سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا۔ آتش لکھنوی

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
زیر زمیں سے آتا ہے جو گُل سو زربکف
قارون نے لُٹایا رستے میں خزانہ کیا
زینہ صبا کا ڈھونڈتی ہے اپنی مشتِ خاک
بامِ بلند یار کا ہے آستانہ کیا
طبل و علم نہ پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
آتی ہے کسطرح سے مری قبضِ روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا
ہوتا ہے زرد سُن کے جو نامرد مدعی
رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا
ترچھی نگاہ سے طائرِ دل ہو چکا شکار
جب تیر کج پڑے گا اُڑے گا نشانہ کیا
بیتاب ہے کمال ہمارا دلِ حزیں
مہمان سرائے جسم کا ہو گا روانہ کیا
یوں مدّعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتش تو نے کہی یہ غزل عاشقانہ کیا

 
اس غزل کا پہلا شعر زدِ زبان عام ہے
میں یہ سمجھتا رہا کہ یہ غزل خواجہ حیدر علی آتش کی ہے
مگر ایک جگہ یہ غزل آتش لکھنوی کے نام سے ملی
کیا آتش لکھنوی اور حیدر علی آتش ایک ہی شاعر ہیں؟
فاتح بھائی اور محترمہ مدیحہ گیلانی سے گزارش ہے اس پر کچھ روشنی ڈالیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس غزل کا پہلا شعر زدِ زبان عام ہے
میں یہ سمجھتا رہا کہ یہ غزل خواجہ حیدر علی آتش کی ہے
مگر ایک جگہ یہ غزل آتش لکھنوی کے نام سے ملی
کیا آتش لکھنوی اور حیدر علی آتش ایک ہی شاعر ہیں؟
فاتح بھائی اور محترمہ مدیحہ گیلانی سے گزارش ہے اس پر کچھ روشنی ڈالیں
کچھ ٹھیک سے یاد تو نہیں لیکن ۔محمد حسین آزاد کےکے تذکرے آب حیات میں غالبا ایسے ہی شامل ہے ۔کہ یہ غزل خواجہ حیدر علی آتش کی ہے۔ لکھنوی طرز میں آتش و ناسخ کا کافی ذکر ملتا ہے ۔ غالبا" انہیں ہی آتش لکھنوی کہا گیا ہوگا۔
 

طارق شاہ

محفلین
السلام علیکم !
جی صاحبان یہ مشہور زمانہ غزل حیدر علی آتش کی ہی ہے، اور یہاں پیش کی جاچکی ہے

صّیاد گُل عِذار دِکھاتا ہے سبز باغ
بُلبُل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا


زیرِ زمیں سے آتا ہے جو گُل، سو زر بَکف
قارُوں نے راستے میں لُٹایا خزانہ کیا


تِرچھی نِگہ سے طائرِ دل ہوچُکا شِکار
جب تیرکج پڑے گا ، اُڑے گا نِشانہ کیا

بالا اشعار وہاں غلط ٹائپ ہو گئے ہیں، اور ذیل میں دیا شعر بھی وہاں نہیں :

ہوتا ہے زرد سُن کے جو نامرد مدّعی
رستم کی داستاں ہے، ہمارا فسانہ کیا


یہاں کلک کریں: سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
 
آخری تدوین:
Top