ناعمہ عزیز
لائبریرین
بحریہ ٹاؤن کی گلیوں میں سناٹے کا راج کا تھا یہ آج کی بات نہیں جب سے میں یہاں آئی تھی یہی حال تھا ، ہر طرف گہراسناٹا کبھی کوئی اکا دکا بندہ گلی سے گزر جاتا ، کوئی عورت اپنے گھر سے نکل کر سودا سلف لینے چل پڑتی دیکھ کے یوں لگتا جیسے کسی سے کوئی واسطہ ہی نا ہو۔ شروع شروع میں مجھے سناٹے سے وحشت ہوتی ، خوف آتا اور بہت ڈر لگتا ، ذرا سی آواز سے میری گھٹی سی چیخ نکلتی اور آنکھیں مارے خوف کے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ۔یہ ڈر اور خوف پیدائشی نہیں تھے میں اپنے امی ابو کے گھر بڑے دھڑلے سے رہتی ، کوئی نا بھی ہوتا تب بھی مجھے کبھی کوئی فکر نہیں ہوتی تھی وہاں زندگی کے اپنے مزے تھے بہن بھائیوں سے بھرا گھر تھا ۔ ایک دن میری نند مجھ سے کہنے لگیں، بھابھی آپ کو لانڈری والے ایریا سے خوف نہیں آتا ، کتنی وحشت اور خاموشی ہےو ہاں پر۔۔۔۔
میں نے اگلے دو دن اس بارے میں سوچا اور وہ ڈر مجھ پر طاری ہو گیا پھر مجھے واقع ہی میں لانڈری والے ایریا سے خوف آنے لگا۔ میں نے وہاں جانا ہی کم کر دیا ۔ دن کی روشنی میں جاتی ۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ میں وہاں سے ڈرنے کیوں لگی ہوں بس میں بلاوجہ وہاں سے ڈرتی رہی۔
امی ابا کے یہاں نیند بھی بڑے مزے کی تھی امی ڈانٹ ڈانٹ کے اٹھایا کرتی تھیں اور ابا جی اکثر آٹھ بجے اٹھنے پر کہا کرتے تھے
"سکھاں آلے بارہ وج گئے تے تسی ستے او"
اتنی بے فکری کی نیند تھی کہ کوئی سر کے پاس ڈھول بھی پیٹتا تو نا اٹھتے تھے مگر یہاں سناٹا ذہن و دل پر سوار ہو چکا تھا ، شروع شروع میں تو ایسا ہوتا کہ میں گہری نیند میں ہوتی اور ذرا سی آواز سے ہڑبڑا اٹھتی ،خوابوں میں رونے لگتی ، نیند میں کبھی کبھا ر تھوڑا سا بولنے کی عادت مجھے پہلے بھی تھی مگر اب میں نیند میں بولتی تو مجھے یہ احساس بھی نا ہوتا کہ میں سو رہی ہوں ۔
آہستہ آہستہ یہ سناٹا مجھ پر سوا ر ہو گیا ،میں پانچ مہینے اپنے گھر رہی اور تین مہینے لاہور کے ایک کلب جم خانہ کے کمرے میں ۔ خاموش رہ کر ، کمرے کے دیواریں دیکھ کر مجھ پر وحشت سوار ہونے لگتی تو میں کمرے سے باہر نکل جاتی کتنی دیر بلاوجہ ہی گھومتی پھرتی اور پھر اس وحشت میں لوٹ آتی۔
اب یہ عالم ہے کہ مجھے آوازیں اچھی نہیں لگتیں ، مجھے بحریہ ٹاؤن میں جگہ جگہ لگے پھول بہت پسند تھے اب مجھے وہ بھی اچھے نہیں لگتے ،مجھے بچے بھی اچھے نہیں لگتے جب وہ بولتے ہیں جب شرارتیں کرتے ہیں تو میرادل کرتا ہے کہ میں ان سے کہوں چپ کر جاؤ۔مجھے ٹی وی کی آواز بھی اچھی نہیں لگتی اور اب مجھے کسی سے فون پر بات کرنا بھی نہیں پسند۔۔ پہلے میں گھنٹوں بولا کرتی تھی ، بھائی کہتے کہ ناعمہ کے پاس دس بندے بیٹھے ہوں تو یہ اکیلی بولتی ہے ان کو بولنے ہی نہیں دیتی۔
