واہ محمد احمد صاحب۔۔۔ نہایت عمدہ کلام ہے۔ ماشاء اللہ!
خصوصاً ذیل کے مصرع کی ترکیب کا تو جواب نہیں
اچھی غزل ہے احمد صاحب -
جب قحطِ اجناس ٹلا احساس ہوا
بستی والے پھول اُگانا بھول گئے
واہ! کیا خیال ہیں۔۔۔۔آپ نے شاعری کی بستی میں پھول اُگا دیے۔۔۔۔۔۔۔تیز ہوا کو خاک اُڑانا یا د رہا
بادل کیوں بارش برسانا بھول گئے
بے صبری یادیں رستے میں آن ملیں
ہم دیوانے گھر بھی جانا بھول گئے
واہ! کیا خیال ہیں۔۔۔۔آپ نے شاعری کی بستی میں پھول اُگا دیے۔۔۔۔۔۔۔
واہ واہ، کیا کہنے احمد بھائی ۔۔ بہت خوب بہت خوب
جب قحطِ اجناس ٹلا احساس ہوا
بستی والے پھول اُگانا بھول گئے
احمد بھائی دلنشیں۔۔۔ اعلی اور عمدہ کلام۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔ اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ 19 فروری 2007 کو پیش کی گئی غزل کو محض ایک سال اور چند مہینے کی قلیل مدت میں 13 مئی 2008 کو آپ نے ٹائپ کر دیا۔ برق بھی شرمائی ہوگی۔۔تعبیروں کی تعزیروں کا خوف رہا
وہ سمجھے ہم خواب سنانا بھول گئے
کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ بجلی بھری ہے احمد بھائی کے انگ انگ میں؟احمد بھائی دلنشیں۔۔۔ اعلی اور عمدہ کلام۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔ اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ 19 فروری 2007 کو پیش کی گئی غزل کو محض ایک سال اور چند مہینے کی قلیل مدت میں 13 مئی 2008 کو آپ نے ٹائپ کر دیا۔ برق بھی شرمائی ہوگی۔۔
ایسی بات میں عوامی سطح پر کر نہیں سکتا۔۔۔ کے ای ایس سی والوں نے احمد بھائی کو پکڑ لینا ہے۔کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ بجلی بھری ہے احمد بھائی کے انگ انگ میں؟
ارے جن سے کنڈا چور نہ پکڑے گئے بلکہ ان کا اپنا نام تک نہ قابو کیا گیا وہ کسی کو کیا پکڑیں گے۔ایسی بات میں عوامی سطح پر کر نہیں سکتا۔۔۔ کے ای ایس سی والوں نے احمد بھائی کو پکڑ لینا ہے۔
لیکن چلتا پھرتا یو پی ایس تو خطرناک ہوتا ہے ۔۔۔ اس پر ہر کسی کی نگاہ پڑتی ہے۔ارے جن سے کنڈا چور نہ پکڑے گئے بلکہ ان کا اپنا نام تک نہ قابو کیا گیا وہ کسی کو کیا پکڑیں گے۔
گویا آپ احمد بھائی پر آج بجلیاں گرا کے ہی دم لیں گےلیکن چلتا پھرتا یو پی ایس تو خطرناک ہوتا ہے ۔۔۔ اس پر ہر کسی کی نگاہ پڑتی ہے۔
احمد بھائی دلنشیں۔۔۔ اعلی اور عمدہ کلام۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔ اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ 19 فروری 2007 کو پیش کی گئی غزل کو محض ایک سال اور چند مہینے کی قلیل مدت میں 13 مئی 2008 کو آپ نے ٹائپ کر دیا۔ برق بھی شرمائی ہوگی۔۔
غزل
سنگ ہوا کے کھیل رچانا بھول گئے
شام ڈھلی تو دیپ جلانا بھول گئے
دل آنگن میں دھوپ غموں کی کیا پھیلی
جگنو آنکھوں میں مسکانا بھول گئے
تعبیروں کی تعزیروں کا خوف رہا
وہ سمجھے ہم خواب سنانا بھول گئے
صدیاں جیسے لمحوں میں آ ٹھہری ہوں
لمحے جیسے آنا جانا بھول گئے
جب قحطِ اجناس ٹلا احساس ہوا
بستی والے پھول اُگانا بھول گئے
سسکی سسکی ہونٹوں کو مسکان کیا
پلکوں پلکوں باڑ لگانا بھول گئے
تیز ہوا کو خاک اُڑانا یا د رہا
بادل کیوں بارش برسانا بھول گئے
بے صبری یادیں رستے میں آن ملیں
ہم دیوانے گھر بھی جانا بھول گئے
بادِ صبا نے اور دریچے دیکھ لیے
ہم بھی احمد گیت سُہانا بھول گئے