سندھ: توہین رسالت قیدی جیل میں ’ذبح‘

طالوت

محفلین
ووضعنا عنك وزرك الذي انقض ظهرك (سورۃ الانشراح آیت 2-3(
ترجمہ: اور تم پر سے بوجھ بھی اتار دیا جس نے تمہاری پیٹھ توڑ رکھی تھی
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس آیت کریمہ کے بعد آپ پر وحی کا سلسلہ بند ہو گیا ہو گا ۔ ؟ جب کہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا ۔ یا “پھر یہ سمجھا جائے کہ اس آیت کے اترنے تک آپ پر یہ بڑا گراں عمل تھا مگر اس کے بعد وحی کا نزول آسان ہو گیا ؟
وسلام
 

کعنان

محفلین
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس آیت کریمہ کے بعد آپ پر وحی کا سلسلہ بند ہو گیا ہو گا ۔ ؟ جب کہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا ۔ یا “پھر یہ سمجھا جائے کہ اس آیت کے اترنے تک آپ پر یہ بڑا گراں عمل تھا مگر اس کے بعد وحی کا نزول آسان ہو گیا ؟
وسلام


السلام علیکم

ہر والدین کی ذمہ داری ہوتی ھے اگر وہ مسلمان ہیں تو اپنی اولاد کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی دلوائیں تاکہ ان کو دنیا میں کسی کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے

طلوع السلام ، تمنہ عمادہ ، غامدی کے رسالے پڑھنے والے ایسے ہی دنیا میں اوندے منہ گرتے ہیں

والسلام




بسم اللہ الرحمن الرحیم


أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لئے) کشادہ نہیں فرما دیا

94:1


وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ
اور ہم نے آپ کا (غمِ امت کا وہ) بار آپ سے اتار دیا

94:2


الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ
جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھا

94:3


وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا

94:4
 

کعنان

محفلین
" ورقہ بن نوفل نے رسول اللہ کو بتایا کہ آپ تو نبی بن گئے ہیں اور وہ فرشتہ جبریل تھا "
آپ کے لکھے ہوئے الفاظ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ورقہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ہونے کی خبر دی اور بتایا کہ وہ فرشتہ جبریل تھا



السلام علیکم !

صحیح بخاری - کتاب الوحی

(1) باب: كيف كان بدء الوحى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم

حدیث رقم 3

حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة أم المؤمنين، أنها قالت

{ أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحى الرؤيا الصالحة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، ثم حبب إليه الخلاء، وكان يخلو بغار حراء فيتحنث فيه ۔ وهو التعبد ۔ الليالي ذوات العدد قبل أن ينزع إلى أهله، ويتزود لذلك، ثم يرجع إلى خديجة، فيتزود لمثلها، حتى جاءه الحق وهو في غار حراء، فجاءه الملك فقال اقرأ‏.‏ قال ‏"‏ ما أنا بقارئ ‏"‏‏.‏ قال ‏"‏ فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد، ثم أرسلني فقال اقرأ‏.‏ قلت ما أنا بقارئ‏.‏ فأخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد، ثم أرسلني فقال اقرأ‏.‏ فقلت ما أنا بقارئ‏.‏ فأخذني فغطني الثالثة، ثم أرسلني فقال ‏{‏اقرأ باسم ربك الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربك الأكرم‏}‏ ‏"‏‏.‏ فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم يرجف فؤاده، فدخل على خديجة بنت خويلد رضى الله عنها فقال ‏"‏ زملوني زملوني ‏"‏‏.‏ فزملوه حتى ذهب عنه الروع، فقال لخديجة وأخبرها الخبر ‏"‏ لقد خشيت على نفسي ‏"‏‏.‏ فقالت خديجة كلا والله ما يخزيك الله أبدا، إنك لتصل الرحم، وتحمل الكل، وتكسب المعدوم، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق‏.‏ فانطلقت به خديجة حتى أتت به ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزى ابن عم خديجة ۔ وكان امرأ تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العبراني، فيكتب من الإنجيل بالعبرانية ما شاء الله أن يكتب، وكان شيخا كبيرا قد عمي ۔ فقالت له خديجة يا ابن عم اسمع من ابن أخيك‏.‏ فقال له ورقة يا ابن أخي ماذا ترى فأخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم خبر ما رأى‏.‏ فقال له ورقة هذا الناموس الذي نزل الله على موسى صلى الله عليه وسلم يا ليتني فيها جذعا، ليتني أكون حيا إذ يخرجك قومك‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أومخرجي هم ‏"‏‏.‏ قال نعم، لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك أنصرك نصرا مؤزرا‏.‏ ثم لم ينشب ورقة أن توفي وفتر الوحى‏ }


باب نمبر (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا کیسے ہوئی

حدیث نمبر (3)

ہم کو یحییٰ بن بکیر نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی ہم کو لیث نے خبر دی، لیث عقیل سے روایت کرتے ہیں۔ عقیل ابن شہاب سے، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ حضرت عائشہ ام المومنیں رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بتلایا کہ

{ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں جو کچھہ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا۔

پھر من جانب قدرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہائی پسند ہوگئے

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی

اور کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادت اور یاد الہٰی وذکر وفکر میں مشغول رہتے

جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ ہمراہ لیے ہوئے وہاں رہتے ۔

توشہ ختم ہونے پر ہی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لاتے

اور کچھہ توشہ ہمراہ لے کر پھر وہاں جا کر خلوت گزیں ہو جاتے،

یہی طریقہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حق منکشف ہو گیا

اور آپ صل اللہ علیہ وسلم غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے

کہ اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے

اور کہنے لگے کہ

اے محمد! پڑھو

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

کہ میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا

کہ میری طاقت جواب دے گئی ،

پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو،

میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔

اس فرشتے نے مجھہ کو نہایت ہی زور سے بھینچا

کہ مجھہ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی،

پھر اس نے کہا کہ پڑھ !

میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔

فرشتے نے تیسری بار مجھہ کو پکڑا

اور تیسری مرتبہ پھر مجھہ کو بھینچا

پھر مجھے چھوڑ دیا

اور کہنے لگا کہ پڑھو

اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا

اور انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا ،

پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے۔

پس یہی آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے

کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا۔

آپ حضرت خدیجہ کے ہاں تشریف لائے

اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو،

مجھے کمبل اڑھا دو۔

لوگوں نے آپ کو کمبل اڑھا دیا ۔

جب آپ کا ڈر جاتا رہا ۔

تو آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تفصیل کے ساتھہ یہ واقعہ سنایا

اور فرمانے لگے کہ مجھہ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔

آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے

آپ کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپ کا خیال صحیح نہیں ہے ۔

اللہ کی قسم، آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا۔

آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں،

آپ تو کنبہ پرور ہیں،

بے کسوں کا بوجھہ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں،

مفلسوں کے لئے آپ کماتے ہیں،

مہمان نوازی میں آپ بے مثال ہیں

اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھہ دیتے ہیں۔

ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔

پھر مذید تسلی کے لئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ،

جو ان کے چچا زاد بھائی تھے

اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے

اور عبرانی زبان کے کاتب تھے،

چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبانی میں لکھا کرتے تھے۔

( انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی

پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا۔

ورقہ اسی کو لکھتے تھے) وہ بہت بوڑھے ہوگئے تھے

یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپ کے حالات بیان کئے

اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی!

اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجئے۔

وہ بولے کہ بھتیجے آپ نے جو کچھہ دیکھا ہے،

اس کی تفصیل سناﺅ۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازاول تا آخر پورا واقعہ سنایا،

جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے

کہ یہ تو وہی ناموس (معزز راز دان فرشتہ) ہے

جسے اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔

کاش، میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔

کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا

جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا


کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟

(حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں)

ورقہ بولے ہاں یہ سب کچھہ سچ ہے۔

مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا

لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں۔


اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے

تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔

مگر ورقہ کچھہ دنوں کے بعد انتقال کر گئے۔

پھر کچھہ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی۔ }


(صحیح بخاری)


