اس ضمن میں کچھ سوالات ہیں جن کا اہل علم سے جواب طلب ہے
میری محترم بٹیا
آپ کے سوالات کا شافی جواب تو کوئی صاحب علم ہی دے سکتا ہے ۔
میں صاحب علم تو نہیں ہوں ہاں مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ صاحب علم ہستیوں کی جوتیاں سیدھی کرتا رہا ہوں ۔
دھاگے کا موضوع دیکھ کر رہا نہیں گیا سو اپنی لفاظی لیئے دخل دے رہا ہوں ۔
محترم وارث بھائی نے بلاشک مکمل اور مدلل جواب دیا ہے ۔
1۔ فرش تا عرش کے مصنف سلسلہ اویسیہ سے تعلق رکھتے تھے ان کو بیعت کرنے کی حاجت کیونکر محسوس ہوئی ؟
اس کی حقیقت محترم مصنف خود ہی جانتے ہیں کہ اویسیت نے کیوں انہیں بے نیاز نہ کیا
2۔ اویسی لوگ اب تک جو جو گزرے ان کی فہرست کو ئی بتاپائے ؟
ان کی فہرست بنانا ناممکنات میں سے ہے ۔ اولاد آدم و حوا میں سے ہر وہ اویسیت کا حامل ہو سکتا ہے ۔
جس کے قول و فعل سے انسانیت کو فلاح پہنچتی ہو ۔
جس کے وجود سے دوسرے انسانوں کو ضرر نہ پہنچتا ہو ۔
وہ خود کو اک دن یوم حساب میں اپنا حساب دینے کا یقین رکھتا ہو ۔
جو خود تنگی ترشی دکھ درد برداشت کرتے دوسرے انسانوں کے لیئے آسانیاں تقسیم کرتا ہے ۔
3۔ ہم میں سے کوئی کسی اویسی سے ملنا چاہتا ہو تواس کو کیسے پہچانے؟
لگا ہے بازار دکانداروں کوکیا دیکھنا ۔۔۔۔۔
اویست کا حامل جب بھی ملے گا آپ کو آپ کا اپنا دل گواہی دے دے گا ۔
4۔ سلسلہ اویسیہ کے ساتھ شمسیہ فخریہ بدیعیہ کا ایک سلسلے میں موجود ہونا کیا معانی رکھتا ہے؟
میرا ذاتی خیال ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے کہ
اویسیت کے حامل کو کسی بھی سلسلے کی حاجت نہیں رہتی ۔
اویست کا مقام اک عظیم مقام ہے ۔
جسے اویست نصیب ہوجائے اسے کچھ تشنگی کچھ پیاس نہیں رہتی
اویسیت کا جام اسے کسی غیر کی جانب دیکھنے سے بے نیاز کر دیتا ہے ۔
تصوف کے سفر میں دو افراد باہمی تعلق بنا کر مل کر سفر کرتے ہیں اک امام ہوتا ہے جسے شیخ مرشد استاد کہہ سکتے ہیں ۔ دوسرا سالک مرید شاگرد کہہ سکتے ہیں ۔ مرشد اور مرید کا رشتہ اس سفر میں اساسی نوعیت کا حامل ہے۔تصوف کے سفر میں نسبت اور تعلق کی بہت اہمیت ہےیہ نسبت و تعلق اک زنجیر کی صورت بلندی کی جانب جا رہی ہوتی ہے ۔ ۔ ایک مرید اپنے مرشد سے وابستہ ہوتا ہے، وہ اپنے مرشد سے، اور وہ اپنے مرشد سے۔ اور بالآخر یہ زنجیر یا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک تک پہنچ جاتا ہے ۔ اسے تصوف کی اصطلاح میں "سلسلہ" کہا جاتا ہے۔ ہر سلسلے کو اپنے کسی مشہور بزرگ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں چار سلسلے بہت معروف ہیں ۔
سلسلہ چشتیہ جس کی ابتدا محترم جناب خواجہ معین الدین چشتی (535-627/1141-1230)سےہے۔
سلسلہ نقشبندیہ کی ابتدا محترم جناب خواجہ بہاء الدین نقشبند(717-791/1318-1389)سے ہے ۔
سلسلہ قادریہ کی ابتدا محترم جناب شیخ عبدالقادر جیلانی (470-561/1077-1166) سے ہے ۔
سلسلہ سہروردیہ کی ابتدا محترم جناب شیخ شہاب الدین سہروردی (543-632/1148-1234) سے ہے ۔
نقشبندیہ سلسلہ کے بزرگ فرماتے ہیں کہ وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وساطت سےاپنا تعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں قائم کرتے ہیں ۔
جبکہ چشتی، قادری اور سہروردی سلاسل کے بزرگ فرماتے ہیں کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وساطت سے اپنا تعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں قائم کرتے ہیں ۔
چشتیہ سلسلے کی دو بڑی شاخیں ہیں جو صابری اور نظامی کہلاتی ہیں۔
صابری ، شیخ صابر کلیری (592690/1196-1291)سے شروع
نظامی حضرت نظام الدین اولیاء (635-725/1238-1325) سے ہے۔
نقشبندی سلسلے کی شاخ مجددی شیخ احمد سرہندی المعروف بہ مجدد الف ثانی (971-1034/1564-1624)سے منسوب ہے۔
ان سلاسل سے منسوب اور بھی بہت سی شاخیں سامنے آ رہی ہیں ۔
جن میں سے کچھ کا ذکر آپ نے کیا ہے ۔
برصغیر پاک و ہند سے باہر رفاعی، شاذلی، تیجانی، بختاشی، مولوی، سنوسی، تیجانی، نعمت اللہی، قلندری، نور بخشی سلسلے مشہور ہیں۔
