عبدالقیوم چوہدری
محفلین
سلام باؤ جی۔۔۔ عورت کی منمناتی ہوئی سی آواز میرے کانوں میں گونجی، میں نے کن اکھیوں کی بھی کن اکھیوں سے اس کی طرف دیکھا اور آہستہ سے سلام کا جواب دے کر آگے بڑھتا چلا گیا۔
میں اس کے پاس سے روزانہ یوں ہی گزرتا ہوں جیسے کوئی ایکسپریس ٹرین جو چھوٹے چھوٹے سٹیشنوں کو خاطر میں ہی نہیں لاتی اور فراٹے بھرتے نکل جاتی ہے۔ لیکن، باوجود اس لگاتار بے اعتنائی کے وہ مجھے روزانہ ہی 'سلام باؤ جی' کہہ دیا کرتی۔ شاید میرا حلیہ بابوؤں جیسا تھا، ڈریس پینٹ، استری کی ہوئی شرٹ، اکڑا ہوا کالر، سلیقے سے بنے بال، پاؤں میں پالش ہوئے بند جوتے، دھیمی چال، سرفوجیوں کی طرح تھوڑا سا اٹھا ہوا۔
مجھے اس نئی ملازمت پر پانچ ہفتے پورے ہونے کو تھے۔ میں روزانہ ہی اپنی رہائش سے دفتر تک پیدل آتا جو تقریباً پچیس منٹ کا فاصلہ تھا۔ پیدل آنے میں میرا ہی فائدہ تھا کہ رات کا کھانا کھا لینے کے بعد تھوڑی بہت چہل قدمی ہو جاتی جو اس سستی کے مارے دور میں میرے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ البتہ دفتر سے صبح واپسی پر میرا
جسم تھکن سے چور ہوتا، ایسے میں میرا کوئی کولیگ اپنی گاڑی پر یا آفس بوائے اپنی موٹر سائیکل پر مجھے گھر چھوڑ جاتا اور اس کے لیے وہ اوور ہیڈ برج سے جاتے تاکہ ریلوے پھاٹک پر وقت ضائع کرنے سے بچ سکیں جو ٹرینوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اکثر بند ہی رہتا ۔
ایک ہی راستے سے گزرتے ہوئے آپ کو رفتہ رفتہ سفر میں روزانہ نظر آنے والی پھلوں کی مستقل ریڑھیاں، سبزی کے ٹھیلے، موچیوں اور حجاموں کے ٹھیے، کپڑے کی دکانیں، ہوٹل، سکول اور مکانات بھی یاد ہونے لگ جاتے ہیں اور یہ۔۔۔ یہ تو۔۔۔ جیتی جاگتی عورت تھی، اور پھر روزانہ ہی مجھے سلام بھی کرتی تھی۔ لیکن وہ مجھے یاد تب ہی آتی جب میں اوور ہیڈ برج کے بالکل نیچے اس جگہ پہنچ جاتا جہاں مائع گیس بیچنے والوں کی دوکانیں ہیں، جہاں سے آگے ریلوے کا پھاٹک ہے اور ساتھ ہی کچی بستی بھی۔
وہ دوکانوں سے پہلے ہی تھوڑا ہٹ کر نیم اندھیرے میں کھڑی ہوتی اور پل کے نیچے بنی پرانی سڑک پر ٹریفک سے بے نیاز ہر آنے جانے والے کو خالی خالی نظروں سے دیکھتی رہتی۔ جس وقت میں اس مقام سے گزرتا، ان چند لمحوں میں، شاید ایک آدھ بار ہی میں نے کسی گاہک کو اس سے بات چیت کرتے دیکھا تھا ورنہ زیادہ تر شوقینوں کو میں نے ہمیشہ سڑک کے دوسری طرف اور اس کے کھڑے ہونے کے مقام سے آگے پیچھے نسبتاً کم عمر اور شوخ قسم کی لڑکیوں سے ہی بھاؤ تاؤ بناتے دیکھا۔
