ہے خبر گرم کہ سُنی اتحاد کونسل بھی امریکی ڈالرز سے مستفید ہونے والوں میں شامل ہے۔ اس بات
کا انکشاف امریکی سفارت خانے کی ایک خاتون ترجمان عروشہ زیڈ رانا نے کیا ہے۔ اُن کے بقول
امریکہ نے اگست 2009 میں سُنی تحریک کو 36706 ڈالرز کی رقم فراہم کی تھی تا کہ اسلام
آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں میں پاک فوج کی شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے
اعتراف میں ایک جلسے کا انعقاد کیا جا سکے۔لیکن اب اس تنظیم کے مؤقف میں تبدیلی کے بعد اسے
کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جائے گی۔
دوسری طرف سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ فضل کریم نے اس بات کی سختی سے تردید
کی ہے کہ ان کی تنظیم یا ان کے کسی ممبر نے امریکہ سے مالی مدد لی ہے۔
وہ کہتے ہیں'رقم وصول کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا ہوتا ہے اور یہ محض ہمیں بدنام کرنے کی
ایک کوشش ہے اور ہمیں اس معاملے کا ابھی معلوم ہوا ہے اور اس کا کا جائزہ لے رہے ہیں‘۔ انھوں
نے کہا کہ ’ہماری تنظیم کو طالبان ، دہشت گردی، قتل و غارت قابلِ قبول نہیں ہے اور یہ موقف
ہمارے عقیدے کے مطابق ہے اور یہ کسی کے ایماء یا کہنے پر اختیار نہیں کیا گیا ہے‘۔
یہ سارا قضیہ کیا ہے؟ اس پر بات کرنے سے پہلے یہ خیال رہے کہ سنی اتحاد کونسل نے سابق
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کی حمایت میں مظاہرے کئیے تھے اس
سے پہلے یہ تنظیم ملک میں صوفیائے کرام کے مزاروں پر خود کش حملوں اور طالبان کے خلاف
مظاہروں کا انعقاد کرتی رہی ہے۔
اس پر کیا کہئیے کہ ہم ایک نرالے ملک میں رہ رہے ہیں کہ جہاں نہ قانون کو کچھ سمجھا جاتا ہے
اور نہ سچ بولنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ورنہ کسی بھی منظم معاشرے میں اس خبر
کو یوں ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہ کیا جا سکتا۔ معاشرے کا کوئی بھی طبقہ بشمول آیہن و قانون کے
پاسداران اس پر یوں چپ سادھ گئے کہ گویا یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ حالانکہ طالبان جیسی
عفریت کا آغاز بھی اسی نوعیت کی امریکی ڈالرز کی امداد اور چند مخصوص مقاصد کی تکمیل کے
مراحل سے ہی ہوا تھا جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے
فرمان کا مفہوم ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جا سکتا۔ لیکن ہم کیسے مومن ہیں کہ
عبرت پکڑنے کی بجائے خود دوسروں کے لئیے عبرت کا نمونہ بن رہے ہیں اور سمجھتے پھر بھی
نہیں۔
کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کا غیر ممالک سے مالی تعاون حاصل کرنا ملکی قوانین کی خلاف
ورزی ہے۔اور یہ قابل تعزیر جرم ہے۔ کوئی بھی مذہبی یا اصلاحی گروہ ایسی مدد کے لئیے حکومت
کی اجازت اور اس مدد کے خرچ کی مد کا حکومت کو حساب دینے کا پابند ہے۔اس کے ساتھ ساتھ
مدد دینے والا ملک بھی اخلاقی طور اس امر کا مکلف خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس قسم کی امداد سے
پہلے حکومت پاکستان سے رجوع کرے۔
سنی اتحاد نے اگرچہ اس مدد کی وصولی سے انکار کیا ہے لیکن یہ زبانی انکار کافی نہیں اگر
انہوں نے واقعی یہ مدد حاصل نہیں کی اور امریکہ ان کو بدنام کرنے یا پاکستانی معاشرے میں پھوٹ
کے عمل کو بڑھاوا دینے کے لئیے یہ کام کر رہا ہے تو ان کو اس زبانی انکار سے بڑھ کر خود
سے عدالت اور حکومت سے رجوع کرنا چاہئیے اور اگر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سنی اتحاد نے یہ
مدد حکومت کے نوٹس میں لائے بغیر حاصل کی تو اس کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئیے
بصورت دیگر امریکی سفارتخانے کے اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ حکمرانوں کو
ہوش کے ناخن لینے چاہئییں اور ملک میں قانون کے نفاذ پر توجہ کرنا چاہئیے۔
کا انکشاف امریکی سفارت خانے کی ایک خاتون ترجمان عروشہ زیڈ رانا نے کیا ہے۔ اُن کے بقول
امریکہ نے اگست 2009 میں سُنی تحریک کو 36706 ڈالرز کی رقم فراہم کی تھی تا کہ اسلام
آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں میں پاک فوج کی شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے
اعتراف میں ایک جلسے کا انعقاد کیا جا سکے۔لیکن اب اس تنظیم کے مؤقف میں تبدیلی کے بعد اسے
کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جائے گی۔
دوسری طرف سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ فضل کریم نے اس بات کی سختی سے تردید
کی ہے کہ ان کی تنظیم یا ان کے کسی ممبر نے امریکہ سے مالی مدد لی ہے۔
وہ کہتے ہیں'رقم وصول کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا ہوتا ہے اور یہ محض ہمیں بدنام کرنے کی
ایک کوشش ہے اور ہمیں اس معاملے کا ابھی معلوم ہوا ہے اور اس کا کا جائزہ لے رہے ہیں‘۔ انھوں
نے کہا کہ ’ہماری تنظیم کو طالبان ، دہشت گردی، قتل و غارت قابلِ قبول نہیں ہے اور یہ موقف
ہمارے عقیدے کے مطابق ہے اور یہ کسی کے ایماء یا کہنے پر اختیار نہیں کیا گیا ہے‘۔
یہ سارا قضیہ کیا ہے؟ اس پر بات کرنے سے پہلے یہ خیال رہے کہ سنی اتحاد کونسل نے سابق
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کی حمایت میں مظاہرے کئیے تھے اس
سے پہلے یہ تنظیم ملک میں صوفیائے کرام کے مزاروں پر خود کش حملوں اور طالبان کے خلاف
مظاہروں کا انعقاد کرتی رہی ہے۔
اس پر کیا کہئیے کہ ہم ایک نرالے ملک میں رہ رہے ہیں کہ جہاں نہ قانون کو کچھ سمجھا جاتا ہے
اور نہ سچ بولنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ورنہ کسی بھی منظم معاشرے میں اس خبر
کو یوں ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہ کیا جا سکتا۔ معاشرے کا کوئی بھی طبقہ بشمول آیہن و قانون کے
پاسداران اس پر یوں چپ سادھ گئے کہ گویا یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ حالانکہ طالبان جیسی
عفریت کا آغاز بھی اسی نوعیت کی امریکی ڈالرز کی امداد اور چند مخصوص مقاصد کی تکمیل کے
مراحل سے ہی ہوا تھا جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے
فرمان کا مفہوم ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جا سکتا۔ لیکن ہم کیسے مومن ہیں کہ
عبرت پکڑنے کی بجائے خود دوسروں کے لئیے عبرت کا نمونہ بن رہے ہیں اور سمجھتے پھر بھی
نہیں۔
کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کا غیر ممالک سے مالی تعاون حاصل کرنا ملکی قوانین کی خلاف
ورزی ہے۔اور یہ قابل تعزیر جرم ہے۔ کوئی بھی مذہبی یا اصلاحی گروہ ایسی مدد کے لئیے حکومت
کی اجازت اور اس مدد کے خرچ کی مد کا حکومت کو حساب دینے کا پابند ہے۔اس کے ساتھ ساتھ
مدد دینے والا ملک بھی اخلاقی طور اس امر کا مکلف خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس قسم کی امداد سے
پہلے حکومت پاکستان سے رجوع کرے۔
سنی اتحاد نے اگرچہ اس مدد کی وصولی سے انکار کیا ہے لیکن یہ زبانی انکار کافی نہیں اگر
انہوں نے واقعی یہ مدد حاصل نہیں کی اور امریکہ ان کو بدنام کرنے یا پاکستانی معاشرے میں پھوٹ
کے عمل کو بڑھاوا دینے کے لئیے یہ کام کر رہا ہے تو ان کو اس زبانی انکار سے بڑھ کر خود
سے عدالت اور حکومت سے رجوع کرنا چاہئیے اور اگر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سنی اتحاد نے یہ
مدد حکومت کے نوٹس میں لائے بغیر حاصل کی تو اس کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئیے
بصورت دیگر امریکی سفارتخانے کے اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ حکمرانوں کو
ہوش کے ناخن لینے چاہئییں اور ملک میں قانون کے نفاذ پر توجہ کرنا چاہئیے۔