--------------------------------------
--------------------------------------



صحیح بخاری - کتاب الوحی

(1) باب: كيف كان بدء الوحى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم

حدیث رقم 7

حدثنا أبو اليمان الحكم بن نافع، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، أن عبد الله بن عباس، أخبره أن أبا سفيان بن حرب أخبره { أن هرقل أرسل إليه في ركب من قريش ۔ وكانوا تجارا بالشأم ۔ في المدة التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ماد فيها أبا سفيان وكفار قريش، فأتوه وهم بإيلياء فدعاهم في مجلسه، وحوله عظماء الروم ثم دعاهم ودعا بترجمانه فقال أيكم أقرب نسبا بهذا الرجل الذي يزعم أنه نبي فقال أبو سفيان فقلت أنا أقربهم نسبا‏.‏ فقال أدنوه مني، وقربوا أصحابه، فاجعلوهم عند ظهره‏.‏ ثم قال لترجمانه قل لهم إني سائل هذا عن هذا الرجل، فإن كذبني فكذبوه‏.‏ فوالله لولا الحياء من أن يأثروا على كذبا لكذبت عنه، ثم كان أول ما سألني عنه أن قال كيف نسبه فيكم قلت هو فينا ذو نسب‏.‏ قال فهل قال هذا القول منكم أحد قط قبله قلت لا‏.‏ قال فهل كان من آبائه من ملك قلت لا‏.‏ قال فأشراف الناس يتبعونه أم ضعفاؤهم فقلت بل ضعفاؤهم‏.‏ قال أيزيدون أم ينقصون قلت بل يزيدون‏.‏ قال فهل يرتد أحد منهم سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه قلت لا‏.‏ قال فهل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال قلت لا‏.‏ قال فهل يغدر قلت لا، ونحن منه في مدة لا ندري ما هو فاعل فيها‏.‏ قال ولم تمكني كلمة أدخل فيها شيئا غير هذه الكلمة‏.‏ قال فهل قاتلتموه قلت نعم‏.‏ قال فكيف كان قتالكم إياه قلت الحرب بيننا وبينه سجال، ينال منا وننال منه‏.‏ قال ماذا يأمركم قلت يقول اعبدوا الله وحده، ولا تشركوا به شيئا، واتركوا ما يقول آباؤكم، ويأمرنا بالصلاة والصدق والعفاف والصلة‏.‏ فقال للترجمان قل له سألتك عن نسبه، فذكرت أنه فيكم ذو نسب، فكذلك الرسل تبعث في نسب قومها، وسألتك هل قال أحد منكم هذا القول فذكرت أن لا، فقلت لو كان أحد قال هذا القول قبله لقلت رجل يأتسي بقول قيل قبله، وسألتك هل كان من آبائه من ملك فذكرت أن لا، قلت فلو كان من آبائه من ملك قلت رجل يطلب ملك أبيه، وسألتك هل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال فذكرت أن لا، فقد أعرف أنه لم يكن ليذر الكذب على الناس ويكذب على الله، وسألتك أشراف الناس اتبعوه أم ضعفاؤهم فذكرت أن ضعفاءهم اتبعوه، وهم أتباع الرسل، وسألتك أيزيدون أم ينقصون فذكرت أنهم يزيدون، وكذلك أمر الإيمان حتى يتم، وسألتك أيرتد أحد سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه فذكرت أن لا، وكذلك الإيمان حين تخالط بشاشته القلوب، وسألتك هل يغدر فذكرت أن لا، وكذلك الرسل لا تغدر، وسألتك بما يأمركم، فذكرت أنه يأمركم أن تعبدوا الله، ولا تشركوا به شيئا، وينهاكم عن عبادة الأوثان، ويأمركم بالصلاة والصدق والعفاف‏.‏ فإن كان ما تقول حقا فسيملك موضع قدمى هاتين، وقد كنت أعلم أنه خارج، لم أكن أظن أنه منكم، فلو أني أعلم أني أخلص إليه لتجشمت لقاءه، ولو كنت عنده لغسلت عن قدمه‏.‏ ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي بعث به دحية إلى عظيم بصرى، فدفعه إلى هرقل فقرأه فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم‏.‏ من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم‏.‏ سلام على من اتبع الهدى، أما بعد فإني أدعوك بدعاية الإسلام، أسلم تسلم، يؤتك الله أجرك مرتين، فإن توليت فإن عليك إثم الأريسيين و‏{‏يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أن لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون‏}‏ قال أبو سفيان فلما قال ما قال، وفرغ من قراءة الكتاب كثر عنده الصخب، وارتفعت الأصوات وأخرجنا، فقلت لأصحابي حين أخرجنا لقد أمر أمر ابن أبي كبشة، إنه يخافه ملك بني الأصفر‏.‏ فما زلت موقنا أنه سيظهر حتى أدخل الله على الإسلام‏.‏ وكان ابن الناظور صاحب إيلياء وهرقل سقفا على نصارى الشأم، يحدث أن هرقل حين قدم إيلياء أصبح يوما خبيث النفس، فقال بعض بطارقته قد استنكرنا هيئتك‏.‏ قال ابن الناظور وكان هرقل حزاء ينظر في النجوم، فقال لهم حين سألوه إني رأيت الليلة حين نظرت في النجوم ملك الختان قد ظهر، فمن يختتن من هذه الأمة قالوا ليس يختتن إلا اليهود فلا يهمنك شأنهم واكتب إلى مداين ملكك، فيقتلوا من فيهم من اليهود‏.‏ فبينما هم على أمرهم أتي هرقل برجل أرسل به ملك غسان، يخبر عن خبر رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما استخبره هرقل قال اذهبوا فانظروا أمختتن هو أم لا‏.‏ فنظروا إليه، فحدثوه أنه مختتن، وسأله عن العرب فقال هم يختتنون‏.‏ فقال هرقل هذا ملك هذه الأمة قد ظهر‏.‏ ثم كتب هرقل إلى صاحب له برومية، وكان نظيره في العلم، وسار هرقل إلى حمص، فلم يرم حمص حتى أتاه كتاب من صاحبه يوافق رأى هرقل على خروج النبي صلى الله عليه وسلم وأنه نبي، فأذن هرقل لعظماء الروم في دسكرة له بحمص ثم أمر بأبوابها فغلقت، ثم اطلع فقال يا معشر الروم، هل لكم في الفلاح والرشد وأن يثبت ملككم فتبايعوا هذا النبي، فحاصوا حيصة حمر الوحش إلى الأبواب، فوجدوها قد غلقت، فلما رأى هرقل نفرتهم، وأيس من الإيمان قال ردوهم على‏.‏ وقال إني قلت مقالتي آنفا أختبر بها شدتكم على دينكم، فقد رأيت‏.‏ فسجدوا له ورضوا عنه، فكان ذلك آخر شأن هرقل‏ }‏‏
رواه صالح بن كيسان ويونس ومعمر عن الزهري‏



باب نمبر (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا کیسے ہوئی

حدیث نمبر (7)

ہم کو ابوالیمان حکم بن نافع نے حدیث بیان کی، انہیں اس حدیث کی شعیب نے خبر دی، انہوں نے زہری سے یہ حدیث سنی، انہیں عبیداللہ ابن عبداللہ ابن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس سے ابو سفیان بن حرب نے یہ واقعہ بیان کیا کہ

{ ہر قل (شاہ روم) نے ان کے پاس قریش کے قافلے میں ایک آدمی بلانے کو بھیجا اور اس وقت یہ لوگ تجارت کے لئے ملک شام گئے ہوئے تھے یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور ابو سفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا ۔ جب ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیا پہنچے جہاں ہرقل نے دربار طلب کیا تھا۔ اس کے گرد روم کے بڑے بڑے لوگ (علماء ، وزرا ء، امراء) بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کواور اپنے ترجمان کو بلوایا ۔ }

پھر (ہرقل نے) ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟

ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں۔

(یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو (ابوسفیان کو) میرے قریب لا کر بٹھاﺅ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھہ کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے حالات پوچھتا ہوں۔ اگر یہ مجھہ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا۔

(ابوسفیان کا قول ہے کہ) خدا کی قسم! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھہ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا ۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھہ سے پوچھی وہ یہ کہ

(ہرقل نے پوچھا) اس شخص کا خاندان تم لوگوں میں کیسا ہے؟

میں نے کہا وہ تو بڑے اونچے عالی نسب والے ہیں۔

کہنے لگا اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی؟

میں نے کہا نہیں

کہنے لگا، اچھا اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟

میں نے کہا نہیں

پھر اس نے کہا ، بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے؟

میں نے کہا نہیں کمزوروں نے۔

پھر کہنے لگا، اس کے تابعدار روز بڑھتے جاتے ہیں یا کوئی ساتھی پھر بھی جاتا ہے؟

میں نے کہا نہیں۔

کہنے لگا کیا اپنے اس دعوائے (نبوت) سے پہلے کبھی(کسی بھی موقع پر) اس نے جھوٹ بولا ہے؟

میں نے کہا نہیں۔
اور اب ہماری اس سے (صلح کی) ایک مقررہ مدت ٹھہری ہوئی ہے معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ (ابوسفیان کہتے ہیں) میں اس بات کے سوا اور کوئی (جھوٹ) اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا۔


ہر قل نے کہا ۔ کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی بھی ہوتی ہے؟

ہم نے کہا ہاں۔

بولا پھر تمہاری اور اس کی جنگ کا کیا حال ہوتا ہے؟

میں نے کہا، لڑائی ڈول کی طرح ہے۔ کبھی وہ ہم سے (میدان جنگ) جیت لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے جیت لیت ہیں۔

ہرقل نے پوچھا ، وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟

میں نے کہا، وہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کا کسی کو شریک نہ بناﺅ اور اپنے باپ دادا کی (شرک کی) باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے ، سچ بولنے، پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔

(یہ سب سن کر ) پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ابو سفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے کہا

کہ وہ ہم میں عالی نسب ہے

اور پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی بھیجے جایا کرتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ (دعوی نبوت کی) یہ بات تمہارے اندر اس سے پہلے کسی اور نے بھی کہی تھی، تو

تم نے جواب دیا کہ نہیں،

تب میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی تو میں سمجھتا کہ اس شخص نے بھی اسی بات کی تقلید کی ہے جو پہلے کی جا چکی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گذرا ہے،

تم نے کہا کہ نہیں۔

تو میں نے (دل میں کہا)کہ ان کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو کہہ دوں گا کہ وہ شخص (اس بہانہ) اپنے آباءواجداد کی بادشاہت اور ان کا ملک (دوبارہ) حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے (یعنی پیغمبری کا دعوی کرنے) سے پہلے تم نے کبھی اس کو دروغ گوئی کا الزام لگایا ہے؟

تم نے کہا کہ نہیں ۔

تو میں نے سمجھہ لیا کہ جو شخص آدمیوں کے ساتھہ دروغ گوئی سے بچے وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے لوگ اس کے پیرو ہوتے ہیں یا کمزور آدمی۔

تم نے کہا کمزوروں نے اس کی اتباع کی ہے،

تو (دراصل) یہی لوگ پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں۔

تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں

اور ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے۔ حتی کہ وہ کامل ہوجاتا ہے۔ اور میںنے تم سے پوچھا کہ آیا کوئی شخص اس کے دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہوجاتا ہے۔

تم نے کہا نہیں،

تو ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے جن کے دلوں میں اس کی مسرت رچ بس جائے وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ کبھی عہد شکنی کرتے ہیں۔

تم نے کہا نہیں

پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے، وہ عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے کہا کہ وہ تم سے کس چیز کے لئے کہتے ہیں تم نے کہا کہ

وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھہ کسی کو شریک نہ ٹھہراﺅ اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتے ہیں۔ سچ بولنے اور پرہیز گاری کا حکم دیتے ہیں۔

لہذا اگر یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا کہ جہاں میرے یہ دونوں پاﺅں ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ (پیغمبر) آنے والا ہے مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہوگا۔ اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لئے ہر تکلیف گوارا کرتا ۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاﺅں دھوتا۔

ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط منگایا جو آپ نے وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حاکم بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور اس نے وہ ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا۔ پھر اس کو پڑھا تو اس میں (لکھا تھا):

اللہ کے نام کے ساتھہ جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے۔ اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خط ہے شاہ روم کے لئے۔

اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے ۔ اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوت اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (دین و دنیا میں) سلامتی نصیب ہوگی۔ اللہ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ (میری دعوت سے) روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ پر ہی ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آجاﺅ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب (اس بات سے) منہ پھیر لیں تو (مسلمانو!) تم ان سے کہہ دو کہ (تم مانو یا نہ مانو) ہم تو ایک خدا کے اطاعت گذار ہیں۔

ابوسفیان کہتے ہیں: جب ہرقل نے جو کچھہ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا۔ تو اس کے ارد گرد بہت شور و غوغا ہوا۔ بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابو کبشہ کے بیٹے (آنخصرت صلی اللہ علیہ وسلم) کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا ۔ (دیکھو تو) اس سے بنی اصفر (روم) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ مجھے اس وقت سے اس بات کا یقین ہو گیا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے حتی کہ اللہ نے مجھے مسلمان کر دیا۔

