اقبال جہانگیر
محفلین
سنگین جُرم
ڈان اخبار
پولیو ورکرز پر تازہ ترین حملہ سفاکی کے تمام تر معیار میں نہایت ہی وحشیانہ عمل ہے۔ پانچ بچوں کی ماں سلمہ فاروقی، انسدادِ پولیو کی خاطر، خیبرپختون خواہ میں جاری صحت کا انصاف مہم کی سرگرم کارکن تھیں، جنہیں اتوار کی شب پشاور کے نواح میں واقع گاؤں سے اغوا کے بعد بدترین تشدد کر کے قتل کردیا گیا۔ ان کی گولیاں لگی لاش پیر کو کھیتوں سے ملی۔
یہ بات ہی ذہن میں نہیں آتی کہ وہ لوگ جو اس طرح کے عناصر کا جواز پیش کرتے ہیں یا کم ازکم پولیو ورکرز پر حملوں کو برداشت کرلیتے ہیں، اس ہولناک جُرم کا دفاع کس طرح کرسکیں گے۔ اطلاعات کے مطابق متوفیہ کے جسم پر رائفل کے بٹوں سے تشدد کے نشانات تھے اور ان کے ناخن بھی کھینچے گئے۔
تادمِ تحریر، کسی نے اس قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کے محرکات واضح نہیں تاہم محترمہ فاروقی کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں دھمکی آمیز فون مل رہے تھے اور یقین ہے کہ انہیں پولیو ورکر ہونے کے باعث ہی نشانہ بنایا گیا۔
اگرچہ کالعدم ٹی ٹی پی ان دنوں خود کو پولیو ورکرز پر حملوں سے 'دور' رکھ سکتی ہے لیکن بعض عسکریت پسند قائدین کا ماننا ہے کہ ان کی صفوں میں کچھ ایسے سخت گیر عناصر موجود ہیں جو اب بھی پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت کرنے والوں کو جائز نشانہ سمجھتے ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں، جمرود خیبر ایجنسی میں پولیو رضاکاروں کی حفاظت پر معمور عملے پر حملہ کر کے، کم از کم درجن بھر سیکیورٹی اہلکارہلاک کردیے گئے جبکہ فروری کے دوران فرنٹیئر ریجن ٹانک کے علاقے سے پولیو ورکرز کو اغوا بھی کیا جاچکا ہے۔ جنوری کے دوران کراچی میں کم ازکم تین پولیو ورکرز کو گولیاں مار کر موت کی نیند سلادیا گیا تھا۔
ایک تخمینے سے تجویز ہوتا کہ دسمبر، دو ہزار بارہ کے بعد سے، انسدادِ پولیو مہم سے وابستہ مجموعی طور پرساٹھ افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔
سلمہ فاروقی ایک بہادر سپاہی تھیں جو موت کی دھمکیوں کے باوجود بہادری سے مشن پر کاربند رہیں لیکن وہ عفریت جو پاکستانی بچوں کو لڑکھڑاتا دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور جو زندگی کے تحفظ کی دو بُوند پلائے اس کی بھی جان لینا چاہتے ہیں، اتوار کی شب ان کے اعمال نامہ میں ایک اور 'کامیابی' درج ہوچکی۔
اس وقت بھی ملک میں بے شمار سلمہ فاروقی پاکستانی بچوں کو مستقل معذوری، حتیٰ کہ موت سے بھی، محفوظ رکھنے کے لیے بدستور اپنا فرض ادا کررہی ہیں۔
ریاست کو چاہیے کہ محترمہ فاروقی کے قاتلوں کو نہ صرف انصاف کے کٹہرے میں لائے بلکہ اس مسئلے کی جڑوں پر بھی بھرپور طاقت سے وار کرے۔ اس کے ساتھ ہی ہم ٹی ٹی پی اور اس کے حامیوں کی طرف سے اس بربریت پر کھلے عام مذمت کے بھی منتظر ہیں۔
بشکریہ ڈان)
http://urdu.dawn.com/news/1003560/27mar14-editorial-2