یہ سب میں اس لئے لکھ رہی ہوں کہ اس وقت بھی میں اکیلی بیٹھی ہوں ، گھر میں کوئی نہیں ،باہر صرف تاریکی ہے یا کمرے میں پنکھے کے آواز بلاوجہ مجھے تنگ کر رہی ہے ، لیپ ٹاپ کے پنکھے کی آواز بھی بہت زیادہ ہے مجھے بہت بُری لگتی ہے ، کبھی کبھار کوئی بچہ گلی میں بولتا ہے پھر وہی خاموشی وہی سناٹا طاری ہو جاتا ہے۔۔۔ اور اس وقت مجھے اس خاموشی سے انتہائی وحشت ہو رہی ہے ۔۔۔۔
میں نے اگلے دو دن اس بارے میں سوچا اور وہ ڈر مجھ پر طاری ہو گیا پھر مجھے واقع ہی میں لانڈری والے ایریا سے خوف آنے لگا۔ میں نے وہاں جانا ہی کم کر دیا ۔ دن کی روشنی میں جاتی ۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ میں وہاں سے ڈرنے کیوں لگی ہوں بس میں بلاوجہ وہاں سے ڈرتی رہی۔
امی ابا کے یہاں نیند بھی بڑے مزے کی تھی امی ڈانٹ ڈانٹ کے اٹھایا کرتی تھیں اور ابا جی اکثر آٹھ بجے اٹھنے پر کہا کرتے تھے
"سکھاں آلے بارہ وج گئے تے تسی ستے او"
اتنی بے فکری کی نیند تھی کہ کوئی سر کے پاس ڈھول بھی پیٹتا تو نا اٹھتے تھے مگر یہاں سناٹا ذہن و دل پر سوار ہو چکا تھا ، شروع شروع میں تو ایسا ہوتا کہ میں گہری نیند میں ہوتی اور ذرا سی آواز سے ہڑبڑا اٹھتی ،خوابوں میں رونے لگتی ، نیند میں کبھی کبھا ر تھوڑا سا بولنے کی عادت مجھے پہلے بھی تھی مگر اب میں نیند میں بولتی تو مجھے یہ احساس بھی نا ہوتا کہ میں سو رہی ہوں ۔
آہستہ آہستہ یہ سناٹا مجھ پر سوا ر ہو گیا ،میں پانچ مہینے اپنے گھر رہی اور تین مہینے لاہور کے ایک کلب جم خانہ کے کمرے میں ۔ خاموش رہ کر ، کمرے کے دیواریں دیکھ کر مجھ پر وحشت سوار ہونے لگتی تو میں کمرے سے باہر نکل جاتی کتنی دیر بلاوجہ ہی گھومتی پھرتی اور پھر اس وحشت میں لوٹ آتی۔
اب یہ عالم ہے کہ مجھے آوازیں اچھی نہیں لگتیں ، مجھے بحریہ ٹاؤن میں جگہ جگہ لگے پھول بہت پسند تھے اب مجھے وہ بھی اچھے نہیں لگتے ،مجھے بچے بھی اچھے نہیں لگتے جب وہ بولتے ہیں جب شرارتیں کرتے ہیں تو میرادل کرتا ہے کہ میں ان سے کہوں چپ کر جاؤ۔مجھے ٹی وی کی آواز بھی اچھی نہیں لگتی اور اب مجھے کسی سے فون پر بات کرنا بھی نہیں پسند۔۔ پہلے میں گھنٹوں بولا کرتی تھی ، بھائی کہتے کہ ناعمہ کے پاس دس بندے بیٹھے ہوں تو یہ اکیلی بولتی ہے ان کو بولنے ہی نہیں دیتی۔
یہ سب میں اس لئے لکھ رہی ہوں کہ اس وقت بھی میں اکیلی بیٹھی ہوں ، گھر میں کوئی نہیں ،باہر صرف تاریکی ہے یا کمرے میں پنکھے کے آواز بلاوجہ مجھے تنگ کر رہی ہے ، لیپ ٹاپ کے پنکھے کی آواز بھی بہت زیادہ ہے مجھے بہت بُری لگتی ہے ، کبھی کبھار کوئی بچہ گلی میں بولتا ہے پھر وہی خاموشی وہی سناٹا طاری ہو جاتا ہے۔۔۔ اور اس وقت مجھے اس خاموشی سے انتہائی وحشت ہو رہی ہے ۔۔۔۔