راحیل فاروق
محفلین
کچھ دیر گلا پھاڑ پھاڑ کے بولنے کے بعد ہم تینوں تھک گئے۔ ڈاکٹر نے موٹر سائیکل کی رفتار اور تیز کر دی اور شور مچاتی ہوئی ہوا نے مجھے خود اپنے اندر گم ہو جانے پر مجبور کر دیا۔ نہ جانے کیوں مجھے ایک عجیب خیال آیا۔ زندگی میں پہلی بار۔ میں نے سوچا کہ میری ماں ہے۔ اور میں کتنا بےفکر ہوں۔ کتنا سکون ہے مجھے ہر وقت۔ اللہ نہ کرے ماں جی نہ ہوں گی تو اس ان دیکھی چھاؤں کے بغیر زندگی کے صحرا میں جھلسنا کیسا ہو گا؟ مگر الحمدللہ، ثم الحمدللہ، میری ماں جی ہیں۔ اور مجھے پتا ہے کہ خدا کی یہ آنکھ ہر وقت مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ دعاؤں کا اور حفاظت کا ایک نادیدہ حصار ہے میرے گرد جو اللہ نہ کرے میری زندگی میں کبھی ختم ہو۔ میرے اندر شکرگزاری کا ایک ایسا احساس پیدا ہوا جس کا تجربہ اس سے پہلے مجھے کبھی نہ ہوا تھا۔
منزل پر پہنچ کر دو دن پہلے بچھڑے ہوئے یاروں سے یوں ملاقاتیں ہوئیں گویا ہم یا وہ پیدل حج کر کے آئے ہیں۔ گپیں ہانکیں۔ قہقہے لگائے۔ شعر سنائے۔ فلسفے جھاڑے۔ غزلیں گائیں۔ کھانا کھایا۔ ایک دوست کا حال ہی میں Kaist میں داخلہ ہوا تھا۔ اس کے اعزاز اور لحاظ میں کچھ زیادہ ہی دیر کر بیٹھے۔ واپسی کو نکلے تو رات کے ساڑھے گیارہ ہو رہے تھے۔ ماں جی کال کر کے مجھ سے دیر کا سبب دریافت کر چکی تھیں۔ اب تک تو سو گئی ہوں گی۔ میں نے سوچا۔
میں ایک انتہائی مخبوط الحواس آدمی ہوں۔ کسی شے میں کھو جاؤں تو دنیا و مافیہا کی خبر نہیں رہتی۔ ڈاکٹر موٹر سائیکل اڑائے لیے جا رہا تھا۔ بحث جاری تھی۔ ہم ایک ذیلی سڑک سے نکل کر ہائی وے عبور کرتے ہوئے مخالف سڑک کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اس وقت پتا نہیں کیا ہوا۔ شاید میں وہ غائب دماغ راحیل فاروق ہی نہیں رہا۔ کچھ اور بن گیا۔ میری نظر روشنیوں کی اس قطار پر جم گئی جو شاید روشنی ہی کی رفتار سے ہماری طرف بڑھ رہی تھیں۔ ہم سڑک کے عین درمیان تھے۔
میں نے چیخ کر کہا، "ڈاکٹر، آگے نہیں جاؤ۔" موٹر سائیکل تھرتھرایا۔ بجلی کی تیزی سے ہوتے ہوئے اس واقعے میں وقت کچھوے کی طرح رینگنے لگا۔ میں نے پورے ہوش میں خود سے چند فٹ پیچھے ایک فراٹے بھرتی ہوئی گاڑی کے بونٹ اور روشنی کو دیکھا اور سوچا، "بس؟"
شعور کی رو یہاں آ کر منقطع ہو گئی۔ میں اور میری دنیا گھپ اندھیرے میں ڈوب گئے۔
پھر گویا ایک اور راحیل فاروق پیدا ہوا۔ اس نے فراٹے بھرتی ہوئی گاڑی کو کئی گز آگے سڑک کی انتہائی دائیں جانب جھٹکے سے رکتے ہوئے دیکھا۔ موٹر سائیکل گزشتہ ہدایت کے ردِ عمل میں واپس بائیں جانب مڑ رہی تھی۔ تب میں نے ایک اور گاڑی دیکھی۔ وہ گاڑیوں کی اس قطار میں دوسری تھی اور پہلی کو عین اسی لمحے اوور ٹیک کرنا چاہ رہی ہو گی جب ہم سڑک کے بیچ میں تھے۔
میں پوری قوت سے چلایا، "واپس نہیں۔"
پھر اپنی بائیں جانب بھی میں نے وہی منظر دیکھا۔ ایک اور فراٹے بھرتی ہوئی گاڑی۔ تیز روشنی۔ مگر اب کے فاصلہ کم تھا اور گاڑی میرے بائیں ہاتھ پر چھچھل رہی تھی۔ میں اسے چھو سکتا تھا۔ وقت کی ایک بار پھر چھوٹتی ہوئی نبض۔ میں نے سوچا، "اب کے چوٹ لگے گی مگر شاید بچ جائیں۔"