ایک دو بار میں نے سڑک کے دوسرے کنارے پر کھڑے ہو کر۔۔تھوڑا چھپ چھپا کر۔۔۔ اس کا دو چار منٹ مشاہدہ بھی کیا لیکن کسی بھی اور گزرنے والے کو کبھی اُسے سلام کرتے نہیں دیکھا۔ یہ 'سلام باؤ جی' شاید میرے لیے ہی مخصوص تھا۔ اور میں معبد کی کسی مقدس مورتی کی طرح جو اپنے چاہنے والوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کے قابل بھی نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔ اس کی طرف مکمل طور پر دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا کہ مبادا اس سے نگاہیں ملا کر سلام کا جواب دینے سے کہیں میری آنکھیں ناپاک نہ ہو جائیں یا شاید میں ۔۔۔۔۔۔ پورے کا پورا، سالم ہی پلیت نہ ہو جاؤں۔
لیکن میری یہ کیفیت صرف اس کے پاس سے گزرتے ہوئے ہی ہوتی تھی، باقی چوبیس منٹ اور پینتالیس سیکنڈ میں ہر اس لڑکی اور عورت کو ایک بار نظریں سیدھی کر کے ضرور دیکھ لیتا جو سامنے آ جاتی تھی، کوئی زیادہ خوبصورت اور چنچل دکھتی تو اسے وقت بھی زیادہ دے دیا کرتا۔۔۔۔ لیکن، چھوٹے قد والی۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔وہ تو جسم فروش تھی، اسے میں آنکھیں سیدھی کر کے کیسے دیکھ سکتا تھا؟ ہیں بھلا۔۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے؟ بابو جیسا حلیہ، بظاہر شریف سا بندہ اور طوائف کو گھور رہا ہے۔ نہیں۔۔نہیں یہ مجھے گوارہ نہیں۔ یہاں میری اپنی مرتب کردہ اخلاقیات میرے سر چڑھ جاتیں اور میں اسے سلام کا جواب تو دیتا لیکن دیکھے بنا ہی۔۔۔
کبھی کبھار میں سوچتا، یہ رات میں کتنے بنا لیتی ہو گی ؟ ڈھلتی عمر، بہت خوبصورت بھی نہیں، بس عورت ہے اور جنھیں شب بسری کے لیے بس عورت کی تلاش ہوتی ہے، یا جیب میں پیسے کم ہوتے ہوں، وہ شاید دو سو یا تین سو میں اس ڈھلتی عمر اور کم رو سے ۔۔۔ پھر اچانک سے میری ذہنی رو پلٹا کھاتی اور میری یہ سوچ ایک دم سے رک جاتی، ۔۔۔ خاہ، تھوہ۔۔۔ یہ میں کیا سوچ رہا ہوں !۔۔۔ دفع کرو، میری بلا سے پانچ سو بنائے یا ہزار، میں اس کے بارے میں سوچوں ہی کیوں۔ گندی عورت، طوائف، حرام پر پلنے والی۔
میں اس سوچ کو ترک کر کے، کچھ دیر اپنے ذہن کو کسی اور طرف الجھاتا لیکن پھر ناجانے کس وقت وہ دل کے کسی کونے کھدرے سے نکلتی، اور خیالوں اور سوچوں کے سارے تانے بانے اس بے نام ذات کے گرد ہی بنتے چلے جاتے۔ سوچوں پر انسانوں کا بس چلتا ہی کب ہے، یہ تو بنا بتائے، بنا اجازت طلب کیے، ذہن و دل میں شبنم کے قطروں کی طرح اترتی چلی جاتیں ہیں اور ایک سوچ سے دوسری سوچ تک کا سفر جاری و ساری رہتا ہے۔
میں پھر سوچنے لگ جاتا۔۔۔ میں مہینے میں کتنے کماتا ہوں ؟ پچاس ہزار۔۔۔ نہیں۔۔۔ شاید اس سے کچھ زیادہ ہی۔۔ میری بیوی بھی کام کرتی ہے وہ بھی بیس پچیس بنا لیتی ہے، ہم دونوں مل جل کر ستر یا اسی کے ہندسے کو چھو لیتے ہیں۔ ہر مہینے کے اختتام تک سارے خرچے کر کے بھی ہم دونوں کی جیبوں میں پیسے پڑے ہوتے ہیں، پھر نیا مہینہ شروع ہو جاتا ہے۔۔تو۔۔۔ اور پیسے آ جاتے ہیں۔ پھر بچے ہوئے پیسوں سے ہم چھوٹی موٹی عیاشی کر لیتے ہیں، کبھی سیر وتفریح کے لیے نکل پڑے اور کبھی خریداری کرنے۔ میری بیوی اپنے، میرے اور بچوں کے سیزن کے کپڑے لے لیتی ہے، جوتے لے لیتی ہے۔ وقتاً فوقتاً گھر آئے رشتے داروں کے بچوں کو دے دلا دیتی ہے، بازار سے پکے پکائے کھانے، برگر، پیزا آ جاتے ہیں۔