(راوی کا بیان ہے کہ) ابن ناطور ایلیاء کا حاکم ہرقل کا مصاحب اور شام کے نصاریٰ کا لاٹ پادری بیان کرتا تھا کہ

ہرقل جب ایلیاءآیا، ایک دن صبح کو پریشان اٹھا تو اس کے درباریوں نے دریافت کیا کہ آج ہم آپ کی حالت بدلی ہوئی پاتے ہیں (کیا وجہ ہے؟) ابن ناطور کا بیان ہے کہ ہرقل نجومی تھا، علم نجوم میں وہ پوری مہارت رکھتا تھا۔ اس نے اپنے ہم نشینوں کو بتایا کہ میں نے آج رات ستاروں پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ہمارے ملک پر غالب آگیا ہے۔ (بھلا) اس زمانہ میں کون لوگ ختنہ کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی ختنہ نہیں کرتا ۔ سو ان کی وجہ سے پریشان نہ ہوں ۔ سلطنت کے تمام شہروں میں یہ حکم لکھہ بھجیے کہ وہاں جتنے یہودی ہوں سب قتل کر دئیے جائیں وہ لوگ انہی باتوں میں مشغول تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا۔ جسے شاہ غسان نے بھیجا تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کئے۔ جب ہرقل نے (سارے حالات) سن لئے تو کہا کہ جا کر دیکھو وہ ختنہ کئے ہوئے ہے یا نہیں؟ انہوں نے اسے دیکھا تو بتلایا کہ وہ ختنہ کیا ہوا ہے۔ ہرقل نے جب اس شخص سے عرب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتلایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔ تب ہرقل نے کہا کہ یہ ہی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اس امت کے بادشاہ ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو رومیہ خط لکھا اور وہ بھی علم نجوم میں ہرقل کی طرح ماہر تھا۔ پھر وہاں سے ہرقل حمص چلا گیا۔ ابھی حمص سے نکلا نہیں تھا کہ اس کے دوست کا خط (اس کے جواب میں) آگیا۔ اس کے رائے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کے موافق تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (واقعی) پیغمبر ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے روم کے بڑے آدمیوں کو اپنے حمص کے محل میں طلب کیا او ر اس کے حکم سے محل کے دروازے بند کر لئے گئے۔ پھر وہ (اپنے خاص محل سے) باہر آیا۔ اور کہا ”اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھہ حصہ تمہارے لیے بھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقا چاہتے ہو تو پھر اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لو اور مسلمان ہو جاﺅ“ (یہ سننا تھا کہ) پھر وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے (مگر) انہیں بند پایا۔ آخر جب ہر قل نے (اس بات سے) ان کی یہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا ۔ تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاﺅ۔ (جب وہ دوبارہ آئے) تو اس نے کہا ۔ میں نے جو بات کہی تھی اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی سو وہ میں نے دیکھہ لی۔ تب (یہ بات سن کر) وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہو گئے۔ بالآخر ہرقل کی آخری حالت یہ ہی رہی۔

ابو عبداللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صالح بن کیسان ، یونس اور معمر نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔
(صحیح بخاری)
 

طالوت

محفلین
السلام علیکم
ہر والدین کی ذمہ داری ہوتی ھے اگر وہ مسلمان ہیں تو اپنی اولاد کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی دلوائیں تاکہ ان کو دنیا میں کسی کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے
طلوع السلام ، تمنہ عمادہ ، غامدی کے رسالے پڑھنے والے ایسے ہی دنیا میں اوندے منہ گرتے ہیں
والسلام

بسم اللہ الرحمن الرحیم
أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لئے) کشادہ نہیں فرما دیا

94:1
وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ
اور ہم نے آپ کا (غمِ امت کا وہ) بار آپ سے اتار دیا

94:2
الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ
جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھا

94:3
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا

94:4
آپ کی اخلاقی حالت تو پہلے بھی مشتبہ تھی مگر میرے والدین کے بارے میں ایسا تبصرہ کر کے آپ نے اسے یقین کے درجے تک پہنچا دیا ہے ۔ الحمد للہ مجھے فخر اپنے والدین پر کہ انھوں نے اپنی بساط کے مطابق اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دی ہیں ۔ اگر انھوں نے اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی کی ہوتی تو میں بھی جواباً اسی طرح بجائے موضوع پر گفتگو کے آپ کے نسب نامے پر اور آپ کے تربیت کرنے والوں پر انگلیاں اٹھا رہا ہوتا۔ مجھے آپ پر ترس آ رہا ہے یہ بھی ان کی بہترین تربیت کا نتیجہ ہے۔

اب ذرا بات کریں آپ کی ان دو علمی مراسلوں پر ۔ کاپی پیسٹ کرنا اور کسی بات کو سمجھ کر اس پر تبصرہ کرنا سیکھئے ۔ مثال باسم کی صورت میں موجود ہے ۔ باسم کی تحریر اور پھر اس کے بعد آیت سے جو مطلب نکلتا تھا میں نے اس تناظر میں سوال کیا یعنی اس آیت کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ دوران وحی رسول اللہ کو کسی قسم کی سخت صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ اور دوسرے مراسلے میں جو آپ نے بخاری کی حدیث لکھ کر تیر مارا ہے ذرا اس کی بھی وضاحت فرما دیں کیونکہ یہ حدیث باسم پیش کر چکے اور اسی پر گفتگو چل رہی تھی ۔
 

کعنان

محفلین
آپ کی اخلاقی حالت تو پہلے بھی مشتبہ تھی مگر میرے والدین کے بارے میں ایسا تبصرہ کر کے آپ نے اسے یقین کے درجے تک پہنچا دیا ہے ۔ الحمد للہ مجھے فخر اپنے والدین پر کہ انھوں نے اپنی بساط کے مطابق اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دی ہیں ۔ اگر انھوں نے اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی کی ہوتی تو میں بھی جواباً اسی طرح بجائے موضوع پر گفتگو کے آپ کے نسب نامے پر اور آپ کے تربیت کرنے والوں پر انگلیاں اٹھا رہا ہوتا۔ مجھے آپ پر ترس آ رہا ہے یہ بھی ان کی بہترین تربیت کا نتیجہ ہے۔

اب ذرا بات کریں آپ کی ان دو علمی مراسلوں پر ۔ کاپی پیسٹ کرنا اور کسی بات کو سمجھ کر اس پر تبصرہ کرنا سیکھئے ۔ مثال باسم کی صورت میں موجود ہے ۔ باسم کی تحریر اور پھر اس کے بعد آیت سے جو مطلب نکلتا تھا میں نے اس تناظر میں سوال کیا یعنی اس آیت کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ دوران وحی رسول اللہ کو کسی قسم کی سخت صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ اور دوسرے مراسلے میں جو آپ نے بخاری کی حدیث لکھ کر تیر مارا ہے ذرا اس کی بھی وضاحت فرما دیں کیونکہ یہ حدیث باسم پیش کر چکے اور اسی پر گفتگو چل رہی تھی ۔

السلام علیکم جناب طالوت

اس کے لیے انگلیاں بھی چلا لیں تو پتہ لکھے ہوئے سے ہی چل جاتا ھے انگلیاں چلانے سے نہیں ، سامنے دشمن بھی ہو تو اس کو سلام ضرور کیا جاتا ھے اور اس کی آپ کو توفیق ہی نہیں

جب یہ ثابت ہو گیا کہ آپ تعلق پرویزی، تمنا عمادی اور غامدی جیسے پیشوا کے ساتھ ھے تو پھر آپ کو سمجھانے کی کوئی ضروت نہیں۔
باسم بھائی نے جو جواب لکھا تھا اس میں کیا تھا اور مجھے وہ حدیث کیوں پیش کرنی پڑی وہ ہر صاحب علم اچھی طرح جان سکتا ھے
اور سمجھایا اس کو جاتا ھے جس کو سمجھ ہو آپ تو اس سے آزاد ہیں کیونکہ آپ جیسوں کے پاس جواب ایک ہی ہوتا ھے " میں نہیں مانتا " تو پھر سمجھ کے کیا کرنا ھے آپ کو
جنہوں نے سمجھنا تھا وہ سمجھ گئے ہیں ان کو سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
 

کعنان

محفلین
انشا ء اللہ تم دیکھو گے کہ ایسا کوئی بھی مجرم جس نے اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی.یا بہتان باندھے، طبعی موت نہیں مرے گا . خدا کا قہر بن کر یا تو ہم اس پر ٹوٹیں گے یا اللہ خود انہیں عبرت بنا دے گا.

الحمد للہ وہ عبرت ناک موت ہی مرتے ہیں کچھ اسی وقت اور کچھ کچھ دیر کے بعد لیکن مرتے عبرت ناک ہی ہیں
 

کعنان

محفلین
یوسف کذاب اور اس کے خلیفہ کی حقیقت

اب صرف تماشہ دیکھوں گا ۔۔۔
وسلام



-----------------------------------------------
کیا پہلے سب آپ کا تماشہ دیکھ رہے تھے
-----------------------------------------------




یوسف کذاب اور اس کے خلیفہ کی حقیقت​

گزشتہ دنوں ایک شخص زید حامد کے بارے میں جسارت میں مضامین شائع ہوئے‘ جن پر ہمارے کچھ قارئین بالخصوص خواتین کے طبقے نے اعتراضات کیے۔ اعتراضات کرنے والوں میں ایسے بھی تھے جن کی دینی فہم اور اسلام سے محبت مستحکم ہے، لیکن لاعلمی کی بنیاد پر اعتراضات وارد کیے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ زید حامد کا سحر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر بہت اچھی گفتگو کرتے ہیں‘ ایسی گفتگو کہ دین دار طبقہ کہہ اٹھے کہ یہ تو اس کے دل کی آواز ہے۔ زبان کا ایسا ہی کمال ”جاہل آن لائن“ میں بھی نظر آتا ہے۔ خطابت کے زور پر ذہنوں کو مسحور کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ بھلا ہو ڈاکٹر فیاض عالم کا‘ جنہوں نے انکشاف کیا کہ زید حامد جھوٹے نبی یوسف کذاب کے خلیفہ تھے۔ لیکن شاید جسارت کے کئی قارئین نے اس پر توجہ نہیں دی۔

