ایسے ہی برے تھے تو انتخابات سے پہلے وہ جنرل یحییٰ سے کہہ کر مجیب کو چھ نکات کے پرچار سے روک سکتے تھے مگر انتخابات کے بعد ان کی مخالفت سیاسی مفاد تھی۔ اوائل جنوری 1971ء میں جنرل یحییٰ ڈھاکہ ایئر پورٹ پر شیخ مجیب کو ملک کا آئندہ وزیراعظم قرار دے چکے تھے جبکہ شیخ مجیب نے ان نکات کو صرف انتخابات جیتنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا تھا اور وہ مغربی پاکستان کے دیگر لیڈروں سے کہہ چکے تھے کہ چھ نکات کوئی حدیث نہیں، اسمبلی میں ان پر بات ہو گی۔ لیکن بھٹو صاحب نے وسط جنوری 1971ء میں پی پی پی کے وفد کے ہمراہ ڈھاکہ جا کر مجیب کے ساتھ سودا بازی کی کوشش کی۔ کشتی میں دونوں لیڈروں نے بوڑھی گنگا کی سیر بھی کی اور بھٹو نے ساڑھے پانچ نکات تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا مگر پھر آدھے نکتے پر بات اٹک گئی۔ اگر بھٹو مخلص ہوتے تو وہ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہونے دیتے تو اس آدھ نکتے کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا لیکن دراصل وہ مرکزی سطح پر مجیب سے اقتدار میں شرکت کی ضمانت چاہتے تھے، یہ کہ انہیں نائب وزیراعظم یا صدر مملکت کا منصب دیا جائے لیکن مجیب نے ایسی یقین دہانی کرانے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ جو شخص اپنے ’’ڈیڈی‘‘ کا وفادار نہیں رہا وہ ناقابل اعتبار ہے (جناب ایس ایم ظفر اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے کانوں سے مسٹر بھٹو کو جنرل ایوب خاں کو ڈیڈی کہتے سنا تھا)
مغربی پاکستان سے دیگر سیاسی جماعتوں کی قومی اسمبلی میں نمائندگی یوں تھی۔ پاکستان مسلم لیگ دولتانہ گروپ (14)، پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ (2)، کنونشن مسلم لیگ (2)، نیشنل عوامی پارٹی NAP (9)، جمعیت العلمائے پاکستان (7)، جمعیت علمائے اسلام (7)، جماعت اسلامی (4)۔ مسلم لیگ کے میاں ممتاز دولتانہ اور نیپ (اے این پی کی پیشرو) کے لیڈر خان عبدالولی خان سے شیخ مجیب کی گاڑھی چھنتی تھی، وہ ان دونوں کے ساتھ آسانی سے مخلوط حکومت بنا سکتے تھے جس میں جمعیت العلمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام بھی شریک ہو سکتی تھیں۔ ان کی معاونت سے آئین سازی کا مرحلہ بخوبی طے ہو سکتا تھا اور ملکی سلامتی کی حدود کے اندر رہ کر چھ نکات کے معاملے میں بنگالیوں کو مطمئن کیا جا سکتا تھا مگر بھٹو تو حصول اقتدار کے لئے پانی کی مچھلی بنے ہوئے تھے۔ جب انہوں نے فوری اقتدار کی لیلیٰ ہاتھ سے جاتے دیکھی تو وہ سب کچھ ڈھا دینے پر تل گئے۔ (مسٹر بھٹو نے یحییٰ خان کو لاڑکانہ بلا کر کیا پلان بنایا، کس طرح مینار پاکستان کے سائے تلے ڈھاکہ جانے والے ارکان اسمبلی کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی اور پھر بنگالیوں کو ’’بونگلے‘‘ کہہ کر انہیں فوجی آپریشن سے کچل دینے کی روش اختیار کی،
****
بشکریہ ہفت روزہ جرار
