صفحہ نمبر 261 تا 300 (حصہ اول)
صفحہ نمبر 261 تا 300 (حصہ اول)
(حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام سلیم نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ حق (بات) سے شرم روا نہیں رکھتا۔ پس کیا عورت پر غسل ہے جب اسے احتلام ہو؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں، جب وہ پانی دیکھے (یعنی جبکہ فی الواقع خواب میں اسے انزال ہو گیا ہو)۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور کہا: اے اللہ کے رسول، کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تیرا سیدھا ہاتھ خاک آلود ہو، آخر اس کا بچہ اس سے کیسے مشابہ ہوتا ہے۔ اور مسلم نے ام سلیم کی روایت میں یہ اضافہ کیا کہ مرد کا مادہ گاڑھا سفید ہوتا ہے اور عورت کا پتلا اور پیلا۔ پس ان میں سے جو بھی غلبہ حاصل کرے اسی سے مشابہت ہوتی ہے۔
عن معاذۃ قالت قالت عائشۃ کنت اغتسل انا و رسول اللہ صلعم من اناء واحد بیننی و بینہ فیبادرنی حتی اقول دع لی قالت و ھما جنبان
(معاذ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے جو میرے اور آپ کے درمیان ہوتا تھا۔ آپ مجھ سے زیادہ جلدی کرتے تھے یہاں تک میں کہتی تھی میرے لیے (پانی) چھوڑ دیں)۔ انہوں نے بیان کیا کہ وہ اس وقت دونوں حالت جنابت میں ہوتے تھے۔
عن عائشۃ قالت سئل رسول اللہ صلعم عن الرجل یجد البلل ولا یذکر احتلاما قال یغتسل و عن الرجلالذی یری انہ قد احتلم ولا یجد بللا قال غسل علیہ۔ قالت ام سلیم ھل علی المراۃ تری ذالک غسلاً قال نعم ان النساء شقائق الرجال
(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو تری دیکھے لیکن احتلام اسے یاد نہ ہو۔ آپ نے فرمایا: وہ غسل کرے اور ایسے شخص کے بارے میں (بھی پوچھا گیا) جسے احتلام یاد ہو لیکن وہ تری نہ پائے۔ آپ نے فرمایا: (اس پر غسل) نہیں ہے۔ ام سلیم نے کہا کہ: اگر عورت اس طرح (رطوبت) دیکھے، تو اس پر بھی غسل ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں، عورتیں مردوں کا آدھا حصہ ہیں)۔
عنھا قالت رسول اللہ صلعم انا جاوز الختان الختان و جب الغسل فعلتہ انا و رسول اللہ صلعم فاغستلنا
(انہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب شرم گاہوں کے اگلے حصے باہم متجاوز ہوجائیں تو غسل واجب ہے۔ میں نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا اور غسل کیا)
عن عائشۃ قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یغتسل من الجنابۃ ثم یستدفی بی قبل ان اغتسل
(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کر لینے کے بعد (سردی دور کرنے کے لیے) مجھ سے گرمی حاصل کرتے تھے، قبل اس کے کہ میں غسل کروں)۔
عن عائشۃ قالت کنت اغتسل انا و النبی صلعم من انا مواحد و کلانا جنب و کان یامرنی فاتزر فیباشرنی و انا حائض و یخرج راسہ الی و ھو معتکف فاغسلہ و انا حائض
(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور میں ایک ہی برتن میں نہاتے تھے، در آں حالیکہ ہم دونوں جنبی ہوتے تھے اور آپ مجھے حالت حیض میں ازار باندھنے کا حکم دیتے تھے اور مجھ سے بغل گیر ہوتے تھے اور آپ اعتکاف کی حالت میں اپنا سر (مسجد سے) باہر کرتے تھے اور میں حیض کی حالت میں اسے دھوتی تھی)
عن عائشۃ کنت اشرب و انا حائض ثم انا و لہ النبی صلعم فیضع فاہ علٰی موضع فی فیشرب واثعرق العرق و انا حائض ثم انا ولہ النبی صلعم فیضع فاہ علٰی موضع فی
(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں حیض کی حالت میں برتن سے پانی پیتی تھی اور پھر اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب بڑھا دیتی تھی۔ پس آپ صلعم وہاں منہ رکھتے تھے جہاں میں نے منہ رکھا ہوتا تھا اور آپ پیتے تھے۔ اور میں بحالت حیض ہڈی پر سے گوشت کھاتی تھی اور پھر اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتی تھی اور آپ اس جگہ اپنا منہ رکھتے تھے جہاں میں نے رکھا ہوتا تھا)۔
عن عائشۃ قالت کنت اذا حضت نزلت عن المثال علی الحصیر فلم نقرب رسول اللہ صلعم و لندن منہ حتی تطھر
(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب میں حائضہ ہوتی تو میں بستر چھوڑ کر چٹائی پر لیٹتی تھی پس ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقاربت نہیں کرتے تھے جب تک کہ پاکیزگی حاصل نہیں کر لیتے تھے۔
عنھا قالت قال لی النبی صلعم ناولینی الخمرۃ من المسجد فقلت انی حائض فقال ان حیضتک لیست فی یدک
(انہی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: مجھے مسجد سے چٹائی اٹھا کر دے دو۔ میں نے عرض کیا کہ میں حیض کی حالت میں ہوں آپ نے فرمایا: حیض (کا اثر) تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے (یعنی تم ہاتھ بڑھا کر مسجد سے چٹائی لے سکتی ہو)۔
