سید شہزاد ناصر
محفلین
یہ غزل میرے استادِ محترم بابا جی جاوید حیات کی ہے
کچھ عرصہ پیشتر اُن کا انتقال ہو گیا
یہ ان کی آخری غزل ہے
ممکن ہے یہ غزل پڑھتے ہوئے آپ کے وہ محسوسات نہ ہوں جومیرے ہیں
ذرا دیکھئے اپنے تخلص کو کس خوبی سے استمعال کیا ہے
میرا تو یہ حال ہے ٹائپنگ کے ساتھ آنکھوں سے آنسو رواں ہو رہے ہیں
اگر احباب نے فرمائیش کی تو بابا جی کا تفصیلی تعارف پیش کروں گا
آپ کی آراء کا انتطار رہے گا
سلامِ آخر ہو شہرِ یاراں،تمہاری محفل سے جا رہا ہوں
فضول ہو گی تلاش میری،میں نقشِ پاء بھی مٹا رہا ہوں
وفا کے ایوان سجا دئے ہیں،اندھیرے شب کے مٹا دئے ہیں
چراغِ الفت کی لو نہ کم ہو،میں خون دل کا جلا رہا ہوں
جو کہ رہا ہوں گلہ نہ سمجھو،جو مجھ پہ گُزری جفا نہ سمجھو
عطا ہوئے ہیں جو داغِ حسرت،وہ قصرِ دل میں سجا رہا ہوں
جو بعد میرےہے مجھ سے ملنا، ہوا کے جھونکوں پر کان دھرنا
فضائیں دیں گی گواہی میری،میں گیت ایسے سجا رہا ہوں
شباب پر ہے تمہاری محفل،لُٹا رہے ہو خمارِ مستی
بتوُ میرا بھی خیال رکھنا،کبھی تو میں بھی خُدا رہا ہوں
نئی ہے منزل نیا سفر ہے،حیات سے اب مجھے مُفر ہے
عدم کی وادی کو جانے والو ذرا سا ٹھہرو، میں آ رہا ہوں
کچھ عرصہ پیشتر اُن کا انتقال ہو گیا
یہ ان کی آخری غزل ہے
ممکن ہے یہ غزل پڑھتے ہوئے آپ کے وہ محسوسات نہ ہوں جومیرے ہیں
ذرا دیکھئے اپنے تخلص کو کس خوبی سے استمعال کیا ہے
میرا تو یہ حال ہے ٹائپنگ کے ساتھ آنکھوں سے آنسو رواں ہو رہے ہیں
اگر احباب نے فرمائیش کی تو بابا جی کا تفصیلی تعارف پیش کروں گا
آپ کی آراء کا انتطار رہے گا
سلامِ آخر ہو شہرِ یاراں،تمہاری محفل سے جا رہا ہوں
فضول ہو گی تلاش میری،میں نقشِ پاء بھی مٹا رہا ہوں
وفا کے ایوان سجا دئے ہیں،اندھیرے شب کے مٹا دئے ہیں
چراغِ الفت کی لو نہ کم ہو،میں خون دل کا جلا رہا ہوں
جو کہ رہا ہوں گلہ نہ سمجھو،جو مجھ پہ گُزری جفا نہ سمجھو
عطا ہوئے ہیں جو داغِ حسرت،وہ قصرِ دل میں سجا رہا ہوں
جو بعد میرےہے مجھ سے ملنا، ہوا کے جھونکوں پر کان دھرنا
فضائیں دیں گی گواہی میری،میں گیت ایسے سجا رہا ہوں
شباب پر ہے تمہاری محفل،لُٹا رہے ہو خمارِ مستی
بتوُ میرا بھی خیال رکھنا،کبھی تو میں بھی خُدا رہا ہوں
نئی ہے منزل نیا سفر ہے،حیات سے اب مجھے مُفر ہے
عدم کی وادی کو جانے والو ذرا سا ٹھہرو، میں آ رہا ہوں