حقائق کچھ یوں ہیں کہ گول میز کانفرنس کی ناکامی کے بعد 25 مارچ 1969ء کو صدر جنرل ایوب نے استعفیٰ دے دیا تھا اور اپنے ہی بنائے ہوئے آئین (1962ئ) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اسپیکر قومی اسمبلی عبدالجبار خاں کو اقتدار سونپنے کے بجائے فوج کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ کو مارشل لاء لگانے کی دعوت دے ڈالی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ دراصل یحییٰ خان نے ایوب خاں سے طاقت کے بل پر اقتدار حاصل کیا تھا۔ بہرحال یحییٰ خان نے مارشل لاء لگا کر یکے بعد دیگرے ایسے اقدامات کئے جن سے ملکی شکست و ریخت کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی اور ان تمام ملک دشمن اقدامات میں اسے زیڈ اے بھٹو کی حمایت حاصل تھی، مثلاً تقریباً تمام جماعتیں مطالبہ کر رہی تھیں کہ 1956ء کا آئین بحال کر دیا جائے جو ملک کے مشرقی اور مغربی بازوئوں میں اتحاد کی ضمانت تھا۔ آئین 1956ء بنانے والوں میں مشرقی پاکستان کے عظیم رہنما اور شیخ مجیب الرحمن کے سیاسی استاد حسین شہید سہروردی (جو 1956-57ء میں وزیراعظم بنے) بھی شامل تھے۔ اس آئین کے تحت قومی اسمبلی میں دونوں بازوئوں کو مساوی نمائندگی دی گئی تھی مگر بھٹو صاحب نے یحییٰ خان کے اشارے پر قومی وحدت کی ضمانت آئین 1956ء کا یہ کہہ کر مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ ’’آئین کوئی چپلی کباب ہے جس سے عوام کا پیٹ بھر جائے گا‘‘۔ چنانچہ جنرل یحییٰ نے آئین 1956ء بحال کرنے کے بجائے لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) نافذ کر دیا جس کے تحت منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کو نیا آئین بنانے کا کام سونپ دیا گیا۔ یحییٰ بھٹو گٹھ جوڑنے دوسرا ستم یہ ڈھایا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی مساوی نمائندگی یا پیرٹی (Parity) ختم کر کے انہیں ون مین ون ووٹ کے اصول پر نمائندگی دی گئی جس کے تحت مشرقی پاکستان کو اپنی کثرت آبادی کی بناء پر 56فیصد نمائندگی حاصل ہو گئی اور مغربی پاکستان کی نمائندگی 44 فیصد رہ گئی۔ یہ دونوں اقدامات ملکی سالمیت کے لئے مہلک ثابت ہوئے۔ عام انتخابات اکتوبر 1970ء ہونے تھے جو مشرقی پاکستان میں سمندری طوفان آنے سے 7دسمبر تک ملتوی کر دیئے گئے۔ تیسرا ستم یہ ڈھایا گیا کہ جداگانہ طریق انتخاب جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا تھا، ترک کر کے مخلوط طریق انتخاب رائج کر دیا گیا جس کا فائدہ بہرحال بھٹو اور مجیب الرحمن کو پہنچا کیونکہ انہوں نے اقلیتوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے اسے ایشو بنا رکھا تھا۔
انتخابی مہم جو کہ یکم جنوری 1970ء کو شروع ہوئی تھی، سوا گیارہ ماہ چلتی رہی جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ تھی۔ اس میں شیخ مجیب نے ’’چھ نکات‘‘ اور بھٹو نے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعروں کے ساتھ حصہ لیا۔ مسٹر بھٹو نے پورا سال چھ نکات کی کوئی مخالفت نہ کی جبکہ مجیب کی عوامی لیگ نے انہی نکات کی بنیاد پر انتخابی مہم چلائی۔ دونوں لیڈر لیگل فریم ورک آرڈر کی دھجیاں اڑاتے رہے مگر مارشل لاء ضابطے سوئے رہے۔ ایک اور خرابی یہ ہوئی کہ مجیب نے تو مغربی پاکستان میں 6 قومی نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے مگر بھٹو نے مشرقی پاکستان میں پی پی پی کا کوئی ایک امیدوار بھی کھڑا نہیں کیا تھا جبکہ مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور نوابزادہ نصر اللہ کی قومی جمہوری پارٹی نے مشرقی پاکستان کی بیشتر نشستوں پر اپنے اپنے امیدوار نامزد کئے تھے۔ اس کے باوجود شاہد رشید نوائے وقت (18 دسمبر 2011ئ) میں حقائق مسخ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں اپنی پارٹی کی طرف سے امیدوار نامزد کرنے میں دلچسپی نہ لی۔ اس طرح پی پی پی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے لئے مشرقی پاکستان میں امیدوار کھڑے کرنے کو ناممکن بنا دیا گیا‘‘۔ دراصل عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں علاقائی جماعتیں تھیں اور ان دونوں کے مشرقی اور مغربی بازوئوں میں الگ الگ حاصل اکثریت کرنے سے ملک کے دو ٹکڑے ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔ اس کی پیش گوئی مرد درویش سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اکتوبر 1970ء میں نہرو پارک، سنت نگر، لاہور کے جلسے میں یوں کر دی تھی: ’’اگر یہ دو علاقائی جماعتیں اکثریتی ووٹ لے کر قومی اسمبلی میں پہنچ گئیں تو ملک کے متحد رہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی‘‘۔ مگر اس وقت تک روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر اس قدر دھول اڑائی جا چکی تھی کہ کوئی عقل کی بات سننے کو تیار نہ تھا۔ مسٹر بھٹو ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے، چنانچہ جب انہوں نے ایئر مارشل (ر) اصغر خاں اور ڈاکٹر جاوید اقبال کو پی پی پی میں شمولیت کی دعوت دی تھی اور ان دونوں سے ان سے ان کا پروگرام پوچھا تو بھٹو صاحب نے قہقہہ لگا کر دونوں سے یہی کہا تھا کہ پروگرام کیا ہے، عوام کو بے وقوف بنا کر اقتدار حاصل کرنا ہے۔ تب اصغر خاں نے یہ کہہ کر پی پی پی میں شامل ہونے سے معذرت کی تھی کہ ’’میں عوام کو بے وقوف بنا کر اقتدار حاصل کرنے کے پروگرام میں شامل نہیں ہو سکتا‘‘۔ جناب اصغر خان اور ڈاکٹر جاوید اقبال اپنے انٹرویوز میں یہ راز افشا کر چکے ہیں۔
7 دسمبر 1970ء کو قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے جس کی 313 نشستوں میں سے 300 پر چنائو ہوا تھا۔ باقی 13نشستیں خواتین کے لئے مخصوص کی گئی تھیں۔ 300 قابل انتخاب نشستوں میں سے 162 مشرقی پاکستان اور 138 مغربی پاکستان کی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے 160 نشستیں جیت کر قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی جبکہ باقی دو نشستوں میں سے ایک پر قومی جمہوری محاذ کے جناب نور الامین اور دوسری پر اقلیتی بدھ رہنما (چکما قبیلے کے سردار) راجہ تری دیورائے منتخب ہوئے۔ پی پی پی کو مغربی پاکستان سے 81 نشستیں حاصل ہوئیں جن میں بھاری اکثریت یعنی 63 نشستیں پنجاب سے تھیں کیونکہ پنجابی و کشمیری عوام کی اکثریت بھٹو کے کھوکھلے نعروں ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ اور ’’ہم کشمیر کے لئے ایک ہزار سال لڑیں گے‘‘ پر مر مٹی تھی (اب بھٹو کی وراثت پر قابض زرداری پارٹی کو یاد ہی نہیں کہ بھٹو نے آزادی کشمیر کا نعرہ بھی لگایا تھا اور یہ لوگ کشمیر اور پاکستان کے دشمن بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے لئے بے چین ہورہے ہیں) باقی تین صوبوں سے پی پی پی کی جیتی ہوئی نشستیں یوں تھیں: سندھ (30 میں سے 17)، صوبہ سرحد سے ایک اور بلوچستان کی کل 4 نشستوں میں سے صفر۔