(27) مذکورۂ بالا احادیث میں جو مضامین بیان کیے گئے ہیں، ان کی روایت حضرت عآئشہ صدیقہ اور حضرت ام سلمہ کی طرف منسوب ہیں۔ میں یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ یہ دونوں ازواج ہر لحاظ سے کامل تھیں۔ انہوں نے اسی عریانی کے ساتھ اپنی ان پرائیوٹ باتوں کو ظاہر کر دیا ہوگا جو ان کے اور محمد رسول اللہ کے درمیان میاں بیوی کی صورت میں ہوئی ہوں گی۔
(2
میں اپنے آپ کو یہ یقین کرنے کے ناقابل پاتا ہوں کہ محمد رسول اللہ نے یہ باتیں کہی ہوں گی کہ دوزخ میں اکثریت عورتوں پر مشتمل ہوگی اورجنت کی اکثریت غرباء پر مشتمل ہوگی۔
عن اسامۃ بن زید قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قمت علی باب الجنۃ فکان عامۃ من دخلھا المساکین و اصحاب الجد محبوسون غیر ان اصحاب النار قد امر بھم الی النار وقمت علٰی باب النار فاذا عامۃ من دخلھا النساء
(اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا اور (میں نے دیکھا) کہ اکثرت جو اس میں داخل ہو رہی تھی، وہ مساکین کی تھی اور دولت مند لوگ روک لیے گئے، سوائے اس کے کہ جو لوگ آگ کے لائق تھے انہیں آگ میں ڈالے جانے کا حکم دے دیا گیا، اور میں آگ کے دروازے پر کھڑا ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں داخل ہونے والی بالعموم عورتیں ہیں)
عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اطلعت فی الجنۃ ایت اکثر اھلھا الفقراء و اطلعت فی النار فرایت اکثر اھلھا النساء
(ابن عباس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثریت فقراء کی ہے اور میں نے دوزخ میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثریت عورتوں کی ہے)۔
(29) کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو دولت کمانے سے بالواسطہ طریق سے منع کر دیا گیا ہے، کیونکہ اگر وہ دولت حاصل کریں گے تو ان کے جنت میں داخلے کے امکانات کم ہو جائیں گے؟ اگر سارے مسلمان غریب ہو جائیں تو ان کا کیا بنے گا؟ کیا ان کا کلی طور پر خاتمہ نہیں ہو جائے گا؟ کیا اس طرح زندگی کے ہر میدان میں ترقی رک نہیں جائے گی؟ مزید برآں کیا کہ قابل یقین ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بات فرمائی ہوگی جو حدیث بخاری کے صفحہ 852 پر روایت نمبر 602:74 میں عبد اللہ بن قیس سے مروی ہے کہ "مسلمان جنت میں ان عورتوں نے مباشرت کریں گے جو ایک خیمے کے مختلف گوشوں میں بیٹھی ہوں گی"۔ حدیثوں اور قرآن مجید کی پرانی تفسیروں نے اسلام کا دائرہ بہت تنگ کر دیا ہے اور اس کی صنعت بہت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کیا ہمیں ان حالات کو برقرار رہنے دینا چاہیے؟
(30) بحث کی خاطر اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ جو احادیث محدثین نے جمع کی ہیں وہ صحیح ہیں، تب بھی اس امر کی شہادت موجود ہے کہ اگر ان احادیث کا تعلق دین سے نہ ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حرف آخر کا درجہ نہیں دینا چاہتے تھے۔ مسلم میں یہ حدیث روایت کی گئی ہے۔
عن رافع بن خدیج قال قدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم المدیۃ وھم یابرون النخل فقال ما تصنعون قالوا کنا نصنعہ قال لعلکم لو لم تفعلو کان خیراً ترکوہ فنقعت فذکروا ذال کلہ فقال انا بشر اذا امرتکم بشئی من امر دینکم فخذوا بہ و انا امرتکم بشئی من رای فانما انا بشر
(رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ مدینے کے لوگ کھجوروں میں پیوند لگاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تم لوگ یہ کیا کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: ہم پہلے سے ایسا کرتے آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: شاید تم ایسا نہ کرتے تو بہتر ہوتا۔ پس لوگوں نے یہ عمل چھوڑ دیا اور پیداوار کم ہوئی۔ انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا: میں انسان ہوں، جب میں تمہارے دین کے معاملے میں تمہیں کوئی حکم دوں تو اس کی پیروی کرو اور جب میں اپنی رائے سے کچھ کہوں تو میں بس ایک بشر ہی ہوں"۔
اس کے علاوہ ایک سے زائد احادیث میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ صرف قرآن ہی وہ ایک کتاب ہے جو تمام شعبہ ہائے زندگی میں مسلمانوں کی رہنما ہونی چاہیے۔
(31) یہ بات کہ محدثین خود اپنی جمع کردہ احادیث کی صحت سے مطمئن نہ تھے صرف اسی ایک امر واقعہ سے واضح ہو جاتی ہے کہ وہ مسلمانوں سے یہ نہیں کہتے کہ ہماری جمع احادیث کو صحیح مان لو بلکہ یہ کہتے ہیں کہ انہیں ہمارے معیار صحت پر جانچ کر اپنا اطمینان کر لو۔ اگر انہیں ان احادیث کی صحت کا یقین ہوتا تو یہ جانچنے کا سوال بالکل غیر ضروری تھا۔
