F@rzana
محفلین
اکادمی ادبیات پاکستان کے تعاون سے ’محترم نیاز ہمایونی‘ (نگران اردو سائنس بورڈ،حیدرآباد) نے سندھی زبان کے قدیم و جدید شعراء کے ادبی سرمائے کا ترجمہ کتابی صورت میں تشکیل دیا ، جسے میں اردو محفل کی لائبریری میں شامل کررہی ہوں تاکہ شاعری سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کو کچھ تو افادہ حاصل ہو۔
جناب ”نیاز ہمایونی“ کی اس کاوش پر ہم اہل ادب ان کے ممنون ہیں جو انہوں نے تیرہویں صدی عیسوی سے لے کر بیسویں صدی عیسوی تک کی چیدہ چیدہ شاعری کو ترتیب دیا۔
سندھی زبان اپنی علمیت، وسعت اور وقعت کے اعتبار سے صدیوں پر محیط ہے، تاریخ میں یہ شرف بھی سندھی زبان کو حاصل ہے کہ سب سے پہلے قرآن حکیم کا ترجمہ بھی اسی زبان میں ہوا تھا، روایت ہے کہ کشمیر کے راجہ مہروک (883ء ۔ 270ھ) نے منصورہ سندھ کے امیر عبداللہ بن عبدل عزیز ھبازی کو ایک پیغام کے ذریعے گزارش کی تھی کہ اسے سندھی زبان میں اسلامی احکام و قوانین کے متعلق ایک مکمل تفسیر کی ضرورت ہے چنانچہ امیر عبداللہ نے منصورہ کے اک عراقی عالم کو جو سندھی میں بھی مہارت نامہ کا حامل تھا، کشمیری راجہ کے یہاں روانہ کیا، اسی عراقی عالم نے راجہ کی منشا کے مطابق کشمیر میں رہ کے اسے اسلامی احکام و قوانین کی تدوین کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم کا ترجمہ بھی سندھی زبان میں ترتیب دے کر پیش کیا تھا۔
پاکستانی شاعری کے گلشن مں کہیں گلاب کے پھول ہیں تو کہیں نرگس کے، کہیں چمپا ہے تو کہیں چمبیلی، ہماری علاقائی زبانیں اسی کی زرخیز مٹی سے مہکتی ہیں، ملک کے نامور عالم جناب اے کے بروہی فرماتے ہیں کہ ” سندھی زبان دوسری علاقائی زبانوں سے کہیں زیادہ ترقی یفتہ ہے اور وہ اس بات پر فخر کرسکتی ہے کہ اس میں عظیم ادباء ، شاعر و ناقدین موجود ہیں، لیکن جو کچھ انہوں نے لکھا ہے اس کا بیشتر حصہ ملک کے دوسرے بھائیوں کے سامنے نہیں آسکا ہے، اگر کوئی شخص کسی کو سمجھنا چاہتا ہے تو اسکا صحیح راستہ یہی ہے کہ دوسروں کو بھی اسی طرح دیکھا جائے جس طرح دوسرا انہیں دیکھتا، سنتا، سوچتا اور سمجھتا ہے اور اس طرح کی سوچ اور احساس کا بہترین ثبوت اس کا ادب ہے جو اس نے تخلیق کیا ہے۔“
باوجودیکہ ہر زبان کا اپنا مزاج اور جینیئس ہوتا ہے اور کسی اور زبان کا پورے طور پر دوسری زبان میں ترجمہ ہوجانا کسی حد تک ناممکن خیال کیا جاتا ہے۔اس نہج پر کہ ایک ادبی شاہکار کی نفاستوں اور لطافتوں کا ابلاغ ترجے کے ذریعے صرف جزوی طور پر ہی ہوسکتا ہے ، لیکن ابلاغ کی مثالی صورت تو خود طبعزاد تخلیقات کے حصے میں بھی نہیں آتی، قادرالکلام شاعروں کا قول ہے کہ وہ اپنے شاعرانہ تخیلات ، جذبات و احساسات کا محض معمولی حصہ جزوی طور پر الفاظ کی قید میں لاپاتے ہیں اور ایک بڑا حصہ ان تخیلات کا ابلاغ سے محروم رہ جاتا ہے، تاہم ترجمے کو ایک طرح کا مفاہمہ کہا گیا ہے اور اس کی افدیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔
جناب ”نیاز ہمایونی“ کی اس کاوش پر ہم اہل ادب ان کے ممنون ہیں جو انہوں نے تیرہویں صدی عیسوی سے لے کر بیسویں صدی عیسوی تک کی چیدہ چیدہ شاعری کو ترتیب دیا۔
سندھی زبان اپنی علمیت، وسعت اور وقعت کے اعتبار سے صدیوں پر محیط ہے، تاریخ میں یہ شرف بھی سندھی زبان کو حاصل ہے کہ سب سے پہلے قرآن حکیم کا ترجمہ بھی اسی زبان میں ہوا تھا، روایت ہے کہ کشمیر کے راجہ مہروک (883ء ۔ 270ھ) نے منصورہ سندھ کے امیر عبداللہ بن عبدل عزیز ھبازی کو ایک پیغام کے ذریعے گزارش کی تھی کہ اسے سندھی زبان میں اسلامی احکام و قوانین کے متعلق ایک مکمل تفسیر کی ضرورت ہے چنانچہ امیر عبداللہ نے منصورہ کے اک عراقی عالم کو جو سندھی میں بھی مہارت نامہ کا حامل تھا، کشمیری راجہ کے یہاں روانہ کیا، اسی عراقی عالم نے راجہ کی منشا کے مطابق کشمیر میں رہ کے اسے اسلامی احکام و قوانین کی تدوین کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم کا ترجمہ بھی سندھی زبان میں ترتیب دے کر پیش کیا تھا۔
پاکستانی شاعری کے گلشن مں کہیں گلاب کے پھول ہیں تو کہیں نرگس کے، کہیں چمپا ہے تو کہیں چمبیلی، ہماری علاقائی زبانیں اسی کی زرخیز مٹی سے مہکتی ہیں، ملک کے نامور عالم جناب اے کے بروہی فرماتے ہیں کہ ” سندھی زبان دوسری علاقائی زبانوں سے کہیں زیادہ ترقی یفتہ ہے اور وہ اس بات پر فخر کرسکتی ہے کہ اس میں عظیم ادباء ، شاعر و ناقدین موجود ہیں، لیکن جو کچھ انہوں نے لکھا ہے اس کا بیشتر حصہ ملک کے دوسرے بھائیوں کے سامنے نہیں آسکا ہے، اگر کوئی شخص کسی کو سمجھنا چاہتا ہے تو اسکا صحیح راستہ یہی ہے کہ دوسروں کو بھی اسی طرح دیکھا جائے جس طرح دوسرا انہیں دیکھتا، سنتا، سوچتا اور سمجھتا ہے اور اس طرح کی سوچ اور احساس کا بہترین ثبوت اس کا ادب ہے جو اس نے تخلیق کیا ہے۔“
باوجودیکہ ہر زبان کا اپنا مزاج اور جینیئس ہوتا ہے اور کسی اور زبان کا پورے طور پر دوسری زبان میں ترجمہ ہوجانا کسی حد تک ناممکن خیال کیا جاتا ہے۔اس نہج پر کہ ایک ادبی شاہکار کی نفاستوں اور لطافتوں کا ابلاغ ترجے کے ذریعے صرف جزوی طور پر ہی ہوسکتا ہے ، لیکن ابلاغ کی مثالی صورت تو خود طبعزاد تخلیقات کے حصے میں بھی نہیں آتی، قادرالکلام شاعروں کا قول ہے کہ وہ اپنے شاعرانہ تخیلات ، جذبات و احساسات کا محض معمولی حصہ جزوی طور پر الفاظ کی قید میں لاپاتے ہیں اور ایک بڑا حصہ ان تخیلات کا ابلاغ سے محروم رہ جاتا ہے، تاہم ترجمے کو ایک طرح کا مفاہمہ کہا گیا ہے اور اس کی افدیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