حسان خان
لائبریرین
سلامی پی لیا جامِ شہادت شادماں ہو کر
حسین ابنِ علی نے جان دی، جانِ جہاں ہو کر
زمینِ کربلا نے غم دیا ہے آسماں ہو کر
لبِ دریا جہاں پیاسے رہے سب نیم جاں ہو کر
الٰہی! برق وش آہیں نکلتیں برچھیاں ہو کر
فلک سے ٹوٹ پڑتیں، شمر پر پھر بجلیاں ہو کر
بھلا حسنین، بِن× شیرِ خدا، دنیا میں کیوں رہتے
خدا کے پاس جا پہونچے، خدا کے رازداں ہو کر
یہ آخر کیا کرشمہ تھا کہ گُل ہائے رسول اللہ
خزاں میں جا پھنسے، گلچیں کے ہاتھوں، باغباں ہو کر
اُنہیں مرنا تو تھا اک دن، مگر غم ہے تو اتنا ہے
اجل کم بخت کیوں آئی، نصیبِ دشمناں ہو کر
غضب تشنہ لبی تھی، خنجرِ پُرآب بھی آخر
نکل آیا دہانِ زخم سے سوکھی زباں ہو کر
اگر اہلِ نظر دیکھیں حُسین اب بھی نظر آئیں
کہ ہم چشموں کی آنکھوں میں بسے ہیں پُتلیاں ہو کر
خدا کی شان کے صدقے، جنابِ حُر کی یہ حرمت
ارم میں چین کرتے ہیں ارم کے پاسباں ہو کر
ستم ہے، ظلم ہے، حضرت کا سر ہو نوکِ نیزہ پر
یہی کانٹا کھٹکتا ہے مرے دل میں سناں ہو کر
یزیدِ بدمقدر آج بھی مردودِ عالم ہے
سبک سب کی نگاہوں میں ہوا بارِ گراں ہو کر
امامِ دوسرا کا کس طرح دیدار حاصل ہو
مزا ہو گر نظر آ جائیں مجھ پر مہرباں ہو کر
جو اہلِ قافلہ تھے، کربلا پہونچے، نجف پہونچے
فقط میں رہ گیا ہوں اک غبارِ ناتواں ہو کر
بڑھاپے میں، وطن سے دور کیوں اے شاد آ بیٹھے
زباں بھی بھول جاؤ گے یہاں اہلِ زباں ہو کر
(منشی للتا پرشاد 'شاد' میرٹھی)
× بِن (فارسی) بہ معنی اولاد۔ بِن (ہندی) بہ معنی بغیر، بلا۔