(32) بعض احادیث ایسی ہیں جو انسان کی توجہ اس دنیا سے ہٹا دیتی ہیں۔ روحانیت ایک اچھی چیز ہے لیکن اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اسے بیہودہ انتہاء تک پہنچا دیں۔ بنیادی طور پر اللہ نے ہمیں انسان بنایا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم اسی حیثیت سے زندگی بسر کریں۔ اگر وہ چاہتا کہ ہم روحانی مخلوق یا فرشتے بن جائیں، تو اس کے لیے اس سے زیادہ آسان بات کوئی اور نہیں تھی کہ وہ ہمیں ایسا ہی بنا دیتا۔ حقیقی اسلامی قانون کے مطابق مسلمانوں کو اپنی توانائیاں اس مقصد کے لیے صرف کرنی چاہئیں کہ وہ زندگی کو مفید تر، حسین تر اور مکمل طور پر پر لطف بنا سکیں۔
(33) اگر ہم احادیث کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اکثر احادیث مختصر اور بے ربط ہیں جنہیں سیاق و سباق اور موقع محل سے الگ کر کے بیان کر دیا گیا ہے۔ ان کو ٹھیک ٹھاک سمجھنا اور ان کا صحیح مفہوم و مدعا مشخص کرنا ممکن نہیں ہے جب تک ان کا سیاق و سباق سامنے نہ ہو اور وہ حالات معلوم نہ ہوں جن میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات کہی ہے یا کوئی کام کیا ہے۔ بہرحال احادیث کی بالکل نئے سرے سے پوری چھان بین اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ اور بجا طور پر کہا گیا ہے کہ حدیث قرآن کے احکام منسوخ نہیں کر سکتی، مگر کم از کم ایک مسئلے میں تو احادیث نے قرآن پاک میں ترمیم کر دی ہے اور وہ وصیت کا مسئلہ ہے۔ احادیث کے بارے میں پورا غور و تامل کرنے کے بعد میں یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہوں کہ انہیں اپنی موجودہ شکل میں قرآن کے برابر درجہ نہیں دینا چاہیے اور نہ ہی ان کے اطلاق کا عام خیال کرنا چاہیے۔ میں اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ مختلف محدثین کی جمع کردہ احادیث کو اسلامی قانون کے سرچشموں میں سے ایک سرچشمہ تسلیم کیا جائے جب تک ان کی دوبارہ جانچ پڑتال نہ کی جائے اور یہ پڑتال بھی کسی تنگ نظری اور تعصب پر مبنی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان تمام قواعد و شرائط کو بھی از سر نو استعمال کیا جانا چاہیے جنہیں امام بخاری وغیرہ نے بے شمار جھوٹی، موضوع اور جعلی حدیثوں میں سے صحیح احادیث کو الگ کرنے کے لیے مقرر کیا تھا، نیز ان معیارات کو بھی کام میں لانا چاہیے جو نئے حقائق و تجربات نے ہمارے لیے فراہم کیے ہیں۔ میری یہ بھی رائے ہے کہ حقائق موجودہ کی روشنی میں قیاس و استدلال کے نازک اور لطیف طریقوں کو عمل میں لاتے ہوئے ججوں اور عوام کے منتخب نمائندوں کو قرآن پاک کی تفسیر کرنی چاہیے۔ ابو حنیفہ اور اس طرح کے دوسرے فقہاء نے جو فیصلے کیے ہیں اور جو بعض کتابوں میں مذکور ہیں انہیں نظائر کی حیثیت میں وہی درجہ استناد دیا جانا چاہیے جو عام عدالتی فیصلوں کو حاصل ہوتا ہے۔ قرآں مجید کے اندر مندرج قانون جامد نہیں بلکہ متحرک و منظم ہے۔ قرآن مجید کی تعبیر کو اس انسانی طرز عمل سے ہم آہنگ ہونا چاہیے جو حالات حاضرہ سے متاثر اور مختلف عناصر سے متعین ہوتا ہے۔ ابو حنیفہ کی طرح دنیوی معاملات کی تحقیقات میں عقل کو استعمال میں لانا چاہیے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق بر عظیم ہند و پاکستان کے مسلمانوں کا قانون وسیع تغیرات کا محتاج ہے اور اسے ملک کے موجودہ حالات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔
(اس کے بعد پیرا نمبر 34 سے لے کر آخری پیراگراف نمبر 41 تک فاضل جج نے اپیل کے اصل تصفیہ طلب مسئلہ، یعنی مسئلہ حضانت پر بحث کی ہے اور یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اگر جامعین حدیث کی روایات کو صحیح اور قرآن کی طرح واجب الاتباع تسلیم کر بھی لیا جائے، تب بھی ان سے حضانت کے معاملے میں مسلمانوں کے مروج شخصی قانون کی تائید نہیں ہوتی۔ اگرچہ فیصلے کا یہ حصہ بھی بہت غور طلب اور لائق توجہ ہے، تاہم یہ چونکہ اصل موضوع فیصلہ سے تعلق رکھتا ہے اور اسے زیر بحث لانا مقصود نہیں ہے، اسل یے اس کا ترجمہ نہیں کیا جا رہا ہے، اس حصے کو اصل انگریزی فیصلے میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
تبصرہ
کچھ مدت سے ہمارے بعض حاکمان عدالت کی تقریروں اور تحریروں میں سنت کی صحت پر شکوک کے اظہار اور اس کو اسلامی قانون کی بنیاد تسلیم کرنے سے انکار کا رحجان بڑھتا چلا جا رہا تھا حتٰی کہ بعض عدالتی فیصلوں تک میں یہ خیالات نمایاں ہونے لگے تھے۔ مثال کے طور پر اب سے تین چار سال قبل مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے ایک فیصلے میں لکھا گیا تھا:
