کاشف اسرار احمد
محفلین
السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*******............********............********
چمن کی شاخوں سے، میں پُھول جھاڑ آیا ہوں !
سو، شہرِ دوست میں، سب سے بگاڑ آیا ہوں !
نہ حال پوچھتا اُس کا، نہ اپنا بتلاتا
مگر میں آج انا کو، پچھاڑ آیا ہوں !
میں اپنی عمر کے بچوں میں، سب سے آگے تھا !
سو کم سنی میں ہی، نفرت کو گاڑ آیا ہوں !
جو غزلیں برملا، بے ساختہ نہیں ، ان کے!
بیاض سے میں ، وہ صفحات پھاڑ آیا ہوں!
تھا چاندنی کا ستوں، مہرباں پری اور میں
میں اٹھ کے خواب سے، جنّت اجاڑ آیا ہوں!
میں چاہتا تھا لکھوں، لفظِ عشق کی تشریح
سو اپنا نامہءِ الفت، میں پھاڑ آیا ہوں!
زمین خشک جہاں کی تھی، پیڑ سوکھے تھے
جنوں کا تیشہ وہیں پر، میں گاڑ آیا ہوں!
میں سُونے گھر میں، لگا کر کے قہقہے دل سے
اداس شام کا جنگل، اُجاڑ آیا ہوں!!
وہی اندھیری سیاست، وہی جرائم ہیں
میں گھر میں، آج کا اخبار پھاڑ آیا ہوں!
اک عرصہ دامنِ دل میں، جنھیں چھپائے پھرا
ندی میں صبر کی ، وہ دشنام جھاڑ آیا ہوں!
نظر لگی تھی یا ، رشتے ہی اتنے کچّے تھے
ہنسی مذاق میں، سب سے بگاڑ آیا ہوں!
یہ شہر ِگورِ غَریباں ہے ، اِس لئے کاشف
میں گھر سے نام کا کُتبہ، اُکھاڑ آیا ہوں!
سیّد کاشف
*******............********............********
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*******............********............********
چمن کی شاخوں سے، میں پُھول جھاڑ آیا ہوں !
سو، شہرِ دوست میں، سب سے بگاڑ آیا ہوں !
نہ حال پوچھتا اُس کا، نہ اپنا بتلاتا
مگر میں آج انا کو، پچھاڑ آیا ہوں !
میں اپنی عمر کے بچوں میں، سب سے آگے تھا !
سو کم سنی میں ہی، نفرت کو گاڑ آیا ہوں !
جو غزلیں برملا، بے ساختہ نہیں ، ان کے!
بیاض سے میں ، وہ صفحات پھاڑ آیا ہوں!
تھا چاندنی کا ستوں، مہرباں پری اور میں
میں اٹھ کے خواب سے، جنّت اجاڑ آیا ہوں!
میں چاہتا تھا لکھوں، لفظِ عشق کی تشریح
سو اپنا نامہءِ الفت، میں پھاڑ آیا ہوں!
زمین خشک جہاں کی تھی، پیڑ سوکھے تھے
جنوں کا تیشہ وہیں پر، میں گاڑ آیا ہوں!
میں سُونے گھر میں، لگا کر کے قہقہے دل سے
اداس شام کا جنگل، اُجاڑ آیا ہوں!!
وہی اندھیری سیاست، وہی جرائم ہیں
میں گھر میں، آج کا اخبار پھاڑ آیا ہوں!
اک عرصہ دامنِ دل میں، جنھیں چھپائے پھرا
ندی میں صبر کی ، وہ دشنام جھاڑ آیا ہوں!
نظر لگی تھی یا ، رشتے ہی اتنے کچّے تھے
ہنسی مذاق میں، سب سے بگاڑ آیا ہوں!
یہ شہر ِگورِ غَریباں ہے ، اِس لئے کاشف
میں گھر سے نام کا کُتبہ، اُکھاڑ آیا ہوں!
سیّد کاشف
*******............********............********