ڈان اخبار
پولیو ورکرز پر تازہ ترین حملہ سفاکی کے تمام تر معیار میں نہایت ہی وحشیانہ عمل ہے۔ پانچ بچوں کی ماں سلمہ فاروقی، انسدادِ پولیو کی خاطر، خیبرپختون خواہ میں جاری صحت کا انصاف مہم کی سرگرم کارکن تھیں، جنہیں اتوار کی شب پشاور کے نواح میں واقع گاؤں سے اغوا کے بعد بدترین تشدد کر کے قتل کردیا گیا۔ ان کی گولیاں لگی لاش پیر کو کھیتوں سے ملی۔
یہ بات ہی ذہن میں نہیں آتی کہ وہ لوگ جو اس طرح کے عناصر کا جواز پیش کرتے ہیں یا کم ازکم پولیو ورکرز پر حملوں کو برداشت کرلیتے ہیں، اس ہولناک جُرم کا دفاع کس طرح کرسکیں گے۔ اطلاعات کے مطابق متوفیہ کے جسم پر رائفل کے بٹوں سے تشدد کے نشانات تھے اور ان کے ناخن بھی کھینچے گئے۔
تادمِ تحریر، کسی نے اس قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کے محرکات واضح نہیں تاہم محترمہ فاروقی کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں دھمکی آمیز فون مل رہے تھے اور یقین ہے کہ انہیں پولیو ورکر ہونے کے باعث ہی نشانہ بنایا گیا۔
اگرچہ کالعدم ٹی ٹی پی ان دنوں خود کو پولیو ورکرز پر حملوں سے 'دور' رکھ سکتی ہے لیکن بعض عسکریت پسند قائدین کا ماننا ہے کہ ان کی صفوں میں کچھ ایسے سخت گیر عناصر موجود ہیں جو اب بھی پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت کرنے والوں کو جائز نشانہ سمجھتے ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں، جمرود خیبر ایجنسی میں پولیو رضاکاروں کی حفاظت پر معمور عملے پر حملہ کر کے، کم از کم درجن بھر سیکیورٹی اہلکارہلاک کردیے گئے جبکہ فروری کے دوران فرنٹیئر ریجن ٹانک کے علاقے سے پولیو ورکرز کو اغوا بھی کیا جاچکا ہے۔ جنوری کے دوران کراچی میں کم ازکم تین پولیو ورکرز کو گولیاں مار کر موت کی نیند سلادیا گیا تھا۔
ایک تخمینے سے تجویز ہوتا کہ دسمبر، دو ہزار بارہ کے بعد سے، انسدادِ پولیو مہم سے وابستہ مجموعی طور پرساٹھ افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔
سلمہ فاروقی ایک بہادر سپاہی تھیں جو موت کی دھمکیوں کے باوجود بہادری سے مشن پر کاربند رہیں لیکن وہ عفریت جو پاکستانی بچوں کو لڑکھڑاتا دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور جو زندگی کے تحفظ کی دو بُوند پلائے اس کی بھی جان لینا چاہتے ہیں، اتوار کی شب ان کے اعمال نامہ میں ایک اور 'کامیابی' درج ہوچکی۔
اس وقت بھی ملک میں بے شمار سلمہ فاروقی پاکستانی بچوں کو مستقل معذوری، حتیٰ کہ موت سے بھی، محفوظ رکھنے کے لیے بدستور اپنا فرض ادا کررہی ہیں۔
ریاست کو چاہیے کہ محترمہ فاروقی کے قاتلوں کو نہ صرف انصاف کے کٹہرے میں لائے بلکہ اس مسئلے کی جڑوں پر بھی بھرپور طاقت سے وار کرے۔ اس کے ساتھ ہی ہم ٹی ٹی پی اور اس کے حامیوں کی طرف سے اس بربریت پر کھلے عام مذمت کے بھی منتظر ہیں۔
بشکریہ ڈان)
http://urdu.dawn.com/news/1003560/27mar14-editorial-2