"اصل مشکل سے سابقہ حدیث کے معاملہ میں پیش آتا ہے جو سنت یا عمل رسول کی خبر دیتی ہے۔ اول تو یہ امر واقعہ ہے کہ کسی خاص مسئلے سے متعلق ایک حدیث کی صحت مختلف فیہ ہونے سے کم ہی محفوظ ہوتی ہے، پھر مزید برآں چند معاملات میں تو نبی کی ثابت شدہ سنت سے بھی بعض خلفائے راشدین اور خصوصاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انحراف کیا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں اردو کے ایک عمدہ رسالے میں جمع کی گئی ہیں' جس کو ادارۂ طلوع اسلام کراچی نے "اسلام میں قانون سازی کے اصول" کے نام سے شائع کیا ہے اور میں نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ یہاں میرے لیے یہ کہنا ضروری نہیں ہے کہ سنت کے مبنی بر وحی ہونے کی دلیل کچھ مضبوط نہیں ہے۔" (پی۔ ایل۔ ڈی، نومبر 1957ء، صفحہ 13-1012)
یہ رحجان بڑھتے بڑھتے اب جسٹس محمد شفیع صاحب کے زیر تبصرہ فیصلے میں ایک قطعی واضح اور انتہائی صورت تک پہنچ گیا ہے اور منکرین حدیث کا گروہ اس کا پورا پورا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس لیے ہم ناگزیر سمجھتے ہیں کہ تفصیل کے ساتھ اس فیصلے کا علمی جائزہ لیا جائے اور ملک کے حکام عدالت اور قانون دان اصحاب کو اس طرز فکر کی کمزوریوں سے آگاہ کر دیا جائے۔ جس مقدمے میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے، اس کے واقعات سے ہمیں قطعاً کوئی بحث نہیں ہے، اور اس میں جو حکم فاضل جج نے صادر کیا ہے، اس پر بھی ہم کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتے۔ ہماری بحث صرف ان اصولی مسائل تک محدود ہے جو اس فیصلے میں قرآن اور سنت اور فقہ کی پوزیشن کے متعلق چھیڑے گئے ہیں۔
دو اصولی سوالات
اس سلسلے میں قبل اس کے کہ ہم اصل فیصلے پر تبصرہ شروع کریں، دو اصولی سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں:
پہلا سوال عدالت کے اختیارات سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلامی قانون سے متعلق چودہ صدیوں سے یہ بات تمام دنیا کے مسلمانوں میں مسلم چلی آ رہی ہے کہ قرآن کے بعد اس کا دوسرا ماخذ سنت رسول ہے۔ ان طول صدیوں کے دوران میں اس قانون پر جس قابل ذکر مصنف نے بھی کچھ لکھا ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اس نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ مسلمانوں کے اندر کسی ایسے مذہب فکر (School of thought) کسی ایسے فقیہ (Jurist) کا حوالہ نہیں دیا جا سکتا۔ جس کی پیروی مسلمانوں کی کسی قابل لحاظ تعداد نے اختیار کی ہو، اور وہ سنت کے ماخذ قانون ہونے کا انکار کرتا ہو۔ متحدہ ہندوستان میں جو اینگلو محمڈن لاء رائج رہا ہے، اس کے اصولوں میں بھی ہمیشہ یہ چیز مسلم رہی ہے۔ اور ہمارے علم میں آج تک کسی مجلس قانون ساز کا بھی کوئی ایسا فیصلہ نہیں آیا ہے جس کی رو سے اسلامی قانون کے اصولوں میں یہ بنیادی رد و بدل کیا گیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں کوئی منفرد جج، یا کوئی ہائی کورٹ، بلکہ خود سپریم کورٹ بھی قانون میں یہ اصول تبدیلی کر دینے کا مجاز ہے؟ جہاں تک ہمیں معلوم ہے عدالت کوئی مستقل بالذات قانون ساز ادارہ نہیں ہے۔ جن اصولوں پر ہمارے ملک کا نظام عدل و آئین مبنی ہے، ان کی رو سے عدالتیں اس قانون پر کام کرنے کی پابند ہیں جو ان کو قانون ساز ادارے کی طرف سے دیا جائے۔ وہ قانون کی تعبیر ضرور کر سکتی ہیں اور اس نظام میں ان کی تعبیر کو بلا شبہ قانونی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن ہمارے علم میں آج تک یہ بات نہیں آئی ہے کہ انہیں بجائے خود قانون یا اس کے مسلمہ اصولوں میں رد و بدل کر دینے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ اختیار عدالتوں کو کب اور کہاں سے حاصل ہوا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ قانون میں اس طرح کی اصولی تبدیلی کا مجاز آخر ہے کون؟ اس وقت مملکت پاکستان کے متعلق دعویٰ یہی ہے کہ یہ مملکت جمہوریت کے اصول پر قائم ہوئی ہے اور جمہوریت کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اگر اس میں باشندوں کی اکثریت کا منشا حکمران نہ ہو۔ اب اگر پاکستان کے مسلمان باشندوں سے کوئی استصواب عام کرایا جائے تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی 9999 فی دس ہزار سے بھی زیادہ اکثریت اس عقیدے کا اظہار کرے گی کہ قرآن کے بعد سنت رسول اسلامی قانون کی لازمی بنیاد ہے، اور وہ لوگ شاید پوری طرح دس ہزار میں ایک بھی نہ ہوں گے جو اس سے اختلاف رکھتے ہوں۔ یہ صورت حال جب تک موجود ہے، کیا اسلامی قانون کے ماخذ میں سے کسی سنت کا اسقاط کر دینا کسی حاکم عدالت کے اختیار میں ہے؟ یا کوئی حکومت ایسا کر سکتی ہے؟ یا کوئی قانون ساز ادارہ اس کا مجاز ہے؟ ان سوالات کا جواب اثبات میں دیا جا سکتا تھا اگر یہاں کسی خاص طبقے کی آمریت قائم ہوتی لیکن جمہوری اصول پر ہم نہیں کہہ سکتے کہ کوئی شخص ان کا جواب اثبات میں کیسے دے سکتا ہے۔ جس وقت تک یہاں جمہوریت کی قطعی نفی نہیں ہو جاتی، کسی ذی اختیار شخص کو اپنے اختیارات اپنی ذاتی آراء کے مطابق استعمال کرنے کا حق نہیں ہے بلکہ وہ انہیں قانون ہی کے مطابق استعمال کر سکتا ہے جو یہاں اکثریت کی مرضی سے نافذ ہے۔ حکام میں جو اصحاب اپنے کچھ زیادہ پر زور خیالات رکھتے ہوں، ان کے لیے سیدھا راستہ یہ کھلا ہوا ہے کہ مستعفی ہو کر اپنی پوری علمی قابلیت عامہ مسلمین کا عقیدہ تبدیل کرنے میں صرف کریں لیکن جب تک وہ کسی با اختیار منصب پر فائز ہیں، وہ اس تبدیلی کے لیے اپنے اختیارات استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ جمہوریت کا کھلا ہوا منطقی تقاضا ہے۔ اس سے انکار کے لیے کسی کے پاس اگر کچھ دلائل ہوں تو ہم انہیں معلوم کرنا چاہتے ہیں۔
مذکورۂ بالا اصولی مسائل کے متعلق جو نقطۂ نظر ہم نے اوپر پیش کیا ہے، اس کو اگر درست تسلیم کر لیا جائے تو عدالت کا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے ہم یہ گذارش کریں گے کہ فاضل جج کے لیے اپنے ان مخصوص خیالات کو اپنے ایک عدالتی فیصلے میں بیان کرنا مناسب نہ تھا۔ وہ ان کو اپنی شخصی حیثیت میں ایک مضمون کے طور پر تحریر فرماتے اور کسی رسالے میں شائع کرا دیتے تو چنداں قابل اعتراض نہ ہوتا۔اس صورت میں زیادہ آزادی کے ساتھ ان پر بحث ہو سکتی تھی بغیر اس کے کہ احترام عدالت کسی شخص کے لیے آزادی تنقید میں مانع ہو۔
فقہ حنفی کی اصل حیثیت
اب ہم اس فیصلے کے اصولی مباحث پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں جیسا کہ اس کے مطالعہ سے ناظرین کے سامنے آچکا ہے۔ یہ حضانت کے ایک مقدمے کا فیصلہ ہے۔ اس سلسلے میں حضانت کے متعلق فقہ حنفی کے قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج یہ فرماتے ہیں کہ انگریزی حکومت کے دور میں پریوی کونسلٹ تک تمام عدالتیں ان قواعد کی پوری پابندی کرتی رہی ہیں، اور اس کی وجہ ان کی رائے میں یہ ہے کہ:
"مسلمان قانون دان یہ نہیں چاہتے تھے کہ انگریز یا دوسرے غیر مسلم اپنے مقصد کے مطابق قرآن پاک کی تفسیر و تعبیر کریں اور قوانین بنائیں۔ مسلم قانون سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات میں فتاوائے عالمگیری کو جو اہمیت دی گئی ہے وہ اسی حقیقت کی صاف نشاندہی کرتی ہے لیکن اب حالات بالکل بدل چکے ہیں"۔ (پیراگراف نمبر 4)
پھر حضانت کے حنفی قانون کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد وہ دوبارہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ:
"کیا کسی درجہ کی قطعیت کے ساتھ ان قواعد کو اسلامی قانون کہا جا سکتا ہے جسے وہی لزوم کا مرتبہ حاصل ہو جو ایک کتاب آئین میں درج شدہ قانون کو حاصل ہوتا ہے؟" (پیراگراف نمبر 7)
ہمارے خیال میں یہ رائے ظاہر کرتے وقت فاضل جج کی نگاہ ان تمام اسباب پر نہیں تھی جن کی بنا پر حنفی قانون نہ صرف انگریزی دور میں اور نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ تیسری صدی ہجری سے دنیائے اسلام کے ایک بڑے حصے میں اسلامی قانون مانا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے اسکے ایک بہت ہی خفیف سے جزوی سبب کا نوٹس لیا ہے، اور اسی بنا پر ان کا یہ ارشاد بھی صحیح صورت واقعہ کی ترجمانی نہیں کرتا کہ "اب حالات بالکل بدل چکے ہیں"۔
اسلامی قانون کی تاریخ سے جو لوگ واقف ہیں ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ خلافت راشدہ کی جگہ شاہی طرز حکومت قائم ہو جانے سے اسلامی نظام قانون میں ایک بڑا خلا رونما ہو گیا تھا جو ایک صدی سے زیادہ مدت تک موجود رہا۔ خلافت راشدہ میں "شوریٰ" ٹھیک وہی کام کرتی تھی جو موجودہ زمانہ میں ایک مجلس قانون ساز کا کام ہوتا ہے۔ مسلم مملکت میں جو جو مسائل بھی ایسے پیش آتے تھے جن پر ایک واضح قانونی حکم کی ضرورت ہوتی تھی، خلیفہ کی مجلس شوریٰ ان پر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی روشنی میں اجتماعی فکر و اجتہاد سے کام لے کر فیصلے کرتی تھی اور وہی فیصلے پوری مملکت میں قانون کی حیثيت سے نافذ ہوتے تھے۔ قرآن مجید کے کسی فرمان کی تعبیر میں اختلاف ہو، یا سنت رسول کی تحقیق میں، یا کسی نئے پیش آمدہ مسئلے پر اصولی شریعت کی تطبیق میں، مجلس شوریٰ کے سامنے ایسا ہر اختلاف ہر وقت پیش ہو جاتا تھا۔ خلافت راشدہ کی اس مجلس کو یہ حیثيت محض سیاسی طاقت کے بل پر حاصل نہ تھی، بلکہ اس کی اصل وجہ وہ اعتماد تھا جو عام مسلمان خلیفہ اوراس کے اہل شوریٰ کی خدا ترسی، دیانت، خلوص اور علم دین پر رکھتے تھے۔
جب یہ نظام باقی نہ رہا اور شاہی حکومتوں نے اس کی جگہ لے لی تو فرمانروا اگرچہ مسلمان تھے اور ان کے اعیان حکومت اور اہل دربار بھی مسلمان تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی یہ جرات نہ کرسکا کہ مسائل و معاملات میں خلفائے راشدین کی طرح فیصلے دیتا، کیونکہ وہ خود جانتے تھے کہ انہیں عام مسلمانوں کا اعتماد حاصل نہیں ہے اور ان کے فیصلے قانون اسلام کا جز نہیں بن سکتے۔ وہ اگر خلفائے راشدین کی شوریٰ کی مانند عام مسلمانوں کے معتمد اہل علم و تقویٰ کی ایک مجلس بناتے اور اس کو وہی آئینی حیثیت دیتے جو اس شوریٰ کو حاصل تھی، تو ان کی بادشاہی نہ چل سکتی تھی اور اگر وہ اپنے مطلب کے لوگوں کی مجلس شوریٰ بنا کر فیصلے صادر کرنے شروع کر دیتے تو مسلمان ان فیصلوں کو شرعی فیصلے ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ ایسے فیصلے طاقت کے ذریعہ مسلط کیے جا سکتے تھے، لیکن انہیں مسلط کرنے والی طاقت جب بھی ہٹتی وہ فیصلے اسی جگہ پھینک دیے جاتے جہاں ان کے نافذ کرنے والے گئے تھے۔ ان کا ایک مستقل جزو شریعت بن کر رہنا کسی طرح ممکن نہ تھا۔
اس حالت میں اسلامی نظام قانون کے اندر ایک خلا پیدا ہوگیا۔ خلافت راشدہ کے زمانے میں مسائل و معاملات کے جو فیصلے اجماعی طور پر ہوگئے تھے، وہ تو پوری مملکت کا قانون رہے، لیکن اس کے بعد پیش آنے والے مسائل و معاملات میں ایسا کوئي ادارہ موجود نہ رہا جو قرآن کی تعبیر اور سنت کی تحقیق اور قوت اجتہادیہ کے استعمال سے ایک فیصلہ دیتا اور وہ مملکت کا قانون قرار پاتا۔ اس دور میں مختلف قاضی اور مفتی اپنے اپنے طور پر جو فتوے اور فیصلے دیتے رہے، وہ ان کے دائرۂ اختیار میں نافذ ہوتے رہے۔ ان متفرق فتاویٰ اور فیصلوں سے مملکت میں ایک قانونی طوائف الملوکی پیدا ہوگئی۔ کوئی ایک قانون نہ رہا جو یکسانی کے ساتھ تمام عدالتوں میں نافذ ہوتا اور جس کے تمام انتظامی محکمے کام کرتے۔ منصور عباسی کے عہد میں ابن المقنع نے اس طوائف الملوکی کو شدت کے ساتھ محسوس کیا اور خلیفہ کو مشورہ دیا کہ وہ خود اس خلا کو بھرنے کی کوشش کرے لیکن خلیفہ اپنی حیثیت خود جانتا تھا۔ وہ کم از کم اتنا برخود غلط نہ تھا جتنے آج کل کے ڈکٹیٹر حضرات ہیں۔ اسے معلوم تھا کہ جو قانون اس کی صدارت میں اس کے نامزد کیے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں بنیں گے اور اس کے امضاء (Sanction) سے نافذ ہوں گے انہیں مسلمان شریعت کے احکام مان لیں گے۔
قریب قریب ایک صدی اس حالت پر گذر چکی تھی کہ امام ابو حنیفہ اس خلا کو بھرنے کے لیے آگے بڑھے۔ انہوں نے کسی سیاسی طاقت اور کسی آئینی حیثیت کے بغیر اپنے تربیت کردہ شاگردوںکی ایک غیر سرکاری مجلس قانون ساز (Private Legislature) بنائی۔ اس میں قرآن کے احکام کی تعبیر، سنتوں کی تحقیق، سلف کے اجماعی فیصلوں کی تلاش و جستجو، صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کے فتاویٰ کی جانچ پڑتال اور معاملات و مسائل پر اصول شریعت کی تطبیق کا کام بڑے وسیع پیمانے پر کیا گیا اور پچیس تیس سال کی مدت میں اسلام کا پورا قانون مدون کر کے رکھ دیا گیا۔ یہ قانون کسی بادشاہ کی رضا سے مدون نہیں کیا گیا تھا۔ کوئی طاقت اس کی پشت پر نہیں تھی جس کے زور سے یہ نافذ ہوتا لیکن پچاس برس بھی نہ گذرے تھے کہ یہ سلطنت عباسیہ کا قانون بن گیا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس کو ان لوگوں نے مرتب کیا تھا جن کے متعلق عام مسلمانوں کو یہ اعتماد تھا کہ وہ عالم بھی ہیں اور متقی اور محتاط بھی، وہ قرآن اور سنت کو ٹھیک ٹھاک سمجھتے اور جانتے ہیں، صحیح اسلامی ذہن رکھتے ہیں، غیر اسلامی افکار و نظریات سے متاثر نہیں ہیں اور اسلامی قانون کی تدوین میں اپنے یا کسی کے ذاتی مفادات، رحجانات یا خواہشات کو ذرا برابر دخل دینے والے نہیں ہیں۔ مسلمان ان پر پورا اطمینان رکھتے تھے کہ یہ تحقیق و اجتہاد کے بعد شریعت کا جو حکم بھی بیان کریں گے، ان میں بشری غلطی تو ہو سکتی ہے، مگر بے ڈھب اور بے لگام اجتہاد یا اسلام میں غیر اسلام کی آمیزش کا ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس خالص اخلاقی طاقت کا یہ کرشمہ تھا کہ پہلے بلاد مشرق کے عام مسلمانوں نے آپ سے آپ اس کو اسلام کا قانون مان لیا اور اپنے معاملات میں بطور خود اس کی پیروی شروع کر دی۔ پھر سلطنت عباسیہ کو اسے تسلیم کر کے ملک کا قانون قرار دینا پڑا۔ اس کے بعد وہی قانون اپنی اسی طاقت سے مغرب میں ترکی سلطنت کا اور مشرق میں ہندوستان کی مسلم حکومت کا قانون بنا۔
