اس کے بعد کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عورت کسی طور مردوں کی امامت نہیں کرسکتی۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شائید ہم کو قرآن حکیم ، غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے؟
یہ تفسیر نہیں صاحب، عربی عبارت کا ترجمہ حاضر ہے، آپ درستگی فرما دیجئے۔ صرف ترجمہ درکار ہے برادران محترم۔
بہت خوب! کیا بات ہے محترم آپ کی!
تفیسر تو اس آیت کی آپ نے کردی ہے اور ہم سے کہہ رہے ہیں کہ صرف آیت کا ترجمہ درکار ہے۔ اس آیت میں امام کے لفظ کو نماز میں عورت کی امامت پر منطبق تو آپ کررہے ہیں ۔ یہ اس آیت کی تفسیر نہیں تو کیا ہے؟! حالانکہ نہ تو اس آیت میں ، نہ اس آیت سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد سورت الفرقان میں کسی جگہ نماز کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے۔
آئیے میں آپ کو اس آیت کا ترجمہ بتاتا ہوں ۔ نہ صرف اس آیت کا ترجمہ بلکہ کئی اور قرآنی آیا ت کا ترجمہ بھی بتاتا ہوں کہ جن میں امام کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اس کے بعد آپ خود بتائیے گا کہ امام کے کیا معنی ہوتے ہیں۔
(عربی میں لفظ امام کے معانی ہیں ؛ پیشوا ، سردار ، قائد ، رہنما ، نمونہ ، پیمانہ ۔ حوالے کے لیے کوئی بھی عربی لغت اٹھا کر دیکھ لیجیے۔لفظ امام کے یہ تمام معانی قرآن کریم میں مختلف مقامات پر استعمال ہوئے ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات میں آپ دیکھیں گے ۔ آیت کے سیق و سباق کو دیکھ لیجیے امام کا مطلب خود بخود سمجھ میں آجائے گا۔
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمارے ازواج اور اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور ہمیں متقین کا امام بنا ۔ ( سورۃ الفرقان آیت نمر 74)۔ یہاں امام کے معنی مثال یا رہنما کے ہیں۔
وَجَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ وَیَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ لَا یُنۡصَرُوۡنَ ۔ اور ہم نے انہیں ایسے امام بنایا تھا جو آگ کی طرف بُلاتے تھے اور قیامت کے دن وہ مدد نہیں دیئے جائیں گے۔ (سورۃ القصص آیت ۴۲ ) ۔ یہاں موسیٰ علیہ السلام کی سرکش قوم کا تذکرہ ہورہا ہے اور ان کے سرکش سرداروں کے لیے امام کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ ائمہ امام کی جمع ہے)۔
یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمٰمِہِمۡ ۖ فَمَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ فَاُولٰٓئِکَ یَقۡرَءُوۡنَ کِتٰبَہُمۡ وَلَا یُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا ۔ وہ دن ((یاد کرو)جب ہم ہر قوم کو اُس کے امام کے حوالے سے بلائیں گے۔ پس جس کو اُس کا اعمال نامہ اُس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو یہی وہ لوگ ہوں گے جو اپنا اعمال نامہ پڑھیں گے اور وہ ایک تاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کئے جائیں گے۔ (سورۃ الاسرا آیت ۷۱ ) ۔ اس آیت میں امام کے معنی نبی یا اس شخص کے ہیں کہ جس کی پیروی وہ دنیا میں کرتے تھے۔
وَاِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ۖ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۖ قَالَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۖ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ ۔ اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو اس نےانہیں پورا کر دیا فرمایا بے شک میں تمہیں سب لوگوں کاامام بنادوں گا کہا: اور میری اولاد میں سے بھی ۔ فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔(البقرۃ آیت۱۲۵) ۔ اس آیت میں امام کے معنی پیشوا اور رہنما کے ہیں ۔
اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ وَیَتۡلُوۡہُ شَاہِدٌ مِّنۡہُ وَمِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّرَحۡمَۃً ۚ اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ ۚ وَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِہٖ مِنَ الۡاَحۡزَابِ فَالنَّارُ مَوۡعِدُہٗ ۚ فَلَا تَکُ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡہُ ۚ اِنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ وَلٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ۔ بھلا وہ شخص جو اپنے رب کے صاف راستہ پر ہو اور اس کے ساتھ الله کی طرف سے ایک گواہ بھی ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب گواہ تھی جو امام اور رحمت تھی یہی لوگ قرآن کو مانتے ہیں اور جو کوئی سب فرقوں میں سے اس کا منکر ہوتو اس کا ٹھکانا دوزخ ہے سو تو قرآ ن کی طرف سے شبہ میں نہ رہ بے شک یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ۔(سورۃ الہود آیت ۱۷) ۔ اس ایت میں تورات کو امام کہا گیا ہے ۔اس آیت میں امام کے معنی ہوئے نمونہ ، مثال یا پیمانہ ۔
وَمِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّرَحۡمَۃً ۚ وَہٰذَا کِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا وَبُشۡرٰی لِلۡمُحۡسِنِیۡنَ ۔ اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب ہے جو رہنما اور رحمت تھی او ریہ کتاب ہے جو اسے سچا کرتی ہے عربی زبان میں ظالموں کو ڈرانے کے لیے اور نیکوں کو خوشخبری دینے کے لیے ۔ (سورۃ الکہف آیت ۱۲) ۔ اس آیت میں بھی موسیٰ علیہ السلام کی کتاب یعنی تورات کو امام کہا گیا ہے ۔ معنی ہوئے نمونہ پیمانہ ، رہنما ۔
وَاِنۡ نَّکَثُوۡۤا اَیۡمٰنَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ عَہۡدِہِمۡ وَطَعَنُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ فَقٰتِلُوۡۤا اَئِمَّۃَ الۡکُفۡرِ ۙ اِنَّہُمۡ لَاۤ اَیۡمٰنَ لَہُمۡ لَعَلَّہُمۡ یَنۡتَہُوۡنَ ۔ اور اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں تو ڑ دیں اور تمہارے دین میں عیب نکالیں تو کفر کے اماموں سے لڑو ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں تاکہ وہ باز آ آئیں ۔ (سورۃ الیوسف آیت نمبر 12) ۔ اس آیت میں امام کے معنی ہیں سردار۔ ان کے اماموں یعنی سرداروں سے جنگ کرو۔
وَنُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَنَجۡعَلَہُمۡ اَئِمَّۃً وَّنَجۡعَلَہُمُ الۡوٰرِثِیۡنَ ۔ اور ہم نے ارادہ کیا کہ جو لوگ ملک میں کمزور سمجھے گئے ان پر احسان کریں اور انہیں امام بنادیں اور اُنہیں وارث کر دیں۔ (سورۃ القصص آیت ۵) ۔اس آیت میں امام سے مراد رہنما ہے۔
اِنَّا نَحۡنُ نُحۡیِ الۡمَوۡتٰی وَنَکۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَاٰثٰرَہُمۡ ۚ وَکُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ ۔ بے شک ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے اور جو انھوں نے آگے بھیجا اور جو پیچھے چھوڑا اس کو لکھتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو کتاب واضح (لوح محفوظ) میں محفوظ کر رکھا ہے ۔ (سورۃ یٰس آیت ۱۲) ۔ اس ایت میں امام کے معنی کتاب یا لوحِ محفوظ ہے ۔
مندرجہ بالا تمام آیات قرآن کے سیاق و سباق کو دیکھ لیجئے کسی جگہ بھی امام کا لفظ نماز کے پیش امام کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا ہے ۔ امام الصلوٰۃ یا پیش امام تو ایک مذہبی اصطلاح ہے جو نماز فرض ہونے کے بعد وجود میں آئی اور جس کا ذکر احادیثِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں آیا ہے ۔ قرآن میں پیش امام کا کہیں ذکر نہیں ۔
بیشک مجھے اور آپ کو قرآن حکیم غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