سنو تم کون ہو میری

اوزان خیال

  • 10

    Votes: 0 0.0%
  • 10

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    0

ابن رضا

لائبریرین
برائے اصلاح بحضور جنابِ الف عین محمد یعقوب آسی سید عاطف علی و دیگر اربابِ سخن جو اصلاح فرمانا چاہیں
سنو تم کون ہو میری
بتاتی کیوں نہیں مجھ کو
کہو اے دل رُبا کچھ تو
ذرا یہ بھید تو کھو لو
سہانا خواب ہو میرا
یا کوئی آرزوئے دل
کہ تم انجان ہو کر بھی
بہت مانوس لگتی ہو
سنو اے اجنبی خواہش
یہ میرے دل کے بام و در
شکستہ ہیں ، بریدہ ہیں
یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں
یہاں کچھ روگ رہتے ہیں
مبادا بے خیالی میں
کِیا ہو منتخب تم نے
یہ درد انگیز سا رستہ
ابھی بھی وقت ہے باقی
ابھی بھی سوچ سکتی ہو
شکایت پھر نہ کوئی ہو
کہ الفت کا سفر جاناں
اگردشوار نکلا تو
کہیں اے ناز نیں تم کو
کوئی گھاؤ نہ دے جائے
کہ یہ جو زخم ہوتے ہیں
بہت بے چین رکھتے ہیں
کہ جن کو وقت کا مرہم
اگر بھرنا کبھی چاہے
تو بے حد دیر لگتی ہے
بہت تکلیف ہوتی ہے
یہ گھاؤ بھر بھی جائیں تو
نشانی چھوڑ جاتے ہیں
کہانی چھوڑ جاتے ہیں
ابھی بھی سوچ سکتی ہو
کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے
کہ پھر دوگام چلنا بھی
بہت مشکل نہ ہو جائے
محبت کی مسافت میں
عجب سے موڑ آتے ہیں
مسافر ہی سرِ منزل
ارادہ تو ڑ دیتے ہیں
سنو اے اجنبی خواہش
اگر اب بھی ارادہ ہے
اِسی رستے پہ چلنے کا
اِسی آتش میں جلنے کا
تو چپکے سے چلے آو
مری آغوش حاضر ہے
تمھارے ہی لیے جاناں
چلو یہ عہد کرتے ہیں
مصیبت ہو کہ راحت ہو
سبھی کچھ ساتھ جھیلیں گے
شبِ ظلمت مقدر ہو
کہ تپتی دھوپ سر پر ہو
نہ ہی ہم ساتھ چھوڑیں گے
نہ ہی ہم ہاتھ چھوڑیں گے
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
برائے اصلاح بحضور جنابِ الف عین محمد یعقوب آسی سید عاطف علی و دیگر اربابِ سخن جو اصلاح فرمانا چاہیں
سنو تم کون ہو میرے
بتاتے کیوں نہیں مجھ کو
کہو اے دل رُبا کچھ تو
ذرا یہ بھید تو کھو لو
سہانا خواب ہو میرا
یا کوئی آرزو ء دل
کہ تم انجان ہو کر بھی
بہت مانوس لگتے ہو
سنو اے اجنبی خواہش
یہ میرے دل کے بام و در
شکستہ ہیں ، بریدہ ہیں
یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں
یہاں کچھ روگ رہتے ہیں
کہیں تم بھول کر رستہ
ادھر کو آ نہیں نکلے؟
ابھی بھی وقت ہے باقی
ابھی بھی سوچ سکتے ہو
شکایت پھر نہ کوئی ہو
کہ رستہ چن لیا ہے جو
اگر پر خار نکلا تو
کہیں اے ناز نیں تجھ کو
کوئی گھاؤ نہ دے جائے
کہ یہ جو زخم ہوتے ہیں

بہت بے چین رکھتے ہیں
کہ جن کو وقت کا مرہم
اگر بھرنا کبھی چاہے
تو بے حد دیر لگتی ہے
بہت تکلیف ہوتی ہے
یہ گھاؤ بھر بھی جائیں تو
نشانی چھوڑ جاتے ہیں
کہانی چھوڑ جاتے ہیں
ابھی بھی سوچ سکتے ہو
کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے
کہ پھر دوگام چلنا بھی
بہت مشکل نہ ہو جائے
محبت کی مسافت میں
عجب سے موڑ آتے ہیں
مسافر ہی سرِ منزل
ارادہ تو ڑ دیتے ہیں
سنو اے اجنبی خواہش
اگر اب بھی ارادہ ہے
اِسی رستے پہ چلنے کا
اِسی آتش میں جلنے کا
تو چپکے سے چلے آو
مری آغوش حاضر ہے
کہ اب سے یہ ترا گھر ہے
بھلے ہی جو بھی ہو جاناں
سبھی کچھ ساتھ جھیلیں گے
شبِ ظلمت مقدر ہو
یا تپتی دھوپ دلبر ہو
نہیں ہم ساتھ چھوڑیں گے
نہیں ہم ہاتھ چھوڑیں گے
بہت اچھے اشعار ہیں ۔ چوں کہ نظم میں بنیادی طور پہ لہجہ سلیس رکھا گیا ہے۔تو اس کی مناسبت سے بہت معمولی نوعیت کی ناہمواریاں کہیں کہیں محسوس ہو رہی ہیں۔مثلا"
بھلے ہی جو بھی ہو جاناں۔۔یہاں ۔ہی ۔اور۔ بھی۔ دونوں معنوں میں قدرے متصادم سے لگ ہے ہیں ۔ بقیہ نظم کے سلیس لہجے کی مناسبت سے ۔یوں کہا جاسکتا ہے ۔بھلے سےکچھ بھی ہو جاناں۔
اسی طرح ۔۔نہیں ہم ۔۔کی جگہ ۔کبھی نہ ۔رکھا جاسکتا ہے۔۔۔مثلا"۔۔کبھی نہ ہاتھ چھوڑیں گے۔بھی نہ ساتھ چھوڑیں گے۔ایک اور جگہ گھر کے لئے تیرا ستعمال کیا گیا ہے۔ اس کی جگہ پچھلے اشعار کی مناسبت سے۔تمہارا موزوں کیا جائے تو بہتر ہو۔۔۔اس نظر سے اگر نظر ثانی کی جائے تو اچھا ہو۔۔۔
 
برائے اصلاح بحضور جنابِ الف عین محمد یعقوب آسی سید عاطف علی و دیگر اربابِ سخن جو اصلاح فرمانا چاہیں
سنو تم کون ہو میرے
بتاتے کیوں نہیں مجھ کو
کہو اے دل رُبا کچھ تو
ذرا یہ بھید تو کھو لو
سہانا خواب ہو میرا
یا کوئی آرزو ء دل
کہ تم انجان ہو کر بھی
بہت مانوس لگتے ہو
سنو اے اجنبی خواہش
یہ میرے دل کے بام و در
شکستہ ہیں ، بریدہ ہیں
یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں
یہاں کچھ روگ رہتے ہیں
کہیں تم بھول کر رستہ
ادھر کو آ نہیں نکلے؟
ابھی بھی وقت ہے باقی
ابھی بھی سوچ سکتے ہو
شکایت پھر نہ کوئی ہو
کہ رستہ چن لیا ہے جو
اگر پر خار نکلا تو
کہیں اے ناز نیں تجھ کو
کوئی گھاؤ نہ دے جائے
کہ یہ جو زخم ہوتے ہیں

بہت بے چین رکھتے ہیں
کہ جن کو وقت کا مرہم
اگر بھرنا کبھی چاہے
تو بے حد دیر لگتی ہے
بہت تکلیف ہوتی ہے
یہ گھاؤ بھر بھی جائیں تو
نشانی چھوڑ جاتے ہیں
کہانی چھوڑ جاتے ہیں
ابھی بھی سوچ سکتے ہو
کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے
کہ پھر دوگام چلنا بھی
بہت مشکل نہ ہو جائے
محبت کی مسافت میں
عجب سے موڑ آتے ہیں
مسافر ہی سرِ منزل
ارادہ تو ڑ دیتے ہیں
سنو اے اجنبی خواہش
اگر اب بھی ارادہ ہے
اِسی رستے پہ چلنے کا
اِسی آتش میں جلنے کا
تو چپکے سے چلے آو
مری آغوش حاضر ہے
کہ اب سے یہ ترا گھر ہے
بھلے ہی جو بھی ہو جاناں
سبھی کچھ ساتھ جھیلیں گے
شبِ ظلمت مقدر ہو
یا تپتی دھوپ دلبر ہو
نہیں ہم ساتھ چھوڑیں گے
نہیں ہم ہاتھ چھوڑیں گے
چند موٹی موٹی باتیں۔
ہیئت کے لحاظ سے یہ نظمِ معرٰی ہے، اس میں قافیے کی پابندی نہیں ہوتی۔ ہاں آپ چاہیں تو کہیں کہیں قافیہ لے آئیں تاہم اس طرح کہ آپ کا اظہارزد میں نہ آئے۔ قافیے کی مدد سے حسن پیدا کرنے کی کوشش معانی یا کسی دوسرےاعتبار سے مسئلہ بھی بن سکتی ہے۔ جیسے یہاں : ’’یا تپتی دھوپ دلبر ہو‘‘۔ قافیے کو چھوڑ کر آپ بہتر مضمون بندی کر سکتے تھے۔ اسی مصرعے میں ’’یا‘‘ کا الف بھی گرانا پڑ رہا ہے، کیوں نہ اس کا ہم معنی ’’کہ‘‘ لایا جائے کہ اس کی ’’ہ‘‘ گرانا یہاں ویسا ثقیل نہ ہوتا۔
کہیں کہیں یہ تکرار بہت اچھی لگ رہی ہے: ’’نشانی چھوڑ جاتے ہیں ۔۔۔ کہانی چھوڑ جاتے ہیں‘‘
اس نظم میں خطاب ’’خواہش‘‘ سے ہے جو مؤنث ہے اور اس کو علامتی طور پر ’’دل ربا‘‘ اور ’’نازنین‘‘ بھی کہا گیا۔ تو پھر اس کے مذکر کا صیغہ کیوں۔ یا تو ’’خواہش کی اس دل ربا نازنین‘‘ کو چھپا لیجئے (جو یقیناً بہت مشکل پیدا کرے گا) یا پھر سیدھا سیدھا تانیث کا صیغہ لائیے۔
’’آرزوئے دل‘‘ ایسی تراکیب میں صرف ہمزہ کی بجائے ’’ئے‘‘ لکھنا بہتر ہے۔
کچھ مصرعوں کی لفظیات کھٹکتی ہیں: ’’ادھر تو آ نہیں نکلے‘‘، ’’ابھی بھی‘‘ کا استعمال، ’’بھلے ہی جو بھی ہو‘‘، آخری دونوں مصرعوں میں ’’نہیں‘‘ کی نشست؛ مزید خود دیکھ لیجئےگا۔

مرکزی خیال عمدہ ہے، بُنَت اچھی اور سادہ ہے، ہیئت کا انتخاب بھی مناسب ہے، معنوی سطح پر اس میں کوئی سقم نہیں اگر لفظیات کو درست کر لیں۔
 
آخری تدوین:
بہت خوبصورت نظم ہے جناب ۔ داد قبول فرمائیے۔

بھلے ہی جو بھی ہو جاناں۔۔یہاں ۔ہی ۔اور۔ بھی۔ دونوں معنوں میں قدرے متصادم سے لگ ہے ہیں ۔ بقیہ نظم کے سلیس لہجے کی مناسبت سے ۔یوں کہا جاسکتا ہے ۔بھلے سےکچھ بھی ہو جاناں۔

کچھ مصرعوں کی لفظیات کھٹکتی ہیں: ’’ادھر تو آ نہیں نکلے‘‘، ’’ابھی بھی‘‘ کا استعمال، ’’بھلے ہی جو بھی ہو‘‘، آخری دونوں مصرعوں میں ’’نہیں‘‘ کی نشست؛ مزید خود دیکھ لیجئےگا۔

لفظ ’’بھلے‘‘ نظم میں جن معنوں میں استعمال ہوا ہے ، ان معنوں میں سلیس اردو میں مستعمل نہیں ہے۔استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی نے اس طرف اشارہ بھی کیا ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت اچھے اشعار ہیں ۔ چوں کہ نظم میں بنیادی طور پہ لہجہ سلیس رکھا گیا ہے۔تو اس کی مناسبت سے بہت معمولی نوعیت کی ناہمواریاں کہیں کہیں محسوس ہو رہی ہیں۔مثلا"
بھلے ہی جو بھی ہو جاناں۔۔یہاں ۔ہی ۔اور۔ بھی۔ دونوں معنوں میں قدرے متصادم سے لگ ہے ہیں ۔ بقیہ نظم کے سلیس لہجے کی مناسبت سے ۔یوں کہا جاسکتا ہے ۔بھلے سےکچھ بھی ہو جاناں۔
اسی طرح ۔۔نہیں ہم ۔۔کی جگہ ۔کبھی نہ ۔رکھا جاسکتا ہے۔۔۔ مثلا"۔۔کبھی نہ ہاتھ چھوڑیں گے۔بھی نہ ساتھ چھوڑیں گے۔ایک اور جگہ گھر کے لئے تیرا ستعمال کیا گیا ہے۔ اس کی جگہ پچھلے اشعار کی مناسبت سے۔تمہارا موزوں کیا جائے تو بہتر ہو۔۔۔ اس نظر سے اگر نظر ثانی کی جائے تو اچھا ہو۔۔۔
نوازش جناب، نہایت مناسب تجاویز ہیں ۔ دوبارہ دیکھتا ہوں
 

ابن رضا

لائبریرین
چند موٹی موٹی باتیں۔
ہیئت کے لحاظ سے یہ نظمِ معرٰی ہے، اس میں قافیے کی پابندی نہیں ہوتی۔ ہاں آپ چاہیں تو کہیں کہیں قافیہ لے آئیں تاہم اس طرح کہ آپ کا اظہارزد میں نہ آئے۔ قافیے کی مدد سے حسن پیدا کرنے کی کوشش معانی یا کسی دوسرےاعتبار سے مسئلہ بھی بن سکتی ہے۔ جیسے یہاں : ’’یا تپتی دھوپ دلبر ہو‘‘۔ قافیے کو چھوڑ کر آپ بہتر مضمون بندی کر سکتے تھے۔ اسی مصرعے میں ’’یا‘‘ کا الف بھی گرانا پڑ رہا ہے، کیوں نہ اس کا ہم معنی ’’کہ‘‘ لایا جائے کہ اس کی ’’ہ‘‘ گرانا یہاں ویسا ثقیل نہ ہوتا۔
کہیں کہیں یہ تکرار بہت اچھی لگ رہی ہے: ’’نشانی چھوڑ جاتے ہیں ۔۔۔ کہانی چھوڑ جاتے ہیں‘‘
اس نظم میں خطاب ’’خواہش‘‘ سے ہے جو مؤنث ہے اور اس کو علامتی طور پر ’’دل ربا‘‘ اور ’’نازنین‘‘ بھی کہا گیا۔ تو پھر اس کے مذکر کا صیغہ کیوں۔ یا تو ’’خواہش کی اس دل ربا نازنین‘‘ کو چھپا لیجئے (جو یقیناً بہت مشکل پیدا کرے گا) یا پھر سیدھا سیدھا تانیث کا صیغہ لائیے۔
’’آرزوئے دل‘‘ ایسی تراکیب میں صرف ہمزہ کی بجائے ’’ئے‘‘ لکھنا بہتر ہے۔
کچھ مصرعوں کی لفظیات کھٹکتی ہیں: ’’ادھر تو آ نہیں نکلے‘‘، ’’ابھی بھی‘‘ کا استعمال، ’’بھلے ہی جو بھی ہو‘‘، آخری دونوں مصرعوں میں ’’نہیں‘‘ کی نشست؛ مزید خود دیکھ لیجئےگا۔

مرکزی خیال عمدہ ہے، بُنَت اچھی اور سادہ ہے، ہیئت کا انتخاب بھی مناسب ہے، معنوی سطح پر اس میں کوئی سقم نہیں اگر لفظیات کو درست کر لیں۔
شکریہ استاد ِ محترم، دوبارہ سعی کر کے حاضر خدمت ہوتا ہوں ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت خوبصورت نظم ہے جناب ۔ داد قبول فرمائیے۔





لفظ ’’بھلے‘‘ نظم میں جن معنوں میں استعمال ہوا ہے ، ان معنوں میں سلیس اردو میں مستعمل نہیں ہے۔استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی نے اس طرف اشارہ بھی کیا ہے۔
تعریف کے لیے شکریہ جناب، آپ کی تجویز بھی موزوں ہے، کچھ بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ خوش رہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت خوبصورت نظم ہے جناب ۔ داد قبول فرمائیے۔
لفظ ’’بھلے‘‘ نظم میں جن معنوں میں استعمال ہوا ہے ، ان معنوں میں سلیس اردو میں مستعمل نہیں ہے۔استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی نے اس طرف اشارہ بھی کیا ہے۔
محترم محمد خلیل بھائی۔ بھلے کا لفظ اگر لام مشدد سے استعمال کیا جائے-جیسا کہ بچے کرتے ہیں:) تو اسے سلاست سے دور کہا جاسکتا ہے۔لیکن بھلے کو اگر اسی تلفظ سے برتا جائے تو یہ علمی ،ادبی ،معیاری یاقانونی لہجے سے دور ہو سکتا ہے کیوں کہ اس کے کئی محاوراتی متبادل موجود ہیں ۔ لیکن سلاست کے اعتبار سے (میری ذاتی رائے میں) بالکل موافق ہے۔واضح رہے کہ سلاست اصلی معانی تحریر کی آسانی ۔روانی اور سہولت کے ہیں۔۔۔ایک ذاتی رائے۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
محترم محمد خلیل بھائی۔ بھلے کا لفظ اگر لام مشدد سے استعمال کیا جائے-جیسا کہ بچے کرتے ہیں:) تو اسے سلاست سے دور کہا جاسکتا ہے۔لیکن بھلے کو اگر اسی تلفظ سے برتا جائے تو یہ علمی ،ادبی ،معیاری یاقانونی لہجے سے دور ہو سکتا ہے کیوں کہ اس کے کئی محاوراتی متبادل موجود ہیں ۔ لیکن سلاست کے اعتبار سے (میری ذاتی رائے میں) بالکل موافق ہے۔واضح رہے کہ سلاست اصلی معانی تحریر کی آسانی ۔روانی اور سہولت کے ہیں۔۔۔ ایک ذاتی رائے۔
میری ایک سابقہ غزل میں بھی اس لفظ کی بابت جنابِ الف عین کا فرمان درجذیل ہے

اچھی غزل ہے، جیسا کہ ذاتی پیغام میں کہا تھا میں نے۔

بھلے آنسو کی صورت ہی وہ چند لمحے
چند کی جگہ کچھ تو کیا جا سکتا ہے، لیکن محض ’بھلے‘ محاورہ نہیں، ’بھلے ہیُ درست ہوتا ہے۔ الفاظ کو بدلنے کی کوشش کریں۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
اس نظم میں خطاب ’’خواہش‘‘ سے ہے جو مؤنث ہے اور اس کو علامتی طور پر ’’دل ربا‘‘ اور ’’نازنین‘‘ بھی کہا گیا۔ تو پھر اس کے مذکر کا صیغہ کیوں۔ یا تو ’’خواہش کی اس دل ربا نازنین‘‘ کو چھپا لیجئے (جو یقیناً بہت مشکل پیدا کرے گا) یا پھر سیدھا سیدھا تانیث کا صیغہ لائیے۔

استادِ محترم دلربا و نازنیں تو مذکر بھی مستعمل ہیں ؟؟ :unsure: البتہ خواہش میں ردوبدل لازم محسوس ہو رہا ہے۔ کیونکہ یہاں تانیث کا صیغہ لانا کچھ معیوب سا معلوم ہو رہا اورنظم بے آب و تاب ہو رہی ہے۔برائے مہربانی مذکر کو ترجیحی نظر سےدیکھ کر اصلاح تجویز کریں
 

ابن رضا

لائبریرین
محترم سید عاطف علی صاحب آپ کی تجاویز کے مطابق تدوین کی ہے نظر ثانی فرمائیں ، آخری تجویز میں عار ہے کہ وزن خراب ہوتا ہے۔ کبھی نہ میں نہ کو ہمیشہ ہجائے کوتاہ باندھا جاتا ہے اِس صورت میں صوتی ثقالت تو دور ہو جاتی ہے مگر وزن میں فرق آ جاتا ہے۔
 
استادِ محترم دلربا و نازنیں تو مذکر بھی مستعمل ہیں ؟؟ :unsure: البتہ خواہش میں ردوبدل لازم محسوس ہو رہا ہے۔ کیونکہ یہاں تانیث کا صیغہ لانا کچھ معیوب سا معلوم ہو رہا اورنظم بے آب و تاب ہو رہی ہے۔برائے مہربانی مذکر کو ترجیحی نظر سےدیکھ کر اصلاح تجویز کریں
اس کو پورے سیاق و سباق میں دیکھئے۔
سنو اے اجنبی خواہش
۔۔۔
۔۔۔
کہیں تم بھول کر رستہ
ادھر کو آ نہیں نکلے؟
میرے نزدیک تو خواہش مؤنث ہے۔ اور خطاب بھی آپ کا اسی مؤنث سے ہے۔ باقی آپ جانئے! جو بھی ترجیحات متعین کیجئے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بھلے ہی کے بجائے ’’ بلا سے‘‘ کی ترکیب استعمال کی جاسکتی ہے۔بقول فیض
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے​
بجا ارشاد، لیکن ’’بھلے‘‘ اور ’’بلا سے‘‘ ان کی معنویت میں تھوڑا سا فرق ہے نا، محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔
آپ کی رائے یقیناً صائب تر ہو گی۔ اپنی تشفی چاہتا ہوں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
جی استاد محترم محمد یعقوب آسی نظر ثانی فرمائیں

سنو تم کون ہو میری
بتاتی کیوں نہیں مجھ کو
کہو اے دل رُبا کچھ تو
ذرا یہ بھید تو کھو لو
سہانا خواب ہو میرا
یا کوئی آرزو
ئے دل
کہ تم انجان ہو کر بھی
بہت مانوس لگتی ہو
سنو اے اجنبی خواہش
یہ میرے دل کے بام و در
شکستہ ہیں ، بریدہ ہیں
یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں
یہاں کچھ روگ رہتے ہیں

مبادا بے دھیانی میں
کِیا ہو منتخب تم نے
یہ درد انگیز سا رستہ

ابھی بھی وقت ہے باقی
ابھی بھی سوچ سکتی ہو
شکایت پھر نہ کوئی ہو

کہ الفت کا سفر جاناں
اگردشوار نکلا تو
کہیں اے ناز نیں
تم کو
کوئی گھاؤ نہ دے جائے
کہ یہ جو زخم ہوتے ہیں
بہت بے چین رکھتے ہیں
کہ جن کو وقت کا مرہم
اگر بھرنا کبھی چاہے
تو بے حد دیر لگتی ہے
بہت تکلیف ہوتی ہے
یہ گھاؤ بھر بھی جائیں تو
نشانی چھوڑ جاتے ہیں
کہانی چھوڑ جاتے ہیں
ابھی بھی سوچ سکتی ہو
کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے
کہ پھر دوگام چلنا بھی
بہت مشکل نہ ہو جائے
محبت کی مسافت میں
عجب سے موڑ آتے ہیں
مسافر ہی سرِ منزل
ارادہ تو ڑ دیتے ہیں
سنو اے اجنبی خواہش
اگر اب بھی ارادہ ہے
اِسی رستے پہ چلنے کا
اِسی آتش میں جلنے کا
تو چپکے سے چلے آو
مری آغوش حاضر ہے

تمھارے ہی لیے جاناں
چلو یہ عہد کرتے ہیں
مصیبت ہو کہ راحت ہو
سبھی کچھ ساتھ جھیلیں گے

شبِ ظلمت مقدر ہو
کہ تپتی دھوپ سر پر ہو
نہ ہی ہم ساتھ چھوڑیں گے
نہ ہی ہم ہاتھ چھوڑیں گے
 
آخری تدوین:
Top