بعد کی بہت سی صدیوں میں یہ قانون اسی مقام پر کھڑا نہیں رہا۔ جہاں امام ابو حنیفہ نے اسے چھوڑا تھا، بلکہ ہر صدی میں اس کے اندر بہت سی ترمیمات بھی ہوئی ہیں، اور بہت سے نئے مسائل کے فیصلے بھی اس میں ہوتے رہے ہیں، جیسا کہ کتب ظاہر الروایہ اور بعد کی کتب فتاویٰ کے تقابل سے معلوم ہو سکتا ہے لیکن یہ بعد کا سارا کام بھی حکومت کے ایوانوں سے باہر مدرسوں اور دار الافتاؤں میں ہی ہوتا رہا، کیونکہ مسلمان بادشاہوں اور ان کے مسلمان امراء و حکام کے علم و تقویٰ پر مسلمان عوام کوئی اعتماد نہ رکھتے تھے، انہیں صرف خدا ترس علماء پر ہی اعتماد تھا اس لیے انہی کے فتوے اس قانون کے جز بنتے رہے اور انہی کے ہاتھوں اس کا ارتقاء ہوتا رہا۔ ایک دو مثالوں کو چھوڑ کر اس پورے زمانے میں کسی بد دماغ سے بد دماغ بادشاہ کو بھی اپنے متعلق یہ غلط فہمی نہیں ہوئی کہ میں ایک قانون بناؤں گا اور مسلمان اسے شریعت مان لیں گے۔ اورنگ زیب جیسے پرہیز گار فرمانروا نے بھی وقت کے نامور علماء ہی کو جمع کیا۔ جنہیں مسلمان دینی حیثیت سے بھروسے کے قابل سمجھتے تھے، اور ان کے ذریعہ سے اس نے فقہاء حنفیہ ہی کے فتاویٰ کا مجموعہ مرتب کرا کے اس کو قانون قرار دیا۔
اس بحث میں تین باتیں بخوبی واضح ہو جاتی ہیں:
ایک یہ کہ فقہ حنفی، جو انگریزوں کی امد سے صدیوں پہلے سے مشرقی مسلمان مملکتوں کا قانون تھی اور جسے آ کر انگریز بھی اپنے پورے دور میں کم از کم مسلم پرسنل لاء کی حد تک مسلمانوں کا قانون تسلیم کرتے رہے، دراصل مسلمانوں کی عام رضا اور پسند سے قانون قرار پائی تھی۔ اس کو کسی سیاسی طاقت نے نافذ (Enforce) نہیں کیا تھا بلکہ ان ممالک کے جمہور مسلمین اسی کو اسلامی قانون مان کر اس کی پیروی کرتے تھے اور حکومتوں نے اسے اس لیے قانون مانا کہ ان ملکوں کے عام مسلمان اس کے سوا کسی دوسری چیز کی پیروی قلب و ضمیر کے اطمینان کے ساتھ نہ کر سکتے تھے۔
دوسرے یہ کہ مسلمان جس طرح انگریزی دور میں اپنا دین اور اپنی شریعت انگریزوں اور دوسرے غیر مسلموں کے ہاتھ میں دینے کے لیے تیار نہ تھے، اسی طرح وہ بنی امیہ کے زمانے سے لے کر آج تک کبھی ایسے مسلمانوں کے ہاتھ میں دینے کے لیے تیار نہیں رہے ہیں جن کے علم دین اور تقویٰ اور احتیاط پر ان کو اطمینان نہ ہو۔
تیسرے یہ کہ اب حالات بالکل کیا معنی، بالجز بھی نہیں بدلے ہیں۔ انگریزوں کی جگہ بس مسلمانوں کا کرسی نشین ہو جانا بجائے خود اپنے اندر کوئی جوہری فرق نہیں رکھتا۔ خلافت راشدہ کے بعد جو خلاء پیدا ہوا تھا، مسلمان حکومتوں کی حد تک وہ اب بھی جوں کا توں باقی ہے، اور وہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک ہمارا نظام تعلیم ایسے خدا ترس فقیہ پیدا نہ کرنے لگے جن کے علم و تقویٰ پر مسلمان اعتماد کر سکیں، اور ہمارا نظام سیاست ایسا نہ بن جائے کہ اس طرح کے معتمد علیہ اصحاب ہی ملک میں قانون سازی کے منصب پر فائز ہونے لگیں۔ اگر اس ملک میں ہمیں قوم کے ضمیر اور قانون کے درمیان تضاد اور تصادم پیدا کرنا نہیں ہے تو جب تک یہ خلاء واقعی صحیح طریقے سے بھر نہ جائے، اسے خام مواد سے بھرنے کی کوئی کوشش نہ کرنی چاہیے۔
فاضل جج کے بنیادی تصورات
اس کے بعد پیراگراف 8 سے 16 تک فاضل جج نے اسلامی قانون کے متعلق اپنے کچھ تصورات بیان فرمائے جو علی الترتیب حسب ذیل ہیں:
(1) اسلام کی رو سے جو قانون ایک مسلمان پر اس کی زندگی کے ہر شعبے میں حکمران ہونا چاہیے، خواہ وہ اس کی زندگی کا مذہبی شعبہ ہو یا سیاسی، یا معاشرتی یا معاشی، وہ صرف خدا کا قانون ہے۔
(2) قرآن نے جو حدود مقرر کر دیے ہیں ان کے اندر مسلمانوں کو سوچنے اور عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔
(3) چونکہ قانون انسانی آزادی پر پابندی عائد کرنے والی طاقت ہے اس لیے خدا نے قانون سازی کے اختیارات پوری طرح اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ اسلام میں کسی شخص کو اس طرح کام کرنے کا اختیار نہیں ہے کہ گویا وہ دوسروں سے بالاتر ہے۔
(4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا طرز عمل یہ تھا کہ جو کچھ وہ کرتے تھے مسلمانوں کے مشورے سے کرتے تھے۔ اسلام کا عقیدہ عین اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک انسان کی دوسرے انسانوں پر برتری کی نفی کرتا ہے، وہ اجتماعی فکر اور اجتماعی عمل کی راہ دکھاتا ہے۔
