جاسم محمد
محفلین
بحریہ ٹاؤن کراچی: سندھ کی قوم جماعتوں اور متاثرین کا دھرنا ہنگامہ آرائی میں تبدیل، گاڑیاں اور عمارتیں نذرِ آتش، درجنوں گرفتار
اپ ڈیٹ کی گئی 2 گھنٹے قبل
،تصویر کا ذریعہAAJIZ JAMALI
کراچی میں تعمیراتی کمپنی بحریہ ٹاؤن کی جانب سے مبینہ طور پر مقامی گوٹھوں کو مسمار کرنے کے خلاف سندھ کی قوم پرست جماعتوں، مزدور و کسان تنظیموں اور متاثرین کی جانب سے ’غیر قانونی قبضے چھڑوانے کے لیے‘ ہونے والے احتجاج کے دوران متعدد عمارتیں اور گاڑیاں نذرِ آتش کر دی گئی ہیں۔
کراچی پولیس نے بحریہ ٹاؤن میں ہنگامہ آرائی کے الزام میں 80 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا ہے، قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان میں ان کے کارکن شامل ہیں۔
ایک سینئر پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ جائے وقوع اور آس پاس سے ان افراد کو حراست میں لیا گیا ہے انھوں نے اس الزام کو مسترد کیا کہ خواتین بھی گرفتار افراد میں شامل ہیں ان کا کہنا تھا کہ کچھ خواتین کو تھوڑی دیر صرف روکا گیا تھا۔
پولیس افسر نے بتایا کہ پتھراؤ میں ’ایک ایس پی اور ایک ایس ایچ او بھی زخمی ہوئے ہیں، لہذا سرکار کی مدعیت میں مقدمہ دائر ہوگا جبکہ جن لوگوں کا نقصان ہوا ہے وہ اگر مقدمہ درج کرانا چاہیں تو وہ بھی دائر ہوں گے۔‘
سندھ یونائیڈ پارٹی کے ترجمان مخدوم شمس کا کہنا ہے کہ ان کے سو سے زائد کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ 15 سے زائد خواتین کو گڈاپ تھانے پر رکھا گیا ہے۔
سندھ ایکشن کمیٹی کے رہنما روشن جونیجو نے بی بی سی کو بتایا کہ قوم پرستوں کے اتحاد میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ گرفتاریوں اور تشدد کے خلاف 9 جولائی کو سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرہے کیے جائیں گے جبکہ سندھ اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے موقعے پر اسمبلی کا گھیراؤ ہوگا جس کی تاریخ کا اعلان جلد کردیا جائیگا۔
دوسری جانب بحریہ کے خلاف احتجاج نے بین الاقومی احتجاج کی صورت اختیار کرلی ہے، ورلڈ سندھی کانگریس کی جانب سے برطانیہ میں لندن، اور امریکہ میں نیویارک اور ھوسٹن میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔
ہنگامہ آرائی کب شروع ہوئی؟
اتوار کو بحریہ ٹاؤن کے سامنے ہونے والے مظاہرے میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے دوران نامعلوم افراد نے مرکزی دروازے کے باہر اور اندر واقع تعمیرات کے علاوہ چند موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی جبکہ پولیس نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے شدید شیلنگ کی۔
یہ ہنگامہ آرائی احتجاجی دھرنا سپر ہائی وے سے بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے کے باہر منتقل کیے جانے کے بعد شروع ہوا۔
مرکزی گیٹ کے سامنے احتجاج سے قبل مظاہرین نے سپر ہائی وے پر دھرنا دیا ہوا تھا جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی تھی۔ بعدازاں سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنما قادر مگسی نے پولیس حکام سے بات کی اور انھیں کہا کہ ’مظاہرین کو گیٹ کے سامنے دھرنا دینے دیا جائے تو وہ سپر ہائی کھول دیں گے‘ جس کے بعد انھیں دھرنے کی اجازت دے دی گئی۔‘
مرکزی دروازے کے سامنے احتجاج کے دوران نامعلوم افراد بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوگئے اور وہاں توڑ پھوڑ شروع کر دی جس کے بعد جلسہ گاہ سے اعلان کیا گیا کہ ’شرپسندوں کا تعلق ان سے نہیں ہے اور پولیس انھیں حراست میں لے۔ ‘
،تصویر کا ذریعہATIF HUSSAIN
توڑ پھوڑ کرنے والے ان افراد نے نہ صرف رکاوٹوں کو نذر آتش کیا بلکہ موقعے پر موجود گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگا دی۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران بحریہ ٹاؤن کے اندر واقع کم از کم دو عمارتوں سے دھواں اٹھتا بھی دیکھا گیا۔
