عاطف بٹ
محفلین
اکتوبر 1971ء میں پنجاب یونیورسٹی یونین کو ایران یا مشرقی پاکستان میں سے کسی ایک جگہ دورہ کرنے کا اختیار دیا گیا۔ کچھ دوستوں کا خیال تھا ایران چلیں جہاں شہنشاہ رضا شاہ پہلوی بادشاہت کا اڑھائی ہزار سالہ جشن منا رہے تھے، اس بات سے بے خبر تھے کہ ان کی بادشاہت اڑھائی دن کی مہمان ہے۔
ہم نے فیصلہ کیا کہ مشرقی پاکستان جاکر اپنے روٹھے ہوئے بھائیوں کو منانے کی کوشش کریں۔ پروفیسر وارث میر کی قیادت میں قافلہ دل روانہ ہوا۔ سری لنکا کا طویل چکر کاٹ کر جب ہم ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اترے تو ایک خوفناک خاموشی نے ہمارا استقبال کیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے حکام اور اساتذہ کرام موجود تھے۔ پژمردہ چہروں نے اپنے مہمانوں کو ڈھاکہ یونیورسٹی پہنچا دیا۔ ایئرپورٹ سے یونیورسٹی کے ہاسٹلز تک راستے میں ایک مہیب خاموشی تھی۔ بعد میں پتہ چلا مکتی باہنی نے اپنے ریڈیو پر ہمیں قتل کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا ہے اور ہر ایک کے سر کی قیمت مقرر کر دی ہے۔ ہم نے ہمت نہ ہاری اور اپنا دورہ شروع کر دیا۔ ہم ان 15 دنوں میں ہر مکتبہ فکر کے لوگوں سے ملے، اخبارات کو انٹرویو دیے، ٹی وی مکالموں میں حصہ لیا۔ بیت المکرم میں جمعہ ادا کیا۔ پلٹن میدان میں میزبانوں کے ساتھ چائے پی۔ شیر بنگال اور خواجہ ناظم الدین کے مزاروں پر حاضری دی۔ محمد پور اور میرپور کے بہاری کیمپوں کا دورہ کیا۔ بہاری عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے کٹے ہوئے اعضاء دیکھے۔ ہماری ملاقات جنرل رائو فرمان اور جنرل اے کے نیازی سے ہوئی، البدر اور الشمس کے کمانڈروں سے بھی۔ چٹاگانگ کے کمشنر ایس کے جیلانی سے، فوج کے سپاہیوں اور کمانڈروں سے بھی۔ ہمیں بہت جلد احساس ہو گیا کہ ہم مفتوحہ علاقے میں ہیں اور یہ مغربی پاکستان کا آخری وفد ہے جو پاکستان کے پاسپورٹ پر یہاں آیا ہے۔
چار واقعات ایسے ہیں جو ہمیشہ یاد آتے ہیں۔ میں نے گاڑی سے اتر کر سائیکل رکشہ پر سفر شروع کیا اور دیکھا رکشہ ڈرائیور ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے۔ میں نے کہا میں رکشا کھینچوں گا اور وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھے گا۔ وہ خوف زدہ ہو گیا اور کانپنے لگا، مگر انکار نہ کر سکا۔ میں چاہتا تھا کہ ڈھاکہ کے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہم انہی میں سے ہیں۔ تھوڑی دور جا کر اس نے بلند آواز سے کہا: رکشہ روکو، مجھے روزمرہ کی بنگالی آتی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا تم ڈر کیوں رہے ہو؟ اس نے کہا یہ سائیکل رکشہ ہندو مہاجن کی ملکیت ہے، اگر اسے نقصان پہنچا تو میرے بچے بھوکے مر جائیں گے۔ مشرقی پاکستان کی ترقی کے نعرے کھوکھلے تھے، بنگالی معیشت پر ہندو کے اثرات کو سمجھنے کے لئے اب مجھے کسی دانشور، کسی کتاب کی ضرورت نہیں تھی۔
ہم ڈھاکہ ٹیلی ویژن پر انٹرویو دینے گئے تو ہمارے لیے ٹی وی سٹیشن پر خصوصی انتظامات کیے گئے۔ گویا جیسے شہزادے اپنی رعایا کو دیکھنے آئے ہیں۔ انٹرویو دے کر باہر نکل رہے تھے کہ ڈی ایس پی فیاض شاہ ہمیں دفتر میں لے گئے اور حکم جاری کیا کہ ٹی وی کے معمول کے پروگرام کو روک کر نورجہاں کے گانے شروع کر دیئے جائیں ’’لاہور توں منڈے آئے نیں۔‘‘ پورا مشرقی پاکستان پنجابی گانے سن رہا تھا۔ کیا آج بھی موسیقی روح کی غذا تھی؟
ہم ڈھاکہ کے نواح میں دریائے شتولاک کو کشتی سے عبور کرکے پٹ سن کے کارخانے پر تعینات ان پولیس اور فوج والوں سے ملنے گئے جن کا تعلق لاہور سے تھا۔ راستے میں ہم نے دیکھا گدھ اور کتے ایک انسانی لاش کو بھنبھوڑ رہے تھے۔ میں نے ایک آفیسر سے پوچھا تو وہ ہنسا اور اس نے کہا: یہ ایک چالاک بنگالی تھا۔ ہمارے بیٹ مین نے کہا کہ کئی دن ہو گئے ہیں ہم نے کوئی بنگالی نہیں مارا۔ یہ شخص کشتی پر جا رہا تھا، ہم نے پکارا تو اس نے کشتی تیز کرکے بھاگنا چاہا، میں نے نشانہ لے کر گولی چلائی اور اس نے پانی میں غوطہ لگا دیا، بڑی مشکل سے اس کی ٹانگ پر گولی لگی تو یہ قابو آ گیا، خیر آپ اس قصے کو چھوڑیں، ہم کافی دیر سے کھانے پر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ بنگالنیں بہت اچھا کھانا بناتی ہیں اور ہر قسم کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔
جنرل فرمان علی نے کہا: آپ کو شفیق الاسلام کے ساتھ ان کے عزیزوں کے ہاں افسوس کے لیے جانا ہے کہ ایک المناک واقعہ ہوا ہے۔ شفیق الاسلام مسلم لیگی رہنما تھے۔ واقعہ کی جو تفصیلات انہوں نے ہمیں بتائیں وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی تھیں۔ فوجی ایکشن کے دوران کچھ جوان ایک گھر میں داخل ہوئے، جہاں خواتین جمع تھیں، خواتین پر حملہ کیا تو وہ قرآن اٹھا لائیں اور کہا: ہم آپ کی بہنیں ہیں اور آپ کی کامیابی اور سلامتی کے لیے اکٹھی ہو کر اجتماعی دعا مانگ رہی ہیں۔ حملہ آوروں نے کہا کہ ہم جس گھر میں جاتے ہیں یہی بہانہ بنایا جاتا ہے، ہمیں معلوم ہے آپ کا تعلق مکتی باہنی سے ہے۔ وہ واسطے دیتی رہیں، لیکن حملہ آوروں نے ان کی ایک نہ سنی۔ بعد میں حقیقت سامنے آئی اور محب وطن بنگالیوں نے شدید احتجاج کیا تو گورنر سمیت سب نے ان سے معذرت کی، صرف معذرت!
اپنی ماؤں اور بہنوں کے سامنے ہم شرم سے سر جھکائے کھڑے تھے۔
سفر کے آخری مرحلے میں ہم چٹاگانگ سے آگے کپتائی جھیل کے کنارے پہنچے ۔ ہمیں کہا گیا کہ فوراً ڈھاکہ پہنچیں، آپ کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ میں بضد تھا کہ ہمیں حسب پروگرام راجشاہی جانا چاہیے۔ حکام نے پروفیسر وارث میر کو اطلاع دی کہ راجشاہی کے وائس چانسلر راجشاہی سے بھاگ کر ڈھاکہ پہنچے ہیں، خطرہ مول نہ لینا چاہیے۔ میں نے کہا اگر ہماری لاشیں مغربی پاکستان جائیں گی تو انہیں احساس ہوگا کہ مشرقی پاکستان میں آگ اور خون کی ہولی جاری ہے۔ میرے ساتھیوں نے میری تجویز کو رد کر دیا اور واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ ہم چٹاگانگ گیریژن میں کھانا کھانے گئے۔ ایک کرنل نے پنجرے میں بند بلبل کی طرف اشارہ کرکے کہا: میں اس سے باتیں کرتا رہتا ہوں۔ میں نے کہا: کرنل صاحب، کیا آپ اس بلبل کو آزاد کر سکتے ہیں؟
اسی رات ہم ٹوکیو روانہ ہو گئے۔ میں جہاز میں سو گیا، ٹوکیو پہنچ کر سیدھا ہوٹل گیا اور تیار ہو کر کانفرنس ہال پہنچا۔ ڈاکٹر عبدالصمد اس کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے۔ انہوں نے اجلاس چائے کے لیے ملتوی کیا اور مجھے اپنے کمرے میں بلا لیا، میں جونہی اندر داخل ہوا، انہوں نے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیا جائے۔ میرے بیٹھتے ہی اخبار میرے سامنے رکھ دیا جس میں لکھا تھا، ہندوستان نے کارگل میں سب سے بڑی اور آخری چوٹی ٹائیگر بھی پاکستان سے واپس چھین لی۔ میں نے نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا وہ پھر رو رہے تھے… ایک اور میچ ہارنے پر… مگر میرے آنسو خشک ہو چکے تھے… میں جانتا تھا اس میچ کی ناکامی کا طوق کس کے گلے میں پڑے گا۔ میں ان مقامات آہ و فغاں کے لیے اپنے آنسو بچا کر رکھنا چاہتا تھا۔
(جاوید ہاشمی کی کتاب’’ہاں میں باغی ہوں‘‘ سے ماخوذ، اسے ساگر پبلشرز نے اردو بازار لاہور سے چھاپا)
ربط
ہم نے فیصلہ کیا کہ مشرقی پاکستان جاکر اپنے روٹھے ہوئے بھائیوں کو منانے کی کوشش کریں۔ پروفیسر وارث میر کی قیادت میں قافلہ دل روانہ ہوا۔ سری لنکا کا طویل چکر کاٹ کر جب ہم ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اترے تو ایک خوفناک خاموشی نے ہمارا استقبال کیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے حکام اور اساتذہ کرام موجود تھے۔ پژمردہ چہروں نے اپنے مہمانوں کو ڈھاکہ یونیورسٹی پہنچا دیا۔ ایئرپورٹ سے یونیورسٹی کے ہاسٹلز تک راستے میں ایک مہیب خاموشی تھی۔ بعد میں پتہ چلا مکتی باہنی نے اپنے ریڈیو پر ہمیں قتل کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا ہے اور ہر ایک کے سر کی قیمت مقرر کر دی ہے۔ ہم نے ہمت نہ ہاری اور اپنا دورہ شروع کر دیا۔ ہم ان 15 دنوں میں ہر مکتبہ فکر کے لوگوں سے ملے، اخبارات کو انٹرویو دیے، ٹی وی مکالموں میں حصہ لیا۔ بیت المکرم میں جمعہ ادا کیا۔ پلٹن میدان میں میزبانوں کے ساتھ چائے پی۔ شیر بنگال اور خواجہ ناظم الدین کے مزاروں پر حاضری دی۔ محمد پور اور میرپور کے بہاری کیمپوں کا دورہ کیا۔ بہاری عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے کٹے ہوئے اعضاء دیکھے۔ ہماری ملاقات جنرل رائو فرمان اور جنرل اے کے نیازی سے ہوئی، البدر اور الشمس کے کمانڈروں سے بھی۔ چٹاگانگ کے کمشنر ایس کے جیلانی سے، فوج کے سپاہیوں اور کمانڈروں سے بھی۔ ہمیں بہت جلد احساس ہو گیا کہ ہم مفتوحہ علاقے میں ہیں اور یہ مغربی پاکستان کا آخری وفد ہے جو پاکستان کے پاسپورٹ پر یہاں آیا ہے۔
چار واقعات ایسے ہیں جو ہمیشہ یاد آتے ہیں۔ میں نے گاڑی سے اتر کر سائیکل رکشہ پر سفر شروع کیا اور دیکھا رکشہ ڈرائیور ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے۔ میں نے کہا میں رکشا کھینچوں گا اور وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھے گا۔ وہ خوف زدہ ہو گیا اور کانپنے لگا، مگر انکار نہ کر سکا۔ میں چاہتا تھا کہ ڈھاکہ کے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہم انہی میں سے ہیں۔ تھوڑی دور جا کر اس نے بلند آواز سے کہا: رکشہ روکو، مجھے روزمرہ کی بنگالی آتی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا تم ڈر کیوں رہے ہو؟ اس نے کہا یہ سائیکل رکشہ ہندو مہاجن کی ملکیت ہے، اگر اسے نقصان پہنچا تو میرے بچے بھوکے مر جائیں گے۔ مشرقی پاکستان کی ترقی کے نعرے کھوکھلے تھے، بنگالی معیشت پر ہندو کے اثرات کو سمجھنے کے لئے اب مجھے کسی دانشور، کسی کتاب کی ضرورت نہیں تھی۔
ہم ڈھاکہ ٹیلی ویژن پر انٹرویو دینے گئے تو ہمارے لیے ٹی وی سٹیشن پر خصوصی انتظامات کیے گئے۔ گویا جیسے شہزادے اپنی رعایا کو دیکھنے آئے ہیں۔ انٹرویو دے کر باہر نکل رہے تھے کہ ڈی ایس پی فیاض شاہ ہمیں دفتر میں لے گئے اور حکم جاری کیا کہ ٹی وی کے معمول کے پروگرام کو روک کر نورجہاں کے گانے شروع کر دیئے جائیں ’’لاہور توں منڈے آئے نیں۔‘‘ پورا مشرقی پاکستان پنجابی گانے سن رہا تھا۔ کیا آج بھی موسیقی روح کی غذا تھی؟
ہم ڈھاکہ کے نواح میں دریائے شتولاک کو کشتی سے عبور کرکے پٹ سن کے کارخانے پر تعینات ان پولیس اور فوج والوں سے ملنے گئے جن کا تعلق لاہور سے تھا۔ راستے میں ہم نے دیکھا گدھ اور کتے ایک انسانی لاش کو بھنبھوڑ رہے تھے۔ میں نے ایک آفیسر سے پوچھا تو وہ ہنسا اور اس نے کہا: یہ ایک چالاک بنگالی تھا۔ ہمارے بیٹ مین نے کہا کہ کئی دن ہو گئے ہیں ہم نے کوئی بنگالی نہیں مارا۔ یہ شخص کشتی پر جا رہا تھا، ہم نے پکارا تو اس نے کشتی تیز کرکے بھاگنا چاہا، میں نے نشانہ لے کر گولی چلائی اور اس نے پانی میں غوطہ لگا دیا، بڑی مشکل سے اس کی ٹانگ پر گولی لگی تو یہ قابو آ گیا، خیر آپ اس قصے کو چھوڑیں، ہم کافی دیر سے کھانے پر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ بنگالنیں بہت اچھا کھانا بناتی ہیں اور ہر قسم کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔
جنرل فرمان علی نے کہا: آپ کو شفیق الاسلام کے ساتھ ان کے عزیزوں کے ہاں افسوس کے لیے جانا ہے کہ ایک المناک واقعہ ہوا ہے۔ شفیق الاسلام مسلم لیگی رہنما تھے۔ واقعہ کی جو تفصیلات انہوں نے ہمیں بتائیں وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی تھیں۔ فوجی ایکشن کے دوران کچھ جوان ایک گھر میں داخل ہوئے، جہاں خواتین جمع تھیں، خواتین پر حملہ کیا تو وہ قرآن اٹھا لائیں اور کہا: ہم آپ کی بہنیں ہیں اور آپ کی کامیابی اور سلامتی کے لیے اکٹھی ہو کر اجتماعی دعا مانگ رہی ہیں۔ حملہ آوروں نے کہا کہ ہم جس گھر میں جاتے ہیں یہی بہانہ بنایا جاتا ہے، ہمیں معلوم ہے آپ کا تعلق مکتی باہنی سے ہے۔ وہ واسطے دیتی رہیں، لیکن حملہ آوروں نے ان کی ایک نہ سنی۔ بعد میں حقیقت سامنے آئی اور محب وطن بنگالیوں نے شدید احتجاج کیا تو گورنر سمیت سب نے ان سے معذرت کی، صرف معذرت!
اپنی ماؤں اور بہنوں کے سامنے ہم شرم سے سر جھکائے کھڑے تھے۔
سفر کے آخری مرحلے میں ہم چٹاگانگ سے آگے کپتائی جھیل کے کنارے پہنچے ۔ ہمیں کہا گیا کہ فوراً ڈھاکہ پہنچیں، آپ کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ میں بضد تھا کہ ہمیں حسب پروگرام راجشاہی جانا چاہیے۔ حکام نے پروفیسر وارث میر کو اطلاع دی کہ راجشاہی کے وائس چانسلر راجشاہی سے بھاگ کر ڈھاکہ پہنچے ہیں، خطرہ مول نہ لینا چاہیے۔ میں نے کہا اگر ہماری لاشیں مغربی پاکستان جائیں گی تو انہیں احساس ہوگا کہ مشرقی پاکستان میں آگ اور خون کی ہولی جاری ہے۔ میرے ساتھیوں نے میری تجویز کو رد کر دیا اور واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ ہم چٹاگانگ گیریژن میں کھانا کھانے گئے۔ ایک کرنل نے پنجرے میں بند بلبل کی طرف اشارہ کرکے کہا: میں اس سے باتیں کرتا رہتا ہوں۔ میں نے کہا: کرنل صاحب، کیا آپ اس بلبل کو آزاد کر سکتے ہیں؟
زندہ لاش
ہم مغربی پاکستان سے آنے والی آخری پروازو ں میں سے ایک پر سوار ہوئے۔ سنہرے بنگال کو کالے بادلوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ میں اپنے آپ کو زندہ لاش محسوس کر رہا تھا۔ میری روح سندر بن کے جنگلات شاہ جلال کے مزار اور بین المکرم کے میناروں کے گرد بھٹک رہی تھی۔ میں آج بھی بے روح زندگی گزار رہا ہوں۔ مجھے حبیب جالب کی نظم کے شعر یاد آ رہے تھے:محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گُماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
1999ء میں میاں نوازشریف کی نمائندگی کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرنے گیا۔ مختلف ممالک کے وفود کو کارگل کی صورتحال پر پاکستان کے موقف سے آگاہ کرنے کے لیے بنگلہ دیشی وفد کے سربراہ ڈاکٹر عبدالصمد سے ملا۔ وہ شیخ مجیب کے قریبی ساتھی اور پرانے عوامی لیگی تھے۔ انہوں نے کہا کہ الگ ہو کر ہم دونوں ’’لائٹ ویٹ‘‘ ہو گئے۔ یہی بات مجھے عوامی لیگ کی وزیر ماحولیات ساجدہ سید نے پچھلے سال مالدیپ میں کانفرنس کے موقع پر کہی تھی۔ ڈاکٹر عبدالصمد سوالیہ انداز میں کہنے لگے، ہندوستان بین الاقوامی سیاست میں طاقتور بن کر ابھرا ہے۔ ہمیں نکال کر آپ نے کونسی ترقی کر لی ہے؟ پھر اچانک موضوع بدل کر کہنے لگے: آپ کی کرکٹ ٹیم انڈیا سے اتنی بری طرح کیوں ہاری؟ میں ساری رات روتا رہا ہوں، پھر ہم دونوں مل کر رو رہے تھے… انڈیا سے میچ ہارنے پر… ہمیں نہ اپنے سٹاف کی پرواہ تھی نہ اردگرد کے لوگوں کی…اسی رات ہم ٹوکیو روانہ ہو گئے۔ میں جہاز میں سو گیا، ٹوکیو پہنچ کر سیدھا ہوٹل گیا اور تیار ہو کر کانفرنس ہال پہنچا۔ ڈاکٹر عبدالصمد اس کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے۔ انہوں نے اجلاس چائے کے لیے ملتوی کیا اور مجھے اپنے کمرے میں بلا لیا، میں جونہی اندر داخل ہوا، انہوں نے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیا جائے۔ میرے بیٹھتے ہی اخبار میرے سامنے رکھ دیا جس میں لکھا تھا، ہندوستان نے کارگل میں سب سے بڑی اور آخری چوٹی ٹائیگر بھی پاکستان سے واپس چھین لی۔ میں نے نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا وہ پھر رو رہے تھے… ایک اور میچ ہارنے پر… مگر میرے آنسو خشک ہو چکے تھے… میں جانتا تھا اس میچ کی ناکامی کا طوق کس کے گلے میں پڑے گا۔ میں ان مقامات آہ و فغاں کے لیے اپنے آنسو بچا کر رکھنا چاہتا تھا۔
(جاوید ہاشمی کی کتاب’’ہاں میں باغی ہوں‘‘ سے ماخوذ، اسے ساگر پبلشرز نے اردو بازار لاہور سے چھاپا)
ربط