ابن رضا
لائبریرین
برائے اصلاح بحضور جنابِ الف عین محمد یعقوب آسی سید عاطف علی و دیگر اربابِ سخن جو اصلاح فرمانا چاہیں
سنو تم کون ہو میری
بتاتی کیوں نہیں مجھ کو
کہو اے دل رُبا کچھ تو
ذرا یہ بھید تو کھو لو
سہانا خواب ہو میرا
یا کوئی آرزوئے دل
کہ تم انجان ہو کر بھی
بہت مانوس لگتی ہو
سنو اے اجنبی خواہش
یہ میرے دل کے بام و در
شکستہ ہیں ، بریدہ ہیں
یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں
یہاں کچھ روگ رہتے ہیں
مبادا بے خیالی میں
کِیا ہو منتخب تم نے
یہ درد انگیز سا رستہ
ابھی بھی وقت ہے باقی
ابھی بھی سوچ سکتی ہو
شکایت پھر نہ کوئی ہو
کہ الفت کا سفر جاناں
اگردشوار نکلا تو
کہیں اے ناز نیں تم کو
کوئی گھاؤ نہ دے جائے
کہ یہ جو زخم ہوتے ہیں
بہت بے چین رکھتے ہیں
کہ جن کو وقت کا مرہم
اگر بھرنا کبھی چاہے
تو بے حد دیر لگتی ہے
بہت تکلیف ہوتی ہے
یہ گھاؤ بھر بھی جائیں تو
نشانی چھوڑ جاتے ہیں
کہانی چھوڑ جاتے ہیں
ابھی بھی سوچ سکتی ہو
کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے
کہ پھر دوگام چلنا بھی
بہت مشکل نہ ہو جائے
محبت کی مسافت میں
عجب سے موڑ آتے ہیں
مسافر ہی سرِ منزل
ارادہ تو ڑ دیتے ہیں
سنو اے اجنبی خواہش
اگر اب بھی ارادہ ہے
اِسی رستے پہ چلنے کا
اِسی آتش میں جلنے کا
تو چپکے سے چلے آو
مری آغوش حاضر ہے
تمھارے ہی لیے جاناں
چلو یہ عہد کرتے ہیں
مصیبت ہو کہ راحت ہو
سبھی کچھ ساتھ جھیلیں گے
شبِ ظلمت مقدر ہو
کہ تپتی دھوپ سر پر ہو
نہ ہی ہم ساتھ چھوڑیں گے
نہ ہی ہم ہاتھ چھوڑیں گے
سنو تم کون ہو میری
بتاتی کیوں نہیں مجھ کو
کہو اے دل رُبا کچھ تو
ذرا یہ بھید تو کھو لو
سہانا خواب ہو میرا
یا کوئی آرزوئے دل
کہ تم انجان ہو کر بھی
بہت مانوس لگتی ہو
سنو اے اجنبی خواہش
یہ میرے دل کے بام و در
شکستہ ہیں ، بریدہ ہیں
یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں
یہاں کچھ روگ رہتے ہیں
مبادا بے خیالی میں
کِیا ہو منتخب تم نے
یہ درد انگیز سا رستہ
ابھی بھی وقت ہے باقی
ابھی بھی سوچ سکتی ہو
شکایت پھر نہ کوئی ہو
کہ الفت کا سفر جاناں
اگردشوار نکلا تو
کہیں اے ناز نیں تم کو
کوئی گھاؤ نہ دے جائے
کہ یہ جو زخم ہوتے ہیں
بہت بے چین رکھتے ہیں
کہ جن کو وقت کا مرہم
اگر بھرنا کبھی چاہے
تو بے حد دیر لگتی ہے
بہت تکلیف ہوتی ہے
یہ گھاؤ بھر بھی جائیں تو
نشانی چھوڑ جاتے ہیں
کہانی چھوڑ جاتے ہیں
ابھی بھی سوچ سکتی ہو
کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے
کہ پھر دوگام چلنا بھی
بہت مشکل نہ ہو جائے
محبت کی مسافت میں
عجب سے موڑ آتے ہیں
مسافر ہی سرِ منزل
ارادہ تو ڑ دیتے ہیں
سنو اے اجنبی خواہش
اگر اب بھی ارادہ ہے
اِسی رستے پہ چلنے کا
اِسی آتش میں جلنے کا
تو چپکے سے چلے آو
مری آغوش حاضر ہے
تمھارے ہی لیے جاناں
چلو یہ عہد کرتے ہیں
مصیبت ہو کہ راحت ہو
سبھی کچھ ساتھ جھیلیں گے
شبِ ظلمت مقدر ہو
کہ تپتی دھوپ سر پر ہو
نہ ہی ہم ساتھ چھوڑیں گے
نہ ہی ہم ہاتھ چھوڑیں گے
آخری تدوین: