سنو جاناں!

سنو جاناں!
چلو اب ھم سو جاتے ھیں
خوابوں کی ایسی دنیا میں کھو جاتے ھیں
جھاں تتلیاں شھروں کی مکین ھوں
جھاں جگنوں رنگوں سے کھیلتے ھوں
جھان احساس آنکھوں سے ٹپک کر
قلب کے پیالے میں گرتے ھوں
جھاں تم اور میں امن کے باسی ھوں
اور ھر شے میں بھی تازگی ھو
مگر اک شرط ھوتی ھے
اس بستی کے مکینوں کے واسطے
کھ غفلت کی نیند سے یھاں کے رنگ اڑجاتے ھیں
پرندوں کے پر کٹ جاتے ھیں
شجر سے پھول گر جاتے ھیں
آسمان خون برسانے لگتا ھے
اور دریا بھی سرخ ھو جاتے ھیں
اب ھمیں اس رھ گزرنا ھے
جھاں کے رنگ باقی ھوں!

میں نے سنا ھے
کھ حقیقت خوابوں کے
رنگوں سے ھی سینچی جاتی ھے
سنو جاناں!
چلو اب ھم سو جاتے ھیں!
عنبرین ریحان
 

شمشاد

لائبریرین
عنبرین میں نے آپ کا کلام "اصلاح سخن" میں منتقل کر دیا ہے۔

آپ حرف ھ کی بجائے گول ہ، جو کہ انگریزی کے حرف او 'o' پر ہے، اس کا استعمال کریں۔
 
عنبرین میں نے آپ کا کلام "اصلاح سخن" میں منتقل کر دیا ہے۔

آپ حرف ھ کی بجائے گول ہ، جو کہ انگریزی کے حرف او 'o' پر ہے، اس کا استعمال کریں۔


شمشاد بھیا یہ تھا کہاں؟ میرے خیال سے تو اسے نثری شاعری کے زمرے میں ڈالدیتے تو بہتر تھا.

ویسے خیالات اچھے ہیں محترمہ لے.
 

سید ذیشان

محفلین
میں نے محسوس کیا ہے کہ نئے آنے والے شاعروں (خاص طور پر جو عروض سے ناواقف ہوں) کو اس طرح کی تکنیکیات میں نہیں پھنسانا چاہیے۔ اس سے بہت discouragement ملتی ہے۔ اور اکثر لوگ اسی ماحول کی وجہ سے محفل کا دوبارہ رخ نہیں کرتے۔

ہر کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ عروض سیکھے اور موذوں شاعری کرے۔ شاعری تو اظہارِ خیال کا ایک طریقہ کار ہے۔ کم از کم نئے آنے والوں کیساتھ ہمیں اچھے طریقے سے پیش آنا چاہیے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میں نے محسوس کیا ہے کہ نئے آنے والے شاعروں (خاص طور پر جو عروض سے ناواقف ہوں) کو اس طرح کی تکنیکیات میں نہیں پھنسانا چاہیے۔ اس سے بہت discouragement ملتی ہے۔ اور اکثر لوگ اسی ماحول کی وجہ سے محفل کا دوبارہ رخ نہیں کرتے۔

ہر کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ عروض سیکھے اور موذوں شاعری کرے۔ شاعری تو اظہارِ خیال کا ایک طریقہ کار ہے۔ کم از کم نئے آنے والوں کیساتھ ہمیں اچھے طریقے سے پیش آنا چاہیے۔

بالکل ایسا ہی جناب، شروع شوع میں تو میں خود محفل پہ آتے ہوئے ڈرتا ہے، اور ایک عرصے تک عروض کو ہاتھ نہیں لگایا مگر پھر خرم بھائی کی بحر متقارب والی کتاب پڑھ کے کچھ حوصلہ ہوا۔
 
میں نے محسوس کیا ہے کہ نئے آنے والے شاعروں (خاص طور پر جو عروض سے ناواقف ہوں) کو اس طرح کی تکنیکیات میں نہیں پھنسانا چاہیے۔ اس سے بہت discouragement ملتی ہے۔ اور اکثر لوگ اسی ماحول کی وجہ سے محفل کا دوبارہ رخ نہیں کرتے۔