یوسف کذاب کا دعویٰ نبوت اور اس کا انجام زیادہ پرانی بات نہیں۔ اسے لاہور کی عدالت نے سزائے موت دی تھی اور زید حامد نے نہ صرف فیصلے کی مخالفت کی بلکہ اس کی ضمانت کی کوشش بھی کرتے رہے‘ مگر اسے کسی غیرت مند نے جیل میں ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ زید حامد نے جھوٹے نبی کی اطاعت سے توبہ کا اعلان نہیں کیا۔ وہ توبہ کرلیں تو ہمارے سر آنکھوں پر، لیکن تب تک اُن سے متاثر ہونے والے ان کا پس منظر اپنے ذہن میں رکھیں۔ یوسف کذاب کون تھا،

یادداشت تازہ کرنے کے لیے اس پر چلنے والے مقدمے کی تھوڑی سی روداد بیان کرنا مناسب ہوگا تاکہ زید حامد کا پس منظر بھی تھوڑا سا سامنے آجائے۔ سیشن جج لاہور کی عدالت میں چلنے والے اس اہم مقدمے کی پوری تفصیل ایک کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے جس کا عنوان ہے:
''Judgment of yousuf kazzab blasphemy case''
اسے جناب ارشد قریشی نے مرتب کیا ہے اور اس کاپیش لفظ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ محمد اسماعیل قریشی نے لکھا ہے۔

قریشی صاحب ہی نے یوسف کذاب کے خلاف مقدمہ کی پیروی کی تھی جس کے نتیجے میں 5 اگست 2000ءکو جج میاں محمد جہانگیر نے مجرم کذاب کو موت کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کو انہی زید حامد نے انصاف کا قتل قرار دیا۔ ان کے خیال میں توہینِ رسالت کا مرتکب اور خود نبوت کا دعویدار، اپنے دور کا کذاب ِعظیم ایک معزز صوفی اسکالر تھا۔

اب بھی وقت ہے کہ زید حامد یوسف کذاب سے برات کا اعلان کریں، جس نے بے شمار لوگوں کو اپنی خطابت کے سحر سے گمراہ کیا۔

اب آپ محمد اسماعیل قریشی کے قلم سے مقدمہ کی مختصر سی روداد اور تبصرہ ملاحظہ کریں۔ اللہ ہم سب کو دجالوں اور ابو جہل کے پیروکاروں سے محفوظ رکھے:

..٭٭.. میں فاضل سیشن جج لاہور میاں محمد جہانگیر کے تفصیلی فیصلے مجریہ 5 اگست 2000ءپر تبصرہ کرتے ہوئے جھجک رہا تھا جس میں فاضل جج نے یوسف علی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے جرم میں موت کی سزا دی ہے

جب اس نے مدینہ منورہ سے اپنی واپسی پر نبوت کی آخری اور حتمی منزل طے کرلینے کا دعویٰ کیا تھا۔ مجرم کو سزائے موت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر دھوکا اور جعلسازی کے گھناﺅنے جرم کے ارتکاب کی سزا بھی دی گئی ہے۔

اس کو بلند مرتبت اہلِ بیت (علیہ السلام) اور صحابہ کرامؓ کا تقدس مجروح کرنے کی سزا بھی دی گئی۔

دوسرے یہ کہ میں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے اس لیے بھی گریز کیا کہ میں اس فیصلے کا حصہ ہوں اور میری کتاب ”ناموسِ رسالت اور قانون توہین ِ رسالت“ کا حوالہ مجرم نے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کے سامنے بار بار دیا۔

دریں اثناءمجرم کے ایک نام نہاد صحابی زید حامد نے ڈان شمارہ 13 اگست 2000ءمیں فیصلے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور شر انگیزی کی اس پست ترین سطح تک گرگئے کہ اس فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دے دیا اور مجرم کو ایک مہربان اور اسلام کے معزز صوفی اسکالر کے طور پر پیش کیا ہے۔

فیصلے کے بارے میں تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کے بارے میں تبصرہ نگار کا علم کس قدر سطحی ہے۔ ان کے بیان کردہ حقائق سچائی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ اسی طرح ڈیلی نیوز لاہور میں اسی دن شائع ہونے والے مجرم کے بیان میں بھی مقدمے کے اصل متن کو مسخ کیا گیا ہے۔ اس گمراہ کن مہم نے مجرم کے ایک سابق قریبی ساتھی اور اسکالر جناب ارشد قریشی کو جو قادریہ صوفی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں‘ فاضل سیشن جج کا مقدمہ کتابی شکل میں شائع کرنے پر مجبور کردیا تاکہ عوام مجرم کا اصلی روپ اس تاریخی مقدمے کی روشنی میں دیکھ سکیں۔

انہوں نے مجھ سے اپنی اس زیرِ طبع کتاب کے لیے پیش لفظ لکھنے کی درخواست کی۔ اس کتاب کے مولف ایک اور کتاب ”فتنہ یوسف کذاب“ کے مصنف بھی ہیں جو تین جلدوں میں ہے۔

نہ صرف مقدمے کی سماعت کرنے والے فاضل جج بلکہ خود میرے اور ممتاز وکلا سردار احمد خان، ایم اقبال چیمہ، غلام مصطفی چوہدری، یعقوب علی قریشی اور میاںصابر نشتر ایڈووکیٹ پر مشتمل میرے پینل کے خلاف مجرم کی مسلسل ناجائز مہم جوئی کے پیش نظر میں نے یہ پیش لفظ لکھ کر عوام پر یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھا کہ آدھا سچ صریح جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

جج صاحبان خود اپنے فیصلوں کا دفاع نہیں کرسکتے بلکہ وہ اپنے فیصلوں کے ذریعے کلام کرسکتے ہیں۔ اس لیے جو معاملہ عدالت سے تعلق رکھتا ہے تو عدالت خود ہی اس توہین آمیز مواد پر گرفت کرے گی لیکن میں صرف مدعی کے وکلا کی اس کردارکشی کو زیربحث لاﺅں گا جو بعض اخبارات کے ذریعے کی گئی ہے۔ جہاں تک مجرم کے طرزعمل اور کردار کا تعلق ہے تو اس نے عدالت میں پیش کردہ خود اپنی دستاویزات کے ذریعے ہی اپنی اصلیت ثابت کردی ہے کہ جدید مشینی طریقوں کے ذریعے انسانی ذہن اتنے بڑے فراڈ کو شاید ہی کبھی احاطہ خیال میں لاسکا ہو۔

اس نے ایک دستاویز پیش کی جسے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے سند ڈی 1 کے طور پر پیش کیا ہے اور جو اس کتاب کے شیڈول Iکا حصہ بھی ہے۔ اس دستاویز کے بارے میں اس لیے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ وہ سرٹیفکیٹ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو براہِ راست بھیجا ہے

جس کی رو سے اس کو خلیفہ اعظم قرار دیا گیا ہے۔ میری جرح پر اس کے اعتراف کے مطابق تمام انبیاءکرام کو خلفائ‘ زمین پر اللہ کے نائب مقرر کیا گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ اعظم، نائبین کے سربراہ اعلیٰ ہیں‘ لہٰذا اس سرٹیفکیٹ کی رو سے اب وہ زمین پر خلیفہ اعظم ہے۔

جرح میں اس نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ چاروں خلفاءمیں سے کوئی بھی خلیفہ اعظم کے مرتبے پر فائز نہیں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خلیفہ اعظم کا یہ سرٹیفکیٹ اس کو کراچی کے ایک بزرگ عبداللہ شاہ غازی کی وساطت سے ان کے لیٹر پیڈ پر کمپیوٹر کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے مذکورہ بزرگ 300 سال قبل وفات پاچکے ہیں۔

نبی کریم کی جانب سے انگریزی زبان میں مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو خلیفہ اعظم حضرت امام الشیخ ابو محمد یوسف کے طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو علم کا محور اور عقل و دانش میں حرف ِآخر قرار دیا گیا ہے۔ اس اعلان کی وضاحت کرتے ہوئے مجرم نے کہا کہ وہ قرآن پاک کا مفسر ہے۔ وہ حدیث اور فقہ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔

وہ تصوف کا ماہر ہے اور دنیاوی سائنسی علوم سے بھی واقف ہے۔ اس کے ہمہ جہت علم و دانش کا اندازہ لگانے کی غرض سے میں نے اس سے دینی علم کے بارے میں جرح کی اور جدید سائنسی تحقیق کے بارے میں بھی سوالات پوچھے۔ میں یہاں بتانا چاہوں گا کہ مجرم نے عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ اس کو تمام پیغامات براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عربی یا انگریزی میں موصول ہوتے ہیں۔

میں نے اس سے قرآنی لفظ ”تقویٰ“ کی دلیل کے بارے میں سوال کیا لیکن وہ اس کا جواب نہیں دے سکا۔ میں نے اس سے خلیفہ اعظم سرٹیفکیٹ کی پیشانی پر تحریر الفاظ ”وسعت“ اور ”حشر“ کے معنی پوچھے مگر وہ ان الفاظ کے آسان معنی بتانے میں بری طرح ناکام رہا۔

یہاں تک کہ وہ صحاح ستہ کے نام سے مشہور اور قرآن کے بعد پوری دنیا کے لیے انتہائی محترم حدیث کی چھ کتابوں کے نام بتانے سے بھی قاصر رہا۔

آل رسول کا دعویدار ہونے کے باوجود اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی ؓ کے بارے میں مدینتہ العلم کی انتہائی مشہور حدیث کا بھی کوئی علم نہیں۔

اسکول سرٹیفکیٹ اور اس کے سروس ریکارڈ کے مطابق اس کا نام یوسف علی ہے۔

(شیڈول II) ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے لوگوں کو دھوکا دینے اور نبی کریم کے نام پر جعلسازی کے ذریعے بے تحاشہ پیسہ حاصل کرنے اور لاکھوں روپے مالیت کی جائداد بنانے کے مذموم مقاصد کے پیش نظر اپنے نام میں ”محمد“ کا اضافہ کرلیا۔

یہ حقائق اس کے اپنے اعترافات اور پیش کردہ دستاویزات سے ثابت ہیں ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اقبال کا گہرا مطالعہ کیا ہے‘ لیکن وہ ان کے 6 خطبات سے نابلد ہے اور ان کی شاعری میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کا مطلب جانتا ہے نہ ہی وہ اقبال کے فلسفہ خودی کی وضاحت کرسکا۔

اس کا مولانا مودودی کے ساتھ منسلک رہنے کا دعویٰ بھی صریح غلط بیانی پر مبنی ہے اور جماعت اسلامی کی طرف سے اس کی تردید کی جاچکی ہے۔

اسی طرح وہ جدید سائنس کی الف، ب بھی نہیں جانتا اور ڈی این اے کا مطلب نہیں بتا پایا۔ اس نے یہ لفظ عدالت کے سامنے خود اپنے بیان میں استعمال کیا تھا۔

