سلامی نام پر حسنین کے لازم ہے مر جانا - منشی للتا پرشاد 'شاد' میرٹھی

حسان خان

لائبریرین
سلامی نام پر حسنین کے لازم ہے مر جانا
کہ یہ مرنا بھی ہے دنیا میں زندہ نام کر جانا
مزہ دیتا تھا میداں میں وہ حضرت کا بپھر جانا
اُدھر منہ پھیرنا دشمن کا اور چہرہ اتر جانا
رہے سب تشنہ لب لیکن نہ دشمن سے اماں مانگی
اسے کہتے ہیں سر دینا، اسے کہتے ہیں مر جانا
ہلا دیتا تھا سُکّانِ فلک کو شمر تو کیا، تھا
صفِ دشمن سے مثلِ شیر حضرت کا گذر جانا
لگائی آگ گو تشنہ لبی نے اُف نہ کی لیکن
تحمل کو وہی سمجھے، اُنہیں نے صبر کر جانا
برائے جنگ اکبر کا وہ رخصت مانگنا شہ سے
وہ بے خوف و خطر پھر شان سے باندھے کمر جانا
ستم اک ڈھا گیا کُبریٰ کا وہ رو رو کے یوں کہنا
جو وعدہ تھا اسے قاسم ذرا ایفا تو کر جانا
بہے آنسو جو بانو کے تو وہ سمجھے کہ پانی ہے
غضب تھا اصغرِ بے شیر کا اُس دم بکھر جانا
برس کر تر جو کر دیتا تو کیوں یوں آبرو کھوتا
نہ اپنا فرض تو نے ہائے کچھ اے ابرِ تر جانا
ذرا قدموں میں رہتا شمر، حضرت پر فدا ہوتا
بڑا بدبخت تھا ظالم نہ جی جانا نہ مر جانا
نہیں اے شاد کچھ عشقِ امامِ وقت سے بڑھ کر
نجاتِ دائمی ہے الفتِ مرشد میں مر جانا
(منشی للتا پرشاد 'شاد' میرٹھی)
 
لگائی آگ گو تشنہ لبی نے اُف نہ کی لیکن
تحمل کو وہی سمجھے، اُنہیں نے صبر کر جانا
ہائے ہائے ۔۔۔۔کیا کہنے
نہیں اے شاد کچھ عشقِ امامِ وقت سے بڑھ کر

نجاتِ دائمی ہے الفتِ مرشد میں مر جانا۔
پورا کلام ہی لاجواب ہے ۔۔۔۔ ڈھیروں دعائیں بیٹا ۔​
 
Top