ہر کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ عروض سیکھے اور موذوں شاعری کرے۔ شاعری تو اظہارِ خیال کا ایک طریقہ کار ہے۔ کم از کم نئے آنے والوں کیساتھ ہمیں اچھے طریقے سے پیش آنا چاہیے۔
بالکل ایسا ہی جناب، شروع شوع میں تو میں خود محفل پہ آتے ہوئے ڈرتا ہے، اور ایک عرصے تک عروض کو ہاتھ نہیں لگایا مگر پھر خرم بھائی کی بحر متقارب والی کتاب پڑھ کے کچھ حوصلہ ہوا۔

میرا سیلولر سوشل نیٹورک پے روز ایسے دسیوں لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو بیچارے اپنے آپ کو شاعر سمجھتے ہیں لیکن شاعری کا ”ش“ بھی نہیں آتا۔ انہیں جا کر اگر کوئی کہہ بھی دے کہ بھئی با وزن شعر کہیں تو کہتے ہیں میاں انتہا پسند نا بنو۔ شعر کہنے کے لئے کچھ سمجھنے کی ضرورت نہیں۔
غلط سوچ ہے۔
سعر کہنا اتنا آسان نا کسی دور میں رہا ہے نہ رہے گا کے بنا سیکھے اور جانے آجائے۔
ورنہ ان لوگوں کا کیا ہوگا ( الف عین شاکرالقادری محمد وارث یا اور بہت سے شعرا جنہوں نے اپنی زندگیاں زبان کی خدمت کرنے میں لگا دی ہیں؟) جو محنتیں کر کے کسی مقام پے پہنچتے ہیں؟
 

سید ذیشان

محفلین
میرا سیلولر سوشل نیٹورک پے روز ایسے دسیوں لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو بیچارے اپنے آپ کو شاعر سمجھتے ہیں لیکن شاعری کا ”ش“ بھی نہیں آتا۔ انہیں جا کر اگر کوئی کہہ بھی دے کہ بھئی با وزن شعر کہیں تو کہتے ہیں میاں انتہا پسند نا بنو۔ شعر کہنے کے لئے کچھ سمجھنے کی ضرورت نہیں۔
غلط سوچ ہے۔
سعر کہنا اتنا آسان نا کسی دور میں رہا ہے نہ رہے گا کے بنا سیکھے اور جانے آجائے۔
ورنہ ان لوگوں کا کیا ہوگا ( الف عین شاکرالقادری محمد وارث یا اور بہت سے شعرا جنہوں نے اپنی زندگیاں زبان کی خدمت کرنے میں لگا دی ہیں؟) جو محنتیں کر کے کسی مقام پے پہنچتے ہیں؟

بات یہ ہے کہ عروض کا علم نصاب کی کتابوں میں نہیں پڑھایا جاتا۔ اس وجہ سے لوگ اس کو عموماً استعمال نہیں کرتے۔ مجھے بھی یہاں آ کر اس کا معلوم ہوا تھا۔ اچھے شاعر ضروری نہیں ہے کہ پیدا ہوتے ساتھ ہی موذوں کلام کہنا شروع کر دیں۔ ان چیزوں پر وقت لگتا ہے۔ اور شاعری صرف علم عروض تک ہی تو محدود نہیں ہے۔ یہ کون کہے گا کہ نثری نظمیں بھی اعلیٰ خیالات اور شاعری کی خصوصیات سے بھرپور نہیں ہو سکتیں؟
انگریزی کا تو اکثر کلام بحر وغیرہ کو پہچانتا ہی نہیں ہے لیکن اس میں بہت کمال قسم کی شاعری کی گئی ہے۔
میرے خیال میں تو یہ تنگ نظری ہے کہ چونکہ ہم عروض سے واقف ہیں تو اس کی بنا پر اس سے ناواقٍف لوگوں کو اپنے سے کم تر سمجھیں۔
باقی ہر کسی کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ اور میرے نقطہ نظر سے آپ کو اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ جو کہ ایک مثبت بات ہے۔
 
بات یہ ہے کہ عروض کا علم نصاب کی کتابوں میں نہیں پڑھایا جاتا۔ اس وجہ سے لوگ اس کو عموماً استعمال نہیں کرتے۔ مجھے بھی یہاں آ کر اس کا معلوم ہوا تھا۔ اچھے شاعر ضروری نہیں ہے کہ پیدا ہوتے ساتھ ہی موذوں کلام کہنا شروع کر دیں۔ ان چیزوں پر وقت لگتا ہے۔ اور شاعری صرف علم عروض تک ہی تو محدود نہیں ہے۔ یہ کون کہے گا کہ نثری نظمیں بھی اعلیٰ خیالات اور شاعری کی خصوصیات سے بھرپور نہیں ہو سکتیں؟
انگریزی کا تو اکثر کلام بحر وغیرہ کو پہچانتا ہی نہیں ہے لیکن اس میں بہت کمال قسم کی شاعری کی گئی ہے۔
میرے خیال میں تو یہ تنگ نظری ہے کہ چونکہ ہم عروض سے واقف ہیں تو اس کی بنا پر اس سے ناواقٍف لوگوں کو اپنے سے کم تر سمجھیں۔
باقی ہر کسی کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ اور میرے نقطہ نظر سے آپ کو اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ جو کہ ایک مثبت بات ہے۔

عروض کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔ موزوں طبع ہونا ضروری ہے۔ ورنہ بات کتنی ہی شاعرانہ کیوں نا ہو وہ نثر نگاری کے زمرے میں ہی رہتی ہے۔ اور بھر حال نثر کتنی ہی عمدہ الفاظ میں کیوں نہ ہو شاعری شاعری ہی ہے ۔
عروض تو میں بھی نہیں جانتا جناب۔ لیکن پھر بھی اساتذہ کی نظر میں میرے چند ناقص اشعار کسی بحر میں ضرور ہوتے ہیں۔ اسی کا نام موزوں طبع ہے شاید۔
 

شمشاد

لائبریرین
کوئی بھی علم سیکھنے کے لیے محنت تو کرنی پڑتی ہے۔ اگر بغیر محنت کے شاعری کریں گے تو وصی شاہ کی شاعری سُننے کو ملا کرے گی۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کوئی بھی علم سیکھنے کے لیے محنت تو کرنی پڑتی ہے۔ اگر بغیر محنت کے شاعری کریں گے تو وصی شاہ کی شاعری سُننے کو ملا کرے گی۔

میں متفق ہوں، وصی شاہ کی شاعری بے شک ایسی ہی ہے مگر کمپئیرنگ لا جواب ہے۔
ویسے میں نے سنا ہے کہ وصی ہیلے کالج آف کامرس سے آل اوور دا پنجاب ٹاپر تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میں نے محسوس کیا ہے کہ نئے آنے والے شاعروں (خاص طور پر جو عروض سے ناواقف ہوں) کو اس طرح کی تکنیکیات میں نہیں پھنسانا چاہیے۔ اس سے بہت discouragement ملتی ہے۔ اور اکثر لوگ اسی ماحول کی وجہ سے محفل کا دوبارہ رخ نہیں کرتے۔

ہر کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ عروض سیکھے اور موذوں شاعری کرے۔ شاعری تو اظہارِ خیال کا ایک طریقہ کار ہے۔ کم از کم نئے آنے والوں کیساتھ ہمیں اچھے طریقے سے پیش آنا چاہیے۔

مجھے آپ کی باتوں سے اتفاق ہے بجز اس کو جس کو سرخ کیا ہے۔ یہاں کا ہر گز ہر گز ماحول ایسا نہیں ہے کہ کسی کی حوصلہ شکنی کی گئ ہو، پچھلے پانچ سات میں اگر آپ گننا بھی چاہیں گے تو نہیں گن سکیں گے کہ اعجاز صاحب اور دوسرے محفلین نے یہاں کتنی غزلوں پر اصلاح دی ہے، کیسے کیسے مبتدیوں کو اس قابل کر دیا کہ اب دھڑلے سے مشاعروں اور دیگر پلیٹ فارموں پر اپنی غزلیں یا شاعری، شاعری کہہ کر پڑتے ہیں۔

اور آپ کا تو علم نہیں مگر میرا پچھلے پانچ چھ سال کا مشاہدہ ہے کہ اگر کوئی واقعی سیکھنے اور سمجھنے میں مخلص ہے تو یہاں آ کر کہیں نہیں جاتا۔
 

سید ذیشان

محفلین
مجھے آپ کی باتوں سے اتفاق ہے بجز اس کو جس کو سرخ کیا ہے۔ یہاں کا ہر گز ہر گز ماحول ایسا نہیں ہے کہ کسی کی حوصلہ شکنی کی گئ ہو، پچھلے پانچ سات میں اگر آپ گننا بھی چاہیں گے تو نہیں گن سکیں گے کہ اعجاز صاحب اور دوسرے محفلین نے یہاں کتنی غزلوں پر اصلاح دی ہے، کیسے کیسے مبتدیوں کو اس قابل کر دیا کہ اب دھڑلے سے مشاعروں اور دیگر پلیٹ فارموں پر اپنی غزلیں یا شاعری، شاعری کہہ کر پڑتے ہیں۔
وارث بھائی، اعجاز صاحب تو میرے بھی استاد ہیں اور ان کی اصلاح کی وجہ سے ہی میں یہاں آتا ہوں۔

میں جنرل ماحول کی بات کر رہا تھا۔ یہ میں نے محسوس کیا ہے۔ کیونکہ میں پہلی دفعہ یہاں 2006 میں آیا تھا۔ اور اس وقت یہاں کا ماحول کچھ discouraging تھا۔ اس لئے پھر 6 سال تک یہاں کا رخ نہیں کیا۔ اب ماحول بہتر ہے لیکن میں نے جو محسوس کیا وہ لکھ دیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی، اعجاز صاحب تو میرے بھی استاد ہیں اور ان کی اصلاح کی وجہ سے ہی میں یہاں آتا ہوں۔

میں جنرل ماحول کی بات کر رہا تھا۔ یہ میں نے محسوس کیا ہے۔ کیونکہ میں پہلی دفعہ یہاں 2006 میں آیا تھا۔ اور اس وقت یہاں کا ماحول کچھ discouraging تھا۔ اس لئے پھر 6 سال تک یہاں کا رخ نہیں کیا۔ اب ماحول بہتر ہے لیکن میں نے جو محسوس کیا وہ لکھ دیا۔

آ گئے ہیں تو اب کہیں مت جائیے گا :)
 

نمرہ

محفلین
ایک مشاہدہ یہ ہے کہ اگر علم عروض کی گہرائ میں جائے بغیر ، صرف تقطیع کرنا ہی سیکھ لیا جائے تو شعر کا وزن پورا کرنے کے لیے کافی ہے، ابتدا میں مختلف بحور کے نام سیکھنے کی کوئ خاص ضرورت نہیں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
عروض کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔ موزوں طبع ہونا ضروری ہے۔ ورنہ بات کتنی ہی شاعرانہ کیوں نا ہو وہ نثر نگاری کے زمرے میں ہی رہتی ہے۔ اور بھر حال نثر کتنی ہی عمدہ الفاظ میں کیوں نہ ہو شاعری شاعری ہی ہے ۔
عروض تو میں بھی نہیں جانتا جناب۔ لیکن پھر بھی اساتذہ کی نظر میں میرے چند ناقص اشعار کسی بحر میں ضرور ہوتے ہیں۔ اسی کا نام موزوں طبع ہے شاید۔
صد فی صد اتفاق! یا تو نظم ہوتی ہے یا پھر نثر ۔۔۔۔ نثر کو نظم کہنا اور اس قسم کی دوغلی اصناف تراشنا کوتاہیٔ فن کے علاوہ کچھ نہیں یار لوگوں نے تو "آزاد غزل" بھی اختراع کر لی تھی اور اس کی بھر پور وکالت بھی کی لیکن شاید غزل اپنے وجود کے اندر اتنی تناور ہو چکی ہے کہ یہ حرکت ایک مسخرے کی ادا سے زیادہ مقام نہ پا سکی
اور آخری بات ۔۔۔۔ بالکل ٹھیک کہا بسمل نے ۔۔۔ اصل بات موزونی طبع ہے نہ کہ فن عروض ۔۔۔ بقول شخصے:

شعر گویم بہتر از قند و نبات
من نہ دانم فاعلاتن فاعلات
 
Top