شام، لبنان، کویت اور مصر میں رفاعی اور شاذلی سلاسل مقبول اور مشہور ہیں۔
ترکی میں مولویہ سلسلہ مقبول ہے جو کہ مولانا روم (603-671/1207-1273) سے منسوب ہے۔
شمالی افریقہ میں سنوسی اور تیجانی ، ایران میں نعمت اللہی، مشرقی یورپ میں بختاشی اور انڈونیشیا میں نقشبندی اور قادری سلاسل مقبول ہیں ۔
دنیا بھر میں مشہور و معروف ان سلاسل کے علاوہ ایک سلسلہ اویسیہ بھی ہے جس کے بزرگ یہ فرماتے ہیں کہ وہ براہ راست مشہور تابعی بزرگ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کی روح سے فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں ،
اویسی سلسلے میں دیگر سلاسل کی نسبت اک عجیب منفرد خصوصیت پائی جاتی ہے ،
کہ اس میں مرید ، صدیوں پہلے سفر کر چکے کسی بزرگ سے براہ راست تعلق قائم کرنے کا دعوی کر سکتا ہے
اس کے برعکس دوسرےباقی تمام سلاسل میں یہ ضروری ہے کہ مرید کا کسی ایسے شیخ سے تعلق ہو جو زمانہ حال میں موجود ہو ۔
سلسلہ اویسیہ حضرت اُویس قرنی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے،
اویسیت کے معنی روحی فیض کے ہیں یعنی کسی فردکو کسی بزرگ سے روحی فیض حاصل ہوجائے ۔
اور اس فرد بے ان بزرگ کی صحبت بھی نہ پائی ہو ۔
صحبت حاصل نہ ہوتے ہوئے بھی فیض مل جائے تو کہتے ہیں کہ بطریقِ اویسیہ ان کو فیض حاصل ہوا ہے،
جیسا کہ حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روحی فیض حاصل ہوگیا ۔
اس سلسلے میں یہ بھی لازم نہیں کہ جس کو روحی فیض کسی بزرگ سے حاصل ہو وہ اپنی اس نسبتِ اویسیت کے لیے حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ سے مرید ہو،
اویسیت کی شرح میں اک بزرگ نے فرمایا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اللہ سوہنے کے ولیوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں ۔ جنہیں ظاہر میں کسی شیخ یا مرشد کی رہنمائی حاصل نہیں ہوتی یہ اپنی روشن سوچ ہمراہ لیئے انسانوں اور انسانیت کے لیئے آسانیاں پھیلانے کی کوشش میں محو رہتے ہیں ۔ اور ان کے اعمال مقبول ہوتے انہیں محفل حضوری میں پہنچا دیتے ہیں ۔ آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک سے براہ راست فیض پاتے ہیں ۔ کسی دوسرے کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ اور اسے مقام اویسیت کا نام دیا جاتا ہے ۔یہ بہت اونچا اور عظیم مقام ہے ۔اللہ سوہنے کا فضل خاص ہے ۔ وہ جسے چاہے نواز دے ۔ اور ان کی دعاؤں کو اللہ سوہنا شرف قبولیت بخشتا ہے ۔ حب رسول اور ماں کی خدمت سے ایسا ہی مقام جناب اویس قرنی نے پایا
کسی نے کیا خوب کہا کہ
وہ آپ سے عشق میں انتہا پر ہیں ، محبت میں معراج پر ہیں ، تو آپ سے ملنے آتے کیوں نہیں ؟
جواب ملا ، سارا دن اونٹ چراتے ہیں ، اجرت لے کر شام گھر کو لوٹ جاتے ہیں ، گھر دنیا میں ضعیف ماں جی ہیں ، آنکھوں سے معذور ہیں ، بینائی سے محروم ہیں ، ان کی خدمت سے غافل ہو نہیں سکتے ، انہیں تنہا چھوڑ نہیں سکتے ، یہی عذر مانع ہے ، حاضر ہو نہیں سکتے ، ان کا نام اویس قرنی ہے ، ان کی سفارش سے بہت سے لوگ جنت میں جائیں گے ، ان سے ملو تو ، میرا سلام کہنا ، امت کے لیے دعا کا کہنا ،
اونٹوں کا چرانا ، ماں جی کی خدمت کرنا ، اور جناب محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکلیف پر خود پر وہی کیفیت خود پر طاری کر لینا.
عمل ایسا مقبول ہوا کہ آج تک ان کا ذکر جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کسی نے کہا ، یہ عمل کی نعت ہے ، کسی نے کہا یہ الم کا ماتم ہے ، کسی نے کہا یہ جذب ہے ، محبت ہے ،
کسی نے سمجھایا ، یہ مقام عاشقی ہے ۔ ذرا سوچو تو کیا ہے یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں ملا آپ کو یہ بلند مقام اویسیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ سب اختلاف کا حق رکھتے مجھ سے غیر متفق ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔
بہت دعائیں