اس ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔
سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ کا کہنا ہے کہ ’ہنگامہ آرائی کرنے والوں کا تعلق سندھ ایکشن کمیٹی سے نہیں ہے۔ وہ پرامن لوگ ہیں اور پرامن احتجاج میں یقین رکھتے ہیں‘۔
انھوں نے کہا کہ ’اس پر امن احتجاج کو بدنام کرنے کے لیے کچھ عناصر نے یہ اقدام کیا ہے۔‘
خیال رہے کہ سندھ ایکشن کمیٹی نے ہی سپر ہائی وے پر واقع بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے کے سامنے اتوار کو آٹھ گھنٹے کے لیے دھرنے کا اعلان کیا تھا جس میں دیگر سیاسی جماعتوں اور علاقائی تنظیموں نے شرکت کی حامی بھری۔
اس احتجاج کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس نے جگہ جگہ چوکیاں بھی قائم کیں جبکہ احتجاج میں شامل تنظیموں کا الزام ہے کہ بعض مقامات پر قافلوں کو روکا بھی گیا، جس کی صوبائی حکومت نے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے سکیورٹی کے انتظامات کیے تھے۔
سندھ کے صوبائی وزیر سید ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ ’اگر حکومت رکاوٹیں پیدا کرتی تو یہ قوم پرست دوست یہاں تک کیسے پہنچتے۔
انھوں نے کہا کہ ’قوم پرست، جے یو آئی اور سول سوسائٹی کے لوگ پُرامن لوگ ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ کوئی شرپسند اس صورتحال کا فائدہ لے۔ اسی سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہATIF HUSSAIN
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس کے بعد کراچی پولیس نے بحریہ ٹاؤن کے سکیورٹی انچارج سمیت دیگر اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جبکہ ایک ایس ایچ او کو معطل کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے بحریہ ٹاؤن نے موقف دیا تھا کہ ’مقامی بااثر سیاسی افراد اور لینڈ مافیا مل کر‘ انھیں ’سیاسی و مالی مفادات کی خاطر‘ بلیک میل کر رہے ہیں۔
دھرنے میں کون شامل اور اس کا مقصد کیا ہے؟
اس دھرنے میں جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ کی سندھ یونائیٹڈ پارٹی، قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی، ایاز لطیف پلیجو کی قومی عوامی تحریک، خالق جونیجو کی جئے سندھ محاذ سمیت عوامی ورکرز پارٹی، عوامی جمہوری پارٹی، سندھ مزاحمت تحریک، ہاری کمیٹی، انڈجنس رائٹس اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔
،تصویر کا ذریعہSINDH ACTION COMMITTEE
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے قیام سے لے کر یہ سب سے بڑا احتجاج تھا، جس میں سندھ بھر سے سیاسی کارکنان کے علاوہ ادیب، شاعر و دانشور بھی شریک تھے۔
سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ’بحریہ ٹاؤن انتظامیہ مقامی گوٹھوں اور آس پاس کی زمینوں پر قبضہ گیری بند کرے اور سپریم کورٹ نے اس کو جتنی زمین دی ہے اس پر اپنا منصوبہ محدود کرے۔ باقی اس کی تمام کارروائی غیر قانونی و غیر آئینی ہے جس میں پیپلز پارٹی کی حکومت ان کی مدد گار ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ کہ ’آصف زرداری دیکھ لیں ایک طرف سندھ کا قومی و سیاسی کارکن، ادیب و دانشور ہے دوسری جانب ملک ریاض ہیں۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔‘
،تصویر کا ذریعہAWAMI WORKERS PARTY
یاد رہے کہ مئی 2021 میں بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے ہیوی مشینری کے ہمراہ گبول گوٹھ سمیت دیگر آبادیوں کو مسمار کرنے کی کوشش کی تھی جس پر مقامی لوگوں نے مزاحمت کی اور اس دوران فائرنگ کی ویڈیوز سوشل میڈیل پر وائرل ہوئیں۔
سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے ایک پریس کانفرنس میں اس صورتحال پر سوال کیا گیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیراعلیٰ کو تحقیقات کے لیے کہا ہے۔
