حسان خان
لائبریرین
کل رات نیٹ گردی کے دوران ایک گجراتی رسالہ گلزارِ حسینی نظر آیا۔ جب اُس کے مندرجات دیکھے تو یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ اُس میں بوہری شیعہ شعراء کے اردو سلام اور نوحے گجراتی رسم الخط میں درج تھے۔ یہ تو علم تھا کہ بوہری اپنی عربی فارسی ملی گجراتی اردو رسم الخط میں لکھتے آئے ہیں، لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ بوہریوں میں اردو کو گجراتی رسم الخط میں لکھنے کی بھی روایت رہی ہے۔ نمونے کے طور پر کتاب سے ایک سلام پیش کر رہا ہوں۔ شاعر کا نام نہیں دیا ہوا، البتہ مقطع اور عنوان میں وفا بطور تخلص درج ہے۔
سلامی شاہ کی امداد کو ساری خدائی تھی
مگر منظور حضرت کو رضائے کبریائی تھی
گلا خنجر سے کاٹا شمر نے کس رہبرِ دیں کا
سرِ گمراہ میں کیا بوئے گمراہی سمائی تھی
پیاسا ہی رکھا لختِ دلِ ساقیِ کوثر کو
دیا پانی نہ بے رحموں نے قبضے میں ترائی تھی
لڑے ایسے جوانانِ حسینی فوجِ اعدا سے
صدائے مرحبا پیرِ فلک کے منہ سے آئی تھی
عجب کچھ رعب تھا میداں میں ہمشکلِ پیمبر کا
ہر اک بے دیں کے منہ پر خوف سے چھٹتی ہوائی تھی
اِدھر قطرے، اُدھر دریا، اِدھر تنہا، اُدھر لاکھوں
اکیلے تھے اِدھر سرور، اُدھر ساری خدائی تھی
اُنہیں کس طرح دیں گے جامِ کوثر ساقیِ کوثر
اُنہوں نے عترتِ اطہار بے پانی رلائی تھی
دلِ صغرا پہ اُس دم صدمۂ جاں کاہ گذارا تھا
مدینے میں خبر جب قتلِ شاہِ دیں کی آئی تھی
گذارا تھا = گذر رہا تھا
کٹے جب بازوئے عباس دریا کے کنارے پر
گھٹا اُس وقت غم کی عالمِ ہستی پہ چھائی تھی
ثنا خواں ہے جو دنیا میں وفا آلِ محمد کا
سعادت روزِ اول اُس کے حصے میں سمائی تھی
(وفا)