روشن خیال لوگوں کو شاید اسلام کا یورپ پر اثر انداز ہونا پسند نہیں اسی لئے کسی نے یہاں کا رخ نہیں کیا شاید
ہاں کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ خیر ہمارا کام حقیقت پھیلانا ہے۔ باقی ہر اک کی اپنی مرضی۔
اس ڈاکومنٹری میں جو ایک خاص ایشو اٹھایا گیا وہ یہی تھا کہ ہسٹری کی کتب جو کہ زیادہ تر مغربی مفکرین نے لکھی ہیں میں یورپی "احیائے ثانیہ" پر اسلامی تہذیب و تمدن کا اثر بالکل ہی غائب کر دیا گیا۔ حالانکہ جن کتب و علوم کی مدد سے یورپ اندھیروں سے روشنی کی طرف آیا ، وہ اسی دور کی ہیں جب سلطنت اندلس میں مسلمان، یہود و نصاریٰ باہم اکٹھے بیٹھ کر انکے تراجم کرتے تھے!
۱۴۹۲ میں سلطنت اندلس کے اختتام کیساتھ ہی کسٹفر کلنبس امریکہ ’’دریافت‘‘ (مزاحیہ لفظ ہے کیونکہ وہ پہلے سے دنیا میں موجود تھا
) کرکے اسپین کو پہلی عالمی کولونیل طاقت بناپایا۔ یاد رہے کہ کرسٹفر کولنبس نے جن ذرائع (نقشہ جات وغیرہ) کا استعمال کرکے نئی دنیا میں (لوٹ مار کیلئے) قدم رکھا، وہ سب بھی مسلمان نقشہ دانوں کا ہی کارنامہ تھا۔
آج مغرب میں جو اسلامی تہذیب کیساتھ خودساختہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا کی جا رہی ہے، اسکا ایک ہی حل سلطنت اندلس میں یہود نصاریٰ کیساتھ باہم محبت و سلوک کا پیغام ہے۔ ڈاکومنٹری میں ایک عیسائی چرچ کو دکھایا گیا جسے ’’مسلمان‘‘ بلڈرز نے اپنے ہاتھوں سے بنایا (عربی طرز پر)۔ جس سے اس زمانہ میں تہذیبوں کے مابین اخوت کے رشتہ کے دو اہم پہلو سامنے آتے ہیں۔ اول: مسلمان اپنے علاقوں میں خود عیسائی مذہب کو تحفظ فراہم کرنے والے تھے، دوم: عیسائی، اسلامی تہذیب پر بننے والے گرجا گھروں میں عبادت کرنا اپنی شان کیخلاف نہیں سمجھتے تھے!