قبلہ
محمد وارث نے بہت خوب وضاحت کی ہے۔ اٹک میں ہم چار دوستوں کا یارانہ ہے۔ ہم اپنی بیٹھک کو چوراہا کہتے ہیں۔ باقی تین دوست جو میرے شامل ہونے سے پہلے دوست تھے۔ بیعت نہیں تھے۔ میں جب ان سے ملا تب تک صرف میں بیعت یافتہ تھا (الحمد للہ)۔
پھر یک بعد دیگرے وہ تینوں حضرت کمال تابش صاحب جو حضرت باغ حسین صاحب (جن کا ذکر محترم کعنان صاحب نے کیا) کے بیٹے ہیں کے بیعت ہوئے۔ یہ سلسلۂ اویسیہ کے ہی کہلاتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ مرشد ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے۔ بیعت یا خلافت مختلف جگہوں پر ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں عرض ہے۔ مرید سالک و صادق ہمیشہ ایک ہی مرشد کے در کا کھاتا ہے۔ لیکن دوسروں کا کبھی انکار نہیں کرتا۔ اس لیے فیض حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں (جیسا فقیر کے صاحب نے ارشاد فرمایا ہے)۔ اب اگر طلب صادق ہو اور جوہری بھی صدیق ہوتو وہ بھی اسے ہی کچھ دیتا ہے جس میں اسے کچھ نظر آئے۔ یوں بہت سے بزرگ کسی ایک طالب کو خرقۂ خلافت عطا کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ بھی جب آگے بیعت کرتے ہیں تو ایک ہی سلسلہ کی کرتے ہیں۔ حضور پیر مہر علی شاہ صاحب جو خود غوث پاک کی اولاد میں سے ہیں کو اپنے والد سے بھی اجازت بیعت ہے۔ مگر باجود گیلانی ہونے کے آپ نے سیلانی ریاضت کی۔ سیال شریف بیعت ہوئے اور سلسلۂ چشتیہ کو ہی جاری فرمایا۔ مقصد یہ ہے طلب سچی ہو۔ اور حاصل پر توجہ ہو۔ رہنما مل جاتا ہے اور لازمی ملتا ہے۔
قدرت اللہ شہاب صاحب کو بھی سلسلۂ اویسیسہ میں ہی گنا جاتا ہے۔
اللہ و رسولہ اعلم۔