سید شہزاد ناصر
محفلین
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
زیر زمیں سے آتا ہے جو گُل سو زربکف
قارون نے لُٹایا رستے میں خزانہ کیا
زینہ صبا کا ڈھونڈتی ہے اپنی مشتِ خاک
بامِ بلند یار کا ہے آستانہ کیا
طبل و علم نہ پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
آتی ہے کسطرح سے مری قبضِ روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا
ہوتا ہے زرد سُن کے جو نامرد مدعی
رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا
ترچھی نگاہ سے طائرِ دل ہو چکا شکار
جب تیر کج پڑے گا اُڑے گا نشانہ کیا
بیتاب ہے کمال ہمارا دلِ حزیں
مہمان سرائے جسم کا ہو گا روانہ کیا
یوں مدّعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتش تو نے کہی یہ غزل عاشقانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
زیر زمیں سے آتا ہے جو گُل سو زربکف
قارون نے لُٹایا رستے میں خزانہ کیا
زینہ صبا کا ڈھونڈتی ہے اپنی مشتِ خاک
بامِ بلند یار کا ہے آستانہ کیا
طبل و علم نہ پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
آتی ہے کسطرح سے مری قبضِ روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا
ہوتا ہے زرد سُن کے جو نامرد مدعی
رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا
ترچھی نگاہ سے طائرِ دل ہو چکا شکار
جب تیر کج پڑے گا اُڑے گا نشانہ کیا
بیتاب ہے کمال ہمارا دلِ حزیں
مہمان سرائے جسم کا ہو گا روانہ کیا
یوں مدّعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتش تو نے کہی یہ غزل عاشقانہ کیا