حکومت سندھ کے احکامات پر تحصیل دار عبدالحق چاوڑ، پٹواری انور حسین، پٹواری حبیب اللہ ہوت اور ایس ایچ او گڈاپ شعور احمد بنگش کو معطل کیا گیا تھا۔
اس سارے معاملے پر بحریہ ٹاؤن کی جانب سے گذشتہ ماہ کہا گیا تھا کہ انھوں نے کوئی بھی غیر قانونی اقدام نہیں اٹھایا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کچھ بلیک میلرز یہ معاملات پیدا کر رہے ہیں‘ جبکہ ’بحریہ ٹاؤن نے اپنے قریب کے گوٹھوں میں لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے ہیں۔‘
بحریہ ٹاؤن کے بیان مطابق انھوں نے ’سوشل میڈیا پر گمراہ ویڈیوز اور بے بنیاد الزامات کی مکمل تردید‘ کی تھی۔
صوبائی وزیر سید ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کے ادارے اپنی تحقیقات کر رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے مقامی منتخب اراکین بھی لوگوں سے رابطے میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ’کیوں چاہیں گے کہ لوگ بے گھر ہوں۔‘
سوشل میڈیا پر ردعمل
کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف کیے جانے والے احتجاج پر سوشل میڈیا پر صارفین گرما گرم بحث میں حصہ لے رہے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہ@SAADTAMIMI15
بحریہ ٹاؤن کراچی کے باہر ہونے والے احتجاج پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا صارف سعد تمیمی کا کہنا تھا کہ ’جہاں اس وقت سندھ کے عوام بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے خلاف زمینوں پر قبضے کے لیے مقامی افراد پر فائرنگ اور زبردستی زمین ہتھیانے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں وہیں ہمارے ’آزاد میڈیا‘ پر بھی سوالیہ نشان ہے، میں مختلف ٹی وی چینلز دیکھ رہا ہوں لیکن کوئی چینل اس مظاہرے کو نہیں دکھا رہا۔‘
صحافی و تجزیہ نگار مبشر زیدی نے بھی سندھ قوم پرست جماعتوں اور مقامی افراد کی جانب سے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے خلاف مظاہرہ کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ سندھ کے عوام بحریہ ٹاؤن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہ@XADEEJOURNALIST
جبکہ جواد خان نامی صارف نے مشتعل مظاہرین کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی میں ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بحریہ ٹاؤن میں آگ لگی ہوئی ہے، بہت سی عمارات کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور ہوائی فائرنگ کے واقعات بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ بھاری نفری بحریہ ٹاؤن کراچی کے باہر تعینات ہے۔ عوام محتاط رہے۔‘
،تصویر کا ذریعہ@JAGROKHAN
صحافی و اینکر محمد مالک نے بھی بحریہ ٹاؤن کراچی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کی ایک ویڈیو پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بحریہ ٹاؤن کراچی میں آج کے بہت سے مناظر میں سے ایک، مشتعل مظاہرین کا پاگل پن۔‘
،تصویر کا ذریعہ@MALICKVIEWS
بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف عدالتوں میں ماضی کے مقدمات
سنہ 2019 میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی طرف سے زمین کی خریداری میں مبینہ بدعنوانی کا معاملہ سامنے آنے پر اس کی انتظامیہ کو 460 ارب روپے قسط وار سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
اہم بعد میں بحریہ ٹاؤن نے عدالت سے درخواست کی کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث انھیں ادائیگی میں مہلت دی جائے لیکن عدالت نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ حکومت کا ماننا ہے کہ معشیت میں بہتری آ رہی ہے اور بحریہ ہاؤسنگ میں پلاٹوں اور مکانات کی پہلے سے بکنگ ہوچکی ہے۔
اسی طرح سندھ ہائی کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف ایک مدعی فیض محد گبول کے حق میں فیصلہ دیا گیا تھا۔