میں پھر مرا اور پھر زندہ ہوا۔ میں نے دیکھا کہ وہ گاڑی سڑک کی انتہائی بائیں جانب کچی زمین پر رکی ہوئی ہے۔ پیچھے آنے والی گاڑیاں بھی گویا ایک ہیبت اور تحیر کے عالم میں ساکت ہو کر رہ گئی ہیں۔ ڈاکٹر تیزی سے واپس مڑا اور موٹر سائیکل دوڑاتا ہوا اسی ذیلی سڑک پر دوبارہ اتر گیا جس سے ہم ابھی نکلے تھے۔ کچھ دور جا کر وہ رک گیا۔ موٹر سائیکل سے اترا اور سر تھام کر زمین پہ بیٹھ گیا۔ میرا بدن لرز رہا تھا۔ ہمارے تیسرے ساتھی فاروق نے ہمیں تسلیاں دینی شروع کر دیں۔
ڈاکٹر نے موٹر سائیکل چلانے سے انکار کر دیا۔ وہ دونوں پیدل نکلے۔ میں نے موٹر سائیکل پکڑا۔ شاہراہ عبور کرنے کے بعد کچھ آگے جا کر وہ بھی سوار ہو گئے اور ہم گھر کو نکل پڑے۔ ڈاکٹر اور فاروق وقت کا اندازہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ ہم چند ثانیوں کے اندر اندر دو قضاؤں سے بچا لیے گئے تھے۔ موت چنگھاڑتی ہوئی ہمارے دائیں اور بائیں سے گزر گئی تھی۔ پہلی گاڑی سے تو خدا ہی جانتا تھا کہ اس نے کیسے بچایا۔ سڑک پر جہاں ہم تھے اس کے ساتھ اتنی جگہ شاید تھی نہیں کہ وہ ہمیں کچلے بغیر آگے نکل سکتی۔ دوسری گاڑی البتہ شاہراہ سے بالکل نیچے اتر گئی تھی۔
اپنے شہر پہنچ کر میں نے فون جیب سے نکالا اور دیکھا کہ گھر سے ایک منٹ کے فرق سے دو بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں نے فاروق سے دوبارہ وہ وقت پوچھا جب اس نے گھڑی دیکھی تھی۔ اس سے تقریباً دس منٹ پہلے یہ واقعہ ہوا ہو گا۔ لگ بھگ اسی وقت گھر سے رابطہ کیا جا رہا تھا۔ میرے ذہن میں وہ حکایت گونجنے لگی جس کے مطابق جنابِ موسیٰ کی والدہ کی وفات کے بعد خدا نے ان سے کہا تھا کہ موسیؑ! ذرا سنبھل کے۔ اب تمھاری ماں اور اس کی دعائیں نہیں ہیں۔
میں نے پھر سوچا۔ میری ماں ہے۔ الحمدللہ!
گھر پہنچا۔ ماں جی کے پیر چومے۔ پوچھا کہ کال کس نے اور کیوں کی تھی۔ معلوم ہوا کہ اس وقت ماں جی نے سب سے بتکرار کہا تھا کہ راحیلؔ کی خبر لو۔
منزل پر پہنچ کر دو دن پہلے بچھڑے ہوئے یاروں سے یوں ملاقاتیں ہوئیں گویا ہم یا وہ پیدل حج کر کے آئے ہیں۔ گپیں ہانکیں۔ قہقہے لگائے۔ شعر سنائے۔ فلسفے جھاڑے۔ غزلیں گائیں۔ کھانا کھایا۔ ایک دوست کا حال ہی میں Kaist میں داخلہ ہوا تھا۔ اس کے اعزاز اور لحاظ میں کچھ زیادہ ہی دیر کر بیٹھے۔ واپسی کو نکلے تو رات کے ساڑھے گیارہ ہو رہے تھے۔ ماں جی کال کر کے مجھ سے دیر کا سبب دریافت کر چکی تھیں۔ اب تک تو سو گئی ہوں گی۔ میں نے سوچا۔
میں ایک انتہائی مخبوط الحواس آدمی ہوں۔ کسی شے میں کھو جاؤں تو دنیا و مافیہا کی خبر نہیں رہتی۔ ڈاکٹر موٹر سائیکل اڑائے لیے جا رہا تھا۔ بحث جاری تھی۔ ہم ایک ذیلی سڑک سے نکل کر ہائی وے عبور کرتے ہوئے مخالف سڑک کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اس وقت پتا نہیں کیا ہوا۔ شاید میں وہ غائب دماغ راحیل فاروق ہی نہیں رہا۔ کچھ اور بن گیا۔ میری نظر روشنیوں کی اس قطار پر جم گئی جو شاید روشنی ہی کی رفتار سے ہماری طرف بڑھ رہی تھیں۔ ہم سڑک کے عین درمیان تھے۔