اپنے اس مذموم منصوبے کو تقویت بخشنے کی غرض سے اس نے نوجوانوں کی عالمی تنظیم ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ
(WAMY)
کا ڈائریکٹر جنرل ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس کا صدر دفتر جدہ میں ہے اور جس کے دفاتر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ میں اس تنظیم کا ایسوسی ایٹ ممبر رہا ہوں

لہٰذا میں نے فوری طور پر سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مانج الجہنی سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے فوراً ہی فیکس کے ذریعے مجھے آگاہ کیا کہ ”وامی“ یوسف علی نام کے کسی شخص سے واقف نہیں ہے اور نہ ہی اس نام کے کسی شخص کو کبھی ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا تھا۔ مذکورہ خط میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر مذکورہ یوسف علی نے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز یا کوئی دوسرا مواد پیش کیا ہو تو اسے غلط اور جھوٹ تصور کیا جائے۔ سیکریٹری جنرل وامی نے اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور سزا دلانے کا اختیار بھی دیا۔ مذکورہ خط عدالت میں پیش کیا گیا اور یہ بھی شیڈول III کے طور پر منسلک ہے۔

مجرم نے اس جعلسازی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے خود کو سعودی عرب سے قبرص کے سفیر کے مرتبے پر بھی فائز کردیا اور ہزایکسیلنسی بن کر سابق چیف جسٹس حمودالرحمن اور جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ کے ساتھ اپنی تصویر بھی کھنچوائی۔

(شیڈول IV)۔ تاہم جسٹس چیمہ نے اسلام آباد سے ٹیلی فون پر میرے استفسار پر ایسے کسی ہز ایکسیلنسی سے واقفیت کی تردید کی۔ مجرم نے اپنے بیان میں اس بات سے انکار کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو جانتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جو قادیان کے اس مرزا نے اختیار کیا تھا۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ برطانوی حکومت نے بھارت کے مسلم حکمرانوں سے اقتدار غصب کرنے کے بعد انیسویں صدی میں توہینِ رسالت کا قانون منسوخ کردیا‘ جبکہ انگلینڈ میں اُس وقت بھی یہ قانون آئین کا حصہ تھا۔

مرزا غلام احمد کو برطانوی حکومت کی طرف سے اسلام کے لبادے میں اپنے نئے مذہب کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ لیکن اپنے آقاﺅں کی اس یقین دہانی کے بعد کہ برطانوی حکومت اس کے خلاف کسی بھی مذہبی تحریک کو پوری سختی سے کچل دے گی اس نے یہ اعلان کردیا کہ جو کوئی بھی اس پر ایمان نہیں لائے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ اس کا یہ اعلان مکتوبات مطبوعہ مارچ 1906ء(شیڈولVI) میں موجود ہے۔

اس پس منظر کے ساتھ مجرم یوسف علی بھی مرزا غلام احمد کے نقش قدم پر چلا اور اس نے زبانی اور دستاویزی شہادت کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ وہ بھی اپنے مشن اور نبوت کے جھوٹے دعویدار کا حقیقی جانشین ہے۔

پہلے اس نے مذہبی حلقوں میں اسلام کے مبلغ کی حیثیت سے رسائی حاصل کی، پھر مرد ِ کامل، اس کے بعد امام الوقت یعنی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر خود کو خلیفہ اعظم قرار دے دیا۔ پھر اس نے ”غار حرا“ سے موسوم اپنے بیسمنٹ میں اپنے پیروکاروں کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعلان کردیا۔

وہ مرزا غلام احمد کی طرح اپنے اس جھوٹے دعوے پر بھی مطمئن نہیں ہوا اور اس نے خود کو نبی آخرالزماں سے (نعوذ باللہ) برتر ہستی ظاہر کرنے کے لیے یہ اعلان کردیا کہ 1400 سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فریضہ سرانجام دے رہے تھے مگر دور حاضر میں اس نے نبوت اور اس کے حسن کو عروج کمال پر پہنچا دیا ہے۔

مجرم کے اس شرانگیز اور اشتعال انگیز دعوے کے ثبوت میں استغاثہ نے 14 گواہ پیش کیے

جن میں کراچی سے بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر محمد اسلم
(گواہ استغاثہ1)،

محمد اکرم رانا
(گواہ استغاثہ2 )‘

اور لاہور سے حافظ محمد ممتاز عدانی،
(گواہ استغاثہ نمبر4)‘

میاں محمد اویس
(گواہ استغاثہ5)

محمد علی ابوبکر
(گواہ استغاثہ7)


شامل تھے جنہوں نے مجرم کی جانب سے نبوت اورختمی فضیلت کے جھوٹے دعوے کی براہِ راست عینی شہادتوں پر مبنی واقعات بیان کیے۔

سماجی اور مذہبی مرتبے کے حامل ان گواہوں کے ساتھ مجرم کی کوئی عداوت نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ لوگ اس کے اندھے عقیدت مند اور پیروکار تھے‘

بالخصوص محمد علی ابوبکر تو اس سے اتنا قریب تھا کہ اسے مجرم آقا سے مکمل وفاداری اور اس کے احکام کی تعمیل اور بھرپور اطاعت کی بناءپر ابوبکر صدیق کا خطاب دیا گیا تھا۔

کراچی کے اس مرید نے اس کو لاکھوں روپے مالیت کے چیک اور ڈرافٹ دیئے اور اس کے لیے آراستہ و پیراستہ محل تعمیر کیا جس میں غار حرا بھی بنایا گیا تھا۔

مجرم نے نقد یا چیک اور ڈرافٹ کی شکل میں رقم وصول کرنے کی حقیقت سے انکار نہیں کیا۔ اپنے اس نام نہاد نبی کے حق میں اپنی تمام جائداد سے دستبردار ہونے پر اس کے صحابی کو صدیق کا خطاب عطاکیاگیا تھا۔

اس طرح مجرم نے رسول پاک کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسایا اور انہیں مفلسی اور محتاجی سے دوچار کردیا۔

جب اس نے اپنے خلاف مسلمانوں کے غیظ وغضب اور شدید اشتعال کی کیفیت دیکھی تو اپنی گردن بچانے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح وہ بھی اپنے دعوے سے مکر گیا۔

اس کی تردید صریح دجل وفریب اور ”محمد“ ”آل رسول“ اور ”صحابہ“ کے مقدس الفاظ کی غلط ترجمانی کی عکاس تھی جیسا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہے۔

یوسف علی نے مسلمان ہوکر بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے لوگوں کو دھوکا دینے اور مال ودولت اور جائداد کی خاطر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیئے توہین رسالت کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔

http://www.jasarat.com/unicode/detail.php?category=8&coluid=240
 

طالوت

محفلین
کنعان صاحب آپ کا علم صرف گالیوں تک ہی محدود ہے یا میرے اعتراضات پر بھی کچھ ارشاد فرمائیں گے ؟ کچھ عرض میں نے اسلامی فلموں والے دھاگے میں کی تھی مگر آپ کی عدم دلچسپی سے وہ سب بھی مدفون ہو گیا ۔
اور عرض کر دوں کہ آئندہ محتاط الفاظ استعمال کیجئے گا کہ میری برداشت کو کہیں آپ بزدلی سمجھ بیٹھے ہوں ۔ اس مراسلے کے حذف کرنے کی درخواست اسلئے نہیں بھیجی کہ کچھ چیزیں بطور ثبوت محفوظ رہنی چاہیں ۔
رہی زید حامد کی بات تو وہ خوابوں میں زندہ رہنے والا شخص ہے اور مجھے حیرت ہے کہ ہمارے حرمت رسالت کے چیمپئین اس کی ان مذکور حرکتوں پر خاموش کیوں ہیں ؟
وسلام
 

کعنان

محفلین
رہی زید حامد کی بات تو وہ خوابوں میں زندہ رہنے والا شخص ہے اور مجھے حیرت ہے کہ ہمارے حرمت رسالت کے چیمپئین اس کی ان مذکور حرکتوں پر خاموش کیوں ہیں ؟
وسلام


چیمپین تو آپ بھی ہیں آپ کا کیا خیال ھے کیا کیا جانا چاہیئے
 

کعنان

محفلین
کنعان صاحب آپ کا علم صرف گالیوں تک ہی محدود ہے یا میرے اعتراضات پر بھی کچھ ارشاد فرمائیں گے ؟ کچھ عرض میں نے اسلامی فلموں والے دھاگے میں کی تھی مگر آپ کی عدم دلچسپی سے وہ سب بھی مدفون ہو گیا ۔
اور عرض کر دوں کہ آئندہ محتاط الفاظ استعمال کیجئے گا کہ میری برداشت کو کہیں آپ بزدلی سمجھ بیٹھے ہوں ۔ اس مراسلے کے حذف کرنے کی درخواست اسلئے نہیں بھیجی کہ کچھ چیزیں بطور ثبوت محفوظ رہنی چاہیں ۔
وسلام


جناب آپ کی کچھ غلط فہمیاں ہیں جو دور کرنی مناسب سمجھتا ہوں

اس فارم میں میری کوئی بھی پوسٹ ڈائریکٹ نہیں جاتی موڈز کا سنسر بورڈ پہلے اس کی تحقیق کرتا ھے پھر اس کو اس کی جگہ پر نسب کر دیا جاتا ھے میں سمجھتا ہوں یہ اچھی بات ھے ۔

رہی بات حذف کرنے کی تو منتظمین اپنی فارم کے قانون کے مطابق جو بھی کاروائی کریں گے مجھے احترامً قبول ہو گی میں اس پر کسی قسم کا کوئی احتجاج نہیں کرتا اور آپ جیسے اس طرح کی کاروائیاں کرنے میں مصروف رہتے ہیں

میں آپ کے لئے موضوع ہوں آپ میرے لیے کچھ بھی نہیں ہو کیونکہ میں نے کبھی بھی آپ کے کسی بھی دھاگہ میں یا پوسٹ میں میں کمنٹس دینا مناسب نہیں سمجھتا

اور جب سے میں نے یہ فارم جوئن کیا ھے میں آپ کے لئے موضوع بنا ہوا ہوں میں کسی کو بھی کمنٹس دوں آپ اندرونی تیر چھوڑتے ہیں میں نے تو کبھی آپ کو نہیں کچھ کہا اور جب آپ کسی ممبر کو موضوع بنائیں گے تو یقینً آپ بھی موضوع بنیں گے

اگر اتنا شوق ھے تو منتظمین سے رابطہ کریں وہ دونوں کی پراگرس چیک کر لے گی کہ آپ نے مجھے انٹرپٹ کیا ھوا ھے ہر پوسٹ پر میں نے آپ کو ان کے جواب دئے ہوئے ہیں