- ریاض سہیل
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
اپ ڈیٹ کی گئی 2 گھنٹے قبل
،تصویر کا ذریعہAAJIZ JAMALI
کراچی میں تعمیراتی کمپنی بحریہ ٹاؤن کی جانب سے مبینہ طور پر مقامی گوٹھوں کو مسمار کرنے کے خلاف سندھ کی قوم پرست جماعتوں، مزدور و کسان تنظیموں اور متاثرین کی جانب سے ’غیر قانونی قبضے چھڑوانے کے لیے‘ ہونے والے احتجاج کے دوران متعدد عمارتیں اور گاڑیاں نذرِ آتش کر دی گئی ہیں۔
کراچی پولیس نے بحریہ ٹاؤن میں ہنگامہ آرائی کے الزام میں 80 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا ہے، قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان میں ان کے کارکن شامل ہیں۔
ایک سینئر پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ جائے وقوع اور آس پاس سے ان افراد کو حراست میں لیا گیا ہے انھوں نے اس الزام کو مسترد کیا کہ خواتین بھی گرفتار افراد میں شامل ہیں ان کا کہنا تھا کہ کچھ خواتین کو تھوڑی دیر صرف روکا گیا تھا۔
پولیس افسر نے بتایا کہ پتھراؤ میں ’ایک ایس پی اور ایک ایس ایچ او بھی زخمی ہوئے ہیں، لہذا سرکار کی مدعیت میں مقدمہ دائر ہوگا جبکہ جن لوگوں کا نقصان ہوا ہے وہ اگر مقدمہ درج کرانا چاہیں تو وہ بھی دائر ہوں گے۔‘
سندھ یونائیڈ پارٹی کے ترجمان مخدوم شمس کا کہنا ہے کہ ان کے سو سے زائد کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ 15 سے زائد خواتین کو گڈاپ تھانے پر رکھا گیا ہے۔
سندھ ایکشن کمیٹی کے رہنما روشن جونیجو نے بی بی سی کو بتایا کہ قوم پرستوں کے اتحاد میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ گرفتاریوں اور تشدد کے خلاف 9 جولائی کو سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرہے کیے جائیں گے جبکہ سندھ اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے موقعے پر اسمبلی کا گھیراؤ ہوگا جس کی تاریخ کا اعلان جلد کردیا جائیگا۔
دوسری جانب بحریہ کے خلاف احتجاج نے بین الاقومی احتجاج کی صورت اختیار کرلی ہے، ورلڈ سندھی کانگریس کی جانب سے برطانیہ میں لندن، اور امریکہ میں نیویارک اور ھوسٹن میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔
ہنگامہ آرائی کب شروع ہوئی؟
اتوار کو بحریہ ٹاؤن کے سامنے ہونے والے مظاہرے میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے دوران نامعلوم افراد نے مرکزی دروازے کے باہر اور اندر واقع تعمیرات کے علاوہ چند موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی جبکہ پولیس نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے شدید شیلنگ کی۔
یہ ہنگامہ آرائی احتجاجی دھرنا سپر ہائی وے سے بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے کے باہر منتقل کیے جانے کے بعد شروع ہوا۔
مرکزی گیٹ کے سامنے احتجاج سے قبل مظاہرین نے سپر ہائی وے پر دھرنا دیا ہوا تھا جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی تھی۔ بعدازاں سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنما قادر مگسی نے پولیس حکام سے بات کی اور انھیں کہا کہ ’مظاہرین کو گیٹ کے سامنے دھرنا دینے دیا جائے تو وہ سپر ہائی کھول دیں گے‘ جس کے بعد انھیں دھرنے کی اجازت دے دی گئی۔‘
مرکزی دروازے کے سامنے احتجاج کے دوران نامعلوم افراد بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوگئے اور وہاں توڑ پھوڑ شروع کر دی جس کے بعد جلسہ گاہ سے اعلان کیا گیا کہ ’شرپسندوں کا تعلق ان سے نہیں ہے اور پولیس انھیں حراست میں لے۔ ‘
،تصویر کا ذریعہATIF HUSSAIN
توڑ پھوڑ کرنے والے ان افراد نے نہ صرف رکاوٹوں کو نذر آتش کیا بلکہ موقعے پر موجود گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگا دی۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران بحریہ ٹاؤن کے اندر واقع کم از کم دو عمارتوں سے دھواں اٹھتا بھی دیکھا گیا۔