(5) اس دنیا میں چونکہ انسانی حالات اور مسائل بدلتے رہتے ہیں، اس لیے اس بدلتی ہوئی دنیا کے اندر مستقل، ناقابل تغیر و تبدل احکام و قوانین نہیں چل سکتے۔ خود قرآن بھی اس عام قاعدے سے مستثنٰی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے مختلف معاملات میں چند وسیع اور عام قاعدے انسانی ہدایت کے لیے دے دیے ہیں۔
(6) قرآن سادہ اور آسان زبان میں ہے جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ اس کا پڑھنا اور سمجھنا ایک دو آدمیوں کا مخصوص حق نہیں ہے۔ تمام مسلمان اگر چاہیں تو اسے سمجھ سکتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کر سکتے ہیں۔ یہ حق تمام مسلمانوں کو دیا گیا ہے اور کوئی اسے ان سے سلب نہیں کر سکتا، خواہ وہ کیسا ہی عالی مرتبہ اور کیسا ہی فاضل کیوں نہ ہو۔
(7) قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے میں یہ بات خود متضمن ہے کہ آدمی اس کی تعبیر کرے اور اس کی تعبیر کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آدمی اس کو وقت کے حالات پر اور دنیا کی بدلتی ہوئی ضروریات پر منطبق کرے۔
(
امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور قدیم زمانے کے دوسرے مفسرین نے قرآن کی جو تعبیریں کی تھیں وہ آج کے زمانے میں جوں کی توں نہیں مانی جانی جا سکتیں۔ سوسائٹی کے بدلتے ہوئے حالات پر قرآن کے عام اصولوں کو منطبق کرنے کے لیے ان کی دانشمندانہ تعبیر کرنی ہوگی، اور ایسے طریقے سے تعبیر کرنی ہوگی کہ لوگ اپنی تقدیر اور اپنے خیالات اور اخلاقی تصورات کی تشکیل اس کے مطابق کر سکیں اور اپنے ملک اور زمانے کے لیے موزوں ترین طریقے پر کام کر سکیں۔ دوسرے انسانوں کی طرح مسلمان بھی عقل اور ذہانت رکھتے ہیں اور یہ طاقت استعمال کرنے ہی کے لیے دی گئی ہے۔ تمام مسلمانوں کو قرآن پڑھنا اور اس کی تعبیر کرنا ہوگا۔
(9) قرآن کو سمجھنے اور اس کے مدعا کو پانے کی سخت کوشش ہی کا نام اجتہاد ہے۔ قرآن سب مسلمانوں سے، نہ کہ ان کے کسی خاص طبفے سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اس کا علم حاصل کریں، اسے اچھی طرح سمجھیں اور اس کی تعبیر کریں۔
(10) اگر ہر شخص انفرادی طور پر بطور خود قرآن کی تعبیر کرے تو بے شمار مختلف تعبیرات وجود میں آ جائیں گی جن سے سخت بد نظمی کی حالت پیدا ہو جائے گی۔ اسی طرح جن معاملات میں قرآن ساکت ہے، اگر ان کے بارے میں ہر شخص کو ایک قاعدہ بنا لینے اور ایک طرز عمل طے کر لینے کا اختیار ہو تو ایک پراگندہ اور غیر مربوط سوسائٹی پیدا ہو جائے گی۔ اس لیے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بڑی تعداد کی رائے کو نافذ ہونا چاہیے۔
(11) ایک آدمی یا چند آدمی فطرتاً عقل اور قوت میں ناقص ہوتے ہیں۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی طاقتور اور ذہین ہو، اس کے کامل ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ لاکھوں کروڑوں آدمی، جو اجتماعی زندگی ایک نظم کے ساتھ بسر کر رہے ہیں، اپنی اجتماعی ہیئت میں افراد کی بہ نسبت زیادہ عقل اور طاقت رکھتے ہیں۔ قرآن کی رو سے بھی کتاب اللہ کی تعبیر اور حالات پر اس کے عام اصولوں کا انطباق ایک آدمی یا چند آدمیوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا بلکہ یہ کام مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہونا چاہیے۔
(12) قانون سے مراد وہ ضابطہ ہوتا ہے جس کے متعلق لوگوں کی اکثریت یہ خیال کرتی ہو کہ لوگوں کے معاملات اس کے مطابق چلنے چاہئیں۔ کئی کروڑ باشندوں کے ایک ملک میں باشندوں کی اکثریت کو قرآن کی ان آیات کی، جن کے اندر یا زائد تعبیروں کی گنجائش ہو، ایک ایسی تعبیر کرنی چاہیے جو ان کے حالات کے لیے موزوں ترین ہو اور اسی طرح انہیں قرآن کے عام اصولوں کو حالات موجودہ پر منطبق کرنا چاہیے تاکہ فکر و عمل میں یکسانی و وحدت پیدا ہو سکے۔ اسی طرح یہ اکثریت کا کام ہے کہ ان مسائل و معاملات میں، جن پر قرآن ساکت ہے، کوئی قانون بنائے۔
(13) قدیم زمانے میں تو شاید یہ درست تھا کہ اجتہاد کو چند فقہاء تک محدود کر دیا جائے کیونکہ لوگوں میں آزادانہ اور عمومیت کے ساتھ علم نہیں پھیلایا جاتا تھا۔ لیکن موجودہ زمانے میں یہ فریضہ باشندوں کے نمائندوں کو انجام دینا چاہیے کیونکہ قرآن کا پڑھنا اور سمجھنا اور اس کے عام اصولوں کو حالات پر منطبق کرنا ایک یا دو اشخاص کا مخصوص استحقاق نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں کا فرض اور حق ہے اور یہ کام ان لوگوں کو انجام دینا چاہیے جنہیں عام مسلمانوں نے اس مقصد کے لیے منتخب کیا ہو۔