یہ گالیاں والا الزام آپ نے پتہ نہیں کہاں سے لگا دیا ھے یہ تو آپ کی سوچ پر منحصر ھے
دوسرں پر الزام لگانے کی بجائے آپ اپنی عادتوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو اچھا ہوتا ھے


والسلام
 

طالوت

محفلین
جناب آپ کی کچھ غلط فہمیاں ہیں جو دور کرنی مناسب سمجھتا ہوں
اس فارم میں میری کوئی بھی پوسٹ ڈائریکٹ نہیں جاتی موڈز کا سنسر بورڈ پہلے اس کی تحقیق کرتا ھے پھر اس کو اس کی جگہ پر نسب کر دیا جاتا ھے میں سمجھتا ہوں یہ اچھی بات ھے ۔
رہی بات حذف کرنے کی تو منتظمین اپنی فارم کے قانون کے مطابق جو بھی کاروائی کریں گے مجھے احترامً قبول ہو گی میں اس پر کسی قسم کا کوئی احتجاج نہیں کرتا اور آپ جیسے اس طرح کی کاروائیاں کرنے میں مصروف رہتے ہیں
میں آپ کے لئے موضوع ہوں آپ میرے لیے کچھ بھی نہیں ہو کیونکہ میں نے کبھی بھی آپ کے کسی بھی دھاگہ میں یا پوسٹ میں میں کمنٹس دینا مناسب نہیں سمجھتا
اور جب سے میں نے یہ فارم جوئن کیا ھے میں آپ کے لئے موضوع بنا ہوا ہوں میں کسی کو بھی کمنٹس دوں آپ اندرونی تیر چھوڑتے ہیں میں نے تو کبھی آپ کو نہیں کچھ کہا اور جب آپ کسی ممبر کو موضوع بنائیں گے تو یقینً آپ بھی موضوع بنیں گے
اگر اتنا شوق ھے تو منتظمین سے رابطہ کریں وہ دونوں کی پراگرس چیک کر لے گی کہ آپ نے مجھے انٹرپٹ کیا ھوا ھے ہر پوسٹ پر میں نے آپ کو ان کے جواب دئے ہوئے ہیں
یہ گالیاں والا الزام آپ نے پتہ نہیں کہاں سے لگا دیا ھے یہ تو آپ کی سوچ پر منحصر ھے
دوسرں پر الزام لگانے کی بجائے آپ اپنی عادتوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو اچھا ہوتا ھے
والسلام
بڑی محنت کروائی آپ نے ۔ مگر چونکہ آپ کا تقریبا ہر مراسلہ ذاتیات پر مبنی ہوتا ہے اسلئے مجبورا یہ "محنت" کرنا پڑی ۔ گالیوں والے الزام کا بھی ثبوت فراہم کر دیتا ہوں ۔ مگر پہلے گزارش ہو گی کہ اپنے اس سرخ جملے کی روشنی میں اپنا طرز عمل ضرور دیکھئے گا۔
مگر آپ کی یاداشت کے لئے مزید اپنے تعارفی دھاگے میں دوسروں کے ساتھ اپنی گفتگو ملاحظہ کیجئے ۔
درج ذیل مراسلے میں آپ نے میرے والدین سے متعلق جو جملہ ارشاد فرمایا ہے کہ "ہر والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے اگر وہ مسلمان ہیں تو ۔۔۔۔" اگر میں اس کا عشر عشیر بھی آپ کو کہہ دوں تو آپ کم ازکم چوبیس گھنٹے ضرور سلگتے رہیں گے ۔ اسے ہماری تہذیب میں گالی ہی کہتے ہیں آپ کے یہاں جانے کیا سمجھتے ہوں ۔
السلام علیکم
ہر والدین کی ذمہ داری ہوتی ھے اگر وہ مسلمان ہیں تو اپنی اولاد کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی دلوائیں تاکہ ان کو دنیا میں کسی کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے
طلوع السلام ، تمنہ عمادہ ، غامدی کے رسالے پڑھنے والے ایسے ہی دنیا میں اوندے منہ گرتے ہیں
والسلام

درج ذیل مراسلہ بھی میں گالی ہی سمجھتا ہوں ۔ اور آپ جیسے حضرات جو دو چار فتوے پڑھ لیتے ہیں یا ایک آدھ فرقہ ورانہ اسلام کے لیکچر اٹینڈ کر لیتے ہیں وہ اسی طرح کسی پر بھی کوئی بھی الزام رکھ دیتے ہیں ۔ آپ لوگوں کی معلومات کا منبع جو لٹریچر ہوتا ہے اس میں بھی سوائے تذلیل اور توہین کے کچھ نہیں ہوتا اسلئے قصور آپ کا بھی نہیں۔
اور آپ کے لیے ایک خاص بات کہوں گا کہ آپ نے یہ جملہ تو لکھ دیا لیکن اس جملے میں آپ نے جو رسول اللہ لکھا ھے وہ یا تو لاہوری گروپ والے لکھتے ہیں یا قادیانی، اب آپ کو متعلق اللہ بہتر جانتا ھے آپ کو جو عادت پڑی ہوئی ھے آپ اسی طرح کریں۔ یہ آپکی محبت کا انداز ھے

آپ نے فرمایا کہ میں نے آپ کو انٹرپٹ کر رکھا ہے ۔ پہلی بات تو یہ اسلامی فلموں کے دھاگے میں آپ کا درض ذیل مراسلہ جس میں آپ نے ایک سے ایک بڑا دعوی کیا اور معلوم یوں ہوتا ہے کہ اسلامی موضوعات آپ انتہا سے زیادہ تحقیق کرتے ہیں اور آپ کی ہر بات مستند ہوتی ہے اس کے بعد سے اب تک آپ کا یہ دعوی سراسر باطل رہا ہے ۔ آپ نے مجھ سے کلام صرف ان دو موضوعات پر کیا ہے اسلئے اب دو جگہوں پر تو میں آپ کو انٹرپٹ نہیں کر سکتا اور دونوں جگہوں میں سے ایک بار آپ کی خواہش پر دھاگہ شروع کیا گیا اور دوسرے مقام پر آپ نے خود ٹانگ اڑائی ۔ اب اڑی ہے تو اسے نکالنے کی کوشش کریں نہ کہ مزید اڑانے کی۔;)
کعنان نے کہا:

میں ایک فارم میں ناظم ہوں اور میرے پاس اتنا وقت ھے کہ میں دوسرے فارمز کو بھی وقت دے سکوں لیکن میں جہاں بھی جاتا ہوں گفتگو قرآن اور سنت کے مطابق کرتا ہوں
کچھ فارمز میں کچھ ممبران جو اپنی عقلی دلیلوں سے کام کرتے ہیں تو ان کو عقلی دلیلوں سے بھی مستفید کیا جاتا ھے اور جب ان کی عقلی دلیلیں بھی بے بس ہو جاتی ہیں تو وہ پرانے ممبر ہونے کی حیثیت ھے ایڈمین کو یہ تعاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ذاتیات پر حملے کئے جا رہے ہیں

اگر کسی نے ایک دھاگہ بنایا ھے اور ضروری نہیں کہ اس کو سارے شکریہ ادا کریں کسی کو اس کی کوئی بات پر اعتراض بھی ہو سکتا ھے
اب اس کے لیے یہ ضروری ہوتا ھے کہ اس ممبر کی دوسری پوسٹ پر بھی نظر ثانی کی جاتی ھے کہ آیا کہ ممبر اس قابل بھی ھے کہ اس کے بارے میں کوئی علم رکھتا ہو یا اس ممبر کو صرف دھاگہ بنانے کا شوق ھے ، اب اگر ثابت ہو جائے کہ یہ صرف دھاگے بنانے والا ممبر ھے تو اس کو پھر اس میں جو کمی ہوتی ھے اس کے بارے میں آگاہ نہیں کیا جاتا ۔
اسی طرح اگر کسی ممبر کی دوسری پوسٹ میں کچھ نظر آتا ھے کہ یہ جواب دینے کی صلاحیت بھی رکھتا ھے تو اس کو اس کے دھاگہ میں جو کمی نظر آتی ھے اس کے بارے میں سوال کیا جاتا ھے، اب وہ ممبر واقعی ہی علم رکھتا ھے اور اس نے وہ دھاگہ کہیں سے اپنے فارم میں لگایا ھے نیکی کی غرض سے تو وہ اس کو اچھے طریقے سے اپنی عقلی دلیل سے یا کسی بھی طرح سمجھانے کی کوشش کرے گا اگر نہیں تو وہ یہ کہے گا کہ میرے پاس یہی انفارمیشن تھی جو میں نے لگا دی میں آپ کا جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتا اگر آپ کے پاس اس کے بارے میں کوئی مزید اچھی انفارمیشن ھے تو آپ اسی دھاگے کے آگے لگا دیں یہ ایک عقلمند ممبر کی پہچان ھے
اب ایک اور قسم بھی ھے ممبران کی جو کچھ بھی نہیں جانتے شعرو شائری ،فلموں، لطیفوں سے فارم میں آغاز کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ اسلامی فارم میں آ کے ڈرٹی ٹرک استعمال کرتے ہیں ان کو یہ تک نہیں پتہ ہوتا کہ بات کیا ہو رہی ھے اور اس کا جواب کیا دینا ھے اور اس کا جواب جو دینا ھے وہ صرف ایک ممبر کے لیے نہیں ھے اگر وہ دھاگہ فارمز دے حذف بھی ہو گیا ھے تو وہ گوگل کے سوفٹ وئر میں ھے کوئی بھی جب گوگل میں کچھ سرچ کرے گا تو الفاظ میچ ہو گئے تو وہ دھاگہ سامنے آ جائے گا اور جو بھی پڑھے گا وہ اس کی عقل پر اپنے دل میں ضرور کچھ کہے گا
میرا فارم پر کام کرنا اور تھریڈ بنانا اس کے لیے میں جہاں سے بھی انفارمیشن لیتا ہوں یا جس ممبر کا اچھا دھاگہ نقل کرتا ہوں اس ممبر کی پوری انکوئری کرتا ہوں، وہ فارم کے جا مالک ھے اس کی انکوائری کرتا ہوں کہ وہ کون ھے کہاں ھے کس قسم کا ھے ، جو احادیث مبارکہ حوالے کے لیے لیتا ہوں ان وہب پر کون کام کر رہا ھے وہ کونسے ملک سے آپریٹ ہو رہی ھے آیا اس کے پیچھے کام کرنے والے باطل مذہب ، باطل فرقہ والے تو نہیں ہیں یہاں تک کہ ان کے کریمنل ریکارڈ بھی دیکھ لیتا ہوں یہ جاننا میرے لیے کوئی مشکل کام نہیں کسی بھی جگہ پر ، تو پھر جس کے مثبت رزلٹ ہوتے ہیں تو اس کی کاپی کرتا ہوں ، اس سائٹ سے حوالے لیتا ہوں احدیث مبارکہ کے اور دوسرے ۔