اس ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔
سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ کا کہنا ہے کہ ’ہنگامہ آرائی کرنے والوں کا تعلق سندھ ایکشن کمیٹی سے نہیں ہے۔ وہ پرامن لوگ ہیں اور پرامن احتجاج میں یقین رکھتے ہیں‘۔
انھوں نے کہا کہ ’اس پر امن احتجاج کو بدنام کرنے کے لیے کچھ عناصر نے یہ اقدام کیا ہے۔‘
خیال رہے کہ سندھ ایکشن کمیٹی نے ہی سپر ہائی وے پر واقع بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے کے سامنے اتوار کو آٹھ گھنٹے کے لیے دھرنے کا اعلان کیا تھا جس میں دیگر سیاسی جماعتوں اور علاقائی تنظیموں نے شرکت کی حامی بھری۔
اس احتجاج کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس نے جگہ جگہ چوکیاں بھی قائم کیں جبکہ احتجاج میں شامل تنظیموں کا الزام ہے کہ بعض مقامات پر قافلوں کو روکا بھی گیا، جس کی صوبائی حکومت نے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے سکیورٹی کے انتظامات کیے تھے۔
سندھ کے صوبائی وزیر سید ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ ’اگر حکومت رکاوٹیں پیدا کرتی تو یہ قوم پرست دوست یہاں تک کیسے پہنچتے۔
انھوں نے کہا کہ ’قوم پرست، جے یو آئی اور سول سوسائٹی کے لوگ پُرامن لوگ ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ کوئی شرپسند اس صورتحال کا فائدہ لے۔ اسی سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہATIF HUSSAIN
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس کے بعد کراچی پولیس نے بحریہ ٹاؤن کے سکیورٹی انچارج سمیت دیگر اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جبکہ ایک ایس ایچ او کو معطل کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے بحریہ ٹاؤن نے موقف دیا تھا کہ ’مقامی بااثر سیاسی افراد اور لینڈ مافیا مل کر‘ انھیں ’سیاسی و مالی مفادات کی خاطر‘ بلیک میل کر رہے ہیں۔
دھرنے میں کون شامل اور اس کا مقصد کیا ہے؟
اس دھرنے میں جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ کی سندھ یونائیٹڈ پارٹی، قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی، ایاز لطیف پلیجو کی قومی عوامی تحریک، خالق جونیجو کی جئے سندھ محاذ سمیت عوامی ورکرز پارٹی، عوامی جمہوری پارٹی، سندھ مزاحمت تحریک، ہاری کمیٹی، انڈجنس رائٹس اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔
،تصویر کا ذریعہSINDH ACTION COMMITTEE
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے قیام سے لے کر یہ سب سے بڑا احتجاج تھا، جس میں سندھ بھر سے سیاسی کارکنان کے علاوہ ادیب، شاعر و دانشور بھی شریک تھے۔
سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ’بحریہ ٹاؤن انتظامیہ مقامی گوٹھوں اور آس پاس کی زمینوں پر قبضہ گیری بند کرے اور سپریم کورٹ نے اس کو جتنی زمین دی ہے اس پر اپنا منصوبہ محدود کرے۔ باقی اس کی تمام کارروائی غیر قانونی و غیر آئینی ہے جس میں پیپلز پارٹی کی حکومت ان کی مدد گار ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ کہ ’آصف زرداری دیکھ لیں ایک طرف سندھ کا قومی و سیاسی کارکن، ادیب و دانشور ہے دوسری جانب ملک ریاض ہیں۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔‘
،تصویر کا ذریعہAWAMI WORKERS PARTY
یاد رہے کہ مئی 2021 میں بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے ہیوی مشینری کے ہمراہ گبول گوٹھ سمیت دیگر آبادیوں کو مسمار کرنے کی کوشش کی تھی جس پر مقامی لوگوں نے مزاحمت کی اور اس دوران فائرنگ کی ویڈیوز سوشل میڈیل پر وائرل ہوئیں۔
سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے ایک پریس کانفرنس میں اس صورتحال پر سوال کیا گیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیراعلیٰ کو تحقیقات کے لیے کہا ہے۔
حکومت سندھ کے احکامات پر تحصیل دار عبدالحق چاوڑ، پٹواری انور حسین، پٹواری حبیب اللہ ہوت اور ایس ایچ او گڈاپ شعور احمد بنگش کو معطل کیا گیا تھا۔
اس سارے معاملے پر بحریہ ٹاؤن کی جانب سے گذشتہ ماہ کہا گیا تھا کہ انھوں نے کوئی بھی غیر قانونی اقدام نہیں اٹھایا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کچھ بلیک میلرز یہ معاملات پیدا کر رہے ہیں‘ جبکہ ’بحریہ ٹاؤن نے اپنے قریب کے گوٹھوں میں لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے ہیں۔‘
بحریہ ٹاؤن کے بیان مطابق انھوں نے ’سوشل میڈیا پر گمراہ ویڈیوز اور بے بنیاد الزامات کی مکمل تردید‘ کی تھی۔
صوبائی وزیر سید ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کے ادارے اپنی تحقیقات کر رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے مقامی منتخب اراکین بھی لوگوں سے رابطے میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ’کیوں چاہیں گے کہ لوگ بے گھر ہوں۔‘
سوشل میڈیا پر ردعمل
کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف کیے جانے والے احتجاج پر سوشل میڈیا پر صارفین گرما گرم بحث میں حصہ لے رہے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہ@SAADTAMIMI15
بحریہ ٹاؤن کراچی کے باہر ہونے والے احتجاج پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا صارف سعد تمیمی کا کہنا تھا کہ ’جہاں اس وقت سندھ کے عوام بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے خلاف زمینوں پر قبضے کے لیے مقامی افراد پر فائرنگ اور زبردستی زمین ہتھیانے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں وہیں ہمارے ’آزاد میڈیا‘ پر بھی سوالیہ نشان ہے، میں مختلف ٹی وی چینلز دیکھ رہا ہوں لیکن کوئی چینل اس مظاہرے کو نہیں دکھا رہا۔‘
صحافی و تجزیہ نگار مبشر زیدی نے بھی سندھ قوم پرست جماعتوں اور مقامی افراد کی جانب سے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے خلاف مظاہرہ کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ سندھ کے عوام بحریہ ٹاؤن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہ@XADEEJOURNALIST
جبکہ جواد خان نامی صارف نے مشتعل مظاہرین کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی میں ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بحریہ ٹاؤن میں آگ لگی ہوئی ہے، بہت سی عمارات کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور ہوائی فائرنگ کے واقعات بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ بھاری نفری بحریہ ٹاؤن کراچی کے باہر تعینات ہے۔ عوام محتاط رہے۔‘
،تصویر کا ذریعہ@JAGROKHAN
صحافی و اینکر محمد مالک نے بھی بحریہ ٹاؤن کراچی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کی ایک ویڈیو پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’بحریہ ٹاؤن کراچی میں آج کے بہت سے مناظر میں سے ایک، مشتعل مظاہرین کا پاگل پن۔‘
،تصویر کا ذریعہ@MALICKVIEWS
بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف عدالتوں میں ماضی کے مقدمات
سنہ 2019 میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی طرف سے زمین کی خریداری میں مبینہ بدعنوانی کا معاملہ سامنے آنے پر اس کی انتظامیہ کو 460 ارب روپے قسط وار سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
اہم بعد میں بحریہ ٹاؤن نے عدالت سے درخواست کی کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث انھیں ادائیگی میں مہلت دی جائے لیکن عدالت نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ حکومت کا ماننا ہے کہ معشیت میں بہتری آ رہی ہے اور بحریہ ہاؤسنگ میں پلاٹوں اور مکانات کی پہلے سے بکنگ ہوچکی ہے۔
اسی طرح سندھ ہائی کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف ایک مدعی فیض محد گبول کے حق میں فیصلہ دیا گیا تھا۔