سلمان خان کو کالے ہرن کے غیر قانونی شکار کے جرم میں پانچ سال قید

شاہد شاہ

محفلین
سلمان خان کو کالے ہرن کے غیر قانونی شکار کے جرم میں پانچ سال قید
  • 05 اپريل 2018
_100714156_bc1bf4c1-ec8f-485e-80de-728a0632236b.jpg

سلمان خان پر سیاہ ہرنوں کے شکار کا الزام 1998 میں فلم ہم ساتھ ساتھ ہیں کی فلم بندی کی دوران لگا تھا
انڈیا کی ریاست راجستھان کی ایک عدالت نے نایاب کالے ہرنوں کے غیر قانونی شکار کے مقدمے میں معروف فلم اداکار سلمان خان کو مجرم قرار دیتے ہوئے پانچ سال قید کی سزا سنائی ہے۔

عدالت کے فیصلے کے بعد انھیں جودھ پور کی سنٹرل جیل پہنچا دیا گیا ہے اور سیشن کورٹ میں ان کی ضمانت کی درخواست پر سماعت جمعے کی صبح ہو گی۔

سلمان خان کو دو نایاب ہرنوں کے شکار میں مجرم قرار دیا گیا ہے۔ عدالت نے سلمان خان کو دس ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی ہے۔

اس مقدمے میں سلمان خان کے علاوہ سیف علی خان، تبو، سونالی بیندرے اور نیلم بھی ملزمان تھے تاہم ان سب کو بری کر دیا گیا ہے۔


اس مقدمے میں انھیں زیادہ سے زیادہ چھ برس قید کی سزا ہو سکتی تھی اور اس سزا کی استدعا سرکاری وکیل کی جانب سے بھی کی گئی تھی۔

تاہم سلمان خان کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان کے موکل کو تین برس سے کم سزا دی جائے کیونکہ اس صورت میں انھیں عدالت سے ہی ضمانت مل سکتی تھی تاہم پانچ برس سزا کی صورت میں انھیں ہر حالت میں جیل جانا ہو گا۔

نامہ نگار شکیل اختر نے بتایا کہ جس وقت سلمان خان کو مجرم قرار دیا گیا اس وقت عدالت میں سلمان کے ساتھ ان کی بہنیں کھڑی تھیں۔

_100708086_1f5dfb70-540c-4c86-9453-77ec79de104d.jpg

اس مقدمے میں سیف علی خان، تبو، سونالی بیندرے اور نیلم بھی ملزمان تھے تاہم ان سب کو بری کر دیا گیا ہے
سماعت کے موقع پر جودھ پور کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت کے باہر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے۔ عدالت کے باہر لوگوں کے ہجوم اور میڈیا کو دور رکھنے کے لیے رکاوٹیں لگا دی گئی تھیں۔

ہرنوں کے شکار کا معاملہ 1998 کا ہے۔ سلمان خان، سیف علی خان، تبو، سونالی اور نیلم فلم 'ہم ساتھ ساتھ ہیں' کی شوٹنگ کے لیے جودھ پور میں تھے۔ سلمان خان پر الزام ہے کہ انھوں نے ایک گاؤں کے نزدیک نایاب نسل کے دو چنکارا ہرنوں کا شکار کیا۔

شکار کے وقت مبینہ طور پر دوسرے اداکار بھی ان کے ساتھ تھے۔ 20 برس پرانے اس مقدمے کا فیصلہ 28 مارچ کو محفوظ کیا گیا تھا۔

سلمان خان اسی کیس سے متعلق آرمز ایکٹ کے تحت ایک دیگر معاملے میں پانچ برس کی ‎سزا ہوئی تھی اور انھوں نے نے ایک ہفتہ جیل میں بھی گزارا تھا ۔ لیکن بعد میں راجستھان ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر دی تھی۔

_100709454_a0a97b92-0e08-48b1-b609-40adf1b1c6e7.jpg

فیصلہ سننے کے لیے تمام ملزمان عدالت میں پہنچے
 

شاہد شاہ

محفلین
کل ہی ٹی وی پر ایک خبر سنی کہ ایک عورت کو 19 سال بعد قتل کے مقدمے میں بے گناہ ثابت ہونے پر رہا کر دیا گیا۔ اب ان 19 سالوں کا حساب کون دے گا؟
انسان کا بنایا ہوا ہر نظام ناکارہ ہے۔ یہ تو پھر پاکستان ہے۔ یہاں مغرب میں کئی ایسے واقعات ہو چکے ہیں جہاں کئی کئی دہائیوں سے قید مجرم نئے شواہد ملنے پر رہا کر دئے گئے۔ تلافی کے طور پرحکومتی فنڈ سے کوئی رقم یا وظیفہ وغیرہ مل جاتا ہے۔ مگر وقت کے زیاں کو کون واپس لائے؟
 

یاز

محفلین
کل ہی ٹی وی پر ایک خبر سنی کہ ایک عورت کو 19 سال بعد قتل کے مقدمے میں بے گناہ ثابت ہونے پر رہا کر دیا گیا۔ اب ان 19 سالوں کا حساب کون دے گا؟
زیادہ پرانی خبر نہیں ہے کہ ایک بندے کو بعدازمرگ کسی قتل کے مقدمے سے بری قرار دیا گیا۔
 
Top