یہ ایک لمبی گفتگو ھے لیکن اس وقت جو مسئلہ درپیش ھے اس کے مطابق کچھ لوگ ذاتی طور پر تسلیم کرتے ہیں اور فطری طور پر وہ بضد ہوتے ہیں ان کا کوئی علاج نہیں

مثلاً یہاں ایک ممبر نے اپنے تعارف میں اقرار کیا ہوا ھے کہ وہ پہلے 2 فارمز سے بین ہو چکا ہے کیونکہ اس نے ان کو ان کا اصلی چہرہ دکھایا تھا تو انہوں نے اسے بین کر دیا۔ اب یہ اس ممبر کی فطرت ھے۔
حالانکہ شیشہ میں ہر انسان اپنا چہرہ دیکھتا ھے دوسرے کا نہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ دوسرے کو دکھانا تو بھئی پہلے اپنا چہرہ تو دیکھو غور سے دوسرں کے پاس بھی اپنے شیشے ہیں وہ خود دیکھیں گے۔

اس کی ایک اور مثال
ایک فارم ھے فقہ اھل حدیث کا اور وہاں پر میرے نظر میں 5 کے قریب قابل یقین ممبر ہیں جو اپنے فقہ اھل حدیث کا علم جانتے ہیں اور بڑے اچھے طریقے سے اپنے وہاں پر مسائل کا حل اپنے ممبران کو بتاتے ہیں اب میرا فقہ ان سے مخالف ھے لیکن میں‌ ان کو ان کا چہرہ نہیں دکھاتا اور وہ مجھے میرا ، دونوں اپنے اپنے چہرے دیکھتے ہیں ۔ وہ ان کا فارم ھے اور وہ اسے اپنے طریقے سے اچھی طرح چلا رہے ہیں وہاں میری ممبر شپ ہونا یہ میری خوش قسمتی ہے جو ان سب میں مین بھی ہوں ۔ یہ ان کی فطرت بھی اچھی ھے
مجھے کوئی بھی ممبر کسی بھی فارم میں آنے کو کہے وہ مجھے وہاں پائے گا ابھی تک کہیں کسی سے ایسی کوئی غلط واقعہ پیش نہیں آیا جو کسی کو مجھے بین کرنا پڑے۔ یہ میری فطرت ھے ۔ دینا کا اصول بھی ھے کہ جب کسی کے گھر جاؤ تو ان کے گھر کے اصول کے مطابق چلو اور اگر ان کے اصول کے مطابق چل نہیں سکتے تو ان کو اتنا بھی تنگ نہ کرو کہ وہ آپکا سامان اٹھا کے باہر پھینک دیں

قلم کار کا کام ھے لکھنا اور کسی حد تک سوالوں کے جواب دینا اور کچھ سوال پڑھ کے قلم کار اندازہ لگا لیتا ھے کہ یہ بندے کا سوال کس نوعیت ھے ھے تو ضروری نہیں ہوتا ایسے بندے کو جواب دیا جائے۔ اب اس کو کوئی مانے یا نہ مانے وہ اس کی اپنی فطرت ھے اس کے لیے کوئی زبر دستی نہیں ھے باقی آپ کو اپر پڑھ کے اندازہ کر سکتے ہیں




اس سائٹ میں کسی نے سوال کیا تھا تو وہ سعودیہ والا تھا اور سعودیہ میں رہنے والے فتوؤں پر بہت یقین کرتے ہیں تو اس لیے اس ممبر کو فتوؤں کی زبان سے جواب دیا تھا اور جب اس نے فتوؤں پر پورا انکار کیا تو وہ تھوڑا میرے سمجھ کے قریب ہو گیا اور جب آج اس کا جواب پڑھا تو اس میں اس کو پورا جاننے کا موقع ملا۔

اب آپ کو آپکے جواب سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں
فتوی ہر فقہ کا مفتی عالم فاضل جاری کرتا ھے بوقت ضرورت مثلاً کسی کو کوئی مسئلہ در پیش ھے وہ اپنی اس حاجت کے لیے کسی مفتی سے رابطہ کرتا ھے تو عالم فاضل مفتی اس کے مسئلہ کا حل قرآن اور حدیث میں ڈھوندے گا اور وہ اس کام کو منع ہونے یا ہونے کی اجازت عنایت فرمائے گا۔
اب کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جو مفتی حضرات قرآن اور حدیث سے ڈھونڈنے سے قاصر رہتے ہیں حالانکہ ایسا کوئی بھی مسئلہ نہیں جو قرآن اور حدیث سے ثابت کرنے میں کوئی مشکل ہو لیکن ان کی عقل اور علم اس سے قاصر ھے تو وہ واقعات اور عقلی دلیل سے اس کی منع ہونے یا ہونے کی اجازت عنایت فرماتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر میں اس مسئلہ کے حل میں غلط ہوا تو قیامت کے دن میں‌ سزا وار ہونگا۔

دنیاوہ مسائل کے حل کے لیے یہ کہنا کہ فلاں نے فتوی غلط دیا ھے تو یہ بات بہت غلط ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ
نمبر 1 مفتی صاحب سے کسی نے فتوی لیا کسی کام کے لیے اب وہ مفتی صاحب نے سب جگہ سے دیکھا ان کو کوئی حل نہیں ملا اور انہوں نے اس کو وہ کام کرنے کی اجازت فرمائی پوری زمہ داری سے اب ان مفتی صاحب نے 5 سال پہلے مفتی کی ڈگری حاصل کی تھی اور وہ 5 سال سے کسی شعبہ کے ساتھ کام کر رہے ہیں تو ان کا تجربہ 5 سال کا ہوا

اب وہ بندہ مفتی نمبر2 کے پاس بھی جاتا ھے اور ان مفتی صاحب کا تجربہ اس فیلڈ میں 20 سال کا ھے وہ اس کو اس کے مسئلہ کا حل کے لیے قرآن اور حدیث سے ثابت کر کے وہ کام نہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں تو خاموشی سےمفتی نمبر 2 والے کی بات مان لینی چاہیے اور نمبر 1 مفتی کی بات کو ڈھنڈورا نہیں پیٹنا چاہیے نہیں تو سائل گناہ کا مرتب ہو گا
مفتی نمبر 1 راستے کا مسافر نہیں ھے سرٹیفایڈ مفتی ھے اور اس نے جب فتوی کی قیامت کے دن کی گناہ اپنے سر لینے کا اقرار بھی کیا ھے
ہر راستے کا مسافر اگر آپ کو یہ کہتا ھے تو اس کی بات کا یقین نہیں کیا جا سکتا

ایک اور قسم ھے فتوی کی وہ میں بیان نہیں کرتا ابھی لیکن کبھی اس طرح کا کوئی دھاگہ میری نظر میں آیا تو وہاں ضرور بیان کروں گا۔

اب آپ اس دھاگہ کے پہلو کو عقلی دلیل سے جاننا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہر انسان اپنی عقل کا مالک ھے وہ جو چاہے کرے وہ اس کی اپنی عقل ھے جو اس کو اس کو کسی بھی طرف لے جائے اس پر کوئی پابندی نہیں۔

یہ ساری باتیں آپ کے سوالوں میں اس لیے لکھی ہیں کہ میں نے آپ کا اندر کچھ دیکھا ھے اور امید کرتا ہوں یہ آپ ان کو سمجھ بھی سکیں گے
ہو سکتا ھے کچھ اور بھی اس کو پڑھ کے سمجھ سکیں اور کچھ نہ

والسلام
اسی مراسلے کا آخری حصہ میرے متعلق ہے مگر آپ میں اخلاقی جرات ہوتی تو آپ براہ راست نام لیتے مگر آپ کی غلط بیانی یا شاید یاداشت کی کمزوری کہ آپ نے غلطی کی اور فرمایا کہ دو جگہ بین ہونے کا ذکر کیا حالانکہ میں نے ایک جگہ بین ہونے کا اور دوسری جگہ خود فارم چھوڑنے کا ذکر کیا تھا۔:) اور اس دھاگے تک حتی کہ اب تک آپ کو کسی نے بین کرنے کا ذرا سا بھی اشارہ نہیں دیا اور نہ ہی شاید کسی طرف سے ایسی کوئی درخواست گئی ہو گی۔ اور یوں بھی میں گزشتہ ایک سال سے یہاں اسی لئے جڑا ہوں کہ یہاں مجھے کہنے کی آزادی ہے ورنہ اگر آپ اپنی "تحقیقات" کو صحیح رخ پر رکھتے تو آپ کو میرے" کریمنل ریکارڈ" بھی مل جاتے۔ (اب انورٹڈ کوما کا مطلب تو آپ سمجھتے ہی ہوں گے۔ آخر کو ناظمیت کی ذمہ داریوں کا بار بھی آپ کے کندھوں پر ہے )

باتوں کو تروڑ مروڑ کر لوگوں کو گمراہ کرنا میرا پیشہ کبھی نہیں رہا اور نہ میں کبھی اپنی غلطی کو تسلیم کرنے میں شرم محسوس کیا کرتا ہوں ۔ بشرطیکہ میری غلطی ہو ۔ نہ ہی مجھے علم و فضل کے دعوے ہیں اور نہ میں "ایڈوانس" میں مظلومیت کا ڈھونگ رچا کر ہمدردیاں سمیٹتا ہوں ۔ میری طبعیت یہاں میل کھاتی ہے سو میں یہاں ہوں جس دن نہ کھائے گی احباب سے معذرت کر کے اجازت لے لوں گا ان پر خود کو ٹھونسوں گا بھی نہیں ۔ اسلئے کوئی ڈر نہیں :)
یہ تو ہوئی فضول بحث جو آپ کے بڑے بڑے دعووں کے پیش نظر کرنا پڑی ۔ اب آتے ہیں موضوع کی طرف ۔۔۔