سوچ کا سفر جاری رہتا ہے۔۔۔۔۔ اچھا۔۔۔تو وہ جسم فروش شاید پورے تیس دن، بدنظروں کے نشتر سہہ سہہ کر اور اپنا جسم تھوک کے بھاؤ بیچ بیچ کر دس ہزار کما لیتی ہو گی؟ میں سارا حساب کتاب کرتا تو مجھے لگتا کہ دس ہزار تو میرے لیے کوئی بڑی رقم نہیں۔ ہوں۔۔۔ہوں۔۔۔ باقی سب ایسی لڑکیوں، عورتوں کو دفع کرو، مجھے ان سے کیا لینا دینا، میں اس چھوٹے قد والی کو دس ہزار دے دیا کروں گا، آخر۔۔۔ مجھے۔۔۔۔صرف مجھے۔۔۔ روز ہی تو سلام کرتی ہے اور پھر مجھے ۔۔۔باؤ جی کہہ کر بھی تو بلاتی ہے۔ گو کہ میں اسے دیکھنے کا بھی روادار نہیں، لیکن۔۔خیر ہے۔۔ بس مہینے میں ایک بار ہی تو سامنا کرنا ہے، میں اس سے بات کروں گا۔۔۔ اسے کہوں گا کہ یہ کام چھوڑ دے، میں تمھیں مہینے کے دس ہزار دے دیا کروں گا۔ میرے اندر کے بھی اندر چھپا ہوا کوئی انسان مجھے یہ سب کرنے پر اکساتا ۔
ہر رات یہ سوچتے ہوئے میں تہیہ کر لیتا کہ کل دفتر آتے ہوئے میں اس سے بات کرلوں گا، اسے کچھ پیسے پکڑا دوں گا اور اسے کہوں گا گھر چلی جائے۔ میں تمھیں پیسے دے دیا کروں گا بس یہاں نا کھڑی ہوا کرے، نا مجھے 'سلام باؤ جی' کہا کرے۔۔۔ کہ اسے کیا پتہ۔۔۔ میں روزانہ ایک اذیت سے گزرتا ہوں کہ تم سے نظریں ملا کر سلام کا جواب کیسے دوں ۔۔۔ مجھے روزانہ اپنے ناپاک ہوجانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ تم بس مہینے میں ایک بار میرے سے پیسے لے لیا کرو اور چپ کر کے گھر میں پڑی رہا کرو۔
لیکن۔۔۔ہر شام 'سلام باؤ جی' کی آواز سنتے ہی ناجانے مجھے کیا ہوجاتا، میں اپنی سب سوچوں پر لعنت ملامت کرتا ۔۔۔آہستہ سے سلام کا جواب دیتا اور یہ سوچتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہوں کہ دفع کرو۔۔۔ مجھے کیا لینا دینا اس عورت سے۔
پھر ایک روز میں صبح دفتر سے جلدی نکل گیا، سب لوگ ڈیوٹی پر تھے، میں نے کسی کو کہنا مناسب نہیں سمجھا اور پیدل ہی گھر کو ہو لیا۔ ابھی صبح طلوع ہو رہی تھی، سڑک پر رش بھی نہیں تھا، میں چلتا چلتا اس مقام کے نزدیک جا پہنچا جہاں وہ چھوٹے قد والی کھڑی ہوتی تھی۔۔۔ ہیں یہ کیا؟ ۔۔۔۔۔ وہ ادھر ہی ایک تھڑے پر سر جھکائےبیٹھی تھی، شاید آج رات اسے کوئی گاہک نہیں ملا۔۔سڑک پر رش بھی نہیں تھا، میں نے سوچا کہ آج اچھا موقع ہے میں اس سے بات کر لوں گا، میری جیب میں ہزار دو ہزار پڑے تھے، وہ بھی اسے دے دوں گا اور اسے اس کام سے چھٹکارہ دلا دوں گا۔ یہی سوچتے سوچتے میں اس کے نزدیک ہوتا جا رہا تھا، وہ یونہی دنیا و مافیہا سے بے خبر سر جھکائے بیٹھی ہوئی تھی، اس کے بالکل پاس پہنچ کر میں ایک لمحے کے لیے ٹھٹکا، اپنے اندر ہمت پیدا کی ۔۔۔ ابھی الفاظ کو تول ہی رہا تھا کہ گھبراہٹ طاری ہو گئی۔ دائیں بائیں دیکھا، صفائی کرنے والا خاکروب ادھر ہی دیکھ رہا تھا، ایک پھل فروش کی نظر بھی ریڑھی پر پھل سجاتے ہوئے میری طرف ہی تھی، ایک بابا جی پاس سے سائیکل پر گزر رہے تھے وہ بھی مجھے ہی تک رہے تھے۔ میں نے دل ہی دل میں ان سب پر لعنت ملامت کی۔۔۔۔ کیسے گندے اور خبیث لوگ ہیں کسی کے ساتھ نیکی بھی نہیں کرنے دیتے۔۔۔ اور بغیر رکے آگے بڑھتا چلا گیا۔
تھورا آگے جا کرمیں رک گیا، اپنے رویے اور ردعمل کے بارے میں سوچا ۔۔۔۔پھر۔۔ واپس پلٹنے کا ارادہ کیا۔ مڑا اور دوبارہ اس کی طرف جانے کی ہمت پیدا کرنے لگا۔ اسی اثنا میں ایک لٹا پٹا سا ہیجڑا، چہرے پر رات کے میک اپ کی بچی کچھی لکیریں سجائے، میرے پاس سے گزر کر چھوٹے قد والی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ میں پھر رک گیا، دونوں میں کچھ دیر بات چیت ہوئی، ہیجڑے نے پہلے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، ایک کندھا تھپتھپایا، پھر اپنے پرس سے کچھ نوٹ نکالے، اس کے ہاتھ میں تھمائے اور دوسری طرف نکل گیا۔ چھوٹے قد والی نے ہاتھ میں آئے ہوئے نوٹوں کو دیکھا، آہستہ سے کھڑی ہوئی، اور میرے پاس سے گزرتے ہوئے ' سلام باؤ جی' کہتے ہوئے چلی گئی۔
میں اس کے پاس سے روزانہ یوں ہی گزرتا ہوں جیسے کوئی ایکسپریس ٹرین جو چھوٹے چھوٹے سٹیشنوں کو خاطر میں ہی نہیں لاتی اور فراٹے بھرتے نکل جاتی ہے۔ لیکن، باوجود اس لگاتار بے اعتنائی کے وہ مجھے روزانہ ہی 'سلام باؤ جی' کہہ دیا کرتی۔ شاید میرا حلیہ بابوؤں جیسا تھا، ڈریس پینٹ، استری کی ہوئی شرٹ، اکڑا ہوا کالر، سلیقے سے بنے بال، پاؤں میں پالش ہوئے بند جوتے، دھیمی چال، سرفوجیوں کی طرح تھوڑا سا اٹھا ہوا۔
مجھے اس نئی ملازمت پر پانچ ہفتے پورے ہونے کو تھے۔ میں روزانہ ہی اپنی رہائش سے دفتر تک پیدل آتا جو تقریباً پچیس منٹ کا فاصلہ تھا۔ پیدل آنے میں میرا ہی فائدہ تھا کہ رات کا کھانا کھا لینے کے بعد تھوڑی بہت چہل قدمی ہو جاتی جو اس سستی کے مارے دور میں میرے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ البتہ دفتر سے صبح واپسی پر میرا
جسم تھکن سے چور ہوتا، ایسے میں میرا کوئی کولیگ اپنی گاڑی پر یا آفس بوائے اپنی موٹر سائیکل پر مجھے گھر چھوڑ جاتا اور اس کے لیے وہ اوور ہیڈ برج سے جاتے تاکہ ریلوے پھاٹک پر وقت ضائع کرنے سے بچ سکیں جو ٹرینوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اکثر بند ہی رہتا ۔
