نثار کھوکھر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سکھر
سکھر میں دریائے سندھ کے کنارے ایک اونچی پہاڑی پر قائم ایک قدیم قبرستان جہاں اب بھی
سیاحوں کے لیے ایک کشش رکھتا ہے وہیں اس قبرستان کے دورے کے بعد ایک معمہ بھی
آپ کے ذہن میں سوال بن کر ٹھہر جاتا ہے کہ اس تاریخی قبرستان میں کون دفن ہے۔
سکھر سے روہڑی ریلوے سٹیشن کی طرف جاتے ہوئے جب دریائے سندھ پار کریں ہیں تو
ایک خوبصورت تاریخی قبرستان مسافروں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے
جسے مقامی لوگ ’ستین جو آستھان‘ یا ستیوں کا ڈیرہ کہتے ہیں۔
اس قبرستان کے بارے میں عام طور پر مشہور ہے کہ اس پہاڑی پر سات عرب کنواری بہنوں نے
دشمن لشکر سے اپنی آبرو بچانے کے لیے پناہ لے رکھی تھی۔انہوں نے اپنے رب سے انہیں غیر مردوں کے ہاتھ لگنے سے قبل
مار دینے کی دعا کی تھی اور ان کی دعا عین وقت پر قبول ہوگئی تھی۔
ستیوں کا ڈیرہ کے حوالے سے اس سے ملتی جلتی کئی کہاوتیں سننے کو ملتی ہیں
جن میں مرکزی کردار سات کنواری بہنوں کا ہوتا ہے مگر محققین ان باتوں کو ایسے مفروضے قرار دیتے ہیں
جن میں کوئی تاریخی صداقت نہیں ہوتی ۔
آثار قدیمہ کے ماہر اور تاریخ دان بدر ابڑو کا کہنا ہے کہ کنواری اور سات بہنیں تو دُور اس قبرستان میں تو
ایک بھی عورت کے دفن ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی تاریخی حقائق بروقت اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے عوامی نظروں میں مسخ ہوجاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ستیوں کا قبرستان مغلیہ دور کے حکمرانوں کا خاندانی قبرستان ہے۔
بدر ابڑو کے مطابق دریائے سندھ کے کنارے چبوترے نما پہاڑی پر بنا یہ قبرستان
مغل حکمرانوں میں سے شاہجہاں دور اقتدار میں
بکھر(سکھر کا قدیم نام) کے گورنر میر ابوالقاسم نمکین کا شاہی قبرستان ہے۔
اس دو منزلہ قبرستان میں پہلی منزل پرچند کمرے بنے ہوئے ہیں جبکہ دوسری اور آخری منزل پر سات قبریں ہیں
جن پر فارسی میں عبارتیں تحریر ہیں۔
وقت کے ساتھ بدلتی روایات نے اس قبرستان کے معنی بھی بدل دیے ہیں اور ستیوں کا قبرستان
اب مقامی عورتوں کے لیے منتیں مانگنے کی درگاہ بنتی جا رہی ہے۔کئی سادہ لوح عورتیں اپنی دنیاداری کے
مسائل لے کر قبرستان پہنچ جاتی ہیں۔
ایک سیاح کے مطابق قبرستان میں ایسی عورتوں کا بڑھتا ہوا رش دیکھ کر لگتا ہے
یہاں ماضی کے حکمراں نہیں بلکہ کوئی درویش دفن ہے۔
عام لوگوں کے ان مفروضات کو محکمہ آثار قدیمہ کی عدم دلچسپی نے بھی تقویت پہنچائی ہے۔
ستیوں کا یہ قبرستان پاکستان کے آثار قدیمہ کی فہرست میں قریباً تیس سال قبل شامل کیا گیا
مگر ابھی تک یہاں آپ کو کوئی تعارفی بورڈ تک نظر نہیں آئے گا جو ان آثار کے بارے میں وصاحت کرتا ہو۔
محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے مقرر ایک چوکیدار امداد جتوئی سیاحوں کے لیے وقت کی ضرورت کے ساتھ گائیڈ بھی
بن جاتے ہیں اور وہ اپنی’ادھوری معلومات‘ کی بناء پر ان مفروضات میں اضافہ کردیتے ہیں جن سے یہ قبرستان اب
تک پیچھا نہیں چھڑوا سکا ہے۔
پاکستان میں آثار قدیمہ وفاقی محکمہ ہے جسے شمالی اور جنوبی سرکلز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
سندھ اور بلوچستان کے آثار قدیمہ جنوبی سرکل میں شامل ہیں
جبکہ سرحد اور پنجاب کے قدیم آثار شمالی سرکل کاحصہ ہیں۔
آثار قدیمہ جنوبی سرکل کے ڈائریکٹر قاسم علی قاسمی نے کراچی سے فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ
ان کا محکمہ مغل حکمرانوں کے شاہی قبرستان کے قریب سیاحوں کے لیے رہائشی کمرے بنانا چاہتا ہے
اور مرمت کا کام بھی کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ’ اس سلسلے میں منصوبہ بندی مکمل ہو چکی ہے اور
ہم نے وزارت میں کاغذات جمع کروا دیے ہیں۔جیسے ہی فنڈز مہیا ہوں گے قبرستان کی مرمت شروع کی جائے گی‘۔
انہوں نے کہا کہ قبرستان کے باہر تعارفی بورڈ بھی اسلام آباد کی منظوری کے بعد لگا یا جائے گا۔
ستیوں کا قبرستان قدیم زمانے سے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز رہا ہے اور برطانوی سیاح رچرڈ برٹن نے بھی سندھ کی سیر
کے حوالے سے اپنی کتاب میں ستیوں کے قبرستان کا تذکرہ کیا ہے جس میں بھی ان عوامی مفروضات کا ذکر ملتا ہے
جو اس قبرستان کی ابھی تک عام پہچان بنے ہوئے ہیں۔
قاسم علی قاسمی کا کہنا ہے کہ ستیوں کے قبرستان کا ایک عوامی تعارف تاریخی حقیقت کے برعکس بنا ہوا ہے
ہم اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اس قبرستان کی تمام قبروں کے اوپر لگے کتبوں پر فاسی میں ان کے نام
بشمول عہدہ درج ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سکھر کا یہ قبرستان کراچی میں چوکنڈی قبرستان سے مماثلت رکھتا ہے۔
آثار قدیمہ کے محققین کا کہنا ہے کہ ستیوں کا قبرستان سیاحوں اور عام لوگوں کی نظروں
میں اس وقت تک ستیوں کا ڈیرہ ہی رہے گا
جب تک ان آثاروں کی حقیقت کتابوں سے نکال کر عام سیاحوں تک نہیں پہنچائی جاتی۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نوٹ ۔۔۔ ۔۔برطانوی سیاح رچرڈ برٹن نے جو اس قبرستان کو عوامی طورپر منسوب روایات کا حامل قرار دیا ۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ
ان قبور پر لگے " کتبوں " کی تحریروں سے انجان تھا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔؟