منہاج علی
محفلین
زہے وہ چشم کہ جو شرحِ صدر کرتی ہے
پئے حسینؑ فقط اشک نذر کرتی ہے
دلِ شکستہ جو چاہے تو آہِ سوزاں بھی
زمیں کو گرد تو گردوں کو ابر کرتی ہے
حدِ فرات سے نکلی تو چشم چشم یہ موج
حدیثِ تشنہ دہانی کو نشر کرتی ہے
یہ کم مثال حوالہ بھی کربلا سے ملا
مسافروں پہ زمیں کتنا جبر کرتی ہے
چراغِ خیمہ بجھایا تو ہوگیا روشن
کہ روشنی ہی اندھیروں کی قدر کرتی ہے
یہ رازِ حُسنِ بقا حرؑ کے فیصلے سے کھلا
کہ زیست ایک ہی لمحے پہ حَصر کرتی ہے
ذرا سی دیر میں اصغرؑ بھی ہوگئے اکبرؑ
خطِ ہلال کو گردش ہی بدر کرتی ہے
گُلُو کہ با خبرِ طوق تھا سو اُف بھی نہ کی
کہاں سنا تھا کہ آواز صبر کرتی ہے
نصیرؔ اُس شہِؑ تشنہ لباں کی خدمت میں
سلام مستقلاً روحِ عصر کرتی ہے
نصیر ترابی
از کتاب ’’لاریب‘‘ ص ۸۶
پئے حسینؑ فقط اشک نذر کرتی ہے
دلِ شکستہ جو چاہے تو آہِ سوزاں بھی
زمیں کو گرد تو گردوں کو ابر کرتی ہے
حدِ فرات سے نکلی تو چشم چشم یہ موج
حدیثِ تشنہ دہانی کو نشر کرتی ہے
یہ کم مثال حوالہ بھی کربلا سے ملا
مسافروں پہ زمیں کتنا جبر کرتی ہے
چراغِ خیمہ بجھایا تو ہوگیا روشن
کہ روشنی ہی اندھیروں کی قدر کرتی ہے
یہ رازِ حُسنِ بقا حرؑ کے فیصلے سے کھلا
کہ زیست ایک ہی لمحے پہ حَصر کرتی ہے
ذرا سی دیر میں اصغرؑ بھی ہوگئے اکبرؑ
خطِ ہلال کو گردش ہی بدر کرتی ہے
گُلُو کہ با خبرِ طوق تھا سو اُف بھی نہ کی
کہاں سنا تھا کہ آواز صبر کرتی ہے
نصیرؔ اُس شہِؑ تشنہ لباں کی خدمت میں
سلام مستقلاً روحِ عصر کرتی ہے
نصیر ترابی
از کتاب ’’لاریب‘‘ ص ۸۶