میں نے چیخ کر کہا، "ڈاکٹر، آگے نہیں جاؤ۔" موٹر سائیکل تھرتھرایا۔ بجلی کی تیزی سے ہوتے ہوئے اس واقعے میں وقت کچھوے کی طرح رینگنے لگا۔ میں نے پورے ہوش میں خود سے چند فٹ پیچھے ایک فراٹے بھرتی ہوئی گاڑی کے بونٹ اور روشنی کو دیکھا اور سوچا، "بس؟"
شعور کی رو یہاں آ کر منقطع ہو گئی۔ میں اور میری دنیا گھپ اندھیرے میں ڈوب گئے۔
پھر گویا ایک اور راحیل فاروق پیدا ہوا۔ اس نے فراٹے بھرتی ہوئی گاڑی کو کئی گز آگے سڑک کی انتہائی دائیں جانب جھٹکے سے رکتے ہوئے دیکھا۔ موٹر سائیکل گزشتہ ہدایت کے ردِ عمل میں واپس بائیں جانب مڑ رہی تھی۔ تب میں نے ایک اور گاڑی دیکھی۔ وہ گاڑیوں کی اس قطار میں دوسری تھی اور پہلی کو عین اسی لمحے اوور ٹیک کرنا چاہ رہی ہو گی جب ہم سڑک کے بیچ میں تھے۔
میں پوری قوت سے چلایا، "واپس نہیں۔"
پھر اپنی بائیں جانب بھی میں نے وہی منظر دیکھا۔ ایک اور فراٹے بھرتی ہوئی گاڑی۔ تیز روشنی۔ مگر اب کے فاصلہ کم تھا اور گاڑی میرے بائیں ہاتھ پر چھچھل رہی تھی۔ میں اسے چھو سکتا تھا۔ وقت کی ایک بار پھر چھوٹتی ہوئی نبض۔ میں نے سوچا، "اب کے چوٹ لگے گی مگر شاید بچ جائیں۔"
میں پھر مرا اور پھر زندہ ہوا۔ میں نے دیکھا کہ وہ گاڑی سڑک کی انتہائی بائیں جانب کچی زمین پر رکی ہوئی ہے۔ پیچھے آنے والی گاڑیاں بھی گویا ایک ہیبت اور تحیر کے عالم میں ساکت ہو کر رہ گئی ہیں۔ ڈاکٹر تیزی سے واپس مڑا اور موٹر سائیکل دوڑاتا ہوا اسی ذیلی سڑک پر دوبارہ اتر گیا جس سے ہم ابھی نکلے تھے۔ کچھ دور جا کر وہ رک گیا۔ موٹر سائیکل سے اترا اور سر تھام کر زمین پہ بیٹھ گیا۔ میرا بدن لرز رہا تھا۔ ہمارے تیسرے ساتھی فاروق نے ہمیں تسلیاں دینی شروع کر دیں۔
ڈاکٹر نے موٹر سائیکل چلانے سے انکار کر دیا۔ وہ دونوں پیدل نکلے۔ میں نے موٹر سائیکل پکڑا۔ شاہراہ عبور کرنے کے بعد کچھ آگے جا کر وہ بھی سوار ہو گئے اور ہم گھر کو نکل پڑے۔ ڈاکٹر اور فاروق وقت کا اندازہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ ہم چند ثانیوں کے اندر اندر دو قضاؤں سے بچا لیے گئے تھے۔ موت چنگھاڑتی ہوئی ہمارے دائیں اور بائیں سے گزر گئی تھی۔ پہلی گاڑی سے تو خدا ہی جانتا تھا کہ اس نے کیسے بچایا۔ سڑک پر جہاں ہم تھے اس کے ساتھ اتنی جگہ شاید تھی نہیں کہ وہ ہمیں کچلے بغیر آگے نکل سکتی۔ دوسری گاڑی البتہ شاہراہ سے بالکل نیچے اتر گئی تھی۔
اپنے شہر پہنچ کر میں نے فون جیب سے نکالا اور دیکھا کہ گھر سے ایک منٹ کے فرق سے دو بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں نے فاروق سے دوبارہ وہ وقت پوچھا جب اس نے گھڑی دیکھی تھی۔ اس سے تقریباً دس منٹ پہلے یہ واقعہ ہوا ہو گا۔ لگ بھگ اسی وقت گھر سے رابطہ کیا جا رہا تھا۔ میرے ذہن میں وہ حکایت گونجنے لگی جس کے مطابق جنابِ موسیٰ کی والدہ کی وفات کے بعد خدا نے ان سے کہا تھا کہ موسیؑ! ذرا سنبھل کے۔ اب تمھاری ماں اور اس کی دعائیں نہیں ہیں۔
میں نے پھر سوچا۔ میری ماں ہے۔ الحمدللہ!
گھر پہنچا۔ ماں جی کے پیر چومے۔ پوچھا کہ کال کس نے اور کیوں کی تھی۔ معلوم ہوا کہ اس وقت ماں جی نے سب سے بتکرار کہا تھا کہ راحیلؔ کی خبر لو۔