شاہد شاہنواز
لائبریرین
سنا رہے ہیں محبت کی داستاں کی طرح
زمیں کی بات ہے رفعت میں آسماں کی طرح
یہی خدا کی رضا ہے کہ ارتقا میں رہے
ہر ایک رنگ میں اردو نئی زباں کی طرح
لگا کے ہاتھ جنہیں تو نے کر دیا انمول
چمک رہے ہیں وہ پتھر بھی کہکشاں کی طرح
قدم قدم پہ نئے وسوسوں کی سازش ہے
یہ زندگی ہے ذہانت کے امتحاں کی طرح
نہ دیکھئے تو زمانہ بھی کچھ نہیں لگتا
دکھائی دے تو ہے انسان بھی جہاں کی طرح
ہر ایک سمت نئے پھول اس سے کھلتے ہیں
بہار برگ سکھاتی نہیں خزاں کی طرح
ہمیں خبر تھی ہے بے سود تم سے کچھ کہنا
تبھی تو چپ سے تھے ہم بحر بے کراں کی طرح
وہ سرکشی ہے کہ غافل ہیں اپنے آپ سے لوگ
نشان والے بھی رہتے ہیں بے نشاں کی طرح
خبر نہیں ہے کہ منزل ہے کس طرف شاہدؔ
بکھرتے جاتے ہیں قائد بھی کارواں کی طرح
برائے توجہ:
جناب محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔
زمیں کی بات ہے رفعت میں آسماں کی طرح
یہی خدا کی رضا ہے کہ ارتقا میں رہے
ہر ایک رنگ میں اردو نئی زباں کی طرح
لگا کے ہاتھ جنہیں تو نے کر دیا انمول
چمک رہے ہیں وہ پتھر بھی کہکشاں کی طرح
قدم قدم پہ نئے وسوسوں کی سازش ہے
یہ زندگی ہے ذہانت کے امتحاں کی طرح
نہ دیکھئے تو زمانہ بھی کچھ نہیں لگتا
دکھائی دے تو ہے انسان بھی جہاں کی طرح
ہر ایک سمت نئے پھول اس سے کھلتے ہیں
بہار برگ سکھاتی نہیں خزاں کی طرح
ہمیں خبر تھی ہے بے سود تم سے کچھ کہنا
تبھی تو چپ سے تھے ہم بحر بے کراں کی طرح
وہ سرکشی ہے کہ غافل ہیں اپنے آپ سے لوگ
نشان والے بھی رہتے ہیں بے نشاں کی طرح
خبر نہیں ہے کہ منزل ہے کس طرف شاہدؔ
بکھرتے جاتے ہیں قائد بھی کارواں کی طرح
برائے توجہ:
جناب محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