یوں انتخابات 1970ء نے بھٹو کو اپوزیشن لیڈر کا مقام دیا تھا جو انہیں کسی طور گوارا نہ تھا۔ تقریباً سال بھر کی انتخابی مہم میں انہوں نے مجیب کے چھ نکات کی مخالفت کا تکلف نہ کیا مگر اب انتخابات کے بعد اچانک ان کی مخالفت شروع کر دی۔ اگر چھ نکات ایسے ہی برے تھے تو انتخابات سے پہلے وہ جنرل یحییٰ سے کہہ کر مجیب کو چھ نکات کے پرچار سے روک سکتے تھے مگر انتخابات کے بعد ان کی مخالفت سیاسی مفاد تھی۔ اوائل جنوری 1971ء میں جنرل یحییٰ ڈھاکہ ایئر پورٹ پر شیخ مجیب کو ملک کا آئندہ وزیراعظم قرار دے چکے تھے جبکہ شیخ مجیب نے ان نکات کو صرف انتخابات جیتنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا تھا اور وہ مغربی پاکستان کے دیگر لیڈروں سے کہہ چکے تھے کہ چھ نکات کوئی حدیث نہیں، اسمبلی میں ان پر بات ہو گی۔ لیکن بھٹو صاحب نے وسط جنوری 1971ء میں پی پی پی کے وفد کے ہمراہ ڈھاکہ جا کر مجیب کے ساتھ سودا بازی کی کوشش کی۔ کشتی میں دونوں لیڈروں نے بوڑھی گنگا کی سیر بھی کی اور بھٹو نے ساڑھے پانچ نکات تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا مگر پھر آدھے نکتے پر بات اٹک گئی۔ اگر بھٹو مخلص ہوتے تو وہ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہونے دیتے تو اس آدھ نکتے کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا لیکن دراصل وہ مرکزی سطح پر مجیب سے اقتدار میں شرکت کی ضمانت چاہتے تھے، یہ کہ انہیں نائب وزیراعظم یا صدر مملکت کا منصب دیا جائے لیکن مجیب نے ایسی یقین دہانی کرانے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ جو شخص اپنے ’’ڈیڈی‘‘ کا وفادار نہیں رہا وہ ناقابل اعتبار ہے (جناب ایس ایم ظفر اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے کانوں سے مسٹر بھٹو کو جنرل ایوب خاں کو ڈیڈی کہتے سنا تھا)
مغربی پاکستان سے دیگر سیاسی جماعتوں کی قومی اسمبلی میں نمائندگی یوں تھی۔ پاکستان مسلم لیگ دولتانہ گروپ (14)، پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ (2)، کنونشن مسلم لیگ (2)، نیشنل عوامی پارٹی NAP (9)، جمعیت العلمائے پاکستان (7)، جمعیت علمائے اسلام (7)، جماعت اسلامی (4)۔ مسلم لیگ کے میاں ممتاز دولتانہ اور نیپ (اے این پی کی پیشرو) کے لیڈر خان عبدالولی خان سے شیخ مجیب کی گاڑھی چھنتی تھی، وہ ان دونوں کے ساتھ آسانی سے مخلوط حکومت بنا سکتے تھے جس میں جمعیت العلمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام بھی شریک ہو سکتی تھیں۔ ان کی معاونت سے آئین سازی کا مرحلہ بخوبی طے ہو سکتا تھا اور ملکی سلامتی کی حدود کے اندر رہ کر چھ نکات کے معاملے میں بنگالیوں کو مطمئن کیا جا سکتا تھا مگر بھٹو تو حصول اقتدار کے لئے پانی کی مچھلی بنے ہوئے تھے۔ جب انہوں نے فوری اقتدار کی لیلیٰ ہاتھ سے جاتے دیکھی تو وہ سب کچھ ڈھا دینے پر تل گئے۔ (مسٹر بھٹو نے یحییٰ خان کو لاڑکانہ بلا کر کیا پلان بنایا، کس طرح مینار پاکستان کے سائے تلے ڈھاکہ جانے والے ارکان اسمبلی کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی اور پھر بنگالیوں کو ’’بونگلے‘‘ کہہ کر انہیں فوجی آپریشن سے کچل دینے کی روش اختیار کی،
****
بشکریہ ہفت روزہ جرار