ایک ہی راستے سے گزرتے ہوئے آپ کو رفتہ رفتہ سفر میں روزانہ نظر آنے والی پھلوں کی مستقل ریڑھیاں، سبزی کے ٹھیلے، موچیوں اور حجاموں کے ٹھیے، کپڑے کی دکانیں، ہوٹل، سکول اور مکانات بھی یاد ہونے لگ جاتے ہیں اور یہ۔۔۔ یہ تو۔۔۔ جیتی جاگتی عورت تھی، اور پھر روزانہ ہی مجھے سلام بھی کرتی تھی۔ لیکن وہ مجھے یاد تب ہی آتی جب میں اوور ہیڈ برج کے بالکل نیچے اس جگہ پہنچ جاتا جہاں مائع گیس بیچنے والوں کی دوکانیں ہیں، جہاں سے آگے ریلوے کا پھاٹک ہے اور ساتھ ہی کچی بستی بھی۔
وہ دوکانوں سے پہلے ہی تھوڑا ہٹ کر نیم اندھیرے میں کھڑی ہوتی اور پل کے نیچے بنی پرانی سڑک پر ٹریفک سے بے نیاز ہر آنے جانے والے کو خالی خالی نظروں سے دیکھتی رہتی۔ جس وقت میں اس مقام سے گزرتا، ان چند لمحوں میں، شاید ایک آدھ بار ہی میں نے کسی گاہک کو اس سے بات چیت کرتے دیکھا تھا ورنہ زیادہ تر شوقینوں کو میں نے ہمیشہ سڑک کے دوسری طرف اور اس کے کھڑے ہونے کے مقام سے آگے پیچھے نسبتاً کم عمر اور شوخ قسم کی لڑکیوں سے ہی بھاؤ تاؤ بناتے دیکھا۔
ایک دو بار میں نے سڑک کے دوسرے کنارے پر کھڑے ہو کر۔۔تھوڑا چھپ چھپا کر۔۔۔ اس کا دو چار منٹ مشاہدہ بھی کیا لیکن کسی بھی اور گزرنے والے کو کبھی اُسے سلام کرتے نہیں دیکھا۔ یہ 'سلام باؤ جی' شاید میرے لیے ہی مخصوص تھا۔ اور میں معبد کی کسی مقدس مورتی کی طرح جو اپنے چاہنے والوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کے قابل بھی نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔ اس کی طرف مکمل طور پر دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا کہ مبادا اس سے نگاہیں ملا کر سلام کا جواب دینے سے کہیں میری آنکھیں ناپاک نہ ہو جائیں یا شاید میں ۔۔۔۔۔۔ پورے کا پورا، سالم ہی پلیت نہ ہو جاؤں۔
لیکن میری یہ کیفیت صرف اس کے پاس سے گزرتے ہوئے ہی ہوتی تھی، باقی چوبیس منٹ اور پینتالیس سیکنڈ میں ہر اس لڑکی اور عورت کو ایک بار نظریں سیدھی کر کے ضرور دیکھ لیتا جو سامنے آ جاتی تھی، کوئی زیادہ خوبصورت اور چنچل دکھتی تو اسے وقت بھی زیادہ دے دیا کرتا۔۔۔۔ لیکن، چھوٹے قد والی۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔وہ تو جسم فروش تھی، اسے میں آنکھیں سیدھی کر کے کیسے دیکھ سکتا تھا؟ ہیں بھلا۔۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے؟ بابو جیسا حلیہ، بظاہر شریف سا بندہ اور طوائف کو گھور رہا ہے۔ نہیں۔۔نہیں یہ مجھے گوارہ نہیں۔ یہاں میری اپنی مرتب کردہ اخلاقیات میرے سر چڑھ جاتیں اور میں اسے سلام کا جواب تو دیتا لیکن دیکھے بنا ہی۔۔۔