اب پہلے سے ذرا تفصیل سے ۔
کیا رسول اللہ پہلی وحی کے نازل ہونے پر ڈر گئے تھے ؟ اور خوف سے کپکپی طاری ہو گئی تھی حتٰی کہ یہ حالت گھر میں بھی قائم رہی جب تک کہ ورقہ بن نوفل نے آ کر تصدیق نہ کر دی کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو سیدنا موسٰی پر وحی لے کر نازل ہوتا تھا ۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ رسول اللہ کو عین وقت احساس ہوا کہ آپ نبوت کے عظیم کام کے لئے چن لئے گئے ہیں اور آپ کی راہ میں یہ مشکلیں حائل ہوں گی ۔ بعض دیگر احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ وحی کے وقت آپ کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمکنے لگتے تھے ۔ مگر پہلی وحی پر آپ کی طرف سے کمبل اوڑھنے کا ذکر ہے ۔ تو کیا درست ہو گا آیا وحی کے نزول کے وقت سردی کا احساس ہوتا تھا یا گرمی کا ؟ جبکہ قران سے بھی اس تمام تر قصے کا کوئ ثبوت نہیں ملتا ۔ بہرحال اصل مسئلہ ورقہ بن نوفل کا ہے ۔
کنعان صاحب کسی مناسب جواب کا منتظر ہوں ۔ تمام تر تلخی کے باوجود میں چاہوں گا کہ ہم اس بحث کو نتیجہ خیز بنائیں اور یہ الزام رفعہ کریں کہ ان ابحاث کا نتیجہ تو تڑاق سے آگے نہیں جاتا ۔ اگر اس کے علاوہ بھی کچھ کہیں تو مجھے اعتراض نہیں مگگر تھوڑا بہت موضوع سے متعلق بھی ۔ برائے مہربانی وضاحت کے ساتھ کہ اشاروں کنائیوں میں کچھ اور سمجھ بیٹھوں ۔
وسلام
 

کعنان

محفلین
بڑی محنت کروائی آپ نے ۔ مگر چونکہ آپ کا تقریبا ہر مراسلہ ذاتیات پر مبنی ہوتا ہے اسلئے مجبورا یہ "محنت" کرنا پڑی ۔ گالیوں والے الزام کا بھی ثبوت فراہم کر دیتا ہوں ۔
درج ذیل مراسلہ بھی میں گالی ہی سمجھتا ہوں ۔

اب پہلے سے ذرا تفصیل سے ۔
کیا رسول اللہ پہلی وحی کے نازل ہونے پر ڈر گئے تھے ؟

کنعان صاحب کسی مناسب جواب کا منتظر ہوں ۔ تمام تر تلخی کے باوجود میں چاہوں گا کہ ہم اس بحث کو نتیجہ خیز بنائیں اور یہ الزام رفعہ کریں کہ ان ابحاث کا نتیجہ تو تڑاق سے آگے نہیں جاتا ۔ اگر اس کے علاوہ بھی کچھ کہیں تو مجھے اعتراض نہیں مگگر تھوڑا بہت موضوع سے متعلق بھی ۔ برائے مہربانی وضاحت کے ساتھ کہ اشاروں کنائیوں میں کچھ اور سمجھ بیٹھوں ۔

جناب طالوت صاحب آپ کو محنت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہر سوال پر جواب پر سوال پر جواب نسب تھے ۔
میرے پاس آپ کے ہر سوال کا جواب ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ اس کو گالی سمجھتے ہیں وغیرہ وغیرہ اور جواب بھی مانگ رہے ہیں، تو میں آپ کو پھر کچھ کتنا بھی پیار سے لکھوں گا آپ کا دماغ اس کو بھی قبول نہیں کرے گا تو میں کیا جواب دوں اس سے اچھا ھے کہ میں مستقبل میں‌ آپ سے پرہیز کروں۔
والسلام
 

طالوت

محفلین
چلئے آپ کی مرضی ۔ میرے لئے تو بہرحال یہ انداز گفتگو اور ایسے فرار نئے نہیں ۔
خیر میرے دو مقاصد تھے ایک تو آپ کا وہ اندرونی تیر والا الزام اسلئے میں نے آپ کا وہ طویل ترین مراسلہ پیش کیا ہے تاکہ آپ کو یاد دلا سکوں اور اصل مقصد تھا کہ موضوع کی طرف پلٹا جائے پر افسوس !
آپ بلاشبہ پرہیز کیجئے مگر مجھے میرے مطابق جہاں بھی کچھ قابل اعتراض نظر آیا میں آپ کا زبردستی مہمان بن جاؤں گا ;) کہ بہرحال آپ کا انٹرپٹ کرنے والا الزام بھی تو سچ ثابت کرنا ہے کہ آپ بھی تو کسی معاملے میں سرخ رو ہوں:) ۔ (امید ہے اس تمام تر صورتحال کو یہیں تک رکھیں گے اور دوسرے زمروں میں اس کا اثر ظاہر نہ ہو گا)
وسلام
 

کعنان

محفلین
چلئے آپ کی مرضی ۔ میرے لئے تو بہرحال یہ انداز گفتگو اور ایسے فرار نئے نہیں ۔
خیر میرے دو مقاصد تھے ایک تو آپ کا وہ اندرونی تیر والا الزام اسلئے میں نے آپ کا وہ طویل ترین مراسلہ پیش کیا ہے تاکہ آپ کو یاد دلا سکوں اور اصل مقصد تھا کہ موضوع کی طرف پلٹا جائے پر افسوس !
آپ بلاشبہ پرہیز کیجئے مگر مجھے میرے مطابق جہاں بھی کچھ قابل اعتراض نظر آیا میں آپ کا زبردستی مہمان بن جاؤں گا ;) کہ بہرحال آپ کا انٹرپٹ کرنے والا الزام بھی تو سچ ثابت کرنا ہے کہ آپ بھی تو کسی معاملے میں سرخ رو ہوں:) ۔ (امید ہے اس تمام تر صورتحال کو یہیں تک رکھیں گے اور دوسرے زمروں میں اس کا اثر ظاہر نہ ہو گا)
وسلام

جناب طالوت جب بات ختم ہو رہی ہو تو پھر اس کو پکڑنے کی کوشش نہیں کرتے
میں آپ کے سارے جواب دینے کے لئے اب بھی تیار ہوں آپ کی وییک نکلو گے مگر اس کے لئے جب آپ کہ رہے ہو کہ آپ کے اندر بات کرنے کا حوصلہ ھے برداشت کرنے کا نہیں تو پھر آپ بار بار دعوت کیوں دیتے ہو
آپ کسی کی طرف آرام سے تیر چھوڑ دیتے ہو تو بھئی تیر کھانے کا حوصلہ بھی پیدا کرو
میں کبھی کسی ممبر کو نہیں چھیڑتا اور نہ کسی کو اس کی شکایت کرتا ہوں آپ جیسے روزانہ اپنی عقلمندی ظاہر کرتے کرتے بعد میں پھر پریشان ہو جاتے ہیں


میں نے یہ لکھا تھا جنرل پیغام تھا جس کو آپ نے گالی کا نام دے دیا۔ آپ کو دوسروں کا لکھا گالی لگتا ھے تو بھئی آپ اپنی دنیا میں خوش رہیں
نہ میں نے پہلے بھی آپ کو کہیں نہیں چھیڑا تھا اور نہ مستقبل میں کوئی ارادہ ھے

ہر والدین کی ذمہ داری ہوتی ھے اگر وہ مسلمان ہیں تو اپنی اولاد کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی دلوائیں تاکہ ان کو دنیا میں کسی کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے
طلوع السلام ، تمنہ عمادہ ، غامدی کے رسالے پڑھنے والے ایسے ہی دنیا میں اوندے منہ گرتے ہیں

میں نے جو بھی باتیں اگر کی ہیں تو علمی اعتبار سے آپ کے لکھے ہوئے کی کی ہیں اپنی طرف سے نہیں کیں ابھی آپ کا 4 سال کا تجربہ ہے سعویہ کا میرے ساتھ بات کرنے کے لئے آپ کو مزید 12 سال کا تجربہ چاہیئے۔

والسلام
 

طالوت

محفلین
:) :) :)
خدا آپ کے والدین اور ان لوگوں پر رحم فرمائے جن کی نظامت آپ کو سپرد کی گئی ۔ بہرحال میں آپ کے 16 سالہ "تجربے" میں مزید اضافے کی کوشش کرتا رہوں گا امید ہے کہ اسلامی زمرے میں آپ کا آنا جانا لگا رہے گا۔
جاتے جاتے ایک مشورہ یاداشت کے لئے بادام کھایا کریں ;)
وسلام
 
دوستو سلام،

موت کی سزا، اللہ تعالی کے فرمان ، قرآن حکیم میں صرف قتل اور فساد فی الارض اللہ ( غداری یا ٹریژن) کے لئے ہے۔ اس کے علاوہ کسی جرم کے لئے موت کی سزا نہیں بیان ہوئی۔ توہین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا توہین الہی کا معاملہ انسان اور اللہ کے درمیان ہے۔ وہ جیسے چاہے سزا دے، انسانوں کو حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اس جرم کی کوئی سزا زمین پر دیں اور نہ ہی کوئی ایسا اشارہ کیا گیا۔ مجھے بڑی خوشی ہوگی اگر کوئی بھائی یا بہن، میری اور سب کی معلومات میں اضافہ فرمائیں اور اِن جرائم کے علاوہ ان جرائم کی نشاندہی قرآن حکیم سے کرسکیں جن کی سزا موت ہے۔


والسلام
 

کعنان

محفلین
دوستو سلام،

موت کی سزا، اللہ تعالی کے فرمان ، قرآن حکیم میں صرف قتل اور فساد فی الارض اللہ ( غداری یا ٹریژن) کے لئے ہے۔ اس کے علاوہ کسی جرم کے لئے موت کی سزا نہیں بیان ہوئی۔ توہین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا توہین الہی کا معاملہ انسان اور اللہ کے درمیان ہے۔ وہ جیسے چاہے سزا دے، انسانوں کو حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اس جرم کی کوئی سزا زمین پر دیں اور نہ ہی کوئی ایسا اشارہ کیا گیا۔ مجھے بڑی خوشی ہوگی اگر کوئی بھائی یا بہن، میری اور سب کی معلومات میں اضافہ فرمائیں اور اِن جرائم کے علاوہ ان جرائم کی نشاندہی قرآن حکیم سے کرسکیں جن کی سزا موت ہے۔


والسلام


السلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ و برکاتہ

فاروق بھائی جتنا مکالمہ آپ نے لکھا ھے اس کا جواب شائد آپ کو اس آیت سے مل جائے


انما جزاء الذين يحاربون الله ورسوله ويسعون في الارض فسادا ان يقتلوا او يصلبوا او تقطع ايديهم وارجلهم من خلاف او ينفوا من الارض ذلك لهم خزي في الدنيا ولهم في الاخرة عذاب عظيم إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلاَفٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

بیشک جو لوگ ﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں
اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں
(یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں)
ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں
یا پھانسی دیئے جائیں
یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں
یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔
یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے
اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے


سورۃ المائدہ 5 ، آیت نمبر 33

شائید یہ آیت آپکی نظر سے نہ گزری ہو۔

والسلام


__________________
 
Top