کبھی کبھار میں سوچتا، یہ رات میں کتنے بنا لیتی ہو گی ؟ ڈھلتی عمر، بہت خوبصورت بھی نہیں، بس عورت ہے اور جنھیں شب بسری کے لیے بس عورت کی تلاش ہوتی ہے، یا جیب میں پیسے کم ہوتے ہوں، وہ شاید دو سو یا تین سو میں اس ڈھلتی عمر اور کم رو سے ۔۔۔ پھر اچانک سے میری ذہنی رو پلٹا کھاتی اور میری یہ سوچ ایک دم سے رک جاتی، ۔۔۔ خاہ، تھوہ۔۔۔ یہ میں کیا سوچ رہا ہوں !۔۔۔ دفع کرو، میری بلا سے پانچ سو بنائے یا ہزار، میں اس کے بارے میں سوچوں ہی کیوں۔ گندی عورت، طوائف، حرام پر پلنے والی۔
میں اس سوچ کو ترک کر کے، کچھ دیر اپنے ذہن کو کسی اور طرف الجھاتا لیکن پھر ناجانے کس وقت وہ دل کے کسی کونے کھدرے سے نکلتی، اور خیالوں اور سوچوں کے سارے تانے بانے اس بے نام ذات کے گرد ہی بنتے چلے جاتے۔ سوچوں پر انسانوں کا بس چلتا ہی کب ہے، یہ تو بنا بتائے، بنا اجازت طلب کیے، ذہن و دل میں شبنم کے قطروں کی طرح اترتی چلی جاتیں ہیں اور ایک سوچ سے دوسری سوچ تک کا سفر جاری و ساری رہتا ہے۔
میں پھر سوچنے لگ جاتا۔۔۔ میں مہینے میں کتنے کماتا ہوں ؟ پچاس ہزار۔۔۔ نہیں۔۔۔ شاید اس سے کچھ زیادہ ہی۔۔ میری بیوی بھی کام کرتی ہے وہ بھی بیس پچیس بنا لیتی ہے، ہم دونوں مل جل کر ستر یا اسی کے ہندسے کو چھو لیتے ہیں۔ ہر مہینے کے اختتام تک سارے خرچے کر کے بھی ہم دونوں کی جیبوں میں پیسے پڑے ہوتے ہیں، پھر نیا مہینہ شروع ہو جاتا ہے۔۔تو۔۔۔ اور پیسے آ جاتے ہیں۔ پھر بچے ہوئے پیسوں سے ہم چھوٹی موٹی عیاشی کر لیتے ہیں، کبھی سیر وتفریح کے لیے نکل پڑے اور کبھی خریداری کرنے۔ میری بیوی اپنے، میرے اور بچوں کے سیزن کے کپڑے لے لیتی ہے، جوتے لے لیتی ہے۔ وقتاً فوقتاً گھر آئے رشتے داروں کے بچوں کو دے دلا دیتی ہے، بازار سے پکے پکائے کھانے، برگر، پیزا آ جاتے ہیں۔
سوچ کا سفر جاری رہتا ہے۔۔۔۔۔ اچھا۔۔۔تو وہ جسم فروش شاید پورے تیس دن، بدنظروں کے نشتر سہہ سہہ کر اور اپنا جسم تھوک کے بھاؤ بیچ بیچ کر دس ہزار کما لیتی ہو گی؟ میں سارا حساب کتاب کرتا تو مجھے لگتا کہ دس ہزار تو میرے لیے کوئی بڑی رقم نہیں۔ ہوں۔۔۔ہوں۔۔۔ باقی سب ایسی لڑکیوں، عورتوں کو دفع کرو، مجھے ان سے کیا لینا دینا، میں اس چھوٹے قد والی کو دس ہزار دے دیا کروں گا، آخر۔۔۔ مجھے۔۔۔۔صرف مجھے۔۔۔ روز ہی تو سلام کرتی ہے اور پھر مجھے ۔۔۔باؤ جی کہہ کر بھی تو بلاتی ہے۔ گو کہ میں اسے دیکھنے کا بھی روادار نہیں، لیکن۔۔خیر ہے۔۔ بس مہینے میں ایک بار ہی تو سامنا کرنا ہے، میں اس سے بات کروں گا۔۔۔ اسے کہوں گا کہ یہ کام چھوڑ دے، میں تمھیں مہینے کے دس ہزار دے دیا کروں گا۔ میرے اندر کے بھی اندر چھپا ہوا کوئی انسان مجھے یہ سب کرنے پر اکساتا ۔
ہر رات یہ سوچتے ہوئے میں تہیہ کر لیتا کہ کل دفتر آتے ہوئے میں اس سے بات کرلوں گا، اسے کچھ پیسے پکڑا دوں گا اور اسے کہوں گا گھر چلی جائے۔ میں تمھیں پیسے دے دیا کروں گا بس یہاں نا کھڑی ہوا کرے، نا مجھے 'سلام باؤ جی' کہا کرے۔۔۔ کہ اسے کیا پتہ۔۔۔ میں روزانہ ایک اذیت سے گزرتا ہوں کہ تم سے نظریں ملا کر سلام کا جواب کیسے دوں ۔۔۔ مجھے روزانہ اپنے ناپاک ہوجانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ تم بس مہینے میں ایک بار میرے سے پیسے لے لیا کرو اور چپ کر کے گھر میں پڑی رہا کرو۔
لیکن۔۔۔ہر شام 'سلام باؤ جی' کی آواز سنتے ہی ناجانے مجھے کیا ہوجاتا، میں اپنی سب سوچوں پر لعنت ملامت کرتا ۔۔۔آہستہ سے سلام کا جواب دیتا اور یہ سوچتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہوں کہ دفع کرو۔۔۔ مجھے کیا لینا دینا اس عورت سے۔
پھر ایک روز میں صبح دفتر سے جلدی نکل گیا، سب لوگ ڈیوٹی پر تھے، میں نے کسی کو کہنا مناسب نہیں سمجھا اور پیدل ہی گھر کو ہو لیا۔ ابھی صبح طلوع ہو رہی تھی، سڑک پر رش بھی نہیں تھا، میں چلتا چلتا اس مقام کے نزدیک جا پہنچا جہاں وہ چھوٹے قد والی کھڑی ہوتی تھی۔۔۔ ہیں یہ کیا؟ ۔۔۔۔۔ وہ ادھر ہی ایک تھڑے پر سر جھکائےبیٹھی تھی، شاید آج رات اسے کوئی گاہک نہیں ملا۔۔سڑک پر رش بھی نہیں تھا، میں نے سوچا کہ آج اچھا موقع ہے میں اس سے بات کر لوں گا، میری جیب میں ہزار دو ہزار پڑے تھے، وہ بھی اسے دے دوں گا اور اسے اس کام سے چھٹکارہ دلا دوں گا۔ یہی سوچتے سوچتے میں اس کے نزدیک ہوتا جا رہا تھا، وہ یونہی دنیا و مافیہا سے بے خبر سر جھکائے بیٹھی ہوئی تھی، اس کے بالکل پاس پہنچ کر میں ایک لمحے کے لیے ٹھٹکا، اپنے اندر ہمت پیدا کی ۔۔۔ ابھی الفاظ کو تول ہی رہا تھا کہ گھبراہٹ طاری ہو گئی۔ دائیں بائیں دیکھا، صفائی کرنے والا خاکروب ادھر ہی دیکھ رہا تھا، ایک پھل فروش کی نظر بھی ریڑھی پر پھل سجاتے ہوئے میری طرف ہی تھی، ایک بابا جی پاس سے سائیکل پر گزر رہے تھے وہ بھی مجھے ہی تک رہے تھے۔ میں نے دل ہی دل میں ان سب پر لعنت ملامت کی۔۔۔۔ کیسے گندے اور خبیث لوگ ہیں کسی کے ساتھ نیکی بھی نہیں کرنے دیتے۔۔۔ اور بغیر رکے آگے بڑھتا چلا گیا۔
تھورا آگے جا کرمیں رک گیا، اپنے رویے اور ردعمل کے بارے میں سوچا ۔۔۔۔پھر۔۔ واپس پلٹنے کا ارادہ کیا۔ مڑا اور دوبارہ اس کی طرف جانے کی ہمت پیدا کرنے لگا۔ اسی اثنا میں ایک لٹا پٹا سا ہیجڑا، چہرے پر رات کے میک اپ کی بچی کچھی لکیریں سجائے، میرے پاس سے گزر کر چھوٹے قد والی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ میں پھر رک گیا، دونوں میں کچھ دیر بات چیت ہوئی، ہیجڑے نے پہلے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، ایک کندھا تھپتھپایا، پھر اپنے پرس سے کچھ نوٹ نکالے، اس کے ہاتھ میں تھمائے اور دوسری طرف نکل گیا۔ چھوٹے قد والی نے ہاتھ میں آئے ہوئے نوٹوں کو دیکھا، آہستہ سے کھڑی ہوئی، اور میرے پاس سے گزرتے ہوئے ' سلام باؤ جی' کہتے